ایک مکمل فیملی
مشتمل بر
ہمت، حوصلہ، وقار، دعا، امید اور توکل
رات کے اندھیرے میں ہمت اچانک چونک کے اٹھی تو اسے محسوس ہواکہ جب ہمت سوئی ہوئی تھی تو مایوسی نے اسے جکڑ لیا تھا۔
ہمت نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن مایوسی نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے تھے۔ہمت خود کو چھڑانے میں ناکام ہو گئی۔اور ہمت ہار گئی۔
ہمت نے سوچا اسے اب کسی کو مدد کے لیے پکارنا چاہیے۔اس نے چیخ چیخ کے پکارا لیکن خوف کے سوا کوئی نہ آیا تو ہمت نے خوف کو ہی اپنا سہارا بنا لیا اسے ہی اپنا ہمدرد سمجھ لیا۔اور خاموش ہو گئی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمت کمزور اور بیمار رہنے لگی تو اس کی سہیلی فکر اس کی عیادت کرنے آئی۔تو اسے پتا چلا کہ ہمت کے بابا حوصلہ اور اس کی والدہ امید ہمت سے ناراض ہیں کیونکہ خوف نے ان کو بھی مایوس کر دیا ہوا ہے۔
ہمت کا بھائی وقار جب سے اپنی ہی نظر سے گر گیا تھا وہ کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اور ہمت سےبھی ملنے نہیں آتاتھا۔
لیکن اس کی بہن دعا اس کے لیے بہت پریشان رہتی اور ہر وقت دربار الٰہی کے چکر کاٹتی اور التجاکرتی رہتی کہ ہمت کو ٹھیک کر دیا جائے۔تا کہ وہ ہر مشکل کا سامنا کر سکے اور خوف سے اس کی جان چھوٹ جائے۔
ایک دن ہمت کے دروازے پہ کسی نے دستک دی تو ہمت نےمشکل سے چل کر دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی اور اسکو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے۔
اس کی بہن دعا اس کی ساری فیملی کو لے کے دروازے پہ کھڑی تھی۔بابا حوصلہ،والدہ امید، بھائی وقار یہاں تک کہ اس کا بڑا بھائی توکل بھی بانہیں پھیلائے کھڑا تھا کہ آبہن گلے لگ جا۔ہمت نے اپنے بڑے بھائی توکل کو عرصہ ہوا دیکھا نہیں تھا کیونکہ بے یقینی اور خوف نے ان کو اس سے دور کر رکھا تھا۔
ہمت اپنے بھائی توکل کی طرف لپکی اور اسں کے گلے لگ کے رونے لگی کہ آنے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔بھائی نے کہا اس نے تو بہت دفعہ دستک دی تھی لیکن خوف نے ہی ہمیشہ دروازہ کھولا اور کہا تھا کہ ہمت یہاں نہیں ہے۔
دعا ہاتھ میں کچھ پھل تھامے کھڑی بہت خوش نظر آ رہی تھی کہ اس کی التجا قبول ہوگئی ہے اور اس لیے یہ پھل ہمت کے لیے دربار الٰہی سے لائی ہے۔
دعا کہنے لگی یہ پھل صبر کے پھل ہیں جو بہت میٹھے ہیں لے لو۔جیسے جیسے انہیں کھاو ٔگی یہ بڑھتے جائیں گے۔
ہمت کو تو خوشی سے جیسے پر لگ گئے ہوں۔وہ جھوم جھوم کے حمد و ثنا کے گیت گا رہی تھی اور جیسے ساتویں آسمان پہ اُڑ رہی تھی۔
ہمت کو یوں خوش دیکھ کے سب نے شکر کیا کہ آخر ہمت مل ہی گئی۔ اور سب کو یوں اکھٹا دیکھ کے خوف تو ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ
(شازیہ افروز)