• 7 جون, 2025

کیا خدا واقعی موجود ہے؟

ہستی باری تعالیٰ
کیا خدا واقعی موجود ہے؟

دنیا میں بیشمار لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ کائنات،یہ سلسلہ روزوشب خودبخود چل رہا ہے اس کا کوئی خالق ہے نہ اس کا کوئی مقصد ہے مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو تمام قدرتوں کا مالک ہے تمام صفات حسنہ سے متصف ہے۔اس کے علاوہ سب مخلوق ہے اور اس نے تمام مخلوقات کو خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس خدا کا اسم ذات مذہب اسلام نے اللہ بیان کیا ہےاس خدا کے وجود پر بیشمار عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں۔

خداکی ہستی کی سب سے بڑی اور حتمی دلیل اس کا الہام،کلام اور اس کی آواز ہے۔اگر سینکڑوں عقلی دلیلیں اس بات کی ہوں کہ اس شہر،اس جنگل اور اس صحرا میں کوئی ذی روح موجود نہیں تو بچے کی ایک چیخ،شیر کی ایک دھاڑاور پرندے کی ایک چہچہاہٹ سب عقلی دلائل پر پانی پھیر دیتی ہےتو خدا تعالیٰ جو ہر زمانے میں،ہر علاقے میں اپنی آواز سے اور اپنے کلام سے اپنے وجود کا ثبوت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہےتواس کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔

اگر یہ سوال ہو کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ کلام واقعی خدا کا ہے تو خدا کا کلام اس کی عظمت، قدرت اور جلال کی خبر دیتا ہے اس کی غیب کی خبریں اس کے تمام زمانوں پر حاوی ہونے کی اطلاع دیتی ہیں آئیے اس سلسلہ میں 10بڑی اور عظیم الشان پیشگوئیوں کا جائزہ لیں۔

1۔تورات آج سے 3500سال قبل لکھی گئی اور اس میں مدتوں پہلےخدا کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کو ان کےدونوں بیٹوں اسماعیل اور اسحاق اور ان کی اولاد کی جسمانی اور روحانی ترقی کے متعلق دی گئی خبریں موجود ہیں پیشگوئی تو اس سے بھی 300سال پہلے کی ہے (ملاحظہ ہو پیدائش باب 12،13،17،21)

2۔موسیٰ کو خدا نے بنی اسرائیل کے بھائیوں میں موسیٰ جیسا نبی برپا ہونے کی خبر دی جو 10 ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا (استثنا٫ باب 18،33 ) رسول کریم ﷺ اس کے مصداق ہیں۔

3۔ بعد کے انبیا٫ یسعیاہ( 700 ق م، )حبقوق( 626 ق م) اور سلیمان اور دانیال نے بھی اشاروں اور استعاروں میں رسول کریم ﷺ کے متعلق پیشگویاں کیں (یسعیاہ باب 21۔حبقوق باب 3۔غزل الغزلات باب 5۔دانیال باب2)

4۔مسیح نے بھی کامل شریعت لانے والے کی خبر دی اور اس کی آمد کو خدا کے آنے سے تعبیر کیا(متی باب21۔ مندجہ بالا پیشگوئیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے دیباچہ تفسیر القرآن از حضرت مصلح موعودؓ )

5۔حضرت مسیح ؑنے اپنی آمد ثانی کی خبریں بھی دی ہیں جس میں قوموں کی لڑائی اور بیماریوں اور سورج اور ستاروں میں خاص نشان کے ظہور کی پیشگوئیاں بھی ہیں اوربانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ اور وجود میں پوری ہو چکی ہیں۔

6۔ قرآن وحدیث میں سینکڑوں پیشگوئیاں ہیں جن کا دائرہ قیامت تک پھیلا ہؤا ہے جن کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ بھی ہے آپ کے بعد خلافت راشدہ اور امت کی ترقی پھر تنزل کے ساتھ ہے۔نہایت بے بسی کے ایام میں آپ نے مکہ کی فتح نیز روم،ایران، شام، مصراور قسطنطنیہ کی فتح کی خبر دی۔مکی زندگی میں روم اور ایران کے مابین جنگ میں رومیوں کی شکست کے بعد جلد ان کی فتح کی خبر دی۔ان میں سے ہر ایک غیر معمولی رنگ میں خدا کی ہستی کی دلیل ہے آپ اور آپ کی قوم کا بیشتر حصہ ان پڑھ تھا مگر انتہائی نامساعد حالا ت میں آپ نے قرآن کریم کے جمع ہونے، مکمل ہونے، کتاب بننے، اس کے سب سے زیادہ پڑھے جانے اور اس کےبیان اوروضاحت اور حفاظت کی پیشگوئی کی اور آج قرآن خدا کی ہستی کا گواہ بن کر کھڑا ہے۔

7۔قرآن و حدیث میں آخری زمانہ میں سائنسی ترقیات اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر دی گئی ہےاور نزول مسیح و مہدی کا ذکر ہے اسکے لئے متعدد نشانات کا ذکر ہے جیسے کسوف و خسوف۔اس کی پیشگوئی عہد نامہ قدیم و جدید، قرآن و حدیث بزرگان امت مسلمہ اور ہندو اور سکھ مت میں بھی پائی جاتی ہے (ملاحظہ ہو۔ الفضل انٹر نیشنل22 مئی 2021ء۔ الفضل ربوہ 19 مارچ2004ء) یہ سب باتیں جوکم از کم 1400 سال پہلے خدا سے منسوب کر کےبیان کی گئیں اور لکھی گئیں اور پوری ہو گئیں کیا اس علام الغیوب خدا کی خبر نہیں دیتیں جو زمین و زمان پر حاوی ہے۔

8۔حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود نے خدا سے خبر پا کر بے شمارتبشیری اور انذاری پیشگوئیاں کی ہیں تبشیری خبروں میں آپ کی ذات، اولاد، دوست، جماعت کی وسعت و قبولیت عامہ کے ہزاروں نشان ہیں۔ ان میں خصوصیت سے نظام خلافت اور نظام وصیت کا قیام، تبلیغ کا زمین کے کناروں تک پہنچنا، اور ہر قوم میں احمدیت کے نفوذ کی پیشگوئیاں شامل ہیں۔

• انذاری پیشگوئیوں میں طاعون کےآنے اور احمدیوں کی حفاظت کی پیشگوئی، لیکھرام، ڈوئی، اور متعدد مخالفین کی مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاکت کی پیشگوئیاں شامل ہیں۔ غیر معمولی زلازل، عالمی جنگوں نیز زار روس، کسریٰ ایران، نادر شاہ حاکم افغانستان، جاپان اور کوریا کے متعلق حیرت انگیز پیشگوئیاں موجود ہیں۔

9۔قرآن و حدیث اور عہد نامہ قدیم و جدید میں آخری زمانہ میں دجال اور یاجوج ماجوج کے ظہور کی خبر بھی دی گئی ہے۔ دجال سے مراد مغربی عیسائی اقوام کا مذہبی فتنہ ہے جس میں انسان کو خدا بنا کر نوع انسانی کی اکثریت کو گمراہ کیا گیا ہے۔ اور یاجوج ماجوج سے مراد انہی قوموں کی آگ سے کام لے کر وہ سائنسی ترقیات ہیں جن کی مدد سے وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہیں۔ سمندر کی تہوں میں اتر چکی ہیں۔ اور زمین کو گہرائیوں تک کھنگال ڈالا ہے۔ زمین کے خزانے باہر نکال دیے ہیں۔ سورج سے اس کی روشنی کھینچ لی ہے۔ اور جیمز ویب نامی دور بین زمین سے دس لاکھ میل دور سورج کی تحقیق کے لئے خلاؤں میں بھیج دی ہے۔وہ قرآن و حدیث کی پیشگوئیوں کےمطابق مردو ں کو زندگی دے رہی ہیں اور بارش برسانے پر قادر ہیں

(الفضل 18 مارچ 2005ء)

10۔انجیل،قرآن شریف، حدیث اور امت مسلمہ کے بزرگوں کے کلام میں امام مہدی کے زمانہ میں ایک ایسے مواصلاتی نظام کی خبریں بھی ہیں جس کے ذریعہ امام مہدی کو تمام دنیا کے لوگ سن اور دیکھ سکیں گے اور سب لوگ اپنی اپنی زبان میں اس کا کلام سنیں گے یہ پیشگوئیاں مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کی صورت میں پوری ہو چکی ہیں۔

(الفضل انٹر نیشنل 24 مئی 2019ء)

آخری زمانہ کے متعلق قرآن و حدیث کی پیشگوئیوں او ر مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے بارہ میں تفصیل کے لئے دیکھیں حضرت مصلح موعود کی کتاب دعوت الامیر۔

(انوار العلوم جلد 7)

یہ ہزاروں پیشگوئیوں میں سے چند نمائندہ پیشگوئیاں ہیں جن میں سے ہر ایک کسی عالم الغیب ہستی کے وجود پر دلالت کر رہی ہے۔ اور اس زمانہ میں تو نہایت کثرت کے ساتھ ان پیشگوئیوں کا ظہور ہو رہا ہے کیونکہ انسان نے خدا کو بھول جانا تھا۔ کس نے ہندوستان کے ایک اجڑے ہوئے اور گمنام قصبے قادیان کے مرزا غلام احمد قادیانی کو 1898ء میں یہ خبر دی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ کس نے اسے یہ خواب دکھایا کہ وہ لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہو کر انگریزی میں ایک مدلل تقریر کر رہا ہے۔ کس نے اسے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں رونما ہونے والی واقعات کی خبر دی۔ اگر سائنس یہ کر سکتی ہے تو آج تمام دنیا کے سائنس دانوں اور سیاست دانوں کو یہ چیلنج ہے کہ اس طرح کی پیشگوئیاں کریں اور پھر انہیں پورا بھی کر دکھائیں۔یہ صرف اور صرف اس عالم الغیب کی طاقت کے مظاہرےہیں جو ماضی و مستقبل پر یکساں نظر بھی رکھتا ہےاور دنیا کو بدلنے پر بھی قادر ہے۔

• بے شک خدا جس سے چاہے کلام کرے مگر خدا نے جن وجودوں کو خاص طور پر اپنی ذات کی اطلاع اور اپنے احکام سے مطلع کرنے کیلیے منتخب کیا وہ سب اپنے وقت کے بہترین کردار کے لوگ تھے۔صادق اور امانت دار۔ان کو اکثر نے قبول نہیں کیا مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے۔ان سب کی نمائندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۷﴾ (یونس: 17)

• خداکی ہستی اور توحید کے یہ سب علمبردار نہایت کمزور اور بے بس تھے کوئی دولت اور جتھہ ان کے پاس نہیں تھا مگر خدا کی ذات نے ان سے وعدہ کیا کہ انہیں کامیاب کرے گا اور ان کے دشمن تمام طاقتوں کے باوجود ناکام ہوں گے اور ہر مامور کے وقت میں یہی کہانی دہرائی گئی دنیا کی معلوم تاریخ کے مطابق خدا کے نام لیوا ہمیشہ کامیاب ہوئے اور ان کے دشمن مٹا دیئےگئے۔نوح کی قوم پانی میں غرق ہوئی۔ ابراہیمؑ کو خدا نے آگ سے بچالیا۔موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کی کمزوری سے کون واقف نہیں مگر فرعون سمندر میں غرق ہو گیا اور موسیٰ ؑنے فتح پائی۔ خدائے واحد کا عظیم ترین نمائندہ محمد ﷺسب سےکمزور تھا والد اس کی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئے والدہ نے جی بھر کے دیکھا بھی نہ تھا کہ چل بسیں دادا کا سہارا بھی اٹھ گیا چچا دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے کوئی تعلیم نہ تھی کوئی جائیداد اور وراثت نہ تھی مخالفین چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے قاتلانہ حملے کئے زخموں سے چور کردیا جنگیں مسلط کیں وفادار ساتھیوں کو شہید کردیا مگر بالآخر اسی کا بول بالا ہوا اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ سب میرے منصوبہ سے نہیں خداکی طاقت سے ہؤا۔کیا ہزاروں ملہموں کی یہ غیر متوقع اور لرزہ خیز کامیابیاں خدا کی ہستی کا اعلان نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں بے شمار فاتحین گزرے ہیں مگر نبیوں کے ساتھ ان کا خاص امتیاز ہے فاتحین عالم اپنی قوم کی عظمت کا نعرہ بلند کر کے اٹھے قوم ان کا ساتھ دینے کو تیار تھی اور زمانے کی رو بھی یہی تقاضا کر رہی تھی مگر نبیوں نے ہمیشہ زمانے کی رو کے خلاف آواز بلند کی اپنی قوم کی اصلاح کا نعرہ لگایا اور مدتوں سخت دکھ جھیلے اور اخلاقی بنیادوں پر اپنی فتوحات استوار کیں۔

• تاریخ عالم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام بانیان مذاہب نیک اور راستباز اور اچھی شہرت کے حامل تھے لیکن دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے قریباً کور ے تھے۔ لیکن جو تعلیم انہوں نے مختلف شعبوں میں انسان کی ہدایت کے لئے دی خواہ وہ باہمی تعلقات کا قانون ہو یا جنگی قوانین ہوں یا اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کےساتھ تعلقات کے سلسلہ میں ہوں سب تعلیمات اپنے زمانہ کے لئے نہایت ہی اعلیٰ اور مناسب حال تھیں اور ان کی قوموں نے اس راہ عمل پر چل کر صدیوں تک تہذیب اور شائستگی میں دنیا کی راہنمائی کی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جھوٹا جو دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے ناقابل ذکر ہے وہ اچانک ایسی قدرت حاصل کر لے کہ اس کی تعلیم دنیا پر چھا جائے۔اس پر عمل کرنے والے اعلی درجہ کی پاکیزگی حاصل کر لیں ایسا صرف خدا کی مدد اور تائید سے ہو سکتا ہے۔ اور یہی خدا کی ہستی کی بہت بڑی دلیل ہے۔

• اللہ تعالیٰ کے سب راست باز مامور دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف زمانوں میں آئے مگر یہ حیرت انگیز بات ہے کہ سب کی بنیادی تعلیم ایک ہی تھی۔ تفصیلات میں فرق ہونا تو زمانے اور حالات کا تقاضا ہے لیکن سب سچوں کا ایک ہی خدا پر متفق ہونا اور سب بنیادی مسائل اور تعلیم کی یکسانیت کیا ایک خدا کی ہستی پر دال نہیں۔ ایسے لوگ جن کا آپس میں ملنا کبھی تصور میں نہیں آ سکتا وہ خدا کے نام پر ایک ہی تعلیم ایک ہی قسم کے اخلاق دکھاتے ہیں، ایک ہی طرح دشمن کی شرارتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اور ایک ہی قسم کی کامیابی پاتے ہیں۔

• خدا کی ہستی کی ایک بہت اہم دلیل قبولیت دعا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ نہ صرف موجود ہے بلکہ دعاؤں کو سنتا ہے، ان کو قبول کرتا ہے اور حسب مصلحت اس کا جواب بھی دیتا ہے خواہ وہ لفظوں میں ہوں، خواہ وہ استعاروں میں ہوں خواہ وہ خوابوں یا رؤیا کی شکل میں ہوں۔ قبولیت دعا کے انعام میں سب نوع انسان برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف مضطر کی شرط لگائی ہے۔ یعنی جب بھی کوئی شخص دنیا کے دوسرے تمام رشتوں سے قطع تعلق کر کے خدا کو دل میں یا بلند آواز سے پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بات سنتا ہے اور اس کو مشکل سے نجات دیتا ہے۔ اور جتنا جتنا کوئی انسان خدا سے محبت اور تعلق میں بڑھتا ہے اس کی قبولیت دعا کی شرح بڑھتی چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایسے ایسے غیر معمولی معجزات اور نشانات دکھاتا ہے کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔اس قبولیت دعا کا تجربہ وہ دہریہ بھی کرتے ہیں جو سمندر کی سطحوں پر ڈوبنے کے خوف سے خدا کو پکارتے ہیں اور ہواؤں میں اڑنے والے وہ لوگ بھی جو موت کے خوف سے خدا کو یاد کرتے ہیں۔ وہ مریض بھی جو ناقابل علاج بیماریوں کا شکار ہو کر محض اسی کو آواز دیتے ہیں۔ وہ بھوکے، پیاسے، ننگے، بے اولاد، دشمن کے ستائے ہوئے اور ہر خوشی سے بے نصیب جو صرف اور صرف اس کے در پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ وہ قیدی جو کال کوٹھڑی میں پڑے ہوتے ہیں اور نجات کا کوئی سامان نہیں رکھتے۔ وہ اندھے، وہ گونگے اور بہرے جن کی کوئی نہیں سنتا اور جو کسی کو سنا نہیں سکتے۔ جو کسی کو دیکھتے نہیں اور کوئی انہیں دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ خدا ان کی مرادیں بھی پوری کرتا ہے۔ بشرطیکہ وہ سچے دل سے مضطر ہو کر خدا سے پکارے۔

• چونکہ خدا کے سب سے زیادہ پیارے اس کے انبیاء ہوتے ہیں اس لئے قبولیت دعا کے سب سے زیادہ نظارے انبیاء کے وجود میں نظر آتے ہیں اس حوالے سے 10ایسی دعاؤں کا ذکر کیا جاتاہےجو تاریخی طور پر مسلمہ ہیں اور وسیع اثرات رکھتی ہیں۔

حضرت موسیٰ کی دعا سےقوم فرعون پر آنے والے عذابوں کا ٹلنااور فرعونیوں کا توبہ نہ کرنے پر ان کا پھر لوٹ آنا اور بالآخر فرعونیوں کی غرقابی۔

حضرت عیسیٰ کی دعا سے ان کی صلیب سے نجات اور لمبی عمر پا کر کشمیر میں وفات،ان کے حواریوں کو مائدہ یعنی دنیاوی رزق کثرت سے نصیب ہونا۔

رسول کریم ﷺ کی دعا سے بارش کا اچانک آنا اور ایک ہفتہ بعددعا سے رک جانا۔مدینہ کی بیماریوں کا ختم ہونا اور ان کا مرجع خلائق بن جانا جیسا کہ ابراہیمؑ کی دعا بھی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کی دعا سے صحابہ کی بیماریوں سے شفا، عمر میں اضافہ،اور فتوحات کی خبریں۔

رسول اللہ ﷺ کی دعا سے دشمن سرداران قریش کا مارا جانا اور کئی کا ایمان لے آنا۔

کسریٰ ایران کا رسول اللہ ﷺ کی دعا سے قتل ہونااور حکومت کا پارہ پارہ ہونا۔

(رسول اللہ ﷺکی دعاؤں کے لئے دیکھئے رسول اللہ ﷺ کی مقبول دعائیں از حافظ مظفر احمد)

حضرت مسیح موعود کی دعا سےآپ کے صحابہ کی شفا کے غیر معمولی واقعات،عمر کا بڑھ جانا اور اولاد عطا ہونا۔ حضورؑ کی دعا سے غیر معمولی قابلیت اور صلاحیت رکھنے والے بیٹے مصلح موعود کی پیدائش جس کا ذکر قدیم صحیفوں اور حدیث میں بھی کیا گیا ہے۔

(سوانح فضل عمرجلد 1)

7. قبولیت دعا کے متعلق تمام مخالفین کو چیلنج اور غالب آنے کی پیشگوئی نیز قرآن کریم کی تفسیر،علم عربی، اور علم غیب اور بیماروں کی شفا کے بارہ میں علمائے عرب و عجم کو کھلا چیلنج۔ (تفصیل کے لئے مسیح موعود کے انعامی چیلنج از مبشر احمد خالد)

8. حضور کی دعا سے مخالفین کی ہلاکت خصوصاً لیکھرام، ڈاکٹرڈوئی اور سعداللہ لدھیانوی کا ابتر ہوکر مرنا۔

(دعوۃ الامیر)

9. خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کے واقعات جو آج بھی جاری ہیں خصوصاً ابتلاؤں کے ایام میں فتح کی بشارتیں۔

یہ وہ دعائیں ہیں جن کا اثر ہزاروں انسانوں اور سینکڑوں علاقوں پر پھیلا ہوا ہے جن کے گواہ بیسیوں سچے لوگ ہیں یہ سب دعائیں خدا کی ہستی کے انمٹ ثبوت مہیا کرتی ہیں۔

• اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک بہت بڑا ثبوت اس کی مخلوق کے درمیان نظم و ضبط اور اعلیٰ درجہ کا توازن ہے۔ مان لیا کہ سورج، چاند، ستارے خود بخود پیدا ہو گئے۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ تمام سیارے جن کے گرد ان کے اپنےکئی کئی چاند بھی گھوم رہے ہیں وہ سارے کے سارے سورج کے گرد لاکھوں سالوں سے اس طرح گردش کر رہے ہیں کہ کبھی کسی ٹکراؤ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جس دن ایسا ہو جائے گا، کائنات ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ 100 ارب گلیکسیز ہیں اور ہر گلیکسی میں 100 کھرب ستارے ہیں ہمارا سورج اپنے نظام شمسی سمیت نامعلوم منزلوں کی طرف رواں دواں ہے اور کائنا ت مسلسل پھیل رہی ہے

زمین سے سورج اور چاند مختلف فاصلوں پر ہیں اور مختلف حجم رکھتے ہیں لیکن زمین سے دونوں کا سائز ایک ہی نظر آتا ہے۔ سورج کی وجہ سے چاند روزانہ ایک نئی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور 29، 30 دن کے بعد وہ سابقہ کیفیت پر لوٹ آتا ہے۔زمین اپنے محور پر 23 درجہ جھکی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے موسم بدلتے ہیں۔ اور اسی سے وہ تمام پھل اور سبزیاں اور درخت اور رونقیں پیدا ہوتی ہیں جن کا انسان متلاشی ہے۔ اگر سورج اپنے مدار سے چند میٹر اندر یا باہر ہو جائے تو یہ زمین انتہائی گرم یا سرد ہو جائے۔ اور زندگی کی صف لاکھوں سال پہلے لپیٹ دی جاتی۔ کیا یہ سب اجرام فلکی، اور اجسام ارضی و سماوی اس بات کی شہادت نہیں دیتے کہ ان آسمانوں اور زمینوں اور موسموں کو کنٹرول کرنے والا کوئی ایک طاقتور وجود ہے جو ان سب کو مقررہ راستوں پر چلا رہا ہے۔ کسی کو کسی دوسرے کے قریب نہیں پھٹکنے دیتا اور نئی سے نئی کہکشائیں پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان کے درمیان کوئی ٹکراؤ، کوئی فطور نہیں۔ اور انسان جتنا جتنا دور بین بنا کر ان کو دیکھنے پر قادر ہو رہا ہے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اپنی کم مائیگی اور کسی خالق کی عظمت کا احساس اس پر چھانے لگتا ہے۔

یہی توازن انسانی جسم کے اندر بھی ہے۔ ایک وقت تک انسان کے اعضاء حسب ضرورت بڑے ہوتے رہتے ہیں اور پھر مقررہ وقت پر رک جاتے ہیں۔ کیا کسی اندھے ارتقاء میں یہ سب ممکن ہے۔ انسان کے دانت اگر مسلسل بڑھتے رہیں تو جبڑے پھاڑ کر انسان کو خوبصورتی سے ہی نہیں، لذت کام و دہن سے بھی محروم کر دیں گے۔ پس کوئی وجود ہے جس نے انسان کے ڈی این اے میں یہ سب کچھ ودیعت کر رکھا ہے۔ سائنس در اصل اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کے اصولوں کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ انسان نے معلوم تاریخ میں کچھ باتیں دریافت کر لی ہیں لیکن ابھی کروڑ ہا کروڑ خصائص دریافت کرنے باقی ہیں۔ شاید انسان تمام ہو جائے اور یہ سارے راز نہ کھل سکیں کیونکہ اس کائنات کے ہر ذرہ میں اسی ابدی اور ازلی خالق کا جلوہ نظر آتا ہے۔ انسان کی تحقیق تو ابھی مچھر پر بھی مکمل نہیں ہوئی کجا یہ کہ وہ خدا کی تمام صفات کے راز جاننے کا دعویٰ کر لے۔

اسلام نے جو سچا خدا پیش کیا ہے اس کا ذاتی نام اللہ ہے وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے کوئی چیز اس کی مانند نہیں اس لئے اس کی مثال کسی چیز سے نہیں دی جا سکتی وہ عقل اور سائنس سے بالا تر ہے فلسفہ اور منطق سے اسے تلاش نہیں کیا جا سکتا اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی ہستی پر بیسیوں عقلی دلائل بھی موجود ہیں مگر ان سب کی انتہا یہ ہے کہ خدا ہونا چاہئےاور اس کو مرتبہ یقین تک پہنچانے والا صرف خدا کا الہام اور کلام اور اس کی قدرت اور جلال و جمال کے خارق عادت نظارے ہیں جو خاص طور پر اس کے پاک بندوں پر ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا
’’آؤ! میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے۔ اور کس قوم کے ساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے۔ وہ خدا جو نبیوں کےساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا۔ آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پرکھے۔ پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے۔۔۔۔دیکھو! میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گزریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا۔۔۔ اگر تمہیں شک ہو تو آؤ چند روز میری صحبت میں رہو اور اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ!۔‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ346-347)

(عبد السمیع خان۔ سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل)

پچھلا پڑھیں

مسجد فتح عظیم امریکہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2022