جنوبی کوریا میں احمدیت کے قیام کی مختصر تاریخ
میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوٴں گا۔ کا ایک نشان
قسط دوم
قسط اول اس لنک پر پڑھیں:
https://www.alfazlonline.org/30/08/2022/67323/
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ6 جنوری 1995ء میں وقف جدید کےفی کس چندےمیں جماعتوں کی پوزیشنز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’فی کس کے لحاظ سے بھی ہم نے موازنہ کیا ہے اور سوئیٹزر لینڈحسب سابق وقف جدید کےفی کس چندے میں اب بھی سب سے آگے ہے۔امریکہ نمبر دو ہےکوریا اور جاپان تیسرے نمبر پہ ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل17 فروری1995ء )
صدسالہ جوبلی کے بابرکت پروگرام کے تحت کورین زبان میں بنیادی لٹریچر کی تیاری
1973ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نےجلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے صد سالہ جوبلی منصوبہ کا اعلان فرمایا۔ اس عظیم الشان منصوبہ کے تحت آپ نے اس عزم کا اظہارکیا کہ پندرہ سالوں میں ایک سو ممالک میں احمدیہ مشنز قائم کئےجائیں گے،ایک سو ممالک میں مساجد تعمیر کی جائیں گی اور ایک سو زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور اسلامی لٹریچر کو شائع کیا جائے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صد سالہ جوبلی کے بابرکت پروگرام کے تحت جماعت احمدیہ جاپان کے سپرد جاپانی، کورین اور ویتنامی زبانوں میں ترجمہ قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر کی تیاری اور طباعت کا کام فرمایا تھا۔ تینوں تراجم قرآن کریم کے تمام مراحل مکرم مغفور احمد منیب (سابق امیر جماعت و مشنری انچارج جاپان ) کی زیر نگرانی سر انجام پائے۔ کورین زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی غرض کے لئے کوریا میں موجود ترجمہ کرنے والی کمپنیوں اور مترجمین سے رابطہ کرکے قرآن کریم کے پہلے کورین ترجمہ کا کام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت کے مطابق تین غیر مسلم کورین کے سپرد کیا گیا۔جن کے نام یہ ہیں۔
(1) MR.AHN D DONG HOON
(2) MR.PARK BANG HEN
(3) MR.SUNG HA CHANS
ایک مترجم نے کہا کہ قرآن مجیدکےترجمہ کے دوران مجھے پہلی دفعہ ہستی باری تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہوا ہے۔
کورین زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پرائیویٹ تین مترجمین نے مسٹر پارک کی زیرنگرانی تیار کیااور وقتاً فوقتاً ان مترجمین کے ساتھ مغفور احمد منیب صاحب مبلغ سلسلہ جاپان میٹنگز کرتے رہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے متعدد بار مکرم مغفور منیب صاحب کوجنوبی کوریا بجھوایا اور اسکی رپورٹ منگواتے رہے۔یہ ترجمہ حضرت مولانا شیر علی رضی اللہ عنہ کے انگریزی ترجمہ سے کیا گیا ہے۔آیات کےترجمہ کےساتھ تفسیری نوٹس کاترجمہ بھی کیا گیا ہے اور ہر سورت کے شروع میں اس کا مختصر تعارف بھی دیا گیا ہے۔ کورین زبان میں مفوضہ بنیادی لٹریچراورقرآن مجید کا ترجمہ 1988ء میں پوچھن چھائی(Pochin Chai)پرنٹنگ کمپنی سیئول کوریا سے طبع ہوا۔اس ترجمہ کی طباعت کے جملہ اخراجات جماعت احمدیہ سعودی عرب نے ادا کئے۔
( الفضل انٹرنیشنل 13 نومبر تا19 نومبر2009ء)
قرآن کریم کا کورین زبان میں ترجمہ کا کام مکمل ہونےکے بعد طباعت کے کام کے لئے جاپان سےمکرم مولانا مغفوراحمد منیب کے ہمراہ مکرم مقبول احمد شاد جنوبی کوریاکےدارالحکومت سیؤل تشریف لائے۔ ایک مقامی کورین دوستMr. Hanکے گھر قیام کیا۔قرآن کریم کا کورین زبان میں ترجمہ کی طباعت کےدوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔پریس میں کام کرنے والے کسی مسلمان ورکر کے ذریعہ جنوبی کوریا میں موجودسعودی عرب کے سفارتخانہ کواس بات کی اطلاع ہو ئی کہ جماعت احمدیہ قرآن کریم کے کورین زبان میں ترجمے کی طباعت کروا رہی ہے۔ اس پراسلامک سنٹر کوریا اور سعودی سفارتخانہ کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اس موقعہ پرمسٹر ہان کی فیملی نے مددکی اور مخالفت اور دھمکیوں کےباوجود قرآن مجید کی طباعت کےمراحل کےدوران یہ فیملی پیچھے نہ ہٹی۔ بلکہ وزارت تعلیم، سیاحت اور امیگریشن میں ساتھ جا کر جماعت کی رجسٹریشن میں کو شاں رہی۔بعدمیں احباب جماعت کی اپنی کاوش سے رجسٹریشن ٹیکس آفس میں ہوئی اور اسکے بعد خاکسار کے قیام کے دوران جنوبی کوریا میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن کےلئےبھی کاوش ہوتی رہی۔ مکرم احسان احمدباجوہ صاحب سابق صدر جماعت کوریا اوران کے ساتھ دیگر احباب جماعت کی کاوش سے جماعت کی رجسٹریشن ٹیکس آفس میں ہوئی اور بعد میں اس رجسٹریشن کےبا عث جماعت کے لئے بعض امور کی راہیں ہموار ہوئیں۔ خاکسار کے جنوبی کوریا کے قیام کے دوران جنوبی کوریا میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن کےلئے مکرم ملک داؤد احمد صاحب سابق صدر جنوبی کوریا کی زیر سرپرستی مکرم سیف اللہ لون صاحب کی نگرانی میں ایک کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ مکرم سیف اللہ لون صاحب کے علاوہ مکرم رانا تعظیم صاحب اور مکرم رانا ناصرصاحب اس کمیٹی کے ممبران تھے۔اس کمیٹی کے ممبران نے کافی تگ ودو سے رجسٹریشن کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کیں۔28 مارچ2010ء میں اس کمیٹی کی ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں آئندہ کالائحہ عمل طے کیا گیا۔ اس کمیٹی کے بعدتین ارکان پرمشتمل ایک کمیٹی خاکسار کی نگرانی میں قائم کی گئی۔خاکسار کےعلاوہ اس کمیٹی کے ممبران میں مکرم خالد ناصر صاحب اور مکرم راحیل احمد صاحب شامل تھے۔وزارت مذہبی امور کی معرفت خاکسارکا متعلقہ دفاتر سےرابطہ ہوا اور ان کے ساتھ متعدد میٹنگز ہوئیں۔ایک اہم میٹنگ جماعتی وفد کے ساتھ 2011ءکےآغاز میں ہوئی۔ جس میں مکرم ملک داؤد احمدصاحب سابق صدر جماعت کوریااور خالد ناصر صاحب سابق صدر جماعت سیؤل اورخاکسارشامل تھے۔
قرآن کریم کی آئندہ دوبارہ کورین ترجمہ کی اشاعت کے پیش نظر اور مترجمین کے بارے میں معلوم کرنے کے ارادہ سےخاکسار کےساتھ مکرم را نا ناصرصاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ کوریانے2014ء میں اس پرنٹنگ کمپنی کا وزٹ کیا جس میں قرآن کریم کے کورین ترجمہ کی طباعت ہوئی تھی۔ کمپنی میں گزشتہ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سےمطلوبہ نتائج نہ مل سکے۔ مترجمین کے بارے میں بھی معلوم کرنے کے لئے کوشش کی گئی لیکن ان کے بارے میں مطلوبہ معلومات نہ مل سکیں۔بہر حال اس کمپنی کےوزٹ سے فائدہ یہ ہوا کہ وہاں پرایک کام کرنے والے کورین کو احمدیت کی تبلیغ کا موقعہ ملا اور بعد میں انہیں جماعتی لٹریچر بھی بجھوایا گیا۔
تنظیموں کا قیام اور اجتماعات
جنوبی کوریامیں مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیم کاقیام1993ءمیں عمل میں آیا۔مکرم اطہر محمود صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ جاپان وکوریا کی زیر نگرانی میں جنوبی کوریا کا پہلا اور دوسرا سالانہ اجتماع ہوئے۔ان کی زیر نگرانی میں پہلےقائد مجلس خدام الاحمدیہ جماعت احمدیہ سیؤل کا تقرر ہوا۔آغاز میں مکرم اطہر محمود صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ جاپان وکوریا تھے۔بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی منظوری سےمجلس خدام الاحمدیہ جنوبی کوریا کے پہلے صدر کا تقرر ہوا۔ مکرم رانا محسن محمود صاحب مجلس خدام الاحمدیہ جنوبی کوریا کے پہلےصدر تھے۔ان کے بعد مکرم عمران محمود صاحب، مکرم رانا ناصراحمد صاحب،مکرم فیصل محمود صاحب اور عرفان احمد صاحب کو بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ جنوبی کوریا کے خدمت کی توفیق ملی۔
1993ء میں Seoraksanکے مقام پرمجلس خدام الاحمدیہ کوریا کا پہلاسالانہ سہ روزہ اجتماع ہوا۔ جس میں مکرم مولانا مغفور احمد منیب سابق امیرومبلغ انچارج جاپان نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں جاپان سے9 احمدی احباب نے بھی شرکت کی۔
دوسرا سالانہ اجتماع 19۔20 ستمبر 1994ء کو احمدیہ سنٹر اوجنگ بو میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 16 ستمبر 1994ءکے خطبہ جمعہ میں اجتماع کا ذکر کرتے ہوئےاس اجتماع کی کامیابی کےلئے دعا کی تحریک فرمائی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ
’’آج ملکی سطح پر جو اجتماعات ہو رہے ہیں ان میں ایک خدام الاحمدیہ یوکے کا سالانہ اجتماع ہے۔ جو اِنْ شَاءَ اللّٰہ دوپہر کو شروع ہو کر، یعنی آج جمعہ کے روز شروع ہو کر تین دن تک جاری رہے گا۔ دوسرا مجلس خدام الاحمدیہ کوریا کا دوسرا سالانہ اجتماع 19 ستمبر کو شروع ہو کر دو دن جاری رہے گا۔ یہ حکمت سمجھ نہیں آئی کہ کیوں انہوں نے پیر کے دن یعنی سوموار کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عام طور پر تو جمعہ کے آخر پر رکھتے ہیں اور ہفتے اتوار کی چھٹیوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مگر مقامی حالات میں یہ مصلحت کا تقاضا ہو گا۔ بہر حال یہ دو ملکی سطح کے اجتماعات ہیں۔ ان کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔‘‘
( الفضل انٹرنیشنل 21 ؍اکتوبر 1994ء)
مجلس خدام الاحمدیہ جنوبی کوریا کا تیسرا سالانہ اجتماع1995ء میں اورچوتھا سالانہ اجتماع 1996ء میں منعقد ہوا۔
مجلس خدام الاحمدیہ جنوبی کوریاکے پانچویں سالانہ اجتماع 1997ء میں ہانگ کانگ کے نائب امیر مکرم سراج الاسلام صاحب نے بطورمہمان خصوصی شرکت فرمائی۔
(الفضل انٹرنیشنل 17 اکتوبر1997)
جنوبی کوریا میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا قیام 2009ء کے آغازمیں عمل میں آیا۔اس وقت جنوبی کوریامیں چند ممبرات لجنہ تھیں۔ابتداء میں حضور انور کی منظوری سے صرف صدر لجنہ کے عہدہ کا تقرر ہوا۔حضور انور نے ازراہ شفقت مکرمہ ماہ رخ صدیقہ صاحبہ کی بطور صدر لجنہ اماء اللہ جنوبی کوریا کے منظوری عطا فرمائی۔ انہیں فروری تا جون2009ء بطورپہلی صدرلجنہ کےخدمت کی توفیق ملی۔ بعد میں جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری مال کےعہدوں کاتقررہوا۔ مکرمہ طاہرہ سیف صاحب کو بطور جنرل سیکرٹری اور مکرم عابدہ پروین صاحبہ کو بطور سیکرٹری مال کےخدمت کی توفیق ملی۔جون 2009ء میں مکرمہ ماہ رخ صدیقہ صاحبہ کےپاکستان واپس جانے کے بعدمکرمہ سائرہ تعظیم صاحبہ کا بطور صدر لجنہ جنوبی کوریا تقرر ہوااوران کے اگست 2010ء میں کوریا سے چلےجانے کے بعد مکرمہ انیلہ داؤد صاحبہ کا بطور صدر لجنہ جنوبی کوریا تقررہوا۔مکرمہ انیلہ داؤد صاحبہ نے بطور صدر لجنہ جنوبی کوریا کے فروری 2012ء تک خدمت کی توفیق پائی۔انکے کوریا سے چلےجانے کے بعد مکرمہ طاہرہ سیف صاحبہ کا بطور صدر لجنہ جنوبی کوریا تقررہوا۔اس سےقبل انہیں بطور پہلی جنرل سیکرٹری کے خدمت کی توفیق ملی۔ لجنہ کے بعض مقامی کورین خواتین کے ساتھ تبلیغی روابط تھے۔لجنہ اماء اللہ جنوبی کوریا کا پہلا سالانہ اجتماع2010ء میں زیر صدارت صدر لجنہ مکرمہ سائرہ تعظیم صاحبہ بمقام تھیگواحمدیہ سنٹر میں ہوا۔تلاوت قرآن کریم سے پہلے سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مکرمہ عابدہ پروین نے تلاوت کی۔تلاوت کے بعد مکرمہ سائرہ تعظیم صاحبہ صدر لجنہ جنوبی کوریانے لجنہ کا عہد دہرایا۔اس کے بعد مکرمہ انیلہ داؤد صاحبہ نےنظم پڑھی۔مکرمہ سعدیہ داؤد صاحبہ نے تقریر کی۔ان کی تقریر کے بعد پہلےسیشن کی آخری تقریر مکرم دلمیر احمد خبیر صاحب مبلغ سلسلہ نے کی۔دوسرا سیشن بھی اسی روز ہوا۔دوسرا سیشن کا آغاز تلاوت قران کریم سے ہوا۔ مکرمہ انیلہ داؤد صاحبہ نےتلاوت کی اور مکرمہ طاہرہ سیف صاحبہ نے نظم پڑھی۔اس کے بعد مکرمہ سائرہ تعظیم صاحبہ صدر لجنہ جنوبی کوریا نے تقریر کی۔دوسرے سیشن کی آخری تقریر خاکسارمبلغ سلسلہ نے کی۔اور دعا کے ساتھ لجنہ کے پہلے سالانہ اجتماع کا اختتام ہوا۔
مکرمہ طاہرہ سیف صاحبہ کے2013ءمیں جنوبی کوریا سے جانے کے بعدلجنہ کی تنظیم ممبرات کی کمی کی وجہ سے فعال نہ رہی۔2019ء میں لجنہ کی تنظیم دوبارہ فعال ہوئی اور حضور انور کی منظوری سےمکرمہ ڈاکٹر عائشہ عفت سعیدصاحبہ کا بطور صدر جنوبی کوریا تقررہوا ہوا۔لجنہ اماء اللہ جنوبی کوریا کا دوسرا سالانہ اجتماع 2019 تھیگو احمدیہ سنٹر میں ہوا۔ لجنہ اماء اللہ کوریا نے اپنا سالانہ اجتماع اور مینا بازار کامورخہ 3-4 فروری 2019ء انعقاد کیا۔اجلاس سے قبل ’’ایک احمدی کی زندگی میں ایم ٹی اے کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر سالانہ اجتماع کا انعقاد کروانےکی حضور انورسے منظورلی گئی۔ لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماع کے تھیم(Theme) کا انتخاب حضور انور کی طرف سے صدر صاحب جنوبی کوریا کو لکھے گئے ایک خط میں جنوبی کوریا کے احباب جماعت کے نام اس پیغام پر کیا گیاجس میں حضور نے فرمایا کہ:
’’Listen carefully to my Friday sermons and try to understand them and obey my words of instruction and guidance … You should urge members and their families to watch MTA often as it is an ideal means for acquiring knowledge of the beauties of Islam and the truth of Ahmadiyyat, and provides unity of thought and direction within our worldwide Jamaat.‘‘
’’میرے خطبات جمعہ کو غور سے سنیں اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں اور میرےالفاظ پر عمل کریں جو ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔۔آپ کو ممبرات اور ان کے اہل خانہ کو ایم ٹی اے کثرت سے د یکھنے کی تاکید کرنی چاہیے کیونکہ یہ اسلام کی خوبصورتی اور احمدیت کی سچائی کے بارے میں علم حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اور یہ ہماری عا لمگیر جماعت کے اندر اتحاد فکر اور راہنمائی فراہم کرتاہے۔‘‘
اس اجلاس میں کوریا کے شہر بوسان میں واقع یونیورسٹی کی جاپانی پروفیسر خاتون Noriko Sato نے شمولیت کی جنہیں صدر لجنہ جنوبی کوریا اورنیشنل صدر جماعت جنوبی کوریا کی جانب سے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔ اجتما ع کے پہلے دن کی نمایاں خصوصیات میں لجنہ کا تعارف وملاقات، مقابلہ جات اور جاپانی پروفیسر نوریکو ساتو کی موجودگی تھی۔ صدر لجنہ نے جنوبی کوریا کی جماعت کی جانب سے مہمان خاتون کو تحفہ پیش کیا۔حضور انور کی طرف سے اجلاس اور اور مینا بازار کے انعقاد پرسلام اور دعائیں ممبرات تک پہنچائیں گئیں۔ پہلے سیشن میں شرکاء کے لیے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے 25 سال پرمشتمل ایک ایم ٹی اے دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ اس نے نہ صرف لجنہ کے اراکین پر بلکہ مہمانوں پر بھی ایک غیر معمولی اثر چھوڑا۔اجلاس کےآخری دن صدر لجنہ جنوبی کوریانے’’حضور انور کے خطبات جمعہ سننے کی اہمیت‘‘ پر تقریرکی اورتقسیم انعامات ہوئی۔ صدرجماعت جنوبی کوریا مکرم خواجہ شمیم صاحب اور مکرم دلمیر احمد صاحب مبلغ سلسلہ کے ساتھ سوال و جواب کی نشست بھی آخری دن ہوئی۔ اس کے بعد اس اجلاس کادعا سےاختتام ہوا۔
( The Weekly Alhakam,22nd Feb 2019)
جنوبی کوریا میں مربیان کا تقرر
1995ء میں مکرم محمد عبدالرشید یحیٰ صاحب مبلغ سلسلہ کاجنوبی کوریا تقررہوا۔جنوبی کوریا میں ان کا قیام مختصرمدت کےلئے تھا۔1995ء تک جماعت احمدیہ جنوبی کوریا امارت جاپان کے ماتحت تھی۔2008ءمیں حضور انور نےخاکسار محمد داؤد ظفرکا تقررنائیجیریا سے جنوبی کوریا فرمایا۔29مئی2009ء میں خاکسار نائجیریا سے جنوبی کوریا پہنچا۔حضور انور نے ابتداء میں خاکسار کو مقامی زبان سیکھنے اورمقامی لوگوں سے رابطے کرنے کا ارشاد فرمایا۔ کوریا کےشہر تھیگو میں خاکسارنے لینگوئج کورس کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔خاکسار تھیگوجماعت میں تقریباً ایک سال متعین رہا۔2010ء میں دارالحکومت سیؤل میں خاکسار کاتقرر کرنے کی تجویزپرحضور انور نے ازراہ شفقت منظوری عطا فرمائی۔ خاکسار کے سیؤل شفٹ ہونےکےتھوڑے عرصہ کے بعداحمدیہ سنٹراوئی جنگبو شہر سے سیؤل منتقل ہو ا۔اس وقت تھیگو جماعت میں چالیس کے لگ بھگ احمدی احباب تھے جبکہ سیؤل جماعت جس کا سنٹر بمقام اوئی جنگبو تھا احمدی احباب کی تعداد20 سےکم تھی۔ 2009ء کے آخرمیں مکرم دلمیر احمد صاحب خبیر مبلغ سلسلہ سیرالون سےجنوبی کوریاتشریف لائےاور لینگوئج کورس کے لئے تھیگو شہر کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔خاکسار کی سیؤل تقرری کے بعد وہ تھیگو میں بطورمبلغ متعین رہے۔
جنوبی کوریا میں جماعتی سنٹرز
جنوبی کوریا میں دو جماعتیں ہیں۔ایک جماعت احمدیہ سیؤل اور دوسری جماعت احمدیہ تھیگو ہے۔آغاز میں جماعت احمدیہ سیؤل کا سنٹر اوئی جنگبو شہر میں واقع تھا۔دارالحکومت سیؤل سےجانب شمال 20 کلو میٹر کے فاصلہ پراوئی جنگبو(uijeongbu)واقع ہے۔ قدیم کورین میں اس شہر کےنام کا مطلب سٹیٹ کونسل ہےجوکہ جوسن شاہی خاندان کے کیبینٹ آفس کی عارضی جگہ سےماخوذ ہے۔ شہر میں کورین اور یوایس ملٹری کی بیسز ہیں۔کوریائی جنگ کے بعد اس شہر نے سرعت کے ساتھ ترقی کی اور اب یہ شہرسیؤل کاانڈسٹریل سیٹلائٹ ہے۔1960ء کے بعدشہر میں کاٹن اورکاغذ کی صنعتیں لگائی گئیں۔مکرم اطہرمحمود صاحب فیملی کےساتھ وقف عارضی کےلئےجاپان سے جنوبی کوریا تشریف لائے تو اسی شہر کے علاقہ میں مکان کرایہ پرلیا۔ان کے جنوبی کوریا سےچلے جانے کے بعد یہ مکان جماعتی سنٹر کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ بعد میں اسی علاقہ میں ایک دو بار احمدیہ سنٹر کی تبدیلی ہوتی رہی اوراس طرح جماعتی سرگرمیوں کاآغاز ہوا۔جماعت احمدیہ سیؤل کااوئی جنگبو شہر میں واقع احمدیہ سنٹرایک لمبا عرصہ تک جماعتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔2010ءکے اواخر میں احمدیہ سنٹر اوئی جنگبو شہر سےجنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں منتقل کرنے کی حضورانورنے منظوری عطا فرمائی اور مارچ 2011ء میں احمدیہ سنٹر اوئی جنگبو شہر سے دارالحکومت سیؤل میں کرایہ کے مکان میں شفٹ ہوا۔مکرم عرفان اظہر صاحب،مکرم خالد ناصر صاحب،مکرم سیف اللہ لون صاحب اور کرغیزستان سے تعلق رکھنے والے مکرم اولان بیگ صاحب کو بطور صدر جماعت سیؤل کے خدمت کی توفیق ملی۔
سیئول شہر کی تاریخی حثییت ہے۔یہ شہر ملک کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔دریائے ہان سیئول شہر کےوسط میں بہتا ہے۔اس شہر کے سنٹر میں11کلومیٹر طویل قدیم تاریخیCheonggyeندی بہتی ہے جسے 2005ء میں بحال کیا گیا۔اس ندی کوکورین جنگ کے بعد ہائی وے کی تعمیر کی وجہ سے پر کر دیا گیا تھا۔یہ ندی دریائے ہان میں گرتی ہے۔اور اس پہ20 سےزائد پل تعمیر ہیں۔ یہ شہر 1988ء میں گرمائی اولمپکس اور 2002ء میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کر چکا ہے۔123 منزلہ اور555 میٹربلندعمارت’’لوٹےورلڈٹاور‘‘اس شہرکی رونق ہے۔اس شہر میں عالمی معیار کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ دنیا بھر سے طلباءتعلیم حاصل کرنے کے لئےان یونیورسٹیوں کارخ اختیار کرتے ہیں۔
2002ء میں جنوبی کوریا میں تھیگو(Daegu) جماعت کاقیام عمل میں آیا۔مکرم طیب منصور صاحب کو بطور پہلے صدر جماعت احمدیہ تھیگو کے خدمت کی توفیق ملی۔ان کے بعد مکرم رانا مبارک احمد صاحب، مکرم منور احمد صاحب، مکرم رانا ناصر احمد صاحب، مکرم فیصل محمود صاحب کو بطور صدر جماعت تھیگو کے خدمت کی توفیق ملی اورآجکل مکرم محسن فاروق صاحب کو بطور صدر جماعت احمدیہ تھیگو کے خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔تھیگو شہر(Daegu) جنوبی کوریا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے جو جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل سے238 کلو میٹر جنوب مشرق میں اورساحل سمندر سے80 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔اس شہر کی اپنی تاریخی حیثیت ہے۔تھیگوشہر’’ٹیکسٹائل سٹی ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کے آس پاس کے علاقہ میں عمدہ قسم کا سیب کاشت ہوتا ہےجوکہ جنوب مشرقی ایشیا کو برآمد کیا جاتا ہے۔تھیگو شہر کے قریب مغرب میں46 کلومیٹر کے فاصلہ پر160 مربع کلومیٹر پرپھیلےگایاسن نیشنل پارک (gayasan national park) میں ایک تاریخی بدھ ٹیمپل کمپلیکس ہے جسے Haeinsa templeکہا جاتا ہےجس میں بدھ مذہب کی متعدد قیمتی مذہبی نوادارت ہیں۔ ان نوادارت میں سے خاص طور پربدھ مت کےصحائف ٹرائی پٹیکا (Tripitika)ہیں جنہیں وڈپرنٹنگ (wood printing)بلاکس ٹیکنالوجی کےذریعہ اسی ہزارسےزائدوڈپرنٹنگ بلاکس پر کندہ کیا گیا ہے۔یہ ٹرائیپٹیکاکوریانا(Tripitaka Koreana)کے نام سے موسوم ہیں۔یہ ایشیا میں بدھ مت صحائف کا مکمل مجموعہ ہے۔1995ء میں اس مقام کو جہاں ٹرائی پٹیکاکوریانا کو رکھا گیا ہے یونیسکوکےعالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کیا گیا۔یہ شہر 2002ء میں فیفاورلڈکپ کے میچزکی میزبانی حاصل کر چکا ہے۔اس شہر میں بعض احمدی احباب فیکٹریوں میں کام کرتےتھے لیکن اس شہرمیں کوئی باقاعدہ احمدیہ سنٹر نہ تھا۔احمدی احباب ملک کے طول وعرض سے جماعتی پروگراموں میں شرکت کے لئے جماعت احمدیہ سیؤل کےاوئی جنگبو شہر میں واقع سنٹر تشریف لےجاتے تھے۔2002ء میں تھیگو جماعت کےقیام کے بعد تھیگو احمدیہ سنٹر میں جماعتی پروگرام منعقد ہونا شروع ہوئے۔بعدمیں یہاں پر جلسہ سالانہ کا انعقاد شروع ہوا۔اس سے پہلے آغازسے2006ء تک اوئی جنگبو شہر میں جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوتا رہا اوراحباب جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے ملک کےطول وعرض سےاوئی جنگبو تشریف لاتےتھے۔جلسہ سالانہ کا انعقاد بعض دفعہ احمدیہ سنٹر میں ہوتا اور متعدد بارانعقاد کے لئےشہر کے مضافات میں کھلی جگہ کا انتخاب کیا جاتا۔پاکستانی غیر احمدی مہمان بھی اس جلسے میں شریک ہوتے۔سوال و جواب کی مجالس کا انعقاد ہوتا۔ تھیگو شہر میں چند احمدی احباب فیملی کےساتھ رہائش پزیرتھے۔یہ احمدی احباب اپنےاہل خانہ کےساتھ جلسوں میں شامل ہوتے۔ کچھ عرصہ کےلئے تھیگو جماعت کا سنٹر جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں بھی رہا۔آج کل تھیگو شہر اورسیؤل شہر میں جماعت کے سنٹرز ہیں جہاں افراد جماعت اپنے تعلیمی و تربیتی پروگرام کا انعقاد کرتے ہیں۔
جنوبی کوریامیں مربیان اورمرکزی نمائندگان کی تشریف آوری
مختلف مواقع پر جاپان سےجنوبی کوریا وزٹ کرنے والے مبلغین سلسلہ میں مکرم امام عطاء المجیب راشد صاحب،مکرم مولانا مغفور احمد منیب، مکرم مولانا ضیاء اللہ مبشر، مکرم ظہیر احمد ریحان مبلغ سلسلہ شامل ہیں۔2010ء میں مکرم مولانا ضیاء اللہ مبشرکو بطورمرکزی نمائندہ بھی جنوبی کوریاتشریف لانے کا موقع ملا۔ آپ نے دونوں جماعتوں کا دورہ کیا اور مختلف امور میں راہنمائی کی۔ مکرم مولانامحمود احمد بنگالی سابق امیر و مشنری انچارج آسٹریلیانے جلسہ سالانہ انگلینڈ سے واپسی پرجنوبی کوریا میں قیام کیا۔افراد جماعت نےان سے ملاقات کی اور انہوں نے احباب جماعت کو قیمتی نصائح سے نوازا۔مرکز ربوہ سے مکرم مبارک مصلح الدین احمد صاحب سابق وکیل التعلیم، مکرم صاحبزادہ نواب منصور خان صاحب سابق وکیل التبشیرجنوبی کوریا تشریف لائے۔ مکرم صاحبزادہ نواب منصور خان2011ء کے اواخرمیں جنوبی کوریاتشریف لائے۔جنوبی کوریا میں موجوددونوں جماعتوں کا دورہ کیا اوراحباب جماعت کو قیمتی ہدایات سے نوازا۔2014ء میں مکرم ڈاکٹر سرافتخار احمد ایاز تشریف لائے۔ ڈاکٹر سرافتخار احمد ایاز نےسیؤل میں موجودNGOS اور دیگر سرکاری اور غیرسرکاری دفاتر کا دورہ کیا۔ بین المذاہب کانفرنس میں شرکت کی اورخطاب کیا۔ مکرم انیس حمد ندیم صدر جماعت و مبلغ انچارج جاپان، جاپان میں مقیم مسلمانوں کی نمائندہ کے طور پہ اس مذاہب عالم کانفرنس میں شامل ہوئے۔ 2016ء میں بھی مکرم انیس رئیس جنوبی کوریا میں تشریف لائے اور جنوبی کوریا کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ سویڈن کے مبلغ انچارج مکرم آغا یحییٰ صاحب 2015ء میں منعقدہ مذاہب عالم کانفرنس میں شرکت کےلئے جنوبی کوریا تشریف لائے۔
سیؤل بک فئیر میں شمولیت اورثمرات
2013ءمیں پہلی بارجماعت احمدیہ کوریا کوسیؤل بک فئیر میں شامل ہونے کی توفیق ملی اور اس کےبعد ہر سال اس میں جماعت جنوبی کوریا باقاعدہ شرکت کرتی ہے۔یہ جنوبی کوریا کا سب سے بڑابک فیسٹیول ہے جس میں دنیا بھر سے پبلشرزکی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔اس بک فئیر میں شمولیت کی وجہ سے جماعت کےتعارف میں مزید اضافہ ہوا۔ 2014ء کے بک فئیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی امن عالم کے حوالہ سے مختلف ممالک میں خطابات کے مجموعہ پہ مشتمل ’’دی ورلڈ کرائسز اینڈ پاتھ وے ٹو پیس‘‘ کا کورین ترجمہ اس بک فئیر میں رکھا گیا جوکورین لوگوں کی خاص دلچسپی کا باعث بنا۔اس بک فئیر کے دوران ا س کتاب کی تقریب رونمائی کاا نعقاد کیا گیا۔خاکسار کو تقریب میں کتاب کا تعارف پیش کرنے اور شاملین کے جوابات دینے کی توفیق ملی۔اس کتاب کا ترجمہMunheeنامی کورین خاتون نے کیا اور اسے ایک کورین پبلشنگ کمپنی نےطبع کیا۔ایک بڑی تعداد میں اس کتاب کا کورین ترجمہ اور اس کے ساتھ دیگر جماعتی لٹریچر کو ملک بھر کی بڑی پبلک لائبریریوں اور یونیورسٹیوں میں رکھوایا گیا اورپروفیسرز،طلباء اور وکلاء کو بذریعہ ڈاک و دستی بہم پہنچایا۔اس کتاب کوبڑے بک سٹورز پر بھی رکھوایا گیا۔2017ء میںwhere did Jesus dieکتاب کا کورین ترجمہ طبع ہوااور 2017ء کےبک فئیر کی زینت بنا۔ان بک فئیر ز کے ذریعہ بہت سےنئے روابط قائم ہوئے اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں میں جماعت کا مزید تعارف ہوا۔
2019ءکے بک فئیر کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نمائش کا تھیم ’’مذہب کی اہمیت اور ہستی باری تعالیٰ کا وجود‘‘ تھا۔مکرم دلمیر احمد خبیر مبلغ سلسلہ کی طرف سے ’’عالمی امن کے قیام میں مذہب کی اہمیت‘‘ کے بارے میں کورین زبان میں ایک پریزنٹیشن دی گئی۔پریزنٹیشن کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا۔حاضرین نے قرآن پاک اور بائبل میں فرق، اسلام میں پردہ، اسلام میں خواتین، جہاد وغیرہ کے بارے میں سوالات پوچھے۔ اس بک فئیر کی ایک اور خاص بات ’’Try a Headscarf‘‘ کارنر تھا جس کا اہتمام لجنہ اماء اللہ نے کیا تھا۔ خواتین کو ہیڈ اسکارف ٹرائی کرنے کے لیے مدعو کیا گیا اور انہیں اپنےاحساسات کو نوٹ کرنے کاکہا گیا، ان میں سےزیادہ تر نے لکھا کہ انہوں نےاسے پہن کر محفوظ، آرام دہ محسوس کیا ہے۔
کورین انگلش اخبارمیں جماعتی خبریں
دی سیؤل ٹائم جنوبی کوریا کاایک آن لائن انگلش اخبارہے۔اس اخبار کے ایڈیٹر جوزف ہیں۔اس اخبار میں جماعت کے بارے متعددخبریں شائع ہوئیں۔27 مئی 2008ء میں خلافت احمدیہ کےسو سال پورے ہوئے۔ساری دنیا میں صد سالہ خلافت جوبلی کے حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔جشن اظہار تشکرصد سالہ خلافت جوبلی کے لئےجماعت احمدیہ جنوبی کوریا کو 30 نومبر 2008ء میں شہرتھیگوکے’’روز ویڈنگ بوفے‘‘کےکنونشن ہال میں ایک تبلیغی سیمینارکےانعقادکی توفیق ملی۔اس سیمینار میں کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔کورین احباب نے اس پروگرام میں شرکت کی۔اس سیمینار میں ایک کورین پادری نے شرکت کی۔صدر جماعت کوریا نےتقریر کی اورصدر جماعت تھیگونے پریزینٹیشن دی۔ اس پروگرام کی مختصر رپورٹ کوریاکے انگلش آن لائن اخبار ’’دی سیؤل‘‘نے شائع کی۔ خاکسار کاامن عالم کےحوالہ سے اسلام کی پرامن تعلیمات پہ مشتمل مضمون اس خبارکے فرنٹ پیچ کی زینت بنا۔ سی سی ٹی وی کے ایڈیٹر اور مبصر’’ٹام مگر یگر‘‘نے اس مضمون کےپڑھنے کے بعدرابطہ کیا کہ وہ ان دنوں شام کے بحران کے بارے میں اداریہ تحریر کررہے ہیں اورانہیں اس کے متعلق جماعت احمدیہ کانقطہء نظر معلوم کرنا ہے۔ خاکسار کوحضور انور کے بیان فرمودہ خطابات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کانقطہء نظر پیش کرنے کی توفیق ملی۔
جنوبی کوریا میں بین المذاہب امن کانفرنس
ستمبر2014ءمیں جنوبی کوریا کی ایک تنظیم کی طرف سےسیؤل میں بین المذاہب امن کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں جماعت احمدیہ جنوبی کوریاکےپانچ رکنی وفدنےمکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز کی نمائندگی میں شرکت کی۔جنوبی کوریا کے جماعتی وفد میں مکرم داؤد احمد ملک سابق صدر جماعت کوریا،مکرم رانا ناصر احمد سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ جنوبی کوریا،مکرم خالد ناصر سابق صدر جماعت احمدیہ سیؤل،مکرم محمد رفیع اور خاکسار شامل تھے۔ کانفرنس کے انعقاد سے قبل مارچ 2014ء میں اس تنظیم کے چیئرمین نے حضور انور سے ملاقات کی درخواست کی اورحضور انور سے ملاقات میں آپ کی خدمت میں جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والی بین المذاہب امن کانفرنس میں شمولیت کا دعوت نامہ پیش کرنےکی خواہش کا بھی اظہارکیا۔مارچ 2014ءکےآغاز میں اس تنظیم کےدو رکنی وفد نےسیؤل میں واقع احمدیہ سنٹر کاوزٹ کیا اورخاکسارسے تنظیم کے چیئرمین کے یورپ کےدورہ کاذکر کیا کہ وہ اپنے اس دورہ کے دوران مذہبی و سیاسی لیڈرز سے ملاقات کرکےانہیں جنوبی کوریا میں منعقدہونے والی کانفرنس میں مدعو کریں گے اور یہ کہ تنظیم کے چیئرمین خصوصی طورپرحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کےخواہشمند ہیں۔ اس وفد نے خاکسار کوتنظیم کےچیئرمین کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں تحریر کردہ خط دیاجس میں موصوف نےحضور انور سے ملاقات کی استدعا کی اورحضور انور سےامن عالم کے حوالہ سے مذہب کے کردار پر تبادلہ خیالات کرنےاوربذات خودحضور انور کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کا دعوت نامہ پیش کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔انگلستان سے ڈاکٹر افتخار احمد ایاز بطورنمائندہ اس کانفرنس میں شرکت کے لئےتشریف لائے۔ جماعت احمدیہ جنوبی کوریا کا وفد بھی ان کے ہمراہ پہلی باراس کانفرنس میں شامل ہوا۔ جماعت احمدیہ کے وفد کی اس کانفرنس میں شمولیت کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی پر امن اور خوبصورت تعلیم کو کانفرنس کے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کو پیش کیاجائے۔مکرم انیس رئیس صدر جماعت و مبلغ جاپان، جاپان میں مقیم مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پہ اس مذاہب عالم کانفرنس میں شامل ہوئے۔یہ کانفرنس تین روز جاری رہی جس میں دنیا بھر کے ممالک کے سابق صدور،ججز، دانشور اور علماء نے شرکت کی۔خاکسارکواس کانفرنس میں شامل مذہبی اور سیاسی عمائدین کو جماعت کا تعارف اور جماعتی لٹریچر تقسیم کرنےکی توفیق ملی۔ اس تنظیم نے سویڈن کے مبلغ انچارج آغا یحیٰ صاحب کو2015ء میں منعقدہ مذاہب عالم کانفرنس میں شرکت کےلئے مدعو کیاتھا۔محترم آغا یحیٰ صاحب مبلغ سویڈن اس کانفرنس میں شرکت کے لئے جنوبی کوریاتشریف لائے۔
جنوبی کوریا میں مسجد کی تعمیر کی خواہش
جماعت احمدیہ جنوبی کوریا نےکوریا میں مسجد بنانےکےارادہ کاحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں لکھ کر اظہار کیا تو حضور رحمہ اللہ نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔احباب جماعت نے دل کھول کر مسجد کی تعمیر کے لئےفنڈز دئیے۔اگرچہ اس وقت اس خواہش کی تکمیل نہ ہوسکی۔لیکن آئندہ کسی وقت مسجد کی تعمیر سےیہ خواہش ضرور پوری ہوگی۔ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ
احمدیہ وفدکا بدھ مت کےٹیمپل کا دورہ
احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن جنوبی کوریا کے 5 رکنی وفد نے 27 اور 28 اپریل 2019ء کو Hongbeopsa Temple بوسان، جنوبی کوریا میں بدھ مت کے ٹیمپل قیام میں حصہ لیا۔ Temple Stay کورین بدھ مت کی روزمرہ کی طرز زندگی، رسومات اور روحانیت کا تجربہ کرنے کا ایک انوکھا موقع ہے۔ اس میں عام طور پر ٹیمپل میں رہنا اور روزمرہ کی خانقاہی سرگرمیوں میں شا مل ہوناہے۔ آجکل مقامی لوگوں اور غیر ملکیوں میں کورین بدھ مت کا تجربہ کرنے کے لیے ٹیمپل کے قیام کا پروگرام خاصا مقبول ہے۔جماعت احمدیہ کے وفد کا اس پروگرام میں شرکت کرنے کامقصد یہ تھا کہ بدھ مت کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا جائے اور اسلام کےپیغام کو بدھ مت کی کمیونٹی تک پہنچایا جائے۔پروفیسر نوریکو ساتو(Noriko Sato)جنوبی کوریا میں کمیونٹی کی بہت اچھی دوست ہیں۔انہوں نے بدھ مت کمیونٹی تک اسلام کے پرامن پیغام کو پروموٹ کرنےکے لیے اس موقع کا اہتمام کیا تھا۔اس پروگرام میں جماعتی وفد کی شرکت کو کامیاب بنانے کے لئےخصوصی طور پر حضور انورکی خدمت اقدس میں دعا کی درخواست ارسال کی گئی۔ جماعتی وفد نے ٹیمپل میں 20 گھنٹے قیام کیااور اس میں امریکہ، برطانیہ، جنوبی افریقہ، چین اور فجی کے غیر احمدی شرکاء شامل تھے۔ ٹیمپل کے قیام کی سرگرمیوں میں مراقبہ، خانقاہی کھانے کی روایت، واکنگ مراقبہ، تھریڈنگ اور دھرم ٹاک شامل تھے۔پروگرام کے اختتام پر میزبانوں نے احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن جنوبی کوریا کے نیشنل صدرنے بدھ مت کے جنوبی کوریا میں سب سے بڑے فرقہ جوگے آرڈر کے ٹیمپل ہونگ بوپسا(Hongbeopsa)کےسربراہ راہب معزز وین شمسن (Ven Shimsan)کو قرآن پاک کا ایک نسخہ پیش کیا جسے وہ وصول کرکےبہت خوش ہوئے اور یہ بات تمام شرکاء کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔ اس کے بعد شرکاء نے اپنی مادری زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کے نسخوں کی بھی درخواست کی۔ ٹیمپل کے میزبان نےجماعتی وفد کی ٹیمپل میں تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور جماعتی وفد کے بارے میں یہ ریمارکس دیئے کہ آپ کا عزت و احترام دینے والا رویہ اور مہربانی و شفقت ہمارے لیے واقعی متاثر کن ہے۔
اس موقع پرکوریا میں ایک چینی طالب علم نے چینی ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک حاصل کرنے کے بعد جماعتی وفد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ واقعی خوبصورت ہے۔ میں جو کتاب چین سے لایا ہوں وہ ختم ہونے کو ہے۔ اب میرے پاس یہ ہے۔پروفیسر نوریکو ساتو نے بتایا کہ مجھے ابھی ٹیمپل کے منتظمین کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی ہے کہ وہ جماعتی وفد کے ساتھ ٹیمپل میں تشریف لانےسے بہت خوش ہوئے ہیں اور یہ کہ ٹیمپل کے سربراہ راہب جماعتی وفد کی طرف سے قرآن کریم کے نسخہ عنایت کئے جانے پرشکرگزار ہیں۔
(Al Hakam 26th July 2019)
جوگے آرڈر(Jogye Order) جنوبی کوریا میں بدھ مت کا سب سے بڑا فرقہ ہے جو جنوبی کوریا کی بدھ مت کی آبادی کے سب سے بڑے حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔جوگے آرڈر کی تاریخ 1,200 سال پیچھے متحدہ شلا بادشاہت کے دور میں ملتی ہے۔ مراقبہ والا بدھ مت Zenمتحدہ شلابادشاہت کے دور میں کوریا میں چین سے متعارف ہوا۔ Master Doui راہب نے820ء میں چین میں عظیم رشی ہیوننگ سے تعلیمات حاصل کرکے Zen کی تعلیمات کو کوریا میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کورین جوگے آرڈر کی ٹریڈیشن براہ راست Zen سے ماخوذ ہیں۔ جوگے آرڈر ایک الگ پہچان کے طور پر 11ویں صدی کے آخر میں ابھرا۔ ماسٹرjinul نے اس وقت بدھ مت کے مختلف مکتب ہائےفکر کومتحد کیااور اس نے مراقبہ کی ایک قسم متعارف کروائی جسے Ganhwaseon کہتےہیں۔jinul کوجوگے آرڈر کا بانی مانا جاتا ہے۔
بارھویں صدی کے آغاز میں کوریو سلطنت کےملٹری دورمیں بڑی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا اور اس کےبعدآنے والی صدیوں کے دوران بڑی سرعت کے ساتھ پھیلا۔ جوسن بادشاہت کے دور میں یہ نیو کنفیوشش فلاسفی کو سٹیٹ آئیڈیالوجی کے اپنانے اور بدھ مت کے خلاف اقدامات کی وجہ سے زوال پذیر رہا۔کوریا پہ جاپان کے نو آبادیاتی دور میں اس آرڈر کو از سر نو منظم کرنے کی کوشش ہوئی۔جاپان کے کوریا پہ تسلط کے بعدنوےفیصدی کورین بدھ مت اس شاخ سے منسلک ہیں۔ 19000 ہزار فعال ٹیمپلز ہیں اورپانچ بڑی ٹریننگ دینے کی خانقاہیں اور10 ملین پیروکار ہیں اور 13 ہزار بھکشو ہیں۔ کوریو دور میں اس قسم کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا گیا۔chogye آج بھی کوریا میں بدھ مت کی مقبول شاخ ہے۔وین وان ہینگ(Ven.Wonhaeng) اس کے موجودہ صدر ہیں۔
جنوبی کوریا میں عیسائیت کااصل چہرہ
اورعمدہ مذہب کی متلاشی کورین قوم
جزیرہ نما کوریا کواپنی تاریخ کے ایک طویل دور تک یکے بعد دیگرے مختلف بحرانوں سے گزرنا پڑا۔بالخصوص بیسویں صدی میں جزیرہ نما کوریا اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزرا جب جزیرہ نما کوریا پرتسلط قائم کرنے کےلئے روس اور جاپان کے مابین جنگ ہوئی اورجاپان نے کوریا پر قبضہ کر لیا۔جزیرہ نما کوریا 1905ء سے لیکردوسری جنگ عظیم کے اختتام تک جاپان کےنوآبادیاتی نظام کےماتحت رہااور اس دور میں کورین قوم فاتح قوم کےظلم و ستم کاتختہء مشق بنی۔دوسری جنگ عظیم دوم کے بعد جزیرہ نما کوریا بڑی طاقتوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ا ور بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کی وجہ سے اسےدوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1948ء میں دونو ں حصے جنوبی اور شمالی الگ الگ ملک کے طور پر وجود میں آئے۔ایک جنوبی کوریا اور دوسرا شمالی کوریا کے نام سے دنیا میں جانے جاتے ہیں۔آزادی کے بعد امریکہ نے جنوبی کوریا کی حمایت کی اور سوویت یونین نے شمالی کوریا کی حمایت کی۔ بد قسمتی سےامریکہ اور روس کی سرد جنگ کے باعث ایک آزاد اورمتحد کوریا کی تشکیل نہ ہو پائی۔
آزادی کے چند سال کے بعدشمالی اور جنوبی کوریا کے مابین جنگ 25 جون 1950ء کو شروع ہو کر27 جولائی 1953ء کو ختم ہوئی۔ اس خونریز جنگ کے نتیجے میں 2.5 ملین سے زائد لوگ لقمہءاجل بنے۔کورین قوم نصف صدی سے مسلسل ظلم کا شکار رہی اور مظالم کی وجہ سےان کی کمر ٹوٹ گئی اور پھر بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کے باعث آپس کی خون ریز جنگ کے نتیجے میں ملینز لوگ مارے گئے۔ معیشت اسقدرتباہ ہوگئی کہ غربت و افلاس کے مہیب سائے منڈلانے لگے۔ایسےمیں چرچ کوکوریا کو عیسائی بنانےکانادرموقع ہاتھ لگا۔ چرچ نےکورین قوم کےحالات و واقعات کاادارک کرتے ہوئے اور ان کے جذبات اوراحساسات کو بھانپتےہوئے انہیں عیسائیت کے قریب کرنا شروع کیا،سیاست اور مالی امداد کے نام پہ عیاری سےغریب کورین قوم کوعیسائیت کی گود میں ڈالنے کے لئے کوششیں تیز کردیں۔ کوریائی جنگ کے بعدکورین قوم نے ایک طاقتور اور متمول قوم کے اثر کو قبول کر کے عیسائیت کو قبول کرنا شروع کیا۔ دی ڈپلومیٹ انٹرنیشنل میگزین میں 7 اپریل 2016 کی اشاعت میں Dave Hazzan لکھتا ہے کہ:
Following the Korean War, South Koreans came to view the Americans as saviors, and the Americans, religion, Christianity, as source of strength and wealth
یعنی کوریا ئی جنگ کے بعد، جنوبی کوریا کے باشندے امریکیوں کو نجات دہندہ کے طور پر اور ان کے مذہب عیسائیت کو طاقت اور دولت کا ذریعہ دیکھنے لگے۔
1945ء میں جاپان سےآزادی کے فوراً بعد سیاسی منظر نامے پر آنے والی شخصیات کی ایک بڑی اکثریت پروٹسٹنٹ چرچ کے رہنما اور اراکین کی تھی اور خاص طور پر شمال اور جنوب میں دو الگ الگ حکومتوں کے ابھرنے کے بعدجنوبی کوریا میں عیسائیوں نے تقریباً 40 فیصد سیاسی قیادت کے عہدوں پر قبضہ کر لیاحالانکہ وہ جنوبی کوریا کی آبادی کا 10 فیصد سے بھی کم تھے۔
1953ء کی کوریائی جنگ کے بعد جنوبی کوریا میں عیسائیت کی رفتار تیز ہوگئی۔ جنوبی کوریا میں میگاچرچز کی تعمیر ہونا شروع ہوئی۔ایک منصوبہ کے تحت آغاز سےجنوبی کوریا کو کرسچن کنگڈم(Christian Kingdom)بنانے کی تیاری کی گئی۔اسی منصوبہ کے تحت جنوبی کوریا کاپہلاصدر امریکہ کے حمایت یافتہ سنگمن ری کوبنایا گیا جو پروٹسٹنسٹ عیسائی اورخودچرچ کے ایلڈر(Elder)تھے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ پہلےصدارتی تقریب کے افتتاح کےموقع پر عیسائی تقریبات سے آغازکیا گیا اور سنگمن ری نےپہلے صدر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کا حلف بائبل ہاتھ میں پکڑے ہوئے اٹھایا۔ کوریا کی تاریخ میں اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ایک کورین تاریخ دان Yi Manyolنے سنگمن ری کے دور حکومت کو ’’عیسائی دور‘‘ کے آغاز سے تعبیر کیا۔Chung-shin PARK لکھتے ہیں کہ:
It is interesting to note that at his inauguration as the first president of the Republic of Korea on August 15, 1948, Syngman Rhee took an oath of office with his hand on the Bible, a gesture unprecedented in Korean history. At the opening ceremony, over which he presided as speaker before the presidential inauguration, Rhee told the audience to rise and had Assemblyman Yi Yunyong, a Christian minister, led a prayer of thanks. The first National Assembly and the first presidential inauguration in a land steeped in Confucianism, Buddhism, and folk cults were begun with Christian ceremonies. All signs at the beginning of the Rhee’s regime indicate the opening of a ‘‘Christian era,’’ as a prominent Korean historian says. This phenomenon is indeed an intriguing subject for research. For some reasons, however, the Christian background of these individuals is not mentioned at all, or only tangentially, in the literature. It would be an intriguing subject to see how these Christians came to assume leadership positions in the south.
(International Journal of Korean History
Vol.11, Dec. 2007 byChung-Shin PARK)
یعنی یہ بات دلچسپ ہے کہ 15 اگست 1948ء کو جمہوریہ کوریا کےاپنے بطور پہلے صدر کےافتتاح کے موقع پر سنگمن ری (Syngman Rhee)نے بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا کوریا کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ افتتاحی تقریب میں، جس کی صدارت انہوں نے صدارتی افتتاح سے قبل اسپیکر کی حیثیت سے کی تھی، ری نے سامعین کو اٹھنے کا کہا اور ایک عیسائی پادری، رکن اسمبلی یی یونیونگ نے دعاکروائی۔ کنفیوشس ازم، بدھ مت اور لوک فرقوں سے گہری متاثرہ سرزمین میں پہلی قومی اسمبلی اور پہلی صدارتی افتتاحی تقریب کا آغاز مسیحی تقریبات کے ساتھ کیا گیا۔ Rhee کی حکومت کے آغاز میں تمام علامات ایک ’’عیسائی دور‘‘ کے آغاز کی نشان دہی کرتی ہیں جیسا کہ ایک ممتاز کوریائی مورخ کا کہنا ہے۔ یہ واقعہ درحقیقت تحقیق کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہے۔ تاہم، بعض وجوہات کی بنا پر، ان افراد کے مسیحی پس منظر کا لٹریچر میں بالکل ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلچسپ موضوع ہوگا کہ یہ عیسائی کیسے جنوب میں(جنوبی کوریا) قیادت کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
1948ء میں ری نے ریاستہائے متحدہ میں پریسبیٹیرین چرچ کی ایک کانفرنس سےجو پہلا خطاب کیا۔اس خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح عیسائیت سیاست کے نام پر کوریا میں داخل ہوئی۔ پروٹسٹنٹ چرچ نے کمیونسٹ مخالف نظریہ قائم کرنے کے لیے ری کی کوشش کی حمایت کی تھی اور پھر ری نےعیسائیت نواز پالیسی کے ذریعے چرچ لیڈرز کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے نوازا، کرسچئن منسٹرYi Yunyong Rhee کوریا کے پہلے وزیر اعظم تھےاوراس طرح جنوبی کوریا کے آغازسے ہی ملک کی بھاگ دوڑ عیسائیت کے ہاتھوں میں تھما دی گئی۔ یہ سب ایک منصوبہ کے تحت تھا۔
ری (Rhee)نےچرچ کی کانفرنس سے خطاب میں کوریا میں عیسائیت لانے کے لیے امریکہ کے چرچ کا شکریہ ادا کرتے ہوئےانکی کوریا کے تعلیم اور طب کےمیدان میں عظیم خدمات کو سراہا اور ری نےان سے عہد کیا کہ ان کی حکومت کوریا میں مسیحی عقیدہ کو آگے بڑھانے کی پوری کوشش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کوریا میں ان کی حکومت اور عیسائیت کو سوویت یونین کی تربیت یافتہ ریڈ آرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےجس کا مقصدجنوبی کوریا کو کمیونسٹ بنانااورعیسائیت کو مٹاناہے۔ انہوں نے امریکی چرچ کے رہنماؤں کو ریڈ آرمی کے اس خطرہ سےمتنبہ کیا۔ اس کے بعد ری نےچرچ سے اپنی حکومت اور کوریائی عیسائیوں کی فعال حمایت کی اپیل کی جو کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے تھے۔ ان کی تقریر کو خوب پذیرائی ملی، اور کوریا میں کمیونزم مخالف مقصد کے لیے فوری طور پر فنڈز اکٹھے کیے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب کمیونسٹ مخالف ہسٹیریا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔کوریائی پروٹسٹنٹ چرچ کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اپنے طویل تعلق کے باعث اور وہاں سے حاصل ہونے والی امدادی رقم اور سامان کی فراہمی کی وجہ سےچرچ نے ری کی حکومت کے لئے اور کمیونزم کے خلاف قابل قدر خدمات انجام دیں۔چرچ نے نہ صرف کمیونسٹ مخالف آئیڈیالوجی کے لئے ری کی حکومت کی مدد اور حمایت کی بلکہ ری کے 12 سالہ دور حکومت میں پروٹسٹنٹ کمیونٹی نے ری کی حمایت میں الیکشن کےدوران اپنے ذرائع اوراثرورسوخ کا بھرپور استعمال کیا۔1952ء کے صدارتی انتخاب میں جس میں ری بطور صدر منتخب ہوئے اس میں چرچ نے انتخاب کے لئے کورین چرچ کمیٹی قائم کی جس نے ری کےلئے بھرپور مہم چلائی۔چرچ کی سپورٹ سے قائم ہونے والی حکومت نےاس کے بدلے میں چرچ کو خوب نوازا۔ انہیں گورنمنٹ میں عہدے اور وازارتیں دی گئیں اور اس طرح عیسائیت نے سیاست کے سہارے پر جنوبی کوریا میں عیسائیت کو کو پروان چڑھایا۔
چنگ شن پارک لکھتا ہے کہ:
The Protestant church systematically lent its undivided support to Rhee by justifying his government and its stand on communism. The church in turn was rewarded with particular favors and benefits.
(Protestantism and Politics in Korea byChung-Shin Park page180)
پروٹسٹنٹ چرچ نے منظم طریقے سےری کی حکومت اور کمیونزم پر اس کے موقف کو جواز بنا کر ری کی بھرپورمدد کی۔ اس کے بدلے میں چرچ کوخاص انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
جنوبی کوریا کی تشکیل کےآغاز میں کورین قوم کو عیسائیت کی جھولی میں ڈالنے کےلئےامریکہ کے شہرہ آفاق عیسائی منادڈاکٹر گراہم بلی کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔یاد رہے کہ1960ء میں افریقہ کو عیسائیت کی گود میں ڈالنے کا عزم لئے ڈاکٹر بلی گراہم نے افریقن ممالک کاوسیع دورہ کیاتھا۔اس مناد کو احمدی مبلغین نےافریقہ میں پوری قوت کے ساتھ للکارا اورمناظرےکےچیلنج دیئےمگرتثلیث کایہ مایہ ناز نمائندہ کاسر صلیب کےکے شاگردوں کے سامنےسراسر عاجز، بے بس اوردم بخودہو کے رہ گیا اورجائے فراراختیارکی جسے افریقہ کی مذہبی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر بلی گراہم نے امریکہ کی آشیر باد سے1952ء، 1956ءاور1973ءمیں دورے کئے۔1952ء میں بلی گراہم نےجنوبی کوریا کاکورین جنگ کےدوران دورہ کیا۔انہوں نے اس دورے کے دوران امریکن آرمی ٹروپس کے ساتھ کرسمس گزاری، عیسائیت کی تبلیغ کی اورکوریا میں چرچ کی سرگرمیوں کو براہ رست دیکھا۔1956ء کے مجمع میں55000 ہزار کے مجمع سے خطاب کیا اور اس مجمع میں جنوبی کوریا کے صدر سنگمن ری نے تشریف لا کرانہیں خوش آمدید کہا۔1973ء میں بلی نےایک ملین سے زائد لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔1990ء میں بلی گراہم نےچرچ کی تعمیر کے لئےدو مرتبہ شمالی کوریا کا دورہ کیا۔ الغرض عیسائیت نے کوریا میں اورباقی دنیا میں اپنے پنچے گاڑنے کے لئے سیاست اور عیاری کا سہارا لیا۔
1997ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں کوریا میں عیسائیت کےاصل چہرہ کو ان الفاظ میں بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:
’’ابھی چند دن ہوئے کوریا کے نمائندے یہاں تشریف لائے ہوئے تھےان سے گفتگو ہوئی وہاں ایک کورین خاتون ہیں جنہوں نے واقعتاَ اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا ہےاپنےخرچ پر یہاں تشریف لائیں مجھے مشورے دے رہی تھیں کہ کیا کیا ہم ہوشیاریاں کریں تو کوریا میں کثرت کے ساتھ پھیل سکتے ہیں۔جب وہ بات کر چکیں تو میں نے کہا جس طرح عیسائیت۔انہوں نے کہاہاں عیسائیت دیکھو کتنی پھیل گئی ہے۔لکھوکھا انسان(millions)دیکھتے دیکھتے عیسائی بن گئےتو آپ بھی کچھ ان سے ملتی جلتی باتیں کریں۔انہوں نے مدرسے بنائےاتنے،کوئی کالج ہسپتال بنائے،رفاہ عامہ کے یہ کام کئے اور اس کے نتیجے میں دیکھو ملینز عیسائی بن گئے۔جب وہ بات کر چکیں تو میں نے انہیں کہا ان ملین عیسائیوں میں کیا پاک تبدیلی آپ نے دیکھی ہے۔؟کتنے ہیں جنہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے مسلک چھوڑے ہیں۔کتنے ہیں جو بہتر انسان بن گئے اور خدا کے سامنے سر جھکانے والے ہوگئے؟کچھ دیر تک وہ خاتون سوچتی رہیں اور پھر ان کا جواب صفر نکلاکہ میرے علم کوئی نہیں۔میں نے کہا کہ یہ سیاست ہے یہ مذہب نہیں ہے۔یہ وہ دین ہےجس کو دین اللہ نہیں ہم کہہ سکتے اور ہمیں تو دین اللہ میں دلچسپی ہے۔اس لئے اگر آپ اکیلی بھی کوریا میں احمدی مسلمان بن کراپنے آپ کو خدا کے حضور جھکا دیں تو وہاں احمدیت کامیاب ہےاور عیسائیت ناکام ہےکیونکہ عیسائیت نے اگرمذہب لے کروہاں پہنچی ہےتو مذہب میں دھوکہ دیا ہے۔عیسائیت دراصل امریکہ کی سیاسی حثییت کا ایک دوسرا چہرہ ہے‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 19 ستمبر تا 25 ستمبر1997ءصفحہ7)
جنوبی کوریا نےجب معاشی ترقی کے سفر کا آغازکیا توچرچ نےکورین قوم کو سرعت کے ساتھ ان کا مذہب تبدیل کرنےکے لئے بڑی ہوشیاری سے انکےکےدل و دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ جنوبی کوریا کی تعمیرو ترقی کا رازان کاعیسائیت کو قبول کرنے کی بدولت ممکن ہورہا ہے اورجب تک وہ صرف دوسرے مذاہب کے پیروکار تھے اور ابھی معقول تعددا نے عیسائیت کو قبول نہ کیا تھا تووہ انتہائی غریب اور پسماندہ رہے۔ عیسائیت اس پروپیگنڈا کو موئثرہتھیار کے طور پہ استعمال کرتے ہوئےکورین قوم کو مزیدعیسائیت کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔اب تو چرچ کے پادری اس بات کو باربار دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عیسائیت سے وابستہ زیادہ اقوام دولت مند ہیں اور بدھ مت سے وابستہ کوئی ایسا ملک نہیں جو امیر ہو۔لیکن عیسائیت کا یہ پروپیگنڈا مزید کارگر نہیں رہے گا کیونکہ نئی نسل اب ان کی اصلیت جان چکی ہے۔
عمدہ مذہب کی متلاشی کورین قوم
ملک کی اکثر آبادی لا مذہب ہے۔ کوریا کےادارہ شماریات کے مطابق2005ء میں لا مذہب کی تعدادا 47 فیصدتھی جوکہ 2015ء میں 47 فیصد سے بڑھکر 56 فیصد ہو گئی ہے۔جنوبی کوریا میں ہر نئے دن کے ساتھ لا مذہب والوں کی فہرست میں اضافہ ہو رہا ہے۔کوریا نے معاشی ترقی کی تو لوگوں کا رجہان دنیا داری کی طرف ہو گیا اور وہ مذہب سے دورہو گئے۔۔ اوردوسری وجہ لا مذہب کی تعدادا میں اضافہ کی کوریامیں لوگوں کی موجودہ مذاہب عیسائیت اور بدھ مت سے بیزاری بھی ہے۔ کیونکہ لوگ ان مذاہب کو صرف دکانداری کا حصول سمجھتے ہیں۔نئی نسل چرچ کے پادریوں کی مالی بدعنوانیوں، کرپشن اور جنسی سکینڈل اور بدھ مت اور عیسائیت کے درمیان چپقلش کی وجہ سے مذہب سے متنفر ہو رہی ہے۔ 2011ء میں کوریا کے سب سے بڑے چرچ میں مالی کرپشن کا سکینڈل منظر عام آنے پہ عوام نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ چرچز کو ٹیکس چھوٹ کوختم کر کے ان پہ ٹیکس عائد کیا جائےاوریہ کہ اگر چرچ کے لیڈرز ہی بڑی رقوم کو خرچ کرنے کے فیصلے کریں گے تو شفافیت کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور یہ کرپشن اور مالی بد عنوانی صرف چرچز تک نہیں محدود رہے گی بلکہ سارے کورین معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لی گئی۔حالیہ تاریخ میں جنوبی کوریا میں بدھ مت کوبڑا دھچکا اس وقت لگا جب بدھ مت کے کوریا میں سب سے بڑے فرقہ جوگے آرڈر کے صدرSeolijeong کو اگست 2018ء کو مختلف سکینڈلز کی وجہ سے دستبردار ہونا پڑا۔اس سے بدھ مت کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔2015ء کےادارہ شماریات کی رپورٹ کےمطابق تقریباَ 7 ملین لوگ اس سے وابستہ ہیں اور19000 ہزارایکٹو ٹیمپلز ہیں۔
چند دہائیوں سے جاری عیسائیت اور بدھ مت کے مابین مخاصمت بھی کورین قوم کےمذہب میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ بنی ہے۔۔ 2008ء میں یہ مخاصمت طول پکڑ گئی جب دس ہزار بدھ مت کے راہبوں نےگورنمنٹ کے خلاف اس بات پہ احتجاج کیا کہ گورنمنٹ پروٹسٹنٹ کی حمایت کر رہی ہے اور بدھ مت کے ماننے والوں کےساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔اس وقت کے کوریا کے صدر لی میونگ بیک جو کہ چرچ کے لیڈر بھی تھےکو براہ راست اس بات کا ذمہ دار قرار دیا۔ جوگےآرڈر کے راہبوں کا کہنا تھا کہ جب سے لی فروری میں صدر بنے ہیں توانہوں نے سرکاری پوزیشنز کو عیسائیوں سے بھر دیا ہے اور وہ نہ ماننے والوں پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اورصدر لی کوریا کو ایک عیسائی قوم میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک مثال اس سال اس وقت پیش آئی جب حکومت نے سیئول کا آن لائن نقشہ شائع کیا۔ جوگےٹیمپل اور بدھ مت کے دیگر مقامات کو چھوڑ دیا گیا، حالانکہ اس کے برعکس چھوٹے عیسائی گرجوں کو بھی اس نقشہ میں شامل کیا گیا تھا۔
ابھی حال میں جنوری 2022ء میں جنوبی کوریا کے بدھ مت کے سب سے بڑے فرقے جوگے آرڈر(Jogye Order) کے 5000 ہزار راہبوں اور بھکشوؤں نے جنوبی کوریا کے اس وقت کے صدر مون جئےانIn)۔ (Moon Jae کےخلاف ان کی گورنمنٹ کی بدھ مت مخالفانہ اور متعصبانہ اور امتیازی پالیسیوں پر اور عیسائیت کی طرفداری پراحتجاج کیا اور انہوں نے بدھ مت کے خلاف متعصبانہ رویے اور امتیازی سلوک سے روکنے کے لئے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ صدر مون کی کابینہ میں بدھ مت کے پیروکاروں کے تناسب سے لے کر عیسائی کیرول(Christian Carols) کو فروغ دینے کے لیے ریاستی سرپرستی میں چلنے والی مہم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ دسمبر 2021 میں، ملک کی وزارت ثقافت، کھیل اور سیاحت نے ملک گیرcarols پروموشن مہم کی میزبانی کی۔ جوگے آرڈر نےاس تقریب پر تنقید کی کہ حکومت نے ایک مخصوص مذہب کی واضح تشہیر کے لئے ٹیکس دہندگان کے فنڈز کا بےدریغ استعمال کیا۔انہوں نے عیسائیت نواز دیگرحکومتی منصوبوں پر بھی کڑی تنقید کی۔
کورین معاشرے میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔خاندان اور گھر ٹوٹ رہے ہیں۔طلاق اور خود کشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔کورین قوم کو دلی سکون اور اطمینان کی تلاش ہے جو عیسائیت اور بدھ مت دینے میں ناکام رہا ہے۔دراصل انہیں ایک ایسے مذہب کی تلاش ہے جو حقیقت میں پاک اورخالص ہو اور انہیں اطمینان و سکون دے سکے اور ان کی بے قراری اور بے چینی کو دور کرسکے اور سوائے اسلام کے ایسا کوئی مذہب نہیں۔ لیکن کورین معاشرہ میں مذہب اسلام کے بارے میں بڑی لاعلمی پائی جاتی ہے۔مغربی میڈیا اور عیسائیت کے اسلام مخالف پروپیگنڈا کی وجہ سے کورین قوم کا اسلام کے بارے میں عموماَ منفی نقطہء نظر ہے اوریہ اسلام مخالف منفی پروپیگنڈاکورین قوم کی اسلام سے عدم دلچسپی کا با عث ہے۔وہ اسلام کوغلطی سے بعض مسلمانوں کے غلط عمل کی وجہ سے ایسا مذہب سمجھ بیٹھے ہیں کہ جو امن اور انسانیت کا دشمن ہے اوردہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پہ ظلم روا رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کو احیاءاسلام کےلئے مامور کیا ہے۔جماعت احمدیہ اسلام کی اصل نمائندہ جماعت ہے۔آج خلافت احمدیہ کے سایہ تلےجماعت احمدیہ اسلام کی حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کررہی ہے اور اسلام کے متعلق شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کو دور کر رہی ہےاور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر رہا ہے اور آج دنیا بھر میں لوگ اسلام کی پرامن تعلیم پیش کرنے پہ خلافت احمدیہ کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ اب اللہ کے فضل سےکورین قوم میں بھی اسلام سے دلچسپی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔
چند سال پہلے مارچ 2019ءکو ایک کورین تنظیم کےتین رکنی وفد نےحضور انور سے شرف ملاقات حاصل کیا۔یہ وفد جنوبی کوریا سےخصوصی طور پرحضورانورسےملنےحاضرہواتھا۔وفدکےممبران نےحضورانور کو اپنی تنظیم کا تعارف کروایا نیزدنیا میں کی جانے والی حضورانور کی امن کی کاوشوں کو سراہتے ہوئےحضور انور کو بین المذاہب امن کانفرنس میں صدارتی خطاب فرمانے کی دعوت دی۔
( The Weekly Ahakam, 12thApril2019)
2017ء کے جلسہ سالانہ یوکےمیں جنوبی کوریا سے ایک کورین مہمانyeongjin shin نےشمولیت کی اورحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےملاقات کی سعادت حاصل کی۔موصوف پیشہ کے لحاظ سےٹیچر ہیں۔اوراسلام کے بارے میں سٹڈی کر رہے ہیں۔موصوف نے بتایا کہ میں نےجلسہ سالانہ کے پروگراموں اور حضور انورکےخطابات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اسلام کے بارہ میں مجھے بہت معلومات ملی ہیں اور میرے علم میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔اس سے قبل میں اس بارہ میں کچھ نہیں جانتا تھا۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام ایک امن وسلامتی کا مذہب ہےاور اسکا دہشتگردی سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں۔
(الفضل انٹرنیشنل24 نومبر2017ء)
حضور انور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی امن عالم کے حوالہ سے مختلف ممالک میں خطابات کے مجموعہ پہ مشتمل ’’دی ورلڈ کرائسز اینڈ پاتھ وے ٹو پیس‘‘کےکورین ترجمہ کی اشاعت کے دوران خاکسار اور مکرم عقیل الرحمان صاحب پبلشنگ کمپنی کے آفس گئے تو وہاں پبلشنگ کمپنی کی نمائندہ خاتونYang Okmae نےاس بات کا اظہار کہا کہ پہلے میں سمجھی تھی کہ یہ کتاب دیگر کتب کی طرح ہوگی لیکن مجھے اس کے دیکھنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ یہ ایک بڑی اہم کتاب ہے جس میں واقعی دنیا کے امن کا حل بتایا ہے اور آخر پہ یہ ریمارکس دئیےکہ اسلام واقعی امن کا داعی مذہب ہے جو امن عالم کے قیام کے لئے نہ صرف اصول بیان کرتا ہے بلکہ اپنے ماننے والوں کی اس پر عمل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
جب یہ کتاب ایک کورین ہیومن رائٹس کے وکیل کو دی تو انہوں نے کہا کہ میں اسے ضرور پڑھنا چاہوں گا۔ بعد میں ملاقات ہوئی تو موصوف کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب کو پڑھاہے اور اس کتاب کے اندر جو مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کوکو جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے خطوط لکھے ہیں وہ میرے لئے دلچسپی کا باعث تھے۔ اور یہ کہاکہ اگردنیا کے لیڈر اس پر غور کریں اور عمل کریں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔بدقسمتی ہوگی ہےکہ یہ لیڈرز اپنے مفادات کی وجہ سے ان باتوں پر کان نہ دھریں۔
کورین قوم ایک عمدہ مذہب کی تلاش میں ہے اور مذہب اسلام کو جاننے اورسمجھنے کی جستجو کی ایک نمایاں جھلک اس میں دکھائی دیتی ہے۔ خاکسار کو اس بات کا تجربہ جنوبی کوریا میں اپنے قیام کے دوران مختلف مواقع پر ہوا۔ بک فئیر میں خاصی بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے نوجوان طلباء اور سکول کے بچےمذہب اسلام کے بارے میں جاننے کےلئےجماعت احمدیہ کے بک سٹال پرآتے اور بڑی دیر تک قرآن کریم کا کورین ترجمہ پڑھتے اور دیگر لٹر یچر کا بغور مطالعہ کرتےاور اسلام کےبارے میں مختلف سولات پو چھتے۔ان کے سوال پوچھنے اور جواب سننے کے انداز سے انکی اسلام سےدلچسپی کا عنصر نمایاں نظر آتا۔وہ جماعت کا لٹریچر شکریہ کے ساتھ بخوشی قبول کرتے۔ کورین معاشرےمیں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نےاسلام کے بارے کتب تحریر کی ہیں۔ان شخصیات میں پروفیسرہیسولی (HeeSooLee)ہیں جو کہ ہنینگ یونیورسٹی میں کلچرل انتھراپالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ہیں۔انہوں نے متعدد کتابیں اسلام کے بارے میں تصنیف کی ہیں۔ان کی ایک کتاب اسلام اورکورین کلچر کافی مقبول ہے۔خاکسار کے رابطہ کرنے پر موصوٖف نے احمدیت میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئےاحمدیت کا دیگراسلامی فرقوں سے فرق پرمشتمل جماعتی کتب بھجوانے کا کہا۔موصوف کوجماعتی لٹریچر دیا جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ایک پروفیسر جونگ من سو(Jeongmin Seo) ہیں جو کہ ہنکوک یونیورسٹی آف فارن سٹڈی میں مڈل ایسٹ اور افریقن سٹڈی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔خاکسار نےاحمدیت کے بارے میں ان کوکتب دیں جو موصوف نے شکریہ کے ساتھ قبول کیں۔ ان کی ایک کتاب ڈکشنری آف اسلام ہے جس میں انہوں نے دیگر اسلامی فرقوں کےعلاوہ جماعت احمدیہ کا بھی تقریباَدو صفلیکنحات پرمشتمل ذکر کیا۔
جولائی 2019ءمیں Juwon Park نامی ایک کورین خاتون ربوہ تشریف لائیں۔ موصوفہ لا مذہب ہیں۔ خاکسار نے موصوفہ کو جماعت کا تعارف کروایا۔ اس خاتون نے ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں سوالات کئے۔ موصوفہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگرچہ انکی مذہب کے بارے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیکن یہ گفتگو ان کےلئےدلچسپ رہی ہے اور وہ مزید اس بارے میں جاننے کی کوشش کریں گی۔ایک کورین خاتونGungah Leeنے اپنے دورہ کینیڈا کے دوران بیعت کرنے کی توفیق پائی۔
ایک کورین chang kingsou نامی عیسائی خاتون جو جنوبی کوریا میں مقیم پاکستانی احمدی فیملی کے ذریعہ جماعت کے قریب ہوئیں۔یہ خاتون لجنہ کے اجلاس میں بھی شرکت کرتیں۔ موصوفہ بیمار ہوئیں تو احمدی فیملی نے ان کی عیادت کی اور اپنے ساتھ کورین زبان میں جماعتی لٹریچر پڑھنےکے لئےموصوفہ کو دیاجس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب کا کورین ترجمہ بھی شامل تھا۔ جب وہ احمدی فیملی دوبارہ اس خاتون کی عیادت کےلئے تشریف لے گئیں توخاتون نے بتایا کہ وہ رات کو یہ کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئیں تھیں تو رات خواب میں اس نےنورانی چہرے والے بزرگ کو سفید چولہ میں ملبوس دیکھاہےجنکی تصویر اس کتاب کے اندر ہے۔کتاب کے اندر وہ شبیہ مبارک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تھی جس کا ذکر موصوفہ کر رہی تھیں کہ اس نےان بزرگ کو دیکھا ہے۔ احمدی فیملی نے موصوفہ کو بتایا کہ یہ خدا کی طرف سے تمہاری راہنمائی کی گئی ہے۔اس خاتون نے جماعت میں دلچسپی لینا شروع کر دی لیکن چرچ کے دباؤسے بیعت نہ کی۔ آج جماعت احمدیہ خلافت کی راہنمائی میں کوریا اور اقوام عالم میں اسلام کی صحیح تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔نام نہاد مسلمانوں کے غلط عمل سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر رہی ہے۔اوراسلام پہ بیرونی حملوں کا دفاع کر رہی ہے۔کوریا میں کورین زبان میں جماعتی لٹریچرموجود ہےجولوگوں کے دلوں سے اسلام کے بارے میں جنم لینے والی غلط فہمیوں کو دور کررہا ہے۔ جماعتی لٹریچر ملک کی بڑی لائبریریوں میں موجود ہے جس سے لوگ استفادہ کررہے ہیں۔بہت سے کورین اسلام کے بارے میں اعتراضات کا جواب پاکراسلام کےخلاف اپنی منفی سوچ کو بدل رہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب لوگ عیسائیت اور دہریت کےآسیب سے نکل کر احمدیت کے حصار میں داخل ہوں گے۔بالآخرحق کے متلاشی اور سعید فطرت لوگ احمدیت کو قبول کریں گے۔ انشاء اللہ مستقبل میں کورین قوم اور دیگر تمام اقوام احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے وابستہ ہوں گی اوروہ دن دور نہیں جب لوگ عیسائیت اوردہریت سے بیزار ہو کر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف توجہ کریں گے۔ہر طلوع ہونے والادن احمدیت کی فتح وظفر کا آئینہ دار ہے۔دنیاکا کوئی معروف ملک نہیں جہاں احمدیت کا شجر نہ لگ چکا ہو۔مشرق میں آباد اقوام ہوں یا مغرب میں۔ جنوب میں ہوں یا شمال میں۔ ہر قوم اس چشمہ سے پانی پی رہی ہےاورمختلف اقوام کے لوگ رنگ و نسل کی تمیز سے بالا شجر احمدیت کے زیر سایہ خدمت اسلام پر کمر بستہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی اقوام عالم میں احمدیت کےپھیلنےکے بارے میں عظیم الشان بشارتیں اور پیشگوئیاں ہیں۔آپؑ نےمتعدد بار سلسلہ احمدیہ کے دنیا کے تمام ممالک اور اقوام میں پھیلنے کابڑی تحدی اور جلال کے ساتھ اعلان فرمایا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور برہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 66-67)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی مقبولیت اور عظیم الشان عالمگیر انقلاب اور غلبہ کا ذکر ان پر شوکت الفاظ میں بیان فرمایا کہ:
’’دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائےگا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا۔یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد،17صفحہ182)
اب اللہ کے فضل سے2015ء میں جنوبی کوریا کے ہمسایہ ملک جاپان میں پہلی احمدیہ مسجد کی تعمیر ہو چکی ہے۔ جاپان میں مسجد کی تعمیر سےمشرق بعید میں احمدیت کےنئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔اس مسجد کی تعمیر سے خطے میں احمدیت کی ترقی کی داغ بیل پڑ چکی ہےاور جزیرہ نما کوریا میں جماعت کی ترقی کے نئے راستے کھلنے کا امکان پیداہوا ہے۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جاپان میں مسجد کی تعمیر کےتاریخی موقعہ پر دعائیہ کلمات ارشادفرمائے کہ:
’’یہ مسجدنہ صرف جاپان بلکہ جو شمال مشرقی ایشیائی ممالک چین، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ ہیں، ان میں جماعت کی پہلی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو باقی جگہوں میں بھی راستے کھولنے کا ذریعہ بنائے اور وہاں بھی جماعتیں ترقی کریں اور مسجدیں بنانے والی ہوں۔‘‘آمین
(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2015ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)
(محمد داؤد ظفر)