تاریخ احمدیت کا ایک ورق
23 مارچ 1989ء کے تاریخی دن کی مصروفیات کی ایمان افروز یادیں
لندن کے احبابِ جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ انہوں نے 23 مارچ 1989ء کا بابرکات اور تاریخی دن اپنے محبوب امام سّیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے قدموں میں گذارا اور حضور کی بابرکت موجودگی کی وجہ سے صد سالہ جشنِ تشکر کی تقریبات کو اپنے پورے عروج پر دیکھنے کی سعادت پائی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ
اس دن کی ابتداءکیسےہوئی اور دن اختتام کوکیسے پہنچا؟ یہ ایک لمبی تفصیل ہے۔ مصروفیات کی بھی بھر مار تھی اور اس سے بھی بہت بڑھ کر قلبی جذبات اور کیفیات کی۔ مصروفیات اور تقریبات کا محور اور مرکز حضورِ انور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی تھی۔ وہ اس حمد اور عزم کے ترانے گانے والی بارات کے دولہا تھے۔ اِس مختصر مضمون میں حضور ہی کی مصروفیات کا کچھ تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
حضورِانور کے ہر روز کا آغاز تہجّد سے ہوتا ہے۔ دوسری صدی کے آغاز پر اس تہجد کی کیفیت کیا ہوگی یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم نے تویہ دیکھا کہ احبابِ جماعت مسجد فضل لندن میں اجتماعی نمازِ تہجد کے لئے اِس کثرت سے دُور دراز سے تشریف لائے کہ پہلے کبھی یہ نظارہ نہ دیکھا تھا۔ اجتماعی نمازِ تہجد پڑھانے کی توفیق خاکسار کو ملی۔ بعد ازاں جب حضورِ انور نمازِ فجر کی امامت کے لئے تشریف لائے تو آپ کے چہرہ پر ایک ناقابل بیان نُور اور روشنی تھی۔ گویا نئی صدی میں ہونے والی خدائی تجلّیات اور اس روز کی نمازِ تہجد کی خصوصی دعاؤں کا ایک ہلکا سا عکس چہرہ مبارک کو منور کئے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ سب سے پہلےمصافحہ کرنے اور دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنے کی سعادت اِس عاجزکو ملی اور پھر ان مبارکبادوں کا سلسلہ تو سارا دِن اس طرح جاری وساری رہا کہ گویا یہ دن مبارکبادوں کے لئے ہی بنایاگیا تھا۔
نمازِ فجر کی تلاوت میں ایک خاص کیفیت تھی جو دلوں کو پگھلانے والی تھی۔ شُکر کے جذبات آنکھوں سے اُبل اُبل کر بہہ رہے تھے۔ ہر دل سجدہ ریز تھا اور اللہ تعالیٰ کے دَر پر جُھکا ہوا مناجات میں مصروف ! حضور نماز سے فارغ ہوئے تو دوسری صدی کے سب سے پہلے نکاح کا اعلان فرمایا۔ یہ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب مرحوم کی بچی نیّرہ کا عبدالوحید خان صاحب سے تھا۔ حضور نے اسے صدی کا پہلا نکاح قرار دیتے ہوئے اس نکاح کے لئے بھی اور اس نئی صدی میں ہونے والے سب نکاحوں کے لئے اکٹھے ہی دعا کروا دی۔ گویا اس دعا میں صدی بھر میں ہونے والے نکاحوں کو شامل کر لیا گیا۔
حضورِ انور کا صد سالہ جشن کے متعلق خصوصی پیغام تو چند روز قبل جاری ہو چکا تھا اور ایک وسیع پریس کانفرنس بھی پریس سنٹر میں ہوچکی تھی۔ 23مارچ کے دن کی پہلی اجتماعی تقریب لوائے احمدیت کے لہرانے اور تقریبات کے آغاز کی تھی۔ گیارہ بجے مسجد فضل کے عین سامنے یہ تقریب منعقد ہوئی۔ مسجد فضل اور مشن ہاؤس کو خوبصورت قمقموں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے دُلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ احباب کی آمد صبح سے شروع تھی۔ حضور کے تشریف لانے پر وہاں گویا تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ حضورکے پیچھے جماعتِ احمدیہ برطانیہ کے عہدیداران، مرکزی نمائندگان، مبلغینِ کرام اور کارکنان کھڑے تھے۔ دائیں طرف اطفال اور ان کے پیچھے احباب، بائیں طرف ناصرات اور ان کے پیچھے مستورات، درمیان میں خوبصورت فوارہ کے دائیں بائیں لوائے احمدیت اور یونین جیک کے پول تھے۔ حضورتشریف لائے تو نعروں کا سیلاب امڈ آیا۔ حضور کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ حضور نے لوائے احمدیت لہرایا۔ ناصرات نے ترانہ پیش کیا۔ پھر یونین جیک لہرایاتو اطفال نے ترانہ پڑھا۔ اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی۔ یہ سادہ پُر وقار اور جذباتی تقریب اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب حضور نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے۔ بہت پرُ سوز دعا ہوئی اور حضور نے سب کو مبارکباد دی۔ واقعی یہ دن عید سے کسی طرح کم نہ تھا۔
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ایک مصروف ترین دن تھا لیکن ان ساری مصروفیات کا احاطہ کرنا اور ان کو تحریر میں لانا کسی فردِواحد کاکام نہیں۔ باقی دنوں سے بہت زیادہ ملاقاتیں، ڈاک کی کثرت، ساری دنیا سے رابطے، فون اور پیغامات کی ترسیل اور نہ معلوم کیا کیا مصروفیات تھیں جن میں یہ دن بسر ہوا۔ ہر طرف گہماگہمی اور چہل پہل نظر آتی تھی۔ مشن کے احاطہ میں احبابِ جماعت مسرت وشادمانی سے منڈلا رہے تھے۔ محمود ہال میں نمائش لگی ہوئی تھی جو زائر ین کی توجہ کا مرکز تھی۔
نمازِ ظہر کے بعد جماعتِ احمدیہ لندن نے جوبلی کے سلسلہ میں جلسہ یومِ مسیح موعود علیہ السلام کا انعقاد کیا۔ جلسہ گاہ سامعین سے بھری ہوئی تھی۔ جلسہ کی صدارت پُرانے احمدی واقفِ زندگی انگریز مربی سلسلہ مکرم بشیر احمد آرچرڈصاحب نے کی۔ اس جلسہ میں مکرم منصور ساقی صاحب، مکرم بشیر احمد صاحب رفیق اور خاکسار نے تقاریر کیں۔ یہ ایک یادگار جلسہ تھا۔ نمازِ عصر کے بعد شام کی تقریب کی تیاری ہونے لگی۔ یہ اہم ترین تقریب لندن شہر کے ایک مشہور ترین ہوٹل GROSVENOR میں منعقد ہوئی جس میں غالباً حضرت مصلح موعود کے ساتھ بھی ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی تھی۔
یہ شام کے ڈنر کی تقریب تھی۔ ہال بہت قرینہ سے سجایا گیا۔ ملک کے عمائد ین جن میں ہاؤس آف لارڈز کے ممبران، ممبران پارلیمنٹ، وزراء، سفراء، میئرز، کونسلرز اور بے شمار معززین شامل تھے اس تقریب کے لئےتشریف لائےہوئےتھے۔ حضورِانور نے ان سب کا استقبال کیا۔ کھانے سے فارغ ہونے پر تقاریر ہوئیں۔ تلاوت کے بعد ابتدائی استقبالیہ تقریر مکرم آفتاب احمد خان صاحب امیر جماعت برطانیہ نے کی جس کے بعد لارڈ AVEBURY نے بہت عمدہ تقریر کی۔ اس کے بعد پٹنی کے ممبر پارلیمنٹ DAVID MELLOR نے تقریر کی۔ ان خطابات کے بعد حضورِ انور نے نصف گھنٹہ کا نہایت برجستہ اور زور دارخطاب فرمایا جوانتہائی موثر تھا۔ سامعین کے دلوں پر ایسا اثر تھا کہ میں نے متعدواحباب کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں دیکھیں اور یہ وہ لوگ تھے جو ابھی ا سلام کے نوُر سے منور نہ ہوئے تھے۔ لیکن ان لوگوں پر دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے اور دلوں کی گہرائیوں میں اُتر جاتے والے اس درد بھرے خطاب کا اثر بہت واضح تھا۔ خدائی تصرف اور تائید ونصرت کا ایک جلوہ تھا جوہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ بعد میں ایک معزز شخصیت نے مجھ سے ذکر کیاکہ میں نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے کلمہٴ حق اس جرأت اور دلیری سے عمائدین کی موجودگی میں اس وضاحت سے بیان کیا ہو۔ اس خطاب میں اگرچہ بعض اقوام کے کردار کے بعض حصوں پر تنقید بھی تھی لیکن ادب کے تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے پوری صراحت کے ساتھ سچی بات برسرِعام کہنے کی جرأت اور عظمت کو لوگوں نے بہت سراہااور دل کھول کر داد دی۔ سٹیج پر میرے ایک طرف برطانوی وزیر بیٹھے تھے اور دوسری طرف ایک ملک کے سفیر۔ ان دونوں کی کیفیت سارے سامعین کی کیفیت سے مختلف نہ تھی۔ وزیر موصوف نے آخر میں شکریہ ادا کرتے وقت اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔
23 مارچ کی اس شاندار تقریب کو حضورِ انور کے اس جلالی اور تاریخی خطاب نے اپنے عروج پر پہنچادیا۔ صدی کے آغاز پر ہونے والا یہ زوردار خطاب بار بار سُننے اور سنا نے والا ہے۔ میں نے اس سے زیادہ پراثر خطاب حضورِانورکی زبان مبارک سے اس سے پہلے نہ سنا تھا۔
اس تقریب کے ساتھ یہ دن تو اپنے اختتام کو پہنچا۔ اگلے روز 24 مارچ کو نمازِ جمعہ کا موقع بھی ایک یادگار اجتماع تھا۔ یہ جمعہ اسلام آباد (برطانیہ) میں ادا کیا گیا۔ برطانیہ کی اطراف سے بلکہ بعض غیر ممالک سے بھی احمدی اُمڈے آئے تھے۔ اسلام آباد میں ہر طرف رونق، چہل پہل اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ خطبہ جمعہ حضور انور نے ارشاد فرمایا۔ جرمنی اور ماریشس کی احمدی جماعتوں نے بھی سیٹیلائٹ کے ذریعہ اسی وقت یہ خطبہ سن لیا۔ یہ بھی اس نئی صدی کی ایک اضافی خوشی تھی جو نئی منزلوں کی نشان دہی کر رہی تھی۔ نمازوں میں سوزوگداز کی کیفیت بھی نا قابل فراموش تھی۔
عصر کے بعد اسلام آباد کے کُھلے میدان میں ایک پُر شکوہ تقریب منعقد ہوئی۔ وسیع میدان اپنی وسعت کے باوجود بھرا ہوا تھا۔ حضورِ انور رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔ سب سے پہلے برطانوی نژاد احمدی احباب کے ساتھ ایک گروپ فوٹو ہوا جس میں اس موقعہ پر موجود قریباً بیس (20) انگریز احمدیوں نے شمولیت کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں حضور نے جوبلی کی مناسبت سے اس عاجز کی درخواست پر اخروٹ کا ایک درخت اسلام آباد میں لگایا۔ پھر حضور احباب کے درمیان تشریف لائے اور ایک بلند سٹیج پر رونق افروز ہوئے۔ گلے میں خوبصورت ہار تھے۔ چہرہ خوشی سے روشن تر ہوگیا تھا۔ ہاتھ ہلاہلا کر حضور احباب کے پرجوش نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ اطفال اور ناصرات نےمارچ پاسٹ کیا حضورنے اس کا معائنہ فرمایا۔ پھر حضور تھوڑی دیر کے لئے مستورات اور ناصرات کے حصہ میں گئے۔ اطفال اور ناصرات نے خوبصورت جھنڈے اُٹھائے ہوئے تھے اور حمدو ثناء کے ترانےگائے جارہے تھے۔ جس ترانہ نے اس تقریب کا چار چاند لگا دئے وہ حضور انور کا اپنا کہا ہوا ترانہ احمدیت تھا۔ اگرچہ سالہاسال پہلے کا کہا ہوا تھا لیکن اس موقع پر ایسا فٹ بیٹھا کہ یوں لگتا تھا کہ خاص اس موقع کیلئے موزوں کیا گیا ہے۔ قادیان کےنوجوانوں نے اپنے خوبصورت الحان کے ساتھ اس ترانہ کو ایسے انداز میں پڑھا کہ ہر سننے والا دل وزبان کے ساتھ اس میں شامل ہوجاتا تھا۔ خود حضور نے یہ ترانہ ساتھ ساتھ دُہرایااور احباب بھی ساتھ شامل ہوگئے اور سارا ماحول حمدوثناء سے معطر ہوگیا۔ ایک ایسا نظارہ تھا، ایسی وجد آفریں کیفیت تھی جس کا نقشہ کھینچنا میرے بس کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اس موقع پر موجود ہونے کی سعادت دی اور اس کا یہ مختصر تذکرہ احباب جماعت اور تاریخ احمدیت کے لئےرقم کرنےکی بھی توفیق دی۔
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ مارچ1990ء)
(مولانا عطاءالمجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)