5؍اکتوبر1922ء پنجشنبہ (جمعرات)
مطابق 13صفر1341 ہجری
صفحہ اول پر مدینۃ المسیح (قادیان) کی خبروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’والدہ صاحبہ علی برادران اور اہلیہ صاحبہ مسٹر محمد علی (جوہر)،مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظر امورِ عامہ قادیان کے ہاں جو کہ علی برادران کے بڑے بھائی ہیں،2اکتوبر کو تشریف لائیں۔‘‘
صفحہ اول و دوم پر ’’انگلستان میں تبلیغِ اسلام‘‘ کے زیرِ عنوان مولانا مبارک علی صاحب مبلغ انگلستان کی 16تا22اگست کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کی ابتداء میں انہوں نے تحریر کیا کہ ’’13 اگست کو برادرم عزیزالدین صاحب اور میں نے ہائیڈ پارک میں ساڑھے بارہ بجے سے ساڑھے تین بجے تک لیکچر دیئے۔حاضری کافی تھی۔ہر تقریر کے بعد سوال و جواب بھی ہوئے۔‘‘
آپ نے اپنی رپورٹ میں دورانِ ہفتہ مسجد آنے والے مختلف مہمانان کا ان کے اسماء کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
صفحہ نمبر3 اور 4پر اداریہ ’’مسلمانوں سے آریوں کا مطالبہ اور اس کا جواب۔پہلے نو کروڑ شودروں کو ہندو مذہب سے جدا کرو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔
یہ اداریہ روزنامہ ’’دیش‘‘ کے 20ستمبر کے ایڈیٹوریل کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اس اخبار کے ایڈیٹر آریہ دھرم سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب تھے۔
مدیر صاحب الفضل لکھتے ہیں کہ ’’جیسا کہ ہم عصر روزانہ پیسہ اخبار نے اس مطالبہ کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے۔ ہندوؤں کو مسلمان بنانے کا کام احمدی جماعت کر رہی ہے اور واقعہ بھی یہی ہے اس لیے ہم ہی اس کے اصل مخاطب ہیں اور ہم ہی اس کا جواب دینا چاہتے ہیں۔جو یہ ہے کہ ہندو صاحبان کومعلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم صلح کرنا چاہتے ہیں او رضرور چاہتے ہیں تو اس سے ہماری غرض قطعاً یہ نہیں کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر سوراج لینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے آپ ہم سے جو بھی مطالبہ کرتے جائیں گے وہ ہم پورا کرتے جائیں گے۔بلکہ اگر ہم صلح کے لیے ہاتھ بٹھاتے ہیں تو محض اس لیے کہ جنگ اور جدال، جھگڑے اور فساد کی حالت میں چونکہ جانبین کے دلوں میں غصہ اور ایک دوسرے سے نفرت ہونے کے باعث حق پسندی میں کمی آجاتی ہے اور تعصب حق کو قبول کرنے کا موقع نہیں دیتا۔اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ صلح ہو جائے۔‘‘
اس اداریہ میں مزید آگے حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی تصنیف پیغامِ صلح میں بیان فرمودہ تعلیم کا ذکر کیا ہے۔
صفحہ نمبر5 پر زیرِ عنوان ’’مسلمانوں کی زار و زبوں حالت‘‘ ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ مذکورہ مضمون میں ’’البشیر‘‘ نامی ایک اخبار میں شائع ہونے والے مضمون پر تبصرہ کیا گیا ہے۔مذکورہ اخبار میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے بعض ایسے عقائد کا ذکر کیا گیا جن کا اسلام کا دور سے بھی کوئی واسطہ یا تعلق نہ تھا۔چنانچہ ایسے بعض عقائد کا ذکرکر کے الفضل میں تبصرہ کیا گیا کہ ’’حیرت کا مقام ہے کہ جہاں ایک طرف اس بات کا عتراف کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں میں اسلام نہیں رہا اور ساری دنیا کے عیب ان میں پائے جاتے ہیں۔وہاں پیغمبرِ اسلام کے پیرو ہو کر پیغمبر بن جانا بھی ان لوگوں کے نزدیک برائی ہے۔حالانکہ قرآنِ کریم میں رسولِ کریم ﷺ کو نبیوں کی مہر کہا گیا ہے۔‘‘
صفحہ نمبر6 اور 7 پرمدراس ہائی کورٹ میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین ہونے والے ایک مقدمہ کی وجہِ نزاع اور سیشن کورٹ وہائی کورٹ میں ہونے والی کارروائی کی رُوداد کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔اس مقدمہ میں مدراس ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ احمدی اپنے عقیدہ کی رُو سے مسلمان ہیں۔
صفحہ نمبر8 پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا یک خط شائع ہوا ہے جو آپ نے امریکہ سے حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال کو تحریر کیا تھا۔ اس میں آپؓ نے اپنی تبلیغی مساعی کا بھی ذکر کیا ہے۔آپؓ نے لکھا ’’ہفتہ گذشتہ میں دو لیکچر ہوئے اور دو صاحب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان میں سے ایک نیگرو عیسائیوں کے پادری ہیں۔ ان کا نام ریورنڈ جب سن ہے۔ اسلامی نام عمادالدین رکھا گیاتاکہ مشہور مرتد امرتسری کا نعم البدل ہوجائے۔‘‘
اسی طرح آپؓ نے لکھا کہ ’’آسٹریلیا سے ایک پادری کا خط آیا ہے جو اسلام کی طرف مائل ہے۔ اس کو جواب لکھا گیا اور اس کا خط برادرم حسن موسیٰ خان صاحب کو بھیج دیا گیا تاکہ وہ قریب سے اُس کو رہنمائی کریں۔‘‘
صفحہ نمبر 8 اور 9 پر ’’احمدی مستورات اور خدمتِ دین‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں دہلی کی احمدی خواتین کے اخلاص کا ذکر کیا گیا ہے۔اس تفصیل کچھ یوں ہے کہ دہلی کی احمدی مستورات نے ایک جلسہ کیا جس میں اہلیہ صاحبہ حضرت ماسٹر حسن محمد آسان صاحبؓ (محترمہ امۃالمغنی شمیم صاحبہ) نے ایک تقریر کی جس میں دہلی کی احمدی مستورات کو تحریک کی کہ وہ بیرون از ہندوستان تبلیغی اخراجات کے لیے مالی قربانی کریں۔موصوفہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’حضرت مسیحِ موعودؑ کے غلام ہمارے پیارے بھائی بیرسٹری، ڈاکٹری، انجینئری پاس کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلام پھیلانے کے لیے امریکہ میں، افریقہ میں،لنڈن میں،ماریشس میں غرضیکہ دنیا کے ہر کنارے پہنچ گئے ہیں۔ ان کے بیوی بچے یہاں پڑے ہیں اور وہ جنگلوں میں دشوار گزار راستے طے کرتے ہوئے لوگوں کو پیغامِ حق پہنچا رہے ہیں۔حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بال بچوں سے جدا ہوئے چار سال ہو چکے۔حضرت نیر کو تین سال ہونے کو آئے۔کلیجہ کٹتا ہے جب ان کا خیال آتا ہے۔اگر تمہارے دلوں میں ان کی محبت ہے اور ایمان رکھتی ہو کہ یہ خدا کام ہے اور خدا اس سے راضی ہوتا ہے تو جو اُس کی رضاکو اپنی رضاپر مقدم کرے تو روپیہ پیسہ جو جس سے بن سکے خدا کی راہ میں دو۔دیکھو صحابہ کرام کی عورتیں اپنے لختِ جگروں کو محض خدا کی رضاکے لیے جہاد پرروانہ کرتی تھیں۔کیسی پاک بیبیاں تھیں۔گودوں میں پلے ہوئے لال جب جنگ میں کام آتے تو خوش ہوتیں اور کہتیں شکر ہے خدا نے ہماری گودوں کی کمائی قبول کی۔
بہنو! ہمارے لال ہماری گودوں میں ہیں۔اس قسم کی قربانی ابھی ہم سے مانگی نہیں جاتی۔صرف روپیہ دے کر خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتی ہو اور وہ درجہ پا سکتی ہو جس کے لیے خدا کے بندوں نے اولاد سے بھی دریغ نہ کیا۔خدا کا شکر کرو۔دو اور شکر کر کے دو۔۔۔خدا تمہارے دشمنوں سے ناراض ہو چکا اور اشاعتِ اسلام کی خدمت ان سے لینا نہیں چاہتا۔اس خدمت کا شرف تم کو مل چکا۔پس اپنے آپ کو خدمت گزار ثابت کرو اور دشمنوں کو دکھلا دو کہ کیا کافر ایسے ہی ہوتے ہیں جن کی عورتیں بھی اس بے کسی کے عالم میں خدا کی توحید کو تثلیث پرستی کی جگہ قائم کرنے کے لیے اس قدر جوش رکھتی ہیں۔‘‘
آپ نے اپنی تقریر کے آخر میں یہ اعلان کیا کہ ’’میں ناچیز اپنی بالیوں کو امریکہ مشن کے فنڈ کے لیے پیش کرتی ہوں اور ایک روپیہ ماہوار چندہ کا وعدہ کرتی ہوں۔خدا اسے قبول کرے اور میری نصرت فرمائے۔‘‘
اس تقریر کے بعد احمدی مستورات کی جانب سے دیئے جانے والے چندہ کی تفصیل درج ہے جس میں ذکر ہے کہ محترمہ امۃ المغنی شمیم صاحبہ نے آٹھ عدد طلائی بالیاں اس تحریک کے تحت پیش کیں۔
یوں تو اس اخبار میں حضرت ماسٹر محمد آسان صاحبؓ کی اہلیہ صاحبہ کا تعارف درج نہیں ہے لیکن اخلاص سے پُر اس قربانی کے باعث خاکسار یہ ذکر کیے دیتا ہے کہ یہ مخلص خاتون محترمہ امۃ لمغنی شمیم صاحبہ سلسلہ کے دیرینہ خادم، واقفِ زندگی اور سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل محترم مسعود احمد خان صاحب دہلوی صاحب کی والدہ تھیں۔آپ نے خود خلافتِ ثانیہ میں بیعت کی۔ آپ کی بیعت کے وقت حضرت مصلح موعودؓ بنفسِ نفیس آپ کے گھر تشریف لائے اور آپ کی بیعت لی۔ یہاں یہ بھی ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جیسا کہ آپ نے اپنی تقریر میں یہ ذکر کیا کہ ’’بہنو! ہمارے لال ہماری گودوں میں ہیں۔ اس قسم کی قربانی ابھی ہم سے نہیں مانگی جاتی۔‘‘ 1922ء میں آپ کی اولاد ابھی کم عمر تھی لیکن بعد میں اس مخلص، نیک اور قربانی کرنے والی خاتون کے چار بیٹوں کو زندگی وقف کر کے خدمتِ دین کی توفیق ملی اور بالخصوص 1922ء میں آپ کا جو بیٹا آپ کی گود میں تھا وہ مکرم مسعود احمد ہلوی صاحب ہی تھے۔جن کی پیدائش 16 فروری 1920ء کو ہوئی تھی۔یوں خداتعالیٰ نے ایک احمدی خاتون کے جذبات کو لفظ بہ لفظ قبول فرمایا۔
صفحہ نمبر8 پر حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کی ماریشس سے آمدہ رپورٹ شائع ہوئی ہے۔جس میں آپؓ نے ایک ہندو کی جانب سے کی گئی دعوت کا دلچسپ تذکرہ بھی کیا ہے۔
مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔
https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221005.pdf
(م م محمود)