اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ! ہمارا ’’ایم ٹی اے‘‘ ایک پھل دار درخت بن چکا ہے۔ جس کی بہت ساری شاخیں دُنیا جہان میں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ یہ میری خو ش نصیبی ہے کہ مَیں نے بیج بونے سے اس خوشبودار درخت کو جڑیں پکڑتے اور پھل دار درخت بنتے دیکھا ہے۔
شروع شروع میں جب ایم ٹی اے کا اجرا ہوا تو ظاہر ہے بہت خوشی کی بات تھی خاص طور پر دور بیٹھے لوگوں کے لئے۔ ہم چونکہ مسجد کے با لکل قریب رہتے تھے اس لئے ہم خود مسجد پہنچ جاتے اور سب کچھ ہمارے سامنے ہی ہوتا لیکن پھر بھی خواتین کو سکرین پر ہی دیکھنا ہوتا تھا ہاں کہہ سکتے ہیں وہاں مسجد پہنچ کر ہم بھی ایم ٹی اےکے بغیر اُتنے ہی ادھورے تھے جتنے کے دور والے۔ ایم ٹی اے سب کی ضرورت بن گیا۔ اس سے سب کو فائدہ پہنچا دور ہوں یا نزدیک’’ ایم ٹی اے‘‘ سب کی ضرورت اور سب کو فائدہ پہنچانے والا ٹی وی چینل بن گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
میری اور میرے بچوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارا گھرانہ ابتدا سے ایم ٹی اے کے ساتھ وابستہ ہے۔ سارہ میری بیٹی کو محترمہ رقیبہ گلزار صاحبہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ میرے بیٹے منیر شہزاد نے محترم جسوال برادر ز کے ساتھ شروع دن سے کام کیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دور میں شروع کے ’’ٹلفورڈ اسلام آباد ‘‘ کے جلسوں میں عورتوں کے خیمے میں تھوڑی تھوڑی دور ٹی وی رکھے جاتے تھے جن پر ایم ٹی اے کے سارے پروگرام دیکھے جاتے تھے اور سب کی خواہش ہوتی تھی کہ ہمیں ٹی وی کے قریب ہی جگہ ملے۔ میرے میاں بشیر الدین سامی کی ڈیوٹی ایسی ہوتی تھی کہ انہیں جلسے کے بعد بھی دیر تک ٹھہرنا ہوتا تھا اس طرح ہم بھی ان کے انتظار میں جلسہ ختم ہونے کے بعد دیر تک بیٹھے رہتے۔ شاید جلسہ گاہ سے نکلنے والے سب سے آخری ہم ہی ہوتے۔ اپنی چادر سٹیج کے سامنے ٹی وی کے قریب رات کو بچھا کر آتے صبح کو بھی جلدی آجاتے ہماری چادر ہمارا انتظار کر رہی ہوتی۔ جلسہ شروع ہونے تک ہم اپنی اُمی جان کے پاس اُن کے ٹینٹ میں گزارتے جہاں اُمی اباجان نے مزے مزے کی نعمتیں رکھی ہوتیں اور آنے ولوں کی تواضع کی جاتی۔ میرے آبا جان کی ڈیوٹی لنگر میں ہوتی تھی اس لئے اُن کو وہاں رہنے کے لئے ہمیشہ ٹینٹ ملتا تھا۔ اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ! ہم نے بہت ہی اچھے اور مزیدار پُر جوش قسم کے جلسے دیکھے ہوئے ہیں جن کا سرور ہمیشہ دِل و دماغ میں چھایا رہتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم نے حدیقۃ المہدی کے جلسوں کا بہت لطف اُٹھایا۔ covid-19 سے کچھ عرصہ پہلے والے جلسے میری کوشش اور خواہش ہوتی کہ میں کم از کم تین دنوں میں سے ایک دن ٹرین پر سفر کر کے جلسہ گاہ تک پہنچوں کیونکہ اس طرح مجھے ٹرین میں اپنے احمدیوں کے ساتھ سفر کرنے سے پاکستان کے ٹرین کے سفر کرنے اور نعرہ ہائےتکبیر کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی مجھے خدام الاحمدیہ کے چاق و چوبند جوانوں کو ڈیوٹی دیتے ہوئے دیکھ کرمزا آتا ہے اور ان کے لئے دعائیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لجنہ کی ممبرات کو بھاگم بھاگ عورتوں اور بچوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ میں ان یادوں کو اپنے اندر سمونا چاہتی تھی اس لئے کوشش کرتی کہ جلسہ پر جانے کے لئے ٹرین اور بس پر سفر کروں واپسی پر خدام جو بند پیکٹوں میں قیمہ والا پلاؤ اور سالن روٹی دیتے بچوں کو چاکلیٹ اور ٹافیاں بانٹتے یقین کریں وہ نظارے اور وہ مزےمیں بھول نہیں پاتی۔ میرے بچوں کو مشکل لگتا تھا کہ میں ٹرین پر سفر کروں لیکن میرے بچے نہیں جانتے تھے کہ مجھے یہ ٹرین کا سفر کتنا کچھ دیتا ہے جو میں آج بھی اُن دنوں کو یاد کر کے مسحور ہو جاتی ہوں۔ اِن یادوں کو سمیٹ کر میں نے اپنے دل میں بسا رکھا ہے۔
اب عمر کے لحاظ سے میرے لئے جلسوں پر جانا ممکن نہیں رہا تو میری زندگی میں MTA کی قدر کئی درجہ بڑھ گئی ہے۔ دوتین سال سے میں اپنے گھر بیٹھ کر اپنے کمرے میں ٹی وی پر سارے پروگرام دیکھتی رہی ہوں۔ اس سال بھی میں نے گھر بیٹھ کر تمام پروگرام دیکھے دل چاہا تو لیٹ گئی یا کرسی پر بیٹھ گئی تھک گئی تو اپنے ہی گھر کے گارڈن میں چکر لگا لیا لیکن پروگرام کوئی بھی miss نہیں کیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
ساری دنیا کے ساتھ مل کر تجدید بیعت کی۔ آنسو دل کھول کر بہائے۔ مزا آتا ہے کہ کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جتنا مرضی ہے دعائیں مانگیں اللہ کے آگے عاجزی کریں۔ بیٹھے بیٹھے جیسے ہی اُونگھ آئی تو ایکدم پُر جوش نعرہ ہائےتکبیر، اللہ اکبر سے پھر واپس جلسہ میں شامل ہوجاتی۔ سچ پوچھیں تو کبھی کبھی بوڑھے ہونے کا بھی بہت مزا آتا ہے۔ گھر بیٹھ کر ایم ٹی اے پر بہت ہی خوبصورت دودھ سے دُھلا بُراق سفید نیا بسا ہوا خوب صورت شہر دیکھنے کا جو مزا آتا ہے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ، مارکی کے اندر کے تمام نظارے دیکھے سٹیج پر سجے پھولوں کی خوشبو بھی مجھ تک پہنچتی رہی۔ تمام ڈاکومنٹری دیکھیں ، نظمیں سُنیں حضور کے خطابات سُنے۔ جزکم اللہ۔ ایم ٹی اے اپنے تمام ورکرز جو بھی جہاں بھی ڈیوٹی دے رہے تھے وہ انصار ہوں ، خدام ہوں، لجنہ اماءاللہ ، ناصرات اور اطفال سب کے لئے دل کی گہرائی سے دعائیں کی ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے حضور کو اور ساری جماعت کے علماء کو اپنی رحمتوں برکتوں سے نوازے سب کو اللہ جزائے خیر دے۔ ہماری جماعت اسی طرح پھلتی پھولتی رہے اور ایم ٹی اے کی ساری ٹیم کو اس سے بھی زیادہ ترقیاں نصیب کرے آ میں۔
اس جلسہ پر صرف ایک کمی رہی کہ میں لنگر کا کھانا نہیں کھا سکی جس کا مجھےبہت افسوس ہے۔
(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)