• 8 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 62)

باب حروف

آج سے ہم ایک نئے باب کا آغاز کررہے ہیں اور کوشش کریں گے کہ غیر ضروری تفصیل اور اصلاحات سے گریز کرتے ہوئے زبان سیکھنے کے اس سفر کو آسان اور دلچسپ بنائے رکھیں تاکہ قارئین دلچسپی نہ کھو دیں۔ اردو گرائمر کی مختلف مستند کتابوں میں اس باب کے مطالعہ کے بعد تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ باب زیادہ دلچسپ نہیں ہے اور اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیئے مگر اس کی افادیت کے پیش نظر اسے مختصر اور سادہ انداز میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُردو زبان میں حروف وہ الفاظ ہیں جو زمانہ tense یا فاعل کی جنس Gender اور تعداد Number وغیرہ بدلنے سے اپنی حالت نہیں بدلتے، جیسے کو، تک، جب وغیرہ۔ اس لئے انہیں مستقل یعنی Constant الفاظ کہا جاتا ہے۔ جیسے اس بندے کو یہ پیغام دے دو۔ اس خاتون کو یہ پیغام دے دو۔ سیلاب کا پانی اس شہریا ان شہروں تک پہنچ گیا۔ سیلاب کا پانی اس بستی یا ان بستیوں تک پہنچ گیا۔ ان مثالوں میں آپ نے دیکھا کہ مستقل حروف پر زمانے، جنس، اور تعداد کی تبدیلی کا اثر نہیں ہوا۔

حروف کی چار اقسام ہیں : ربط، عطف، تخصیص، فجائیہ

حروف ربط :یہ ایسے حروف ہیں جو دو الفاظ میں موجود تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ حروف ہیں : کا، کی، کے، نے، کو، سے، میں، تک پر۔ یہ حروف ربط مختلف کردار ادا کرتے ہیں جیسے یہ تین حروف کا، کی، کے کسی شے کی ملکیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا بچہ۔ اس کی کتاب۔ ان کے اعمال وغیرہ۔ جب کہ نے کسی کی حالت فاعلی یعنی Subjective sate کو ظاہر کرتا ہے جیسے زید نے مارا۔ بکر نے کھایا۔ لڑکوں نے وقار عمل کیا۔ انصار نے مدد کی وغیرہ۔ پھر تیسری قسم کے الفاظ ہیں کو، سے، میں، تک، پر جو کسی کی مفعولی حالت Objective state، اور انتقالی حالت Transferring stateکو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک شے یا انسان پر کام ہورہا ہے یا اس پر فلاں چیز اثر انداز ہورہی ہے۔ جیسے زید نے بکر کو مارا۔ استاد نے طلبا کو انعامات دیے۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے الفاظ ہیں جو حروف ربط کا کام دیتے ہیں۔ جیسے پاس، تلے، پیچھے، آگے، بن، بیچ، سمیت، اوپر، نیچے، باہر، لئے، ساتھ، سامنے، مارے۔

مثالیں: میرے پاس کچھ نقدی Cash ہے۔ ہمارے گھر کے پاس ایک مسجد ہے۔ وہ تھک کر ایک درخت تلے (کے سائے میں)بیٹھ گیا۔ چراغ تلے اندھیرا۔ ایک محاورہ ہے اس سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے جو روشنی، علم، یا اسباب و ذرائع کے بہت قریب ہونے کے باوجود ان سے فائدہ نہ اٹھاتا ہو۔ نادان، جاہل، پوشیدہ جہالت۔ اس محاورے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چراغ کا اپنا حجم چراغ کی روشنی کو روک کر اس کے انتہائی قریب کے علاقے کو تاریک رکھتا ہے یعنی بعض اوقات عالم فاضل لوگوں کی اپنی اولاد ان کی بے پناہ مصروفیت کے باعث نظر انداز ہوجاتی ہے اور علم حاصل نہیں کرتی۔

مارے: اس کے معنی ہیں سبب سے، وجہ سے یا کسی چیز کا شکار ہونا اور اکثر اس کے ساتھ ‘‘کے ’’ آتا ہے : شرم کے مارے، دھوپ کے مارے، ڈر کے مارے مصیبت کا مارا، مصیبت کے مارے، بھوک کے مارے۔ مثالیں: بھوک کے مارے میرابرا حال ہوگیا۔ ابا نے ڈانٹ دیا تو شرم کے مارے منہ سے ایک حرف بھی نہ نکلا۔ میں نے ایک فقیر دیکھا جانے وہ مصیبت کا مارا کہاں سے آیا تھا۔

اسی طرح بعض فارسی و عربی کے الفاظ بھی حروف ربط کا کام دیتے ہیں۔ جیسے بغیر، اندر، نزدیک، باعث، واسطے، سبب، سوا، طرح، نسبت، بجا، بجز، موجب، پیش، پس، قبل، گرد، درمیان۔

بعض حروف ربط دو دو مل کر ایک حرف کا کام دیتے ہیں اس کی وجہ تفصیل سے ایک صورت حال کو بیان کرنا ہے یعنی دو مختلف واقعات کو باہم جوڑ کر تسلسل میں بیان کیا جاتا ہے۔ جیسے وہ چھت پر سے گرپڑا۔ سانپ نالی میں سے نکل گیا۔ یعنی سانپ پہلے نالی میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے باہر نکل گیا۔ چینی اس ڈبے میں سے لے لو۔ چور دیوار پر سے کود گیا۔

حروفِ عطف

دو لفظوں یا جملوں کو ایک حالت میں ملا نے کے لئے جو حروف استعمال ہوتے ہیں انہیں حروف عطف کہا جاتا ہے۔ حروف عطف یہ ہیں : اور، کہ، یا، کر، و، نیز، بھی، پھر۔

حروف عطف کی اقسام: وصل، تردید، استدراک، استثنا، شرط، علت، بیانیہ

وصل: Synthesis

وصل یعنی ایک ہی تسلسل اور مضمون میں بیان ہونے والے الگ الگ جملوں کو باہم ملانے کے لئے اور، و، کہ، کیااستعمال ہوتے ہیں۔ مثالیں: وہاں امیر اور غریب سب تھے۔ ڈاکیا (پوسٹ مین) آیا اور خط دے کر چلا گیا۔ کیا وہ اور کیا تم دونو ایک ہیں۔ سائنس کا کہنا ہے کہ اشیاء کا وزن کشش ثقل کے باعث ہے۔

تردید :Synthesis of denial and choices

یعنی ایسے حروف جو کسی بات کے انکار میں کہے گئے یا تحریر کئے گئے جملوں کو باہم ملاتے ہیں۔ یہ حروف ایسے جملوں کو باہم ملاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں۔ یعنی دو میں سے ایک کا انتخاب دوسرے کی نفی کردیتا ہے۔ اس طرح یہ حروف ایسے جملوں کو بھی ملاتے ہیں جو مسلسل انکار ہی کررہے ہوتے ہیں یعنی دو یا دو سے زیادہ جملوں میں سے تمام جملے کسی کام کا نہ ہونا ہی بیان کرتے ہیں۔ ۔ حروف : نہ۔ ۔ نہ، خواہ، چاہے، یا۔ ۔ یا، نہ وہ آیا نہ تم آئے۔ مثالیں: نہ تم ہی بدلے نہ تمھارے حالات بدلے۔ خواہ انسان لاکھ کوشش کرے زندگی کے مسائل کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ چاہے رہو چاہے چلے جاؤ تمھاری مرضی۔ انسان ایک ہی کام کرسکتا ہے یا دین کو دنیا پر فوقیت دے لے یا پھر دنیاداروں میں شامل ہوجائے۔

استدراک Redress/ Comprehension/ Critical explanation :

حروف استدراک: پر، لیکن، بلکہ

But, However, Although, Nevertheless, yet :

یہ حروف جملوں میں پائی جانے والی مشکلات، مسائل اور اجنبیت کو دور کرتے ہیں۔ جملوں میں موجود شک وشبہ کو دور کرتے ہیں۔ یعنی جملے کے پہلے حصے میں مسئلہ بیان کیا جاتا ہے پھر یہ حروف: پر، لیکن، بلکہ وغیرہ آتے ہیں اور پھر اس مسئلہ کا حل یا وضاحت کی جاتی ہے۔ مثالیں: آپ کی بات درست ہے پر وہ نہیں مانتے۔ میں نے بہت وضاحتیں کیں لیکن انھوں نے ایک نہ مانی۔ ہمارے گھر میں ایک نہیں دو درخت ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں

یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہوگی کہ چالیس برس سے پہلے اکثر انسان پر ظلمت کا زمانہ غالب رہتا ہے کیونکہ سات آٹھ برس تو طفولیت میں ہی بسر ہوتے ہیں پھر پچیس چھبیس برس تک علمی تحصیلوں میں مشغول رہتا ہے یا لہو و لعب میں ضائع کرتا ہے اور پھر اس زمانہ کے بعد بباعث شادی ہونے اور بیوی بچہ ہوجانے کے یا یوں ہی طبعاً دنیا کی خواہشیں اس پر غلبہ کرتی ہیں اور دنیاوی مالوں اور عزتوں کے لئے طرح طرح کی خواہشیں اور امنگیں پیدا ہوتی ہیں اور لذتوں کے پورا کرنے کے لئے خیال افراط تک پہنچ جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع بھی کرے تو دنیا کی آرزوئیں کسی قدر ساتھ ہوتی ہیں۔ اگر دعا بھی کرے تو غالباً دنیا کے لئے بہت کرتا ہے اور اگر رووے بھی تو غالباً کچھ دنیا کے اغراض اس میں ملے ہوتے ہیں۔ معاد کے دن پر بہت کمزور ایمان ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو مرنے میں ابھی لمبا عرصہ معلوم ہوتا ہے اور جس طرح کسی نہر کا بند ٹوٹ کر ارد گرد کی زمین کو تباہ کرتا چلا جاتا ہے اسی طرح نفسانی جذبات کا سیلاب نہایت خطرہ میں زندگی کو ڈال دیتا ہے۔ اس حالت میں وہ معاد کے باریک باریک امور کا کب قائل ہوسکتا ہے بلکہ دینیات پر ہنستا اور ٹھٹھا کرتا ہے اور اپنی خشک منطق اور بیہودہ فلسفہ کو دکھلاتا ہے۔ ہاں اگر نیک فطرت ہو تو خدا کو بھی مانتا ہے مگر دل کے صدق اور وفا سے نہیں مانتا بلکہ صرف اپنی کامیابیوں کی شرط سے۔ اگر دنیا کی مرادیں مل گئیں تو خدا کا ورنہ شیطان کا۔ غرض اس جوانی کی عمر میں بہت نازک حال ہوتا ہے اور اگر خدا کی عنایت دستگیری نہ کرے تو جہنم کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ سچ تو یہ کہ یہی عمر تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی عمر میں انسان اکثر بدنی بیماریاں اور قابل شرم روگ خرید لیتا ہے۔ اسی کچی عمرکی غلطیوں سے کبھی سچے اور غیر متغیر خدا سے منہ پھیر لیتا ہے۔ غرض یہ وہ زمانہ ہے جس میں خدا کا خوف کم اور شہوت طالب اور نفس غالب ہوتا ہے اور کسی ناصح کی نہیں سنتا۔ اسی زمانہ کی خطاؤں کا خمیازہ ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 321-322)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

پوشیدہ: مخفی، پنہاں، لا علم ہونا۔ جیسے مجھ سے یہ بات پوشیدہ رہی۔ یعنی میرے علم میں نہیں آئی یا آنے نہیں دی گئی۔

ظلمت کا زمانہ غالب ہونا: تاریکی، اندھیرا (نور کی ضد)، جہالت، لاعلمی، بے عقلی، جذبات، غضب وغیرہ سے بہت زیادہ کام لینا اور عقل و دانائی سے دور رہنا۔

طفولیت: بچپن، کم عمری۔

علمی تحصیلیں: علم حاصل کرنا۔ تعلیم حاصل کرنا، اسکول اور کالج وغیرہ کا دور۔

لہو و لعب: کھیل کود، وہ شغل جس سے تفریح ہو، ہنسی مذاق، عیش و نشاط، سیر، تماشا، تفریح۔ غیر سنجیدہ سرگرمیاں جن کا مقصد محض تفریح ہو۔

خیال افراط تک پہنچنا: یعنی ایک خیال سب حد یں پار کرجاتا ہے۔ اور حدوں سے مراد اخلاقی، معاشرتی، دینی ذمہ داریاں ہیں۔

رجوع: واپس کسی چیز کی طرف جانا، سوچ کا بدلنا۔

کسی قدر: تھوڑا سا۔

معاد: آخرت، مرنے کے بعد کی زندگی اور اس کے معاملات۔

دینیات: دین کا علم، دین کی باتیں، دین کے فرائض۔ Theology

خشک منطق اور بیہودہ فلسفہ دکھلانا: محض عقل کو رہنما سمجھ کر باقی تمام علوم اور علوم کے ذرائع کو خاطر میں نہ لانا۔ خود کو معتبر اور عالم و فاضل ثابت کرنے کے لئے ایک بات کا کافی علم نہ ہونے کے باوجود بحث کرنا۔

دستگیری: مدد کرنا، معاونت، حمایت، گرتے کو تھامنا۔

خرابیوں کی جڑ: کسی چیز کی اصل وجہ Fundamental causation

بدنی بیماریاں اور قابل شرم روگ: عام جسمانی بیماریا ں اور وہ امراض جو جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جنھیں انسان اپنے لئے انتہائی شرم اور بے عزتی کا باعث سمجھتا ہے۔
STD: Sexually Transmitted Diseases

غیر متغیر خدا : یعنی ا چھی بری تبدیلیاں انسان میں آتی ہیں مگر خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ انسان اپنی بدلی ہوئی حالت کے مطابق خدا تعالیٰ پر بد ظنی کرتا ہے۔

شہوت طالب: کسی بھی دنیاوی چیز کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش کا شکار ہوجانا، عادی ہوجانا۔

ناصح: نصیحت کرنے والا، والدین، مربیان، خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ۔

خمیازہ بھگتنا: کسی جرم کی سزا کاٹنا۔ کسی غلطی کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا سامنا کرنا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ