حضرت مولوی حافظ فضل الدینؓ کے حالات زندگی
ابتدائی حالات
قبلہ والد مولوی حافظ فضل الدین صاحبؓ متوطن کھاریاں ضلع گجرات کی تحریری تاریخ پیدائش تو نہیں ہے۔ البتہ تخمینا آپ کا سنِ ولادت 1854ء کے لگ بھگ ہے۔ آپ کے والد صاحب کا نام حافظ عبداللہ تھا۔ اور قوم گوجر سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے دو اور بھائی تھے۔ وہ بھی حافظ قرآن تھے۔ آپ نے فارسی اور اردو کی تعلیم مقامی اسکول میں پائی۔ آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا از حد شوق تھا اور کھاریاں سے چند میل مشرق کی جانب موضع جنڈ میں حافظ علم الدین صاحب ایک قاری تھے اور اکثر لوگ ان کے پاس حفظ قرآن کے لئے جایا کرتے تھے۔ آپ بھی تین سال وہاں رہے اور قرآن کریم حفظ کیا۔
دینی تعلیم کا شوق
پھر چار سال موضع آہی آوان میں قاضی سلطان محمود صاحب سے عربی علم ادب، منطق اور نحو وغیرہ پڑھتے رہے۔ قاضی صاحب کے ساتھ آپ کو آخر دم تک عقیدت رہی۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں حضور سےدرخواست کی کہ ان کے لئے ایک تبلیغی خط لکھ دیں۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے ایک خط لکھ دیا۔ جو اخبار البدر میں شائع ہو چکا ہے۔ جب وہ خط قاضی صاحب کو دیا گیا۔ تو انہوں نے پڑھ کر یہ جواب لکھ دیا۔
مرحبا اے بلبل باغ کہن
از گل رعنا بگو با ما سخن
مگر افسوس قاضی صاحب اعلانیہ بیعت نہ کر سکے۔ قاضی صاحب سے پڑھنے کے بعد والد صاحب موضع تلونڈی ضلع گورداس پور میں مولوی عبد اللہ صاحب کے پاس گئے اور وہاں سے کچھ علم قرآن و حدیث حاصل کیا۔ والد صاحب فرماتے کہ جب میں تلونڈی گیا تو اسی سڑک پر سے گزرا جو بٹالہ سے قادیان کو جاتی ہے۔ مگر اس وقت میں نے قادیان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ آخر جب بیعت کے لئے قادیان گیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی راستہ ہے۔ جہاں پر سے پہلے گزرا تھا۔ یہ مولوی عبداللہ صاحب، مولوی محمد حسین بٹالوی اور سرکار بٹالہ کے بھی استاد تھے۔ کچھ عرصہ تلونڈی میں رہنے کے بعد والد صاحب بیمار ہوگئے۔ اس لئے واپس آگئے۔ مگر آپ کو علم قرآن اور حدیث حاصل کرنے کا چونکہ از حد شوق تھا۔ اس لئے جب صحت ہوئی تو سہارنپور چلے گئے اور مولوی محمد مظہر الدین صاحب کے مدرسہ اسلامیہ میں داخل ہوگئے۔ دو سال وہاں مقیم رہے۔ جب آپ کے بھائی حافظ علم الدین صاحب بیمار ہوگئے تو آپ کو واپس بلا لیا گیا۔ آپ کے بھائی صاحب فوت ہوگئے۔ اس لئے واپس سہارنپور نہ جا سکے۔
کھاریاں میں قیام
ان دنوں اس علاقہ میں کوئی عالم نہ تھا۔ لوگوں نے درخواست کی کہ نماز جمعہ پڑھایا کریں۔ آپ نے باؤلی غربی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھانا شروع کی۔ والد صاحب فرماتے کہ جب میں تعلیم حاصل کرکے کھاریاں مقیم ہوگیا تو مجھے بہت سی ملازمتیں ملتی تھیں۔ مگر میں نے نیت کی بلکہ اسی نیت سے تعلیم حاصل کرنے گیا تھا کہ اپنی قوم کو دینی تعلیم دوں گا۔ اس لئے کسی ملازمت کو قبول نہ کیا۔ مگر فرماتے، آتے ہی مجھے مباحثات میں پڑنا پڑا اور یہ دل کی خواہش دل میں ہی رہی۔ گو آپ کے پاس دو تین طالبعلم قرآن و حدیث پڑھنے کیلئے ہمیشہ رہا کرتے تھے۔ مگر وسیع پیمانے پر درس و تدریس جاری نہ کر سکے۔
مباحثات
جب آپ بعد تکمیل علم اپنے وطن میں مراجعت فرما ہوئے تو ان دنوں ایک مولوی صاحب جن کو لوگ بغدادی کے نام سے پکارتے تھے عموماً یہ وعظ کیا کرتے تھے کہ رسول کریمﷺ حاضرو ناظر ہیں اور آپ کو علم غیب حاصل ہے۔ مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ اس کے خلاف تھے اور اہلحدیث ہونے کی وجہ سے وہابی مولوی کے نام سے مشہور تھے۔ یہ مولوی بغدادی ان کے خلاف بھی کہتا رہتا۔
ان دنوں کھاریاں میں ایک تحصیلدار صاحب نواب بیگ تھے جو علم دوست اور دینی مباحثات میں دلچسپی لیتے تھے۔ جب والد صاحب سہارنپور سے واپس آئے تو مولوی بغدادی صاحب کے ساتھ تحصیلدار صاحب کی موجودگی میں آپ کا تبادلہء خیالات ہوا۔ جب آپ سے اس مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ فرماتے، میرے دل میں خیال گزرا۔ یہ ایک آزمائش ہے۔ اگر حق کو چھپایا تو گنہگاربنوں گا اور اگر حق بات کہی تو مخالفت ہوگی اور وہابی کہلاؤں گا۔ تاہم میں نے اصل حقیقت بیان کرنی شروع کی اور وطیرہ یہ اختیار کیا کہ پبلک کو مخاطب کرکے کہا میں آپ لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث سے چند ایک واقعات پیش کرتا ہوں۔ آپ خود اس سے نتیجہ نکال لیں۔ یہ کہ کر آپ نے حضرت عائشہؓ کا واقعہ افک کھول کر سنایا اور بتایا کہ خود نبی کریمﷺ کو تردد ہوگیا اور حضرت عائشہؓ سے یہاں تک حضورﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ اگر واقعی تجھ سے قصور ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سےمعافی مانگ۔
اس کے بعد ایک اور واقعہ ایک مسلمان اور یہودی کا سنایا جس میں یہودی بے گناہ تھا مگر گواہ مسلمان کو بری قرار دے رہے تھے کہ خدا ئےتعالیٰ نے آپ کو اصل واقعہ سے آگاہ کیا۔ اس طرح کے چند ایک واقعات بیان کئے تو پبلک کہ اٹھی کہ مولوی بغدادی غلط کہتا ہے۔ اس کے بعد مولوی بغدادی نے تحصیل کھاریاں کے مولویوں کو اپنی حمایت کے لئے تیار کیا۔ ان تمام مولویوں نے اند ر ہی اندر تیاریاں کی اور ایک دن خفیہ طور پر مقرر کیا۔ والد صاحب حسب معمول چاشت کے وقت مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے کہ جنڈ والے حافظ صاحب جو آپ کے استاد تھے اور رشتہ دار بھی۔ آپ کے پاس آئے اور آکر بتایا۔ آج تمہارے خلاف اتنے علماء آئے ہوئے ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہو۔ اتنے میں تحصیلدار صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ تشریف لائیں۔ آپ صرف قرآن کریم لے کر چلے گئے۔ جب مجمع میں پہنچے تو دیکھا درجنوں مولوی آئے ہوئے ہیں۔ جن میں سے زیادہ چالاک مولوی غلام غوث ساکن کھوڑی اور مولوی عبداللہ سکنہ عمر چک تھے۔ تحصیلدار صاحب نے والد صاحب سے کہا کہ آپ اکیلے ہیں اگر کہیں تو مولوی برہان الدین صاحب کو بلا لیا جائے۔ مگر آپ نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی۔ جب مجلس جم گئی تو مولوی غلام غوث صاحب نے والد صاحب سے پوچھا آیا یارسول اللہ کہنا جائز ہے یا ناجائز۔ والد صاحب نے جوابا فرمایا اگر کوئی آدمی شوق محبت سے کہتا ہے تو جائز اور اگر اس خیال سے کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ حاضر وناظر ہیں تو خوف کفر ہے۔ مولوی صاحب سے یہ آیت پیش کی وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا اور ترجمہ کرتے ہوئے کہا شاہد وہی ہوسکتا ہے جو حاضروناظر ہو اس پر والد صاحب نے فرمایا۔ نبی کریمﷺ نے جو معنی اس آیت کے کئے ہیں وہ بتاؤ۔ چونکہ مولویوں کو یاد نہ تھا اس لئے خاموش ہوگئے۔ آخر تحصیلدار صاحب نے کہا اچھا مولوی صاحب آپ ہی بتائیں۔ آپ نے بخاری شریف کتاب التفسیر کا حوالہ دیکر بتایا کہ اس میں تو یہ ذکر ہے کہ نبی کریمﷺ اپنی امت کی تصدیق کریں گے یہ جو کچھ کہتے ہیں درست ہے۔ پھر ساتھ ہی واقعہ حوض کوثر مسحابی اصیحابی سنایا۔ اس پر سب مولوی حیران رہ گئے اس کے بعد والد صاحب کا سکہ بیٹھ گیا۔
ایک خواب
پھر تحصیلدار بھی ہندو آگیا اور اہلکار بھی ہندو تھے۔ یہ زمانہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے کچھ عرصہ قبل کا ہے۔ یہ لوگ آریہ خیالات کے تھے اور اکثر اسلام پر اعتراض کرتے تھے۔ کئی ایک مسلمان کہلانے والے ملازمین تحصیل بھی تحصیلدار کی ہاں میں ہاں ملاتے۔ وہ اکثر معجزہ شق قمر ودیگر معجزات نبویﷺ پر اعتراض کرتے۔ والد صاحب فرماتے میں ان اعتراضات کو سنتا اور دل میں کڑھتا اور اکثر خدائے تعالیٰ سے تائید اسلام کے لئے دعائیں مانگتا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ باؤلی شرقی کے پاس چند ہندو اہلکار بیٹھے تھے اور اسلام پر ہنسی اڑا رہے تھے۔ والد صاحب فرماتے اس دن میں نے نمازوں میں بہت زاری کی اور اسلام کی تائید اور نصرت کے لئے دعائیں کیں۔ اسی رات جب میں سویا تو ایک خواب دیکھا کہ مشرق کی جانب گرد اٹھی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ کیا ہے تو کسی نے جواب دیا کہ امام مہدی کی فوجوں نے کافروں کی فوجوں کو شکست دی ہے اس لئے کافر بھاگے جارہے ہیں۔ اتنے میں گرد وغیرہ دور ہوگئی۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک زمین کا قطعہ ہے جس میں ایک چھوٹا سا خیمہ نصب ہے اس کے اندر ایک سفید ریش بزرگ ہیں۔ میں جھک کر اس خیمہ کے اندر داخل ہوتا ہوں اور ان بزرگ کی بیعت کرتا ہوں۔ بیعت لینے کے بعد وہ مجھے سکھاتے ہیں لاالہ الااللہ اس کلمہ کے پڑھنے سے مجھے بہت لطف آتا ہے اور رقت طاری ہو جاتی ہے۔ میں جب جاگا تو یہ کلمہ زبان پر جاری تھا اور آنسو بہہ رہے تھے۔ پورے سات دن تک میں اس کا لطف محسوس کرتا رہا۔ اس کے بعد جب جمعہ کا دن آیا تو میں نے لوگوں کو یہ خواب سنایا اور کہا ان شاء اللہ العزیز عنقریب کوئی مرد خدا اسلام کی تائید کے لئے کھڑا ہوگا۔
سرمہ چشم آریہ کا مطالعہ
اس کے بعد والد صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب سرمہ چشم آریہ کہیں سے ملی آپ نے پڑھی اور بہت خوش ہوئے۔ آپ فرماتے مجھے خیال گزرا کہ یہی شخص تائید دین کے لئے کھڑا ہوا ہے۔ مگر چونکہ حضورؑ کا دعوی ماموریت نہ تھا اس لئے خاموش رہے۔ والد صاحب کے والد بزرگوار بھی اس وقت زندہ تھے اور وہ بھی سرمہ چشم آریہ پڑھا کرتے تھے مگر وہ حضورؑ کے دعوٰی سے پہلے وفات پاگئے۔
ایک اشتہار
ایک دن آپ مسجد میں کھڑے تھے کہ آپ کے ایک دوست مسجد میں آئے اور ہنستے ہنستے کہنے لگے آؤ میں ایک نئی بات سناؤں۔ یہ کہ ایک ورقہ اشتہار والد صاحب کودیا اور خود چلے گئے۔ وہ اشتہار حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ والد صاحب فرماتے اس میں صرف چند سطریں ہی تھیں اور مضمون یہ تھا کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے علم دیا ہے کہ پہلا مسیح فوت ہوچکا ہے اور اب آنے والا مسیح میں ہوں۔ بس یہ اعلان ہی تھا آپ فرماتے میں نے کھڑے کھڑے پڑھا اور معاً یہ خیال دل میں گزرا کہ یہ ممکن ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے حضرت مسیح کو فوت شدہ نبیوں میں دیکھا ہے۔ زندہ کا فوت شدگان میں کیا کام فرماتے مجھے مخالفت کا خیال تک نہ گزرا۔ خدا کی قدرت ہے کہ وہ صاحب جنہوں نے آپ کو اشتہار دیا بیعت سے محروم ہی رہے اس طرح کچھ دن گزر گئے۔
احمدیت میں شمولیت
ایک روز بہت سویرے پوپھٹنے سے بھی پیشتر مولوی برہان الدین صاحب جہلمی والد صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اور کہنے لگے مرزا صاحب کے متعلق اب شور بہت بڑھ گیا ہے میں ان کی کتابیں لے آیا ہوں۔ چلو میں اور آپ گاؤں سے باہر بیٹھ کر ان کتابوں کو پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ والد صاحب اور مولوی صاحب مرحوم چل پڑے لیکن راستہ میں مولوی صاحب نے فرمایا اب میرا ارادہ بدل گیا ہے۔ میں ایک دفعہ کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ آپ اپنے طور پر پڑھیں اور اپنی رائے سے مطلع کریں۔ اس پر والد صاحب واپس آگئے اور ازالہ اوہام پڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں آپ پڑھتے آپ کا خیال حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی طرف مائل ہوتا جاتا آخر آپ نے مولوی برہان الدین صاحب کو لکھا کہ میں جوں جوں کتاب پڑھتا ہوں میری عقیدت حضرت مسیح موعودؑ کی طرف بڑھتی جاتی ہے اس کے کچھ عرصہ بعد مشہور ہوگیا کہ مولوی برہان الدین صاحب کہیں چلے گئے ہیں۔ ایک دن والد صاحب کو کسی نے آکر کہا مولوی برہان الدین صاحب آپ کو یاد کرتے ہیں۔ مولوی صاحب مرحوم گاؤں سے باہر سڑک پر کھڑے تھے والد صاحب ان کے پاس گئے تو مولوی صاحب نے بتایا میں تو حضرت مرزا صاحب کی بیعت کر آیا ہوں آپ بھی بیعت کر آئیں۔ یہ غالبا جون 1890ء کا واقعہ ہے اس پر والد صاحب بھی ستمبر میں قادیان گئے اور حضرت اقدس کی بیعت کرلی۔ پھر دوسری دفعہ سالانہ جلسہ کے موقعہ پر دسمبر 1892ء میں قادیان گئے۔ آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں ان لوگوں کی فہرست میں درج ہے جو کہ جلسہ سالانہ پر حاضر تھے۔
وفات مسیح ؑ پر مباحثات
سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہونے پر آپ کی مخالفت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اور آپ کو مباحثات میں حصہ لینا پڑا۔ معمولی معمولی مباحثے تو آپ نے کئی کئے مگر بہت مشہور مناظرے آپ نے تین چار کئے۔ مولوی غلام احمد ساکن ڈوگر متصل کھاریاں کے ساتھ موضع ملکہ میں مولوی صدرالدین صاحب اور قاضی سلطان محمود صاحب کی موجودگی میں ایک مناظرہ تقریری وفات مسیح ناصری پر ہوا۔ آپ کے پاس کوئی کتاب نہ تھی مگر آپ نے زبانی ہی مولوی غلام احمد کی پیش کردہ احادیث کے راوی بتادئے۔ اور ان راویوں کا غیر حقیقی ہونا ثابت کیا۔ اس سے قاضی صاحب یہاں تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے کہ دیا علم وحدیث میں مولوی فضل الدین کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ ایک اور مناظرہ تحریر ہے آپ کے اور ایک مولوی محمود صاحب گنجوی کے درمیان سات روز تک وفات مسیح ناصری پر ہوتا رہا۔ مولوی محمد الدین صاحب واصل باقی نویس آپ کے کاتب تھے۔ آخر مولوی محمود صاحب مناظرہ کو بغیر تکمیل پہنچانے کے چند کتابیں لانے کا بہانہ کرکے ایسے گئے کہ پھر واپس نہ آئے۔ وہ تحریری پرچہ جات غالبا اکمل صاحب نے بعد میں مولوی صاحب سے بغرض اشاعت لئے مگر نامعلوم کدھر گئے۔ اسی طرح ایک مناظرہ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کیساتھ وفات مسیح پر ہوا۔ ان مناظروں کا اثر علاقہ کھاریاں پر بہت اچھا پڑا۔
مختلف دیہات میں احمدی جماعتیں
علماء دین اور لوگوں نے بھی ذاتی طور پر آپ سے گفتگو کی اور یہ نتیجہ نکلا کہ کئی جگہ احمدی جماعتیں بن گئیں۔ چنانچہ موضع نورنگ میں جماعت اس طرح قائم ہوئی حضرت غلام اللہ شاہ صاحب ساکن نورنگ جو ایک عالم باعمل تھے مولوی صاحب کے پاس بغرض گفتگو تشریف لائے۔ چونکہ آپ بہت سلیم الطبع تھے اس لئے گفتگو کے دوران میں ہی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے قائل ہوگئے۔ ان کی احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ سے نورنگ میں اچھی خاصی جماعت پیدا ہوگئی۔ موضع چک سکندر میں میرے نانا جان حافظ احمد الدین صاحب مرحوم بھی ایک عالم تھے والد صاحب کا تعلق وہاں حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے سے پہلے قائم ہوا تھا۔ والد صاحب کے بیعت کرلینے پر محترم نانا جان حافظ احمد الدین صاحب نے بھی علمی تحقیقات کے بعد بیعت کرلی اور وہاں بھی ایک اچھی جماعت پیدا ہوگئی۔ سید غلام اللہ صاحب مرحوم اور نانا جان حافظ احمد الدین صاحب مرحوم بھی والد صاحب کیطرح حضرت مسیح موعودؑ کے 313 بدری اصاحب میں شامل ہیں ایسا ہی تہال آڑہ، بوریانوالی، بھویا وغیرہ مقامات پر والد صاحب کے ذریعہ یا آپ کے ذریعہ احمدی ہونے والے احباب کے ذریعہ جماعتیں قائم ہوگئیں۔ حضرت والد صاحب نے الحبّ للہ والبغض للہ پر ایسا عمل کیا کہ جن رشتہ داروں نے سلسلہ احمدیہ کو قبول نہ کیا ان سے کہدیا کہ اب ہم کوئی ایسا رشتہ دار نہیں جانتے جو کہ احمدی نہ ہو۔ جو رشتہ دار غیر احمدی رہا اس سے اس طرح قطع تعلق ہوگیا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں وہ کبھی ہمارا رشتہ دار تھا۔
قادیان میں قیام
جب مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوگئے اور والد صاحب چند دنوں کے لئے قادیان گئے تو خط لکھ دیا کہ میں یہاں کچھ عرصہ رہوں گا۔ اس وقت آپ چھ ماہ قادیان رہے۔ مدرسہ احمدیہ کی نئی نئی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آپ کو اس میں حضرت اقدسؑ نے دینیات کا مدرس مقرر فرمایا۔ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب فرماتے ہیں جب میں سکول میں آیا اس وقت آپ اور قاضی سید امیر حسین شاہ صاحبؓ مدرسہ احمدیہ میں استاد تھے۔ علاوہ مدرسہ احمدیہ میں کام کرنے کے والد صاحب نے تھوڑا عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کی ہیڈ ماسٹری کے زمانہ میں فارسی، دینیات اور عربی مدرس کے طور پر کام کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ سے ایک سوال
اور اس کا جواب
میں نے ایک دن والد صاحب سے پوچھا جب آپ پہلی دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس گئے تو آپ نے کوئی سوال پوچھا۔ فرمانے لگے میں نے ایک مسئلہ دریافت کیا کہ فاتحہ خلف الامام پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟ حضورؑ نے فرمایا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ میں نے عرض کیا حضورؑ قرآن میں تو آتا ہے جب قرآن پڑھا جائے تو چپ رہو۔ اس پر حضورؑ فرمانے لگے، بے شک یہ صحیح ہے۔ مگرقرآن قرآن پڑھنے سے منع نہیں کرتا۔ اگر یہ درست مانا جائے تو آج ہی سارے مکتب بند ہوجائیں اور تعلیم قرآن دینا امر محال ہوجائے۔ والد صاحب فرماتے یہ جواب مجھے ایسا پسند آیا کہ فریفتہ ہوگیا۔ فرماتے ہم خشک علم کے قائل تھے مگر حضرت مسیح موعودؑ نہ کسی علمی اصطلاح کی طرف گئے اور نہ حضور نے اِدھر اُدھر کے حوالے دئے بلکہ ایک موٹی دلیل دے دی۔ جو کسی سابقہ کتاب میں نہ تھی، میں اس وقت قائل ہوگیا کہ یہ شخص علم دین رکھتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی تین باتیں
جس وقت آپ نے بیعت کی حضرت مسیح موعودؑ نے آپ سے تین باتیں بیان فرمائیں۔
- اول: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ کا نماز میں تکرار کیا کرو۔ اس سے توجہ قائم رہتی ہے اور خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔
- دوم: استغفار اور دْرود کثرت سے پڑھا کرو۔
- سوم: اہتمام سے نماز تہجد ادا کیا کرو۔
ان تینو ں باتوں پر والد صاحب سختی سے عمل کرتے رہے۔ میں نے آپ کے ساتھ سفر بھی کئے، گھر پر بھی دیکھا مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی نماز تہجد چھوڑی ہو۔ بلکہ آخری بیماری کے ایام میں بھی آخری دن تک نماز تہجد پڑھتے رہے۔
عام اخلاق و عادات
آپ ایک باعمل عالم تھے۔ صوفی منش تھے اپنے ہاتھ سے کام کرنا بہت پسند کرتے تھے اور اس شخص کو بہت پسند کرتے تھے جو کوئی کام کرنے میں عار نہ سمجھتا ہو۔ آپ کی طبیعت میں ہمدردی بنی نوع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
رکھ کھاریاں کے قریب ایک گاؤں ہے۔ وہاں ایک حافظ صاحب بہت بزرگ ہو کر گزرے ہیں۔ اکثر لوگ ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ وہ حضرت اقدسؑ کے دعوے سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے۔ انہوں نے کئی لوگوں سے کہا کہ اگر تمہیں خواہش ہو کہ فرشتہ دیکھنا ہے تو کھاریاں میں جا کر مولوی فضل الدین صاحب کو دیکھ لو۔ آپ ملہم تھے۔ مگر اپنی رویا اور الہامات وغیرہ بالکل نہ بتاتے تھے۔ بلکہ جو آدمی اپنی خوابیں کثرت سے آکر سناتا اس کو پسند نہ کرتے۔ ہاں اگر کسی خواب یا الہام کی بناء پر سمجھتے کہ کوئی ایسا امر پیش ہونے والا ہے جو عام لوگوں پر اثر انداز ہوگا۔ تو اس کا ذکر کر دیتے۔ کئی دفعہ اپنے دوستوں کو قحط آنے سے پیشتر انتظام کرنے کے لئے کہ دیتے اور لوگوں کو بھی ایسا یقین تھا کہ فوراً آپ کے فرمانے پر عمل پیرا ہوتے۔
آپ اوّل درجے کے منصف تھے۔ کئی غیر مسلم مثلاً ہندو اور سکھ عدالتوں میں مسلمانوں کے ساتھ مقدمات میں آپ کو اپنا ثالث مقرر کروادیتے۔ چنانچہ کئی مقدمات میں آپ کمشن مقرر ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی زبان میں ایسی تاثیر رکھی کہ مقدمات انجام کار صلح پر ختم ہوئے۔ باوجود ظاہرًا دُنیا سے کنارہ کشتی ہونے کے آپ دُنیا کے سارے نشیب و فراز اچھی طرح جانتے۔ سیاست سے بھی دلچسپی رکھتے اور اخبار وغیرہ کا مطالعہ کرتے آپ کا یہ معمول تھا کہ اکثر وقت مسجد میں گزارتے آپ ان لوگوں میں سے ایک تھے جن کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا تھا۔ یایھاالنبی اطعمو االجائع والمعتر الغرض آپ ایک کامل ولی اللہ تھے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشدہ
خلافت ثانیہ میں بیعت کس طرح کی
خلافت ثانیہ کے شروع میں آپ کو بھی کچھ ابتلا آیا۔ مگر خدا تعالیٰ نے کامیاب کیا۔ آپ کے پاس تین دفعہ قادیان سے وفد آئے۔ مگر آپ نے خلافت کی بیعت نہ کی۔ اس کے بعد آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت مسیح وعودؑ آئے ہیں مگر خفا ہیں بولتے نہیں۔ آپ نے پوچھا حضور! اس کا کیا سبب ہے؟ حضرت اقدسؑ فرمانے لگے ’’یہ تفرقہ‘‘اس کے بعد قاضی سید امیر حسینؓ صاحب تشریف لائے تو حضرت والد صاحب نے اپنی اور جماعت احمدیہ کھاریاں کی بیعت کا خط لکھ دیا۔
ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب جہلم آئے تو مولوی صاحب کو بلوایا۔ مولوی صاحب آئے اور خواجہ صاحب سے گفتگو ہوئی۔ مولوی صاحب نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے خلیفہ اؤلؓ کی بیعت کیوں کی تھی۔ خواجہ صاحب نے کہا میں تو مخالف ہی تھا۔ مولوی محمد علی صاحب نے یہ اینٹ رکھ دی۔ والد صاحب فرمانے لگے اینٹ لگائی تم نے اور اب اکھڑواتے مجھ سے ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ شروع میں تو غیر مبائعین کو خیال رہا کہ شاید مولوی صاحب ہمارے ساتھ مل جائیں۔ مگر آخر ناامید ہوگئے۔ آپ نے خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے اجازت لے کر ایک دو دفعہ ہر دو فریقوں میں صلح کی کوشش بھی کی۔ مگر ناکام رہے اور کئی دفعہ آپ نے اس کا ذکر کیا کہ لاہوری چھٹ جھٹنے صلح نہیں ہونے دیتے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے عقیدت
آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے بہت عقیدت تھی۔ شروع اختلاف کے وقت بھی فرماتے کہ میاں صاحب متقی اور منتظم ہیں۔ اختلاف رائے اور بات ہے۔ جتنا عرصہ آپ نے بیعت خلافت نہ کی قادیان سے تعلق قطع نہ کیااپنے چندے وغیرہ قادیان ہی بھیجتے۔ حضورؓ کی دعاوٴں پر آپ کو بہت یقین تھا۔ آخری بیماری میں گو حالت مایوس کن ہوگئی تھی مگر جب میں نے سنایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا خط آیا ہے کہ صحت کے لئے دعا کی گئی۔ تو آپ کے چہرہ پر بشاشت آگئی اور فرمانے لگے خدا شفاء دے گا۔
اطاعت حکم آپ میں کمال درجہ کی تھی۔ کشمیر کے معاملہ میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اپنے ٹریکٹ یا دیگر احکامات بھیجتے تو ہدایات پر فورًا عمل کرتے اور خدا نے آپ کو سپاہی بھی مولوی محمد الدین صاحب واصل باقی نویس جیسا پیر جوان ہمت دیا تھا۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔ جب سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعتوں میں امارت کا نظام مقرر کیا ہے۔ والد صاحب جماعت ہائے کھاریاں کے امیر رہے۔
مرض الموت
آپ بیمار بہت کم ہوتے تھے۔ البتہ پیشاب کی مستقل بیماری آپ کو تھی۔ 27 اگست 1932ء کو بعارضہ بخار بیمار ہوئے۔ پہلے خیال تھا کہ معمولی بخار ہے۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بھی دوائی دی۔ مگر صحت نہ ہوئی۔ آخر بیماری زور پکڑ گئی۔ دایاں پھیپھڑا خراب ہوگیا۔ بخار بدستور رہا۔ آخر پیشاب کی بیماری نے زور پکڑ لیا۔ ہر پندرہ منٹ کے بعد پیشاب کرنا پڑتا۔ بہت کمزور ہوگئے۔ باوجود ہر قسم کے علاج کرنے کے صحت مقدر نہ تھی۔
وفات
آپ 14 اکتوبر بروز جمعہ بوقت عشاء حرکت قلب بند ہوجانے سے اپنے مالک حقیقی سے 1932ء جا ملے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ آپ نے اسی برس کے لگ بھگ عمر پائی ہے 15 اکتوبر کو آپ کا جنازہ بذریعہ موٹر لاری قادیان لایا گیا۔ آپ 16 کی صبح کو بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات پر آپ سے واقف مسلم، غیر مسلم اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ ان کا حقیقی خیر خواہ گزر گیاہے۔ آپ نے کیسی مبارک زندگی گزاری۔ سچ ہے؎
عروسیِ بْود نوبت ماتمت
گرت نیک روزی بود خاتمت
جن لوگوں نے آپ کی بیماری کے ایام میں آپ کی عبادت کو دیکھا ہے وہی جانتے ہیں کہ آپ نے کس طرح اپنا دل اپنے مولیٰ سے لگایا ہوا تھا۔ بہ وقت پانچوں نمازیں ادا کرتے رہے۔ بخار کی حالت میں بھی درس تدریس کرتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تہجد کی نماز ان بیماریوں کے سات ہفتوں میں ایک رات بھی نہیں چھوڑی بلکہ حسب معمول وتر آخری حصہ میں ادا کرتے رہے۔ بیماری کے آخری دنوں میں بعض دفعہ غنودگی کے وقت بعض کلمات آپ کے منہ سے نکلتے۔ ایک دن فرمانے لگے’’ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے۔‘‘ اس قسم کے کئی کلمات کبھی کبھی آپ کے منہ سے نکل جاتے۔ آپ خود چندوں کی ادائیگی کے بہت پابند تھے ہمیشہ باشرح چندہ ادا کرتے اور ہر تحریک میں حصہ لیتے۔ ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے۔ بلکہ فرماتے کہ مجھے حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا تھا کہ اپنی اولاد کو دینی اور دنیوی تعلیم دلانا۔ میں نے تمہیں دنیا کی تعلیم اس لئے دلائی تھی کہ خود کماؤ دوسروں کے دست نگر نہ بنو اور یہی نصیحت آخری دن بھی کرتے ہوئے ہم سے جدا ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہٗ وَعَافِہٖ وَاعْفُ عَنْہُ وَاَکْرِمْ نُزُلَہٗ۔
(سعدالدین احمدی مرحوم۔ جہلم)