صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ایسی عظیم اور مقدس شخصیات تھیں کہ قرآن پاک نے آپ کی توثیق فرمائی کیوں کہ یہ وہ جماعت تھی جنہوں نے رسول کائنات، سرور کائنات،رحمۃالعالمین کی براہِ راست رفاقت اور مصاحبت پائی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡم
(التوبہ:100)
ترجمہ:اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں۔ یہ بہت عظیم کامیابی ہے۔
ان بابرکت وجودوں کو یہ مقام کیسے اورکیوں کر ملا۔اس کا جواب تو یہی کہ انہوں نے سیّدنا حضرت محمدﷺ کی کامل اتباع کی اور اس اتباع کے نتیجہ میں اپنے پروردگار کی سچی محبت تک کا ارتقاء انہیں اس بلند پایۂ مقا م تک لے گیا۔
ان پاک ہستیوں کو براہِ راست مشکوۃِ نبوتﷺ سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع میسر آیا جس کے نتیجہ میں قرآن پاک سے محبت اور احکام الٰہی پرلبیک کہنےاور اس پر عمل پیراہوکر رَضِیَ اللّٰہُ کا مرتبہ پایا۔ایسے لوگوں کے بارہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ
(فاطر:30)
کتاب اللہ کی تلاوت، اس پر غور اور تفکر سے، اللہ کی تخلیق اور اس کے وجود کی حقیقت سمجھتے ہوئے اس کے حضور شکر کے جذبات پیش کیے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ نئے انداز میں یو ں بیان فرمایا کہ:
اَلَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ
(المومنون:3)
جب خشیعت الٰہی کا عرفان حاصل ہو ا تو کائنا ت کی مادی اور روحانی تخلیق پر غور کے نتیجہ میں ان کے قدم آگے بڑھتے چلے گئے۔
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ
(النور:36)
اس ارشاد کی تعمیل آج بھی کی جائے تو جو ں جو ں اس تخلیق کی گہرائی میں جاتے ہیں ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ تہہ در تہہ خزائن ملتے جاتےہیں۔ ہرطرف ایک نئی دنیا اور نیاعالم دکھائی دیتا ہے۔
خدا تعالیٰ اپنے کلام الٰہی کے آغاز میں فرماتاہے کہ:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
مادی یاروحانی کائنات پر غور کرنے کااس میں اشارہ ہے۔ تخلیق کائنات کے یہ نشانات مکمل اور قابل تحسین وقابل ستائش ہیں۔ جس پرغورکرنےپر شکرگزاری اور اس خالق حقیقی کی ثناء اورتسبیح لازم و ملزوم ٹھہرتی ہے، کائنات کی خوبصورتی کا فہم ملتے ہی دل وجان سے نکلتا ہے سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ
اسی لئے آگے جا کر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰت وَالْاَ رْضِ وَاخْتِلاَ فِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ …. لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
(البقرہ:165)
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے اور پیچھے آنے میں …عقلمندوں کے لیے یقینا کئی نشانات ہیں۔ اصحاب کرامؓ انہیں نشانات کو پانےاورخالق حقیقی سے اپنی محبت او ر لگاؤ میں امتیازی حیثیت پیدا کرتے ہوئے اس پیارے کی رضا میں گویا کھو ہی گئے۔ تبھی تو خالق کائنا ت نے خود اپنی کتاب رحمن میں ان کو بشارت دی کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ۔ کائنات کے حوالہ سے اس مضمون کو معمور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے ؛
وَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ شَمْسٌ مُّنِیْرَۃٌ
وَبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ بَدْرٌ وَّ کَوْکَبٌ
یقینا رسول اللہﷺ روشن سورج ہیں اور آپؐﷺکے بعد باقی سب چاند ستارے ہیں۔
(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ103)
اصحاب کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے اپنی محبت کا اظہار آپؑ کی ہر رنگ میں اتباع کرکے کیا۔اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا؛
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ
(آلِ عمران:33)
ترجمہ: تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
آپؑ کی عبادات کے رنگ تو نرالے تھے ہی۔ آپؑ کے اصحابؓ کی خداتعالیٰ سے عشق اور رازونیاز کے طریق اور واقعات بھی دل کو لبھالینےوالے ہیں اور ان میں وہی روشنی ہے جس کے بارہ میں کہاگیاہے
أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ
قیام الصلوٰۃ
صحابہ رضی اللّٰہ عنھم کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس کا محاصل یہی ہوگا اور ہر مرتبہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ آغوشِ اسلام میں آنے کے بعد ان کا صرف ایک ہی مطمع نظر تھا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کسی طور انہیں میسر آجائے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت اور عشق کے اظہار کا سب سے بہترین طریق جو انہوں نے اپنے دل و جان سے پیارے محبوب سے سیکھا تھا وہ یہ تھا۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی پر غور کیاجائے تو اس میں ان کا عشق الٰہی سرفہرست ہوگا۔خدا تعالیٰ سے راز و نیاز کرنا آپ کی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا۔ گویا آپؓ کی زندگی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد اَقِمِ الصَّلوٰۃ لِذِکْرِیْ کی تعمیل کے لئے وقف ہوچکی تھی۔احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرامؓ قرآن کریم کے اس حکم اَلَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ (المومنون:3) کی تعمیل میں ہمہ تن گوش رہتے۔
صحابہؓ کو نماز خصوصاً نماز باجماعت کے اہتمام کا اس قدر احساس تھا کہ جب جماعت ہونے لگتی تو کثرت سے صحابہ کے نماز کی طرف رخ کرنے سے شور ہو جاتاتھا۔ سخت سےسخت مصروفیت میں بھی جب نماز کا وقت آتا تو تمام کاروبار چھوڑ کر سیدھے مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ حضرت سفیان ثوریؓ ،صحابہؓ کے متعلق فرماتے تھے کہ ’’صحابہؓ کاروبار اورمحنت مزدوری کرتے تھے لیکن نماز مفروضہ کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے تھے‘‘
حضرت عمرؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ جس دن حضرت عمرؓ کو زخم لگا جس سے آپ کی شہادت ہوئی اسی رات کی صبح کو لوگوں نے نمازِفجر کے لئے جگایا تو خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے کہا ہاں جو شخص نماز چھوڑ دے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔چنانچہ اسی حالت میں کہ زخم سے مسلسل خون جاری تھا نماز فرض ادا کی۔
(مؤطا)
صحابہؓ کو نماز باجماعت کی ادائیگی کا بے حد خیال رہتا۔ نماز کا وقت ہوتا تو صحابہؓ اپنے تمام کام چھوڑ کر مسجد کی طرف چلے جاتے۔ قرآن کریم نے انہی کے بارہ میں فرمایا کہ:
وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ
(المعارج:35)
اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر محافظ رہتے ہیں۔ کئی کمزور اور معذور صحابہؓ دوسروں کا سہارا لے کر مسجد پہنچتے۔ اگرچہ بارش میں آنحضورﷺ نے اجازت دی ہوئی تھی کہ نماز گھر پر پڑھ لی جائے لیکن صحابہؓ پھر بھی مسجد پہنچ جاتے۔ کئی بار بہت بہت دیر تک مسجد آکر آنحضورﷺ کا انتظار کرتے تاکہ آپؐ کی اقتداء میں نماز ادا کرسکیں۔ محبوب سے محبوب چیز بھی اگر نماز میں خلل انداز ہوتی تو اُن کی نظر میں مبغوض ہوجاتی۔ حضرت ابو طلحہؓ ایک روز اپنے بہت خوبصورت گھنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک چڑیا شاخوں میں پھنس گئی جس سے آپؓ کی نماز سے توجہ ہٹ گئی اور یاد نہ رہا کہ کتنی رکعات پڑھ لی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد باغ کو صدقہ میں دیدیا۔ اسی طرح ایک اَور صحابی کی توجہ اپنے باغ میں نماز پڑھتے ہوئے پھل سے لدے ہوئے درختوں کی طرف منتقل ہوگئی تو نماز سے فارغ ہوکر سیدھے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر باغ کو صدقہ میں پیش کردیا جو پچاس ہزار پر فروخت ہوا۔
حضرت ابی ابن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری مسلما ن کا گھر میرے علم کے مطابق مسجد سے سب سے زیادہ دور تھا لیکن جماعت کے ساتھ اس کی ایک نماز بھی چھٹتی نہ تھی۔ کسی نے اس سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ تم ایک گدھا خرید لو اور دوپہر کی گرمی اوررات کے اندھیرے میں اس پرسوار ہو کر مسجد آیا کرو۔اس نے جواب میں کہا کہ میں تو یہ بھی پسند نہ کروں گاکہ مجھے مسجد کے پہلو میں رہائش کے لئے مکان مل جائے کیونکہ میرا دل چاہتاہے کہ میرے مسجد کوچل کر آنے اور گھرواپس جانے کاثواب میرے اعما ل نامہ میں لکھا جائے۔ آنحضرتﷺ نے اس کاجواب سن کر فرمایا ’’ قَدْجمَعَ اللّٰہ لَکَ ذٰلِک‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ سب ثواب اکٹھا کر کے تمہارے لئے رکھا ہے۔
نماز سے محبت اورلگاؤ داراصل اصحاب کرامؓ کی اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت اور قرآن پاک کی اس تعلیم کا عکاس ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
(الانعام:163)
ترجمہ؛ تو کہہ دے کہ یقیناً میر ی نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
ذکر الٰہی اور نوافل
صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کا صبح وشام، رات اور دن، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ان کا دل و دماغ ذکر الٰہی سے معطر رہتاتھا۔ اسی عمل کانتیجہ تھاکہ ہمارے سید و مولیٰﷺ فداہ نفسی نے فرمایا اللّٰہ اللّٰہ فِی اَصْحَابِی کہ میرے صحابہ میں خدا ہی خدا ہے۔
صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کاذکر ان کی روح کی غذا اور ان کے دل کی لذت بن گیا تھا اور ان کی زبانوں پر سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ، لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ، اَللّٰہُ اَکْبَر، لاَحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّبِاللّٰہ جاری رہتے تھے۔ ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پرایمان ورثہ میں نہیں ملا تھا بلکہ انہوں نے جان اور مال اور عزت اور جذبات اوروقت کی قربانی کرکے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کو حاصل کیاتھا اور جب مکہ کی پتھریلی زمین پر تپتی دوپہر میں ننگے بدن ان کو لٹاکر گھسیٹاجاتاتھا تب بھی ان کی زبان سے خدائے واحد کا ذکر بلند ہوتاتھا۔سیّدنا بلالؓ کے واقعہ کو کیونکر فراموش کیاجاسکتاہے جب آپ کو تپتی ریت پرلٹادیاجاتا اوراس ظلم و بربریت کی وجہ سے بے ہوش ہوجاتے لیکن جونہی ہوش آتا تو آپؓ کی زبا ن مبارک پر خدا تعالیٰ کی کبریائی ہی ظاہر ہوتی، کہ اَحَد، اَحَد کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ایک ہے۔
صحابہ کرامؓ کے دن رات کے ذکر الٰہی کی کیفیت کا اندازہ اس روایت سے ہو سکتاہے کہ ایک بار آنحضرتﷺ نے حضرت حارثؓ سے پوچھا کہ کیا حال ہے ؟ بولے یارسول اللہ! خدا پرصدق دل سے ایمان رکھتاہوں۔ آ پؐ نے فرمایا ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے تمہارے ایمان کی حقیقت کیاہے ؟ بولے دنیا سے میرا دل بھر گیا ہے اس لئے را ت کو جاگتاہوں، دن کو بھوکا پیاسا رہتاہوں گویامجھ کو خدا کا عرش علانیہ نظر آتاہے اور اہل جنت کو باہم ملتے جلتے دیکھ رہاہوں اور گویا اہلِ دوزخ مجھے چیختے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا تم نے حقیقت کو پا لیا اب اس پر قائم رہو۔
(اسدالغابہ)
نوافل ذکر الٰہی کاخصوصی ذریعہ ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور کان بن جاتاہے۔ صحابہ کرامؓ کو نوافل سے جو رغبت اور الفت تھی اس کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتب میں کثرت سے ملتاہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ مغرب کی نماز سے قبل اذان ہوتے ہی صحابہؓ مسجد کے ستونوں کے قریب تیزی سے جاتے اور حضورﷺ کی امامت کے لئے تشریف لانے تک نوافل میں مصروف رہتے۔
(بخاری)
صحابہ میں ذکرِالہی کا ذوق و شوق بلا تفریق تھا امیر وغریب صحابہ سب کے سب اس میں برابر کے شریک تھے۔ حدیث میں آتاہے کہ ایک دفعہ غریب مہاجرین آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور اہل ثروت لوگ بڑے درجا ت پا گئے ہیں کیونکہ وہ ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری طرح ہی روزے رکھتے ہیں مگر ان کے پاس زائدمال ہے جس کے ذریعہ وہ حج اورعمرہ اور جہاد اور صدقہ میں شریک ہوتے ہیں (مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے)۔ حضورﷺ نے فرمایا کیامیں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جس کے ذریعہ تم اپنے سے پہلوں سے بھی اور بعد میں آنے والوں سے بھی آگے بڑھ جاؤگے اور کوئی شخص تم سے فضیلت نہ لے جا سکے گا مگر بایں شرط کہ وہ بھی وہی کرنے لگے جو تم کرتے ہو۔انہوں نے کہا یا رسول اللہ ضر ور بتائیے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ تم نماز کے بعد 33-33 دفعہ تسبیح تحمید اور تکبیر کیاکرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ غریب مہاجرین پھر حضورؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور یہ ذکرِالٰہی انہوں نے بھی شروع کر دیاہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ کہ پھر یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
حضرت معاویہؓ سے مروی ہے کہ ایک بار آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف لائے اور کچھ صحابہؓ کوحلقہ باندھے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ آ پ نے فرمایا کہ تم کس مقصدسے یہاں بیٹھے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں اس لئے بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور اس نے جو احسانات ہم پر کئے ہیں اور دین کی طرف جو ہدایت ہمیں دی ہے اس پراس کی حمد کریں۔ آ پؐ نے فرمایا کیاخدا کی قسم کھا کرکہتے ہو کہ تمہارا مقصد صرف یہی ہے ؟ صحابہؓ نے جوا ب دیا ہاں خدا کی قسم ہمارا مقصد صرف یہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا میں نے یہ قسم تمہیں اس لئے نہیں دلوائی کہ مجھے تم پر کوئی شک تھا صرف بات یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتاہے۔
(مسلم)
غسق اللیل و صلوۃ تہجد
صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم کی نمازتہجد کاذکر خود خداتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق ان کے صاحبزادہ سالم روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے فرمایا عبداللہ کتناہی اچھا آدمی ہے اگر وہ رات کو نفل پڑھا کرے۔ سالم کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کے بعد ابن عمر رات کو تھوڑاہی سوتے تھے اور زیادہ وقت نماز تہجد میں گزارتے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا گھر رات بھر ذکرِالٰہی سے اس طرح معمور رہتا تھا کہ انہوں نے اور ان کی بیوی اور خادم نے رات کے تین حصے کر لئے تھے اور ان میں سے ایک جب تہجد سے فارغ ہو چکتا تھا تو دوسرے کو نماز کے لئے جگا دیتا تھا۔ بعض صحابہ کو نماز تہجد میں اتناغلو ہو جاتا تھا کہ حضورﷺ ان کو اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتے اور اپنے نفس کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرماتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ وبن عاص کی روایت ہے کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اپنی تمام زندگی دن کوروزہ رکھوں گا اور تمام رات نفل پڑھوں گا۔حضورؐ کو میرے اس ارادہ کی خبر ہوئی تو آپؐ نے پوچھا کیایہ بات صحیح ہے۔ میں نے جواب دیا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں یہ بات صحیح ہے۔ آپؐ نے فرمایا ایسانہ کرو۔ روزہ بھی رکھو اور افطاربھی کرو۔ نماز کے لئے بھی اٹھو اور کچھ دیر رات کو سو کر گزارو اور ہر ماہ تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتاہے۔ میں نے کہا حضور مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے۔فرمایا دو دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دو۔ میں نے کہامجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ فرمایا تو پھر حضرت داؤد علیہ السلام کی سنت کے مطابق ایک دن روزہ رکھو ایک دن چھوڑ دو اس سے زیادہ روزہ رکھنا فضیلت کی بات نہیں۔
حضرت زینب بنت جحشؓ برابر نماز میں مصروف رہتیں اور جب تھک جاتیں تو دو ستونوں میں ایک رسی باندھ رکھی تھی اس سے سہارا لے لیتی تھیں تاکہ نیند نہ آنے پائے۔ آنحضرتﷺ نے رسی کو دیکھا تو فرمایا کہ ان کو صرف اسی قدر نماز پڑھنی چاہئے جو ان کی طاقت میں ہو اور اگر تھک جائیں تو بیٹھ جانا چاہئے۔ چنانچہ حضورﷺ نے وہ رسی کھلوا کر پھینکوا دی۔
(بخاری)
تلاوت قرآن پاک اورحظِ دعا
صحابہؓ کا تلاوت قرآن اور حفظ قرآن اور تدبّر قرآن کا ذوق و شوق معروف ہے۔ صحابہؓ قرآن کریم کے اس اِ نَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا (بنی اسرائیل:79) پر عمل پیرا ہونے کی ہرممکن کوشش کرتے۔
حضرت عَبّاد بن بشر ایک انصاری صحابی تھے آپ کی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے وقت جاگے تو مسجد سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے بہت جلدی جاگا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ آواز عَبّاد کی ہے؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں مَیں نے عرض کی کہ انہی کی آواز لگتی ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا دی کہ اے اللہ! عَبّاد پر رحم کر۔
(صحیح البخاری حدیث 2655)
عرب معاشرہ میں شعرو شاعری کو بڑی عظمت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے عرب کے ایک چوٹی کے شاعرکو جو مسلمان ہو گئے تھے فرمایا کہ اپنے کچھ اشعار سناؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اسلام لانے کے بعد میں شاعری ترک کر چکاہوں کیونکہ قرآن شریف کی سورتوں کی تلاوت نے اب مجھے شاعری سے مستغنی کر دیا ہے۔ صحابہؓ کے شوق تلاوت قرآن کا یہ عالم تھا کہ آنحضرتﷺ نے عبداللہ بن عمرؓ کی کثرت تلاوت دیکھ کر فرمایا کہ پورے ایک مہینہ میں ایک بار قرآن ختم کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتاہوں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیس دن میں۔ گزارش کی میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتاہوں۔ فرمایا پندرہ دن میں، بولے کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ ارشاد ہوا کہ دس دن میں عرض کی مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا اچھا سات دن میں ہی قرآن مجید ایک بار پڑھ لیاکرو اوراب اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔
(ابوداؤد)
’’ اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ‘‘عبادت کا مغز دعا ہے۔ دعا پر کامل یقین، مقبول دعاؤں سے مومن کو خاص حظ پہنچتا ہے جو خداتعالیٰ کی ہستی پر پختہ یقین اور اس سے محبت کا پیمانہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو بسم اللّٰہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا، پشت پر پہنچے تو الحمدللّٰہ کہا، پھر یہ آیت پڑھ کر خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کی پھر اور دعا کی ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا۔۔۔‘‘ پھر تین بار اَلْحَمْدُلِلّٰہ اور تین بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہا۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی’’سُبْحَانَکَ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ اِنَّہٗ لاَ یَغْفِرالذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ ‘‘۔ پھر حضرت علیؓ ہنس پڑے۔ لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ بولے ایک بار رسول اللہﷺ بھی اسی طرح سوار ہوئے اور اسی طرح حضورﷺ نے دعائیں اور اذکار پڑھے اور پھرہنس پڑے۔ ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو خدا اس سے خوش ہوتا ہے۔
(ابوداؤد)
تبتل الی اللّٰہ
صحابہؓ کا ہرلمحہ اپنے خالق حقیقی کی رضاجوئی میں صرف ہوتااور ہمیشہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت میں محو رہتے،اس لاثانی محبت اور پیار کی وجہ سے آپ کے قلوب بہت نرم اور گداز تھے۔ قرآن مجید اور آنحضرتﷺ کے مواعظات سننے اور ذکر الٰہی اور دعا کے ساتھ ان میں رقت پیدا ہوتی تھی۔ روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ جب قرآن مجید کی آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا۔۔۔‘‘ پڑھتے تو بے اختیار رو پڑتے تھے اور دیر تک روتے تھے۔ ایک بار انہوں نے حضرت عمرؓ کو یہ آیت پڑھتے سنا ’’فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْد‘‘ تواس قدر روئے کہ داڑھی اور گریبان دونوں ترہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بہت رونے والے شخص تھے۔ جب قرآن پڑھتے تو آنسوؤں کو روک نہیں سکتے تھے۔ کفار مکّہ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو گھبرا گئے اور ان کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں عورتیں اور بچے اسلام کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔
امام الزماںؑ اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ
کی طرف سے اصحاب کرام کا ذکر خیر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کی عظیم قربانیوں کا تذکرہ اپنی تحریر و تقریر میں جابجا فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کہا کہ میں وضو کرتا ہوں۔ آخر لکھا ہے کہ سر کاٹو تو‘‘ (پھر کہا کہ) ’’سجدہ کرتا ہے۔ کہتا ہوا مر گیا۔ اس وقت اس نے دعا کی کہ یا اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ (میں) تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے جا کر السلام علیکم کہا۔ آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی۔ غرض اس لذت کے بعد جو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے‘‘ (جس طرح ان صحابی نے کہا تھا میں نے ربِّ کعبہ کو پا لیا۔ جو انتہا تھی عشق کی وہاں میں پہنچ گیا۔) فرماتے ہیں کہ ’’اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں۔ سچ پوچھو تو مومن کی نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جاوے کہ یا نصرانی ہو جا یا قتل کر دیا جائے گا۔ اس وقت دیکھنا چاہئے کہ اس کے نفس سے کیا آواز آتی ہے؟ آیا وہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر (وہ) مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ مومن حقیقی ہے ورنہ کافر ہے۔ غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذت ہوتی ہے۔ بھلا سوچو تو سہی کہ اگر یہ مصائب لذت نہ ہوتے تو انبیاء علیہم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزارتے‘‘
(ماخوذاز ملفوظات جلد 2 صفحہ 308-309)
حضرت سیّدنا امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات مبارکہ اور ان کے ناقابل فراموش واقعات پرمبنی خطبات کا ایک غیرمعمولی سلسلہ شروع کررکھا ہے ان خطبات میں جنگ بد ر میں شا مل ہونے والے صحابہ کرامؓ کا ذکر خیر جاری ہے۔ ان خطبات سے اسلامی تاریخ کے درخشندہ باب میں اپنی نوعیت کا منفرد اضافہ ہے۔
حضورانور نے ایک خطبہ میں فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک برتن قلعی کروا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورت نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے۔ گویا قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا کے سچے مصداق تھے‘‘
پھر فرمایا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جسم کی طرح ہیں اور (آپ کے) صحابہ کرامؓ آپ کے اعضاء ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں صحابہ کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نمونوں پر چلتے ہوئے اپنے اخلاص و وفا کو بھی بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ جمعہ 9؍مارچ 2018ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)
(وحید احمد۔ لندن)