• 27 جون, 2025

رسول کریم ؐ کا دشمنوں سے حسن سلوک

اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾

(الانبیاء: 108)

ترجمہ:اور ہم نے تجھے دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اب اس آیت سے واضح ہے کہ آپ ؐ کا مبارک وجود صرف آپ ؐ کے ماننے والوں کے لئے ہی رحمت نہیں تھا بلکہ ہر ایک کے لئے رحمت تھا اس میں مسلمان غیر مسلم سب شامل تھے حتی کہ آپؐ کے دشمن بھی شامل تھے اس کا عملی مظاہرہ ہمیں آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ ؐ نے سفاہت کا مقابلہ سفاہت سے نہیں اور ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیا بلکہ انتہا درجہ کا کمال صبر کیا اور اپنا معاملہ اپنے بھیجنے والے پیارے خدا پہ چھوڑ دیا بلکہ اسوقت کے مسلمانوں کو بھی تلقین کی کہ صبر سے کام لیں آپ ؐ نے مکی زندگی میں کیسے صبر کا مظاہرہ کیا اور اپنے دشمنوں سے کیسا سلوک کیا اس کی مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے:
’’قریش نے مکہ کے اوباشوں اور خود سر لوگوں کو اکسایا کہ جسطرح بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ کرتے رہیں چنانچہ اس انگیخت میں آکر شہر مکہ کے آوارہ مزاج لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ ؐ کے سامنے بھی اور پیچھے بھی طرح طرح کی بکواس کرتے جس کی غرض سوائے دل دکھانے کے اور اشتعال پیدا کرنے اور فساد برپا کرنے کے کچھ نہ تھی جو لوگ آپؐ کے پڑوس میں رہا کرتے تھے ان کا معمول تھا کہ آپؐ کے گھر پتھر پھینکتے گھر کے اندر گندی اور بدبودار چیزیں رکھ دیتے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان چیزوں کیوجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی تو خوش ہو کر ہنستے اور قہقہے لگاتے ایک دفعہ ایک شخص نے نہایت گندی اور متعفن چیز آپؐ کے گھر پھینک دی آپؐ خود اسے اٹھا کر باہر لائے اور فرمایا:
’’اے عبد مناف! یہ تم اچھا ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہو۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین صفحہ 162)

اب اس واقعہ میں دیکھیں کہ کیسا اپنے دشمنوں سے حسن سلوک ہے دشمن گندی اور متعفن چیزیں گھر میں پھینک رہے ہیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر کوئی لڑائی نہیں کی کوئی ہنگامہ نہیں کیا کوئی فساد برپا نہیں کیا کیونکہ آپؐ کو یقین تھا کہ آپؐ کو خدائے بزرگ و برتر نے رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ بنا کر بھیجا ہےاور جو سراپا رحمت ہو وہ ہنگامے اور فساد نہیں کیا کرتا وہ ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیا کرتا آپؐ نے صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور تکلیف دینے والوں کو صرف باہر آ کر یہ کہا اے بنو عبد مناف! یہ تم اچھا ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہو یہ ہمارے پیارے نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی بلند شان ہے کہ ایسا حسن سلوک کیا۔

دوسرا واقعہ بھی بہت ہی پیارا اور ایمان افروز ہے سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ نمبر 162 پہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بجائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےمذمم یعنی بدنام اور مذمت شدہ کہہ کر پکارا جائے چنانچہ کچھ عرصہ تک مکہ میں اس نام کا چرچا رہا اور قریش کو اتنی شرم نہ آئی کہ جس کو دعوی نبوت سے پہلے آمین کہہ کر پکارتے رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب انکے اس فعل کی اطلاع ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میرا نام تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے اور جس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہو وہ مذمم کیسے ہو سکتا ہے دیکھو خدا مجھے ان کی گالیوں سے کیسے محفوظ رکھتا ہے‘‘

اس واقعہ میں آجکل کے نام نہاد علماء کے لئے بھی ایک گہرا سبق ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کچھ بدبخت آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہیں کبھی خاکے بناتے ہیں اور کبھی کسے اور طرح کی گستاخی کا مرتکب ہوتے ہیں اور انکے مقاصد صرف یہ ہوتے ہیں کہ فساد اور شر پھیلے امن خراب ہو اور مسلمان اشتعال میں آئیں ہمارے مسلمان بھائی ایسے وقتوں میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاک اسوہ بھول جاتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گستاخی کرنیوالوں سے کیسا انتقام لیا جو گندی اور متعفن چیزیں پھینک جاتے تھے جو آپؐ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے نعوذ بااللہ مذمم کہتے تھے کیا یہ گستاخی نہیں تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان گستاخیوں کا کیسا جواب دیتے ہیں اپنے دشمنوں سے حسن سلوک کرتے ہیں اور فرماتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو وہ مذمم کیسے ہو سکتا ہے افسوس صد افسوس ہے کہ آج کے مسلمان آپؐ کا یہ پاک نمونہ بھول چکے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کامل فراموش کر چکے ہیں بد بخت گستاخی کرتے ہیں تو مسلمان جوش میں آجاتے ہیں اور جوش میں آکر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور فتوے جاری ہوتے ہیں کہ گستاخی کرنے والے کو قتل کر دیا جائے سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں ہڑتالیں کی جاتی ہیں توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے میرے پیارے بنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے موقعوں پہ کامل نمونہ ہمارے سامنے ہے آج پھر ہم نے اسی کامل نمونے کو سامنے رکھنا ہےجو آج سے چودہ سو سال قبل ہمارے آقا دوجہاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی کرنیوالوں کے ساتھ روا رکھا تھا آج وہی برتاؤ ہم نے آپؐ کے موجودہ دور کے دشمنوں سے کرنا ہے جو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ جماعت احمدیہ مسلمہ خلیفة المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے کر رہی ہے جہاں تک گستاخی کرنے والوں کی بات ہے تو یہ قرآن پاک کی پیشگوئی ہے کہ ظالم ایسی حرکتیں کرتے رہیں گے جن سے تمہیں دکھ پہنچتا رہے گا۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے جو مشرک ہیں بہت دکھ دینے والا کلام سنو گے اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ یقیناً بہت بڑے کاموں میں سے ہے۔

(آل عمران: 187)

اب دیکھیں! اللہ تعالیٰ خود آل عمران کی آیت 187میں فرما رہا ہے بلکہ پیشگوئی کے رنگ میں فرمان الٰہی ہے کہ تم غیر مسلموں سے دکھ دینے والا کلام سنو گے انکی طرف سے گستاخیاں ہو نگی لیکن تم نے کیا کرنا ہے صبر کرنا ہے اور خدا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہےیہ ہمت کے کاموں میں سے ہے چونکہ اس کے پہلے مخاطب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپؐ پر قرآن نازل ہوا تو سب سے پہلے آپؐ نے اس پر عمل کر کے دکھایا جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ آپؐ کو مذمم کہا گیا گستاخی کی گئی لیکن آپؐ نے صبر کیا اور دشمنوں سے حسن سلوک کیا آج یہی نمونے ہم سب کو دکھانے کی ضرورت ہے اور دکھانے چاہیے کیونکہ قرآن پاک میں ہے:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ

(الاحزاب: 22)

ترجمہ:تمہارے لیے اللہ کے رسول ایک اعلی نمونہ ہیں۔

یہی تعلیم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو دی کہ اگر دشمن تم پرظلم کریں تو پہلی بات یہ ہی ہے کہ تم نے صبر کرنا ہے مکی زندگی آپ کے سامنے ہے ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

روایت میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض دوسرے اصحاب کرام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ قریش مسلمانوں کو اتنی تکلیفیں پہنچا رہے ہیں آپؐ ان کے لئے بددعا کیوں نہیں کرتے آپؐ یہ الفاظ سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور آپؐ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا:
’’دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا مگر وہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے اور وہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کے جسموں پر آرا چلا کر دوٹکرے کر دیا گیا مگر ان کے قدموں میں لغزش تک نہ آئی دیکھو خدا اس کام کو ضرور پورا کرے گا حتی کہ ایک شتر سوار صنعاء سے لے کر حضرموت تک کا سفر کرے گا اور اس کو سوائے خدا کے کسی کا ڈر نہ ہو گا مگر تم تو جلدی کرتے ہو۔

(بخاری باب علامات نبوت)

اب دیکھیں! اس حدیث مبارکہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام کو نصیحت فرمائی کہ دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے ان کے مظالم پر صبر دکھانا ہے۔

پھر اسی قسم کی ایک اور حدیث بحوالہ (نسائی تلخیص الصحاح جلد1 صفحہ152) میں بیان فرمودہ ہے کہ حضرت عبد الرحمان بن عوف مع چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! جب ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئی ہماری طرف آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن جب سے مسلمان ہوئے ہیں کمزور اور ناتواں ہو گئے ہیں پس یا رسول اللہؐ! ہمیں آپ ؐ اجازت دیں تو ہم کفار مکہ کا مقابلہ کریں تو آپ ؐنے فرمایا مجھے اللہ کی طرف سے عفو کا حکم ہے میں تم کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

بے شک ان دونوں حدیثوں میں صبر کا مضمون ہے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی اشارہ ہے کہ دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کر نا ہےاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

خاکسار نے یہ دونوں حدیثیں اس لئے بیان کی ہیں کہ آج کل کے مسلمان اس سے سبق حاصل کریں کیونکہ آج کل کے نام نہاد مسلمان اسلام دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں یا ایسا سلوک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ سر تن سے جدا کر دیں اور کہتے ہیں جو بھی گستاخی کا مرتکب ہو اسکا سر تن سے جدا کر دو اور اسلام دشمنوں کو قتل کر دو حالانکہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن

جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تین طرح کے تھے:

  1. کفار مکہ
  2. مدینہ کے یہود
  3. منافقین کا گروہ

1۔ کفار مکہ

اس کی مثالیں تو اوپر آچکی ہیں کہ جب آپؐ نے دعوی نبوت فرمایا تو یہ لوگ آپؐ کے جانی دشمن بن گئے ہر طرح سے آپؐ کو اذیت دی گئی اور آپؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا عفوودرگزر کا سلوک کیا آپ ملاحظہ کر چکے ہیں ایک اور واقعہ بھی اس مضمون پہ روشنی ڈالتا ہے جب آپؐ نے تبلیغ کی خاطر طائف کا سفر کیا یہ شوال دس نبوی کا واقعہ ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے وہاں آپؐ نے دس دن تک قیام فرمایا اور شہر کے بہت سے روٴسا سے ملاقاتیں کیں مگر سب نے انکار کر دیا اور آپؐ کی ہنسی اڑائی اور شہر کے رئیس اعظم عبد یا لیل نے تو شہر کے آوارہ آدمی آپؐ کے پیچھے لگا دئے جب آپ صلی اللہ شہر طائف سے نکلے تو یہ آوارہ شور کرتے ہوئے آپؐ کے پیچھے ہو گئے اور آپؐ پر پتھر برسانا شروع کر دئے جس سے آپؐ کا بدن مبارک خون میں تر بتر ہو گیا اور برابر تین میل تک یہ بدبخت آپؐ پر پتھر برساتے رہے اور گالیاں دیتے ہوئے چلے آئے ایسے ظلم پر خدا تعالیٰ کی غیرت آپؐ کے لئے جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو آپؐ کے پاس بھیجا اس نے عرض کیا اگر ارشاد ہو تو یہ دونوں پہاڑ ان لوگوں پر گرا کر ان کا خاتمہ کر دوں اب ان کی قسمت کا فیصلہ خدا کے اس پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا لیکن آپؐ نے جواب میں فرمایا نہیں نہیں ہر گز نہیں مجھے امید ہے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ انہی میں سے وہ لوگ بھی پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی پرستش کریں گے۔

لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلَیْکَ الصَّلَاةُ عَلَیْکَ السَّلَام

(از بخار دل)

اب دیکھیں! اس واقعہ میں دشمنوں سے حسن سلوک کا کتنا شاندار نمونہ ہے کہ آپؐ کے ایک اشارے پر فرشتے حکم بجا لانے کو تیار ہیں اور آپؐ کے حکم کے منتظر ہیں لیکن آپؐ نےلہولہان ہوتے ہوئے بھی ان بدبخت دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اجازت نہیں دی۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ

2۔ مدینہ کے یہود دشمن اور آپؐ کا حسن سلوک

مدینہ میں داخل ہونے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تینوں قبائل بنو قینقاع۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ سے امن اور صلح کا معاہدہ کیا لیکن یہودیوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمدہ سلوک کے باوجود معاہدے کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اپنے فطری حسد تعصب اور بغض میں ترقی کرتے چلے گئے اور قدم قدم پر شرارت بغاوت اور شقاوت کے وہ نمونے دکھائے جو انہیں کا خاصہ تھا اور یہ یہود مدینہ میں آستین کا سانپ ثابت ہوئے۔

بنو قینقاع کی دشمنی اور آپؐ کا حسن سلوک

بنو قینقاع در پردہ مسلمانوں سے سخت تعصب رکھتے تھے جنگ بدر کی فتح کے بعد حسد اور بغض اور شرارتوں پہ مزید اتر آئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شرارتوں پہ تنبیہ کی تو انہوں نے اظہار ندامت کی بجائے یہ دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پر غرور نہ کرو جب ہم سے مقابلہ ہو گا تو لگ پتا جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں گویا امن اور صلح کے معاہدے کے باوجود اعلان جنگ کر دیا اور پہلی بار یہود اور اسلام کی طاقتیں آمنے سامنے تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ دن تک محاصرہ جاری رکھا اور بالآ خر یہود کا سارا غرور ٹوٹ گیا اور انہوں نے اس شرط پر قلعہ کے دروازے کھول دئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہو جائیں گے مگر ان کی جانوں اور انکے اہل و عیال پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہو گا یہ شرط یہودیوں کی پیش کردہ تھی اور فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا نیز موسوی شریعت کی رو سے یہ سب واجب القتل تھے لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط منظور فرما کر دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کا ثبوت دیا اور انہیں امن و امان کے ساتھ مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا

(روزنامہ الفضل 25جون 2004ء)

بنو نضیر کی دشمنی اور آپ ؐکا حسن سلوک

بنو قینقاع کی جلا وطنی کے بعد یہود کے باقی دو قبائل عبرت حاصل کرنے کی بجائے شرارت میں ترقی کرتے چلے گئے حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بھی باندھا جس کی اطلاع بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دی جب ان کی شر انگیزیوں کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تو بنوقینقاع کی طرح وہ بھی جنگ پر آمادہ ہو گئے اور قلعہ بند ہو گئے مسلمانوں نے پندرہ دنوں تک محاصرہ جاری رکھا آخر بنو نضیرنے مرعوب ہو کر اس شرط پر دروازے کھول دئے کہ ہمیں اپنا سازوسامان لے کر امن و امان کے ساتھ جانے دیا جائے اور یہ وہ شرط تھی جو آپؐ نے جنگ سے پہلے پیش کی تھی جس کو بنو نضیر نے نہایت شوخی کے ساتھ رد کر دیا تھا لیکن اب حالات مختلف تھے صورتحال مکمل طور پہ مسلمانوں کے کنٹرول میں تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود ان کی اس شرط کو مان لیا اور ان کو بحفاظت مدینہ سے نکل جانے کی اجازت عطا فرمائی چنانچہ بنو نضیر بڑے ٹھاٹھ اور شان و شوکت کے ساتھ اپنا سازوسامان لے کر مدینہ سے نکلے یہ یہودیوں کی دوسری بڑی عہد شکنی اور غداری تھی لیکن اس کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خطرناک دشمنوں کی جان بخش دی۔

(روزنامہ الفضل 25جون 2004ء)

بنو قریظہ کی غداری اور ان سے بھی حسن سلوک

بنو نضیر کے ساتھ جب جنگ ہوئی تو انہوں نے عہد شکنی کی اور بنو نضیر کی اعانت کی غزوہ خندق میں بھی انہوں نے غداری کی بلکہ عہد شکنی بھی کی ان بدبخت یہودیوں نے آپؐ کو گالیاں دیں اور ازواج مطہرات کے متعلق بھی بدزبانی کی آخر مسلمانوں نے ان کےقلعوں کا محاصرہ کیا جب محاصرہ لمبا ہوا تو انہوں نے تنگ آکر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حکم بنایا قلعوں سے نکلنے پر آمادگی ظاہر کی ان کی بد بختی یہ تھی کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکم نہ مانا جو سب انسانوں سے زیادہ رحیم و کریم تھے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ نے سخت فیصلہ کیا مگر اس موقع پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں سے حسن سلوک کی بہترین مثال قائم فرمائی بنو قریظہ کے کھانے کے لئے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا یہی نہیں بلکہ آپؐ وہاں کھڑے رہے تاکہ اگر کسی کی طرف سے رحم کی اپیل ہو تو آپؐ فوری طور پہ فیصلہ کر سکیں اسوقت جس شخص کی بھی سفارش آپؐ کے پاس آئی آپؐ نے فورًا معاف فرما دیا۔

(روزنامہ الفضل 25جون 2004ء)

3۔ منافقین اور ان سے آپ ؐ کا حسن سلوک

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا تیسرا گروہ اور سب سے زیادہ خطرناک منافقین کا تھا جو بظاہر تو مسلمان تھے لیکن در پردہ آپؐ کی جان کے درپے اور اسلام کی جڑیں کا ٹنے کی کوشش میں تھے ان منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول کے ساتھ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسا سلوک کیا اس کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے وہ در پردہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور حسد اور بغض کی آگ میں جلتا رہتا تھا اور ہر موقع پر اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ایک واقعہ اس کی گستاخی کا تحریر کرتا ہوں۔

(بحوالہ روزنامہ الفضل 25 جون 2004ء)

ایک مرتبہ اس نے برملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! آپؐ مجھے اجازت دیں میں اس فتنہ پرداز کی گردن اڑا دوں آپؐ نے فرمایا عمر جانے دو کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ لوگ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا پھرتا ہے اس واقعہ کی اطلاع جب عبد اللہ بن ابی کے بیٹے کو ہوئی جو بڑامخلص مسلمان تھا وہ گھبراتا ہوا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ؐ! میں نے سنا ہے کہ آپؐ میرے باپ کی گستاخی اور فتنہ پردازی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں اگر آپؐ کا یہی فیصلہ ہے تو آپؐ مجھے حکم فرمائیں میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپؐ کے قدموں میں لا ڈالتا ہوں آپؐ نے اسے تسلی دی اور فرمایا ہمارا ہر گز یہ ارادہ نہیں بلکہ ہم بہرحال تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے۔

کتنا عجیب واقعہ ہے کہ بیٹا اپنے منافق باپ کو قتل کرنے کو تیار ہے لیکن آپؐ نے اپنے اس منافق دشمن سے بھی حسن سلوک کیا اور اس دشمن کو بھی معاف کر دیا۔

ثمامہ بن اثال دشمن اسلام اور اس کے ساتھ حسن سلوک

ثمامہ بن اثال یمامہ کا رہنے والا تھا اور قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک با اثر رئیس تھا وہ اسلام کی عداوت اور دشمنی میں اسقدر بڑھا ہوا تھا کہ ہمیشہ بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے درپے رہتا اس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔

(بحوالہ روزنامہ الفضل 25جون 2004ء)

مسلمانوں کی ایک پارٹی اسے قید کرکے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی تو آپؐ اسے پہچان گئے لیکن آپؐ نے ثمامہ کے ساتھ بھی حسب عادت نیک سلوک کیا جانے کا حکم دیا اور پھر اندرون خانہ تشریف لے جا کر حکم دیا جو کچھ کھانے کے لئے تیار ہو باہر ثمامہ کے لئے بھیجو اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ثمامہ کو کسی دوسرے مکان میں قید کرنے کی بجائے مسجد نبوی کے صحن میں کسی ستون کے ساتھ باندھ کر قید کیا جائے آپؐ کی اس سے غرض یہ تھی کہ تا آپؐ کی مجالس اور مسلمانوں کی نمازیں ثمامہ کے سامنے منعقد ہوں تاکہ اسکا دل روحانی نظاروں سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف مائل ہو جائے ان دنوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز صبح کے وقت ثمامہ کے قریب تشریف لے جاتے اور حال پوچھ کر دریافت فرماتے ثمامہ اب بتاؤ کیا ارادہ ہے ثمامہ جواب دیتا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قتل کر دو تو اسکا آپ کو حق ہے کیونکہ میرے خلاف خون کا الزام ہےلیکن اگر آپؐ احسان کریں تو مجھے شکر گزار پائیں گے اگر آپؐ فدیہ چاہیں تو میں فدیہ دینے کو تیار ہوں تین دن تک یہی سوال و جواب ہوتا رہا آخر تیسرے دن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ثمامہ کو کھول کر آزاد کر دو صحابہ نے فورا آزاد کر دیا ثمامہ جلدی جلدی مسجد سے نکل کر ایک باغ میں چلا گیا وہاں سے نہا دھو کر واپس آیا اور مسلمان ہو گیا اور آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسولؐ! ایک وقت تھا کہ مجھے آپؐ کی ذات سے اور آپؐ کے دین سے اور آپؐ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی لیکن آج مجھے آپؐ کی ذات اور آپؐ کا دین اور آپؐ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

وہ کیا چیز تھی جس نے ثمامہ کا دل جیت لیا اس کی آنکھیں کھول دیں اور اس کو یکسرتبدیل کر دیا یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک ہے اور آپؐ کے عفو و درگزر کا بے نظیر نمونہ ہی تھا۔

اپنے جانی دشمنوں قریش مکہ سے حسن سلوک

غزوہ احد کا واقعہ ہے کہ مکہ میں سخت قحط پڑا اور اہل مکہ خصوصا غرباء سخت تکلیف میں مبتلا ہوئے تو آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اطلاع ہوئی تو آپؐ نے ازراہ ہمدردی مکہ کے غرباء کے لئے اپنی طرف سے کچھ چاندی بھجوائی اس طرح آپؐ نے اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ آپؐ کا دل آپؐ کے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی ایک گہری اور حقیقی ہمدردی رکھتا ہے اور یہ کہ آپؐ کی مخالفت صرف عقائد اور خیالات کے ساتھ تھی نہ کے کسی انسان کے ساتھ۔ انسانوں کے ساتھ تو آپؐ سراپا رحمت ہی رحمت تھے۔

اپنے صحابہ کو بھی دشمنوں سے حسن سلوک کی تلقین

جب ثمامہ بن اثال مسلمان ہوا تو اسنے قریش کے مظالم کے خلاف طبعی جوش میں قریش مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے قسم کھائی کہ آئندہ یمامہ کے علاقہ میں تمہیں غلہ کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہیں دیں گے اپنے وطن پہنچ کر اس نے واقعی مکہ کی طرف سے قافلوں کی آمد روک دی جسکی وجہ سے قریش مکہ سخت تکلیف میں مبتلا ہوئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آہ و بکا کی اور رحم کے طالب ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کو ہدایت بھجوائی کہ قریش کے ان قافلوں کی جن میں اہل مکہ کی خوراک کا سامان ہو روک تھام نہ کی جاوے یوں اہل مکہ کو اس سے نجات ملی یہ وہی اہلیان مکہ تھے جنہوں نے آپؐ کو اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا تھا اور تیرہ سال تک مسلمانوں کو سخت تکلیفیں دیں اور بالآخر ان کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کیا تھا حتی کہ مدینہ میں بھی انکا پیچھا نہیں چھوڑا بلکہ مسلسل حملے جاری رکھے کیا یہ واقعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب انسانوں سے زیادہ رحیم و کریم ہونے کا ثبوت نہیں۔

(روزنامہ الفضل 25 جون 2004ء)

زہر دینے والی عورت کو معافی

فتح خیبر کے موقع پر یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ایک سریع الاثر زہر بہت بڑی مقدار میں ران کے گوشت میں پکا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بن مشکم کی بیوی زینب کے ذریعہ تحفہ بھجوایا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کھانا پیش کیا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ آپؐ کو زہر کا احساس ہو گیا ایک صحابی حضرت بشر رضی اللہ تعالیٰ نے نوالہ نگل لیا اور کچھ عرصہ بعد وہ اس زہر کے اثر سے شہید ہو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت اور دوسرے یہودیوں کو بلایا اور پوچھا کہ اے یہودیو سچ سچ بتاؤ تم نے زہر کیوں ڈالا وہ عورت کہنے لگی ہم نے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو یہ زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر سچے نہیں تو ہمیں آپؐ سے نجات مل جائے گی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جلال سے فرمایا خدا تعالیٰ تمہاری تمام کوششوں کے باوجود میرے قتل کی طاقت تمہیں نہیں دے گا۔

(السیرة المحمدیہ صفحہ 328)

پھر بخاری میں بھی اس زہر کے متعلق آتا ہے:
’’جب مرض الموت میں آپؐ آخری سانسیں لے رہے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا ہوں جو مجھے یہودیوں نے دیا تھا اور اب بھی میرے جسم میں اس زہر کی جلن اور کٹاؤ کی کیفیت ہے۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا کرتے تھے جس زہر نے آپؐ کو ساری زندگی تکلیف دی آپؐ کا سلوک دیکھیں آپؐ نے اس عورت کو بھی معاف کر دیا۔

طائف کے ایک دشمن کو معاف کر دیا

طائف کا ایک دور تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تبلیغ اسلام کے لئے گئے تو آپ کو لہولہان کر دیا گیا اور دوسرا دور وہ آیا کہ آٹھ ہجری میں طائف اسلام کی قوت سے مرعوب ہو چکا تھا چنانچہ اہل طائف کا ایک وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اس وفد کا رئیس عبد یا لیل تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی دفعہ طائف میں قدم رکھا تھا تو یہی عبد یا لیل آپؐ کی ایذا رسانی میں پیش پیش تھا اور آج وہی ایک وفد کا رئیس جھکی ہوئی گردن اور جھکی ہوئی آنکھ کے ساتھ حاضر دربار تھا لیکن کیا معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بد تہذیب دشمن کے ساتھ کیا برتاؤ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے دنیا کے سب سے مقدس مقام مسجد نبوی میں اتارا صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھیوں کو بھی صحن مسجد میں خیمے گاڑ کے دئے اور یہ لوگ بلاتامل اس میں ٹھہرائے گئے ان کے ساتھ بے حد لطف کرم کا برتاؤ کیا گیا جب اس وفد کے لئے آپؐ نے خیمے نصب کرائے تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ!یہ پلید مشرک قوم ہے مسجد میں ٹھہرانا مناسب نہیں آپؐ نے فرمایا اس آیت میں دل کی پلید گی کی طرف اشارہ ہے جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں اور نہ کوئی انسان ان معنوں میں پلید ہے کیونکہ سب انسان پاک ہیں اور وہ ہر مقدس سے مقدس جگہ پر جا سکتے ہیں۔

(احکام القرآن جلد3 صفحہ901)

اب دیکھیے! اس واقعہ میں آپؐ نے اپنے اس دشمن کو معاف فرما دیا جس کے اشارہ پہ آپؐ لہولہان کئے گئے تھے یہ ہے آپؐ کا سلوک اہنے دشمنوں کے ساتھ پھر اس واقعہ میں ایک اور سبق بھی ہے کہ جب صحابہ نے غلط فہمی سے یہ سمجھ لیا کہ مشرکین پلید ہیں انکو مسجد میں نہ آنے دیں تو آپؐ نے صحابہ کرام کی یہ غلط فہمی بھی دور کی کہ اس سے مراد جسموں کا پلید ہونا نہیں سب انسان پاک ہیں اور ہر مقدس جگہ پہ جا سکتے ہیں اس بات سے مسلمانوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے جو مسلمان ہو کر بھی دوسرے مسلمان کو مسجد میں آنے نہیں دیتے ایک فرقہ دوسرے فرقہ سے اسقدر بغض و عناد رکھتا ہے کہ اس کے قدم بھی اپنی مسجد میں پڑنے نہیں دیتا ہمارے محسن نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو ہر گز یہ نہیں۔

اب میں آخر میں فتح مکہ کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کس طرح آپؐ نے اپنے جانی دشمنوں کو معاف فرمایا جنہوں نے تیرہ سال تک آپؐ کو دکھ دئے آپؐ کے پیاروں کو شہید کیا یہاں تک کہ آپؐ اور آپکے جانثاروں نے وطن چھوڑ دیا آج تو ان سارے دکھوں اور تکلیفوں کے بدلہ کا دن تھا لیکن جس نے بدلہ لینا تھا وہ تو محسن انسانیت تھا وہ تو رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ تھا وہ تو سراپا رحمت تھا اس دن آپؐ نے کیا کیا۔

’’جب آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور تمام مخالف آپؐ کے قابو میں آگئے تو آپؐ نے لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوُمِ فرما کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا یہ وہ ہی لوگ تھے جو آپؐ کے عزیزوں اور جانثاروں کے قاتل تھے آپؐ کے جانثار صحابہ کرام کو سخت اذیتیں دیا کرتے تھے پاک دامن مسلمان عورتوں سے بھیانک سلوک کرنے والے تھے آپؐ سے جنگیں کرنے والے تھے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام کو وطن سے نکالنے والے تھے غرض یہ لوگ اپنے گھناؤنے جرائم کیوجہ سے واجب القتل تھے کوئی ان کی سفارش کرنے والا نہ تھا لیکن آپؐ نے لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمِ کہہ کر ان سب کو معاف فرما دیا اس بے نظیر معافی کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ہاں حضرت یوسف علیہ لسلام نے یہ لفظ کہے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انکے سامنے ان کے بھائی کھڑے تھے جن کی سفارش کرنے والے ان کے پیارے ماں باپ موجود تھے یہ واقعہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انسانوں سے زیادہ رحیم و کریم ہونے اور آپؐ کے محسن انسانیت ہونے کی قیامت تک گواہی دیتا رہے گا۔‘‘

(روزنامہ الفضل 25 جون 2004ء)

حضرت مسیح موعودؑ کا بیان
بابت آنحضرتؐ کا دشمنوں سے حسن سلوک

حضرت مسیح موعودؑ آپؐ کے اخلاق فاضلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو کہ تلوار انسان کے ظاہر کو فتح کر سکتی ہے مگر دل کبھی تلوار سے فتح نہیں ہوتے بلکہ وہ وہ انوار تھے جن میں خدا کا چہرہ نظر آتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو ایسے ایسے خارق عادت نشانات دکھائے تھے کہ خود خدا انکے سامنے آ موجود ہوتا تھا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال اور جبروت کو دیکھ کر گناہ سوز زندگی چھوڑ دی تھی اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی تھی۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 589)

حضرت مصلح موعودؓ کا فرمان
آنحضرتؐ کا دشمنوں سے حسن سلوک

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ دشمنوں اور مخالفوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر روشنی ڈالتے ہیں:
’’دیکھنا ان کفار مکہ میں سے کسی عورت کو نہ مارنا کسی بچے کو نہ مارنا کسی پنڈت پادری یا راہب کو نہ مارنا باغات نہ جلانا معبد نہ گرانا پھل دار درخت نہ کا ٹنا جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرنا جس نے تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہوں زخمی کو نہ مارنا کسی کو آگ کا عذاب نہ دینا کفار کا مثلہ نہ کرنا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 23)

اس سے نتیجہ نکالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ مسلمانوں کی کمان ہی نہیں بلکہ کفار کے لشکر کی بھی کمان کر رہے تھے انہیں بھی مسلمانوں کے حملوں سے بچا رہے تھے اس سے زیادہ دشمن پر کیا احسان کیا جا سکتا ہے غرض یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور احسانات ہی تھے جن کی بدولت عرب کے اجڈ بےباک اور بے دھڑک لوگ آپؐ کے مطیع اور غلام بن گئے۔

اختتام

آخر پہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق زندہ کرنے کی توفیق دے اور آج جو اسلام کے نام پہ دہشت کردی جاری ہے اسکا جلد تر خاتمہ ہو ہم دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ اسلام پر سے یہ داغ دھل جائے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو اپنا کر جو آپؐ نے دشمنوں کے ساتھ دکھائے ان نمونوں پہ چل کے جو آپؐ نے ہمارے سامنے رکھے ہم اس دنیا کے دل جیتنے والے ہوں جیسا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیتے تھے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ

(ترصد عنایت مہر۔ ہالینڈ)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین ستمبر 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ