• 8 جولائی, 2025

وسعت حوصلہ

ارشاد خداوندی ہے:

وَسَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَجَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۙ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾

(آل عمران: 134-135)

اور اپنے ربّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین پر محیط ہے۔ وہ متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

(یعنی) وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا وہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو خداوند کی صفات میں رنگین کرے اور اسے وہ تمام طاقت اور اہلیت دے دی جس کے ساتھ وہ اپنے خدا کی صفات کا کچھ حصہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے اور کسی حد تک انسان ان صفات عالیہ کے رنگ ظاہر بھی کرتا ہے مثلاً ہمارا خدا رب العالمین ہے تو انسان بھی ایک محدود دائرے میں اپنے گھر کا رب البیت کہلاتا ہے اور بعض اوقات اس دائرہ کو وسیع کر کے اپنے شہر میں اپنے ملک کا نگران (رب) بن جاتا ہے۔ اسی طرح رحم اور غضب کی صفات کا بھی وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا رب بہت وسیع حوصلہ رکھتا ہے۔ زمین آسمان کی تمام مخلوق کا خالق اور مالک ہے۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق رزق دیتا ہے۔ اس کی روحانی اور جسمانی ترقیات کے سب سامان پیدا کیے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ اپنے رب کے وجود سے ہی منکر ہیں صرف منکر ہی نہیں بعض بد بخت تو اسے گالیاں بھی دیتے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء و رسل کی نہ صرف تضحیک کرتے بلکہ ان کو مارنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ حالانکہ ان انبیاء کو اس نے انہی کی روحانی ترقی کے لیے مبعوث کیا تھا۔ خدا تو ان لوگوں کی گالیاں سنتا اور خاموش رہتا ہے بلکہ صرف خاموش نہیں رہتا اپنی رحمت سے ان کو برابر نوازتا رہتا ہے اور رزق کے بھی سارے سامان عطا فرماتا ہے۔ ہم نے اس اعلیٰ صفات کے خدا کو قبول کیا ہے تو اس کا ہم سے یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے حوصلے بلند کریں اور ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا ٹارگٹ اپنا لائحہ عمل بنائیں۔ اس غرض کے حصول کے لیے ہمیں یہ نصیحت کی گئی تھی کہ

؎گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

یہی وہ صفات ہیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا ہے۔

فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوۡا وَمَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ

(آل عمران: 147)

پھر وہ ہرگز کمزور نہیں پڑے اس مصیبت کی وجہ سے جو اللہ کے رستے میں انہیں پہنچی اور انہوں نے ضُعف نہیں دکھایا اور وہ (دشمن کے سامنے) جھکے نہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

لیکن یاد رہے کہ ہمت اور یہ حوصلہ اچانک پیدا نہیں ہوتا اس کے لیے خدا نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو اور خاص طور پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنا کر کھڑا کیا اور پھر ان کی صحبت میں آکر ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ نے بھی صبر و استقامت کے وہ نمونے دکھائے جس کے آگے پہاڑ بھی پست نظر آتے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اولاد کو بچپن سے ہی ایسے حوصلہ مند بنائیں کہ بڑی سے بڑی آفت اور مصیبت بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ پیدا کر سکے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’تیسری چیز وسعت حوصلہ ہے بچپن ہی سے اپنی اولاد کو یہ سکھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی نے تھوڑی سی کوئی بات کہی ہے یا تمہارا نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور حوصلے کی یہ تعلیم بھی صرف زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے۔‘‘

(26 فروری 2020ء)

یہ وہی عملی نمونہ ہے جو سب سے بڑھ کر انبیاء دکھاتے ہیں اور پھر سب انبیاء سے بڑھ کر ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ نے نجران کی بنی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کے کنارے بہت موٹے تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اور آپ کو بڑی سختی سے کھینچنے لگا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کی رگڑ کے ساتھ آپ کی گردن پر خراشیں پڑ گئیں پھر وہ کہنے لگا کہ آپ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دلوائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا کہ اسے بھی کچھ دے دو۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب کان النبی بعطی)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو اس زمانے کے امام ہیں انہوں نے اپنی آمد کا مقصد یوں بیان فرمایا:
’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق او رنرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اوروہ نور جو مجھے دیا گیاہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہِ راست پر چلاؤں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد15 صفحہ143)

حضرت عبداللہ بن سلامؓ ایک یہودی عالم تھے جن کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زید بن سعنہ کو ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو زید نے کہا۔ میں نے نبوت کی تمام علامات رسول کریمؐ کے چہرے میں پہچان لی ہیں سوائے دو علامتوں کے جو ابھی تک خود آزما کر نہیں دیکھیں۔ ایک یہ کہ اس نبی کا حلم ہرجاہل کی جہالت پر غالب آئے گا دوسرے جہالت کی شدت اسے حلم میں اور بڑھائے گی۔ زید آپؐ کے حلم کے امتحان کی خاطر اکثر جاکر آپؐ کی مجالس میں بیٹھتا۔ ایک روز رسول اللہؐ، علی بن ابی طالبؓ کے ساتھ باہر نکلے۔ ایک بدّو نے آکر بتایا کہ فلاں بستی کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں اور میں نے انہیں کہا کہ مسلمان ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہیں وافر رزق دے گا۔مگر ان پرتو قحط کی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ ترک اسلام نہ کردیں۔ اگر آپؐ پسند فرمائیں تو کوئی چیز ان کی امداد کے واسطے بھجوائیں۔ اس یہودی زیدنے موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا میں اتنے من غلہ بطور قرض خرید کر دیتا ہوں اورپھر اَسّی دینار کا غلہ خرید کر دے دیا۔ آپؐ نے اس شخص سےفرمایا کہ جلدی جاکر ان لوگوں کی حاجت پوری کرو۔قرض کی میعاد پوری ہونے سے دوتین دن قبل کا واقعہ ہے کہ رسول اللہؐ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جنازہ کے لئے نکلے۔یہودی قرض خواہ زید نے آپؐ کی چادر زور سے کھینچی یہاں تک کہ وہ آپؐ کے کندھے سے گر گئی۔زید نے غصے والا منہ بناکر سختی سے پوچھا کہ اے محمدؐ! تم میرا قرض ادا کرو گے بھی یا نہیں؟ خدا کی قسم! مجھے پتہ ہے کہ تم بنی مطلّب کی اولاد بہت ٹال مٹول سے کام لیتے ہو۔اس پر حضرت عمرؓ بن خطاب غصہ سے کانپ اُٹھے اوراس یہودی کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھ کر کہا اے اللہ کے دشمن کیاتو میرے سامنے خدا کے رسول کی اس طرح گستاخی کرنے کی جرأت کرتا ہے۔اگر مجھے رسول اللہؐ کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا۔

رسول اللہؐ نے نہایت وقار اور سکون سے یہ سب کچھ برداشت کیا اور پھرحضرت عمرؓ سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ اے عمرؓ ! ہم دونوں کو آپ سے اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت تھی۔آپ کو چاہئے تھا کہ مجھے قرض عمدگی سے ادا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے قرض مانگنے کا سلیقہ سکھاتے۔ اب آپ ہی جاکر اس کا قرض ادا کردو اور کچھ کھجور زائد دے دینا۔اس یہودی زیدکابیان ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے میر اقرضہ بے باک کرکے زائد کھجور بطور انعام دی۔ تو میں نے پوچھایہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا جوسخت کلامی میں نے تم سے کی تھی اس کے عوض یہ کھجور زائد ہے۔تب اس یہودی نے اپنا تعارف کروایا اور کہاکہ وہ زید بن سعنہ یہود کے ایک عالم ہیں۔حضرت عمرؓ نےاس سے رسول اللہؐ سے بدسلوکی کی وجہ پوچھی؟ تواس نے صاف صاف بتایا کہ دراصل میں نے رسول اللہؐ کی نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ایک حلم کا امتحان باقی تھا، سو اب وہ بھی آزمالیا ہے۔ پس اے عمرؓ ! اب میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ میرا نصف مال خدا کی خاطر وقف ہے۔اور میرا مال بہت زیادہ ہے جو میں امت محمدیہ کےلیے صدقہ کرتا ہوں۔ پھر حضرت عمرؓ اسے لے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زید نے کلمہ توحید و رسالت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس کا سارا خاندان بھی مسلمان ہوگیا۔ زیدؓ بن سعنہ ایمان لانے کے بعد کئی غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ شریک ہوئے۔

(مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر اسلام زید بن سعنہ جلد3)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے۔ (اُن کے چچا زاد تھے جو اسلام سے بھی برگشتہ تھے۔ وہ کسی کو مقرر کر دیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دو۔) چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ساری رات وہ شخص گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ (جس کو مقرر کیا گیا ہے، وہ آپ کے گھر کے سامنے کھڑا ہے، ساری رات اونچی اونچی گالیاں نکالتا چلا جا رہا ہے)۔ اور جب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو کہ یہ ساری رات گالیاں نکال نکال کے تھک گیا ہو گا۔ اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں حضرت صاحب کو کہتی کہ ایسے کمبخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے تو آپ فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔

(سیرت المہدی جلد دوم حصّہ چہارم روایت نمبر 1130 صفحہ نمبر102 جدید ایڈیشن)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آج کل مادیت کا زیادہ زور ہے یا کیا وجہ ہے؟ بے صبری کا اظہار زیادہ ہے صبر کم ہو چکا ہے لوگوں میں برداشت کم ہو چکی ہے کہ ذرہ ذرہ سی بات پر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ رنجشیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور پھر ان کی نوبت یہاں تک آتی ہے کہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں‘‘

(روزنامہ الفضل 7 جولائی 2011ء)

19 جون کو واقفین نو کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر برداشت ہے۔ برداشت آج کل بہت کم ہوتی چلی جا رہی ہے دنیا میں۔ اور صبر ہے یہ بھی آپ میں پیدا ہونا چاہئے تبھی آپ حقیقت میں فیلڈ میں جا کر اپنی خدمات کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل 8 جولائی 2011ء)

2011ءجلسہ سالانہ لندن کے موقع پر مستورات سے بصیرت افروز خطاب میں فرمایا:
بے صبری اور گندی زبان سے امن برباد ہو رہا ہے۔ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کو احترام دیں۔ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ بے صبری نہ ہو گی برداشت ہوگی تو تقویٰ سے رشتے قائم ہوں گے۔۔۔۔۔۔ بے صبری سے بچنا ہو گا۔برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی اور دخل اندازی بھی بند کرنی ہوگی۔ سچائی کا استعمال زیادہ کرنا ہو گا۔

(روزنامہ الفضل29 جولائی 2011ء)

پیارے حضور کے ان ارشادات کو آج اگر عالمی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو ہر طرف یہی مناظر نظر آتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں بے صبری دکھائی دیتی ہے۔ برداشت کم ہو گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ آجاتا ہے۔ صرف افراد ہی نہیں بلکہ سوسائٹیاں، جماعتیں، کمیونٹیاں حتی کہ حکومتیں بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔ انہی وجوہات سے سارا معاشرہ آج بد امنی کا شکار نظر آتا ہے۔ جس کی بدولت بڑے خطرناک نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔

حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ہمیں فرمایا کرتے تھے جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جایا کرے اگر غصّہ دور ہوجائے تو ٹھیک ورنہ وہ لیٹ جائے۔

(ابوداؤدکتاب الادب باب 4)

دھیما پن، صبر اور وسعت حوصلہ ایک بہت قیمتی ہتھیار ہے۔ جن کے ساتھ بڑے سے بڑے دشمن پر بھی فتح حاصل ہوتی ہے یہ ہنر آزمانے کے لائق ہے لیکن یاد رکھیں یہ دولت صرف دشمن میں تقسیم کے لیے نہیں بلکہ اس کا آغاز اپنے گھر سے کریں بچوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں پر لال پیلے ہو کر کوئی سزا نافذ کرنے کی بجائے پیار کا ہتھیار استعمال کریں۔ اسی طرح میاں بیوی آپس کی غلطیوں پر کوئی طوفان کھڑا کرنے کی بجائے وسعت حوصلہ سے کام لیں تو یقین کریں ہمارے گھر جنت بن جائیں گے۔ جب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں وسعت حوصلہ سے کام لے کر اپنے گھروں کے ماحول کو خوشگوار بنائیں گے تب ہم دنیا میں اپنے بڑے سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ جس کے نمونے ہمیں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلامان صادق کی زندگیوں میں نظر آتے ہیں۔ پس ہم دعا کرتے ہیں

رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۵﴾

(الفرقان: 75)

اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَاِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۴۸﴾

(آل عمران: 148)

اے ہمارے ربّ! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی بھی۔ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔ آمین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے متعلق خود فرماتے ہیں:
’’میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالىٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایاہے کہ اگر کوئى شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندى سے گندى گالى دیتا رہے۔ آخر وہى شرمندہ ہوگااور اسے اقرار کرنا پڑے گاکہ وہ میرے پاؤں جگہ سے نہ اکھاڑ نہ سکا‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ411 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

(محمد ادریس شاہد۔فرانس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ