• 9 جولائی, 2025

’’ابا کا آنگن‘‘

رات بجلی گئی تو سب گھر والے باہر صحن میں نکل کر بیٹھ گئے۔ آسمان پر نظر پڑی تو ستارے بڑی دور نظر آئے ان کی چمک دھمک بھی پہلے سی نہیں تھی بلکہ اسی طرح ماند پڑتی محسوس ہوئی جیسے ہم خود رفتہ رفتہ ماند پڑ رہے ہیں۔ ماند پڑتے تارے مجھے ان چمکتے ستاروں کے وقت میں لے گئے جو میرے ابا کے آنگن میں چمکتے تھے، ابا کے آنگن میں سیاہ رات بھی ان کی چمک کو اپنی سیاہی سے مدہم نہیں کر سکتی تھی۔خوشیوں سے اور سکون سے بھرا ہوا گھر، بہن بھائیوں کی آپس کی معصوم چھیڑ خانیاں، شرارتیں چٹکلے، رات کو صحن میں بستر پر لیٹ کر تارے گننا یادوں کاجھروکاسا کھل گیا۔

شام کو صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد چارپائیاں بچھائی جاتیں جن پر بڑے قرینے سے صاف ستھری چادریں ہوتیں۔ گھر کے بڑے شام کی چائے صحن میں بیٹھ کر پیتے تھے بچوں کو چائے نہیں دی جاتی تھی کہ چائےکی عادت پڑ جائے گی، بچوں کو گرمی کے موسم میں دودھ میں سوڈا ملا کر پلایا جاتا۔ اگر کوئی دودھ سے انکار کرتا تو اسے زبردستی پلایا جاتا تھا۔

اندھیرا شروع ہوتے ہی ٹی وی بھی باہر میز پر رکھ دیا جاتا۔ رات کا کھانا بھی صحن میں ہی کھایا جاتا تھا۔ امی کی یہ فکر کہ لڑکیوں کو گھر داری سکھانی ہے ’’اٹھو روٹی تم بناؤ گی رات کو کچن تمھارے ذمہ ہے‘‘ ساری شام کا مزا خراب کر دیتی تھی، آنکھوں میں آنسو لئے کچن میں چلے جانا دل میں اس یقین کے ساتھ کہ شاید ہم ہی وہ سنڈریلا ہیں جس کی کہانی بہت دفعہ سنائی جاچکی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر روز امی کو دعا دیتے ہیں کہ انہوں نے کام کی عادت ڈالی۔ اللہ کے فضل سے اب کام کرنابوجھ نہیں لگتا۔

رات سونے سے پہلے چار پائیوں کو دوبارہ ترتیب دیا جاتا تھا۔ پنکھے کے سامنے ایک بھائی کی چار پائی پھر دوسرے بھائی کی اس کے بعد بہنوں کی اور آخر پر پھر امی ابا کی چارپائیاں۔ گھر میں مددگار ملازم بچہ، جو وقت کے ساتھ بدلتا رہا کبھی صادق کے روپ میں تو کبھی نکی کی شکل میں۔ کبھی کسی ماسی کی صورت میں بدل جاتا تھا لیکن وہ بھی گھر کا ایک فرد جانا جاتا، ہر جگہ ساتھ ساتھ رہتا۔

ضد کے باوجود لڑکیوں کو سائیڈ والی چارپائی نہیں ملتی تھی۔ اگر کبھی زیادہ ضد پنکھے کے سامنے سونے کی کرتے تو پنکھا سرہانے کی طرف رکھ دیا جاتا تھا تاکہ سب کو ہوا برابر لگے۔

رات امی ابا نماز کا سبق سنتے، کوئی دعا یاد کرواتے، کبھی دونوں اپنے بچپن کے واقعات سناتے تھے۔ ہم امی ابا کو سنتے ہوئے ساتھ ساتھ آسمان پر کسی چلنے والے ستارے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے سو جاتے، صبح ابا کی محبت بھری آواز کان میں پڑتی ’’اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘

جلدی سے اٹھ کر بند آنکھوں کے ساتھ وضو کرتے تاکہ نیند نہ اڑ جائے۔ نماز کے بعد گرم کمروں میں پنکھے کی لو میں ایک گھنٹے کی نیند کا کوئی متبادل کہاں تھا۔ امی کا سکول کے لئے جگانا اور پنکھا بند کر دینا اس وقت امی سب سے ظالم لگتی تھیں اب سوچ کے کتنا اچھا لگتا ہے وہ وقت پلک جھپکنے میں گزر گیا۔

شام کو محلے کے بچوں کے ساتھ باہر جاکر کھیلنا۔ گھر سے ہدایت کہ زیادہ دور نہ جانا۔ ورنہ کوئی پکڑ کر لے جائے گا۔ بس یہ ایک ہی ڈراوا کافی ہوتا تھا۔

پتہ نہیں یہ بچپن اتنی جلدی کیوں گزر گیا ابھی تو بہت ساری محبتیں سمیٹنی تھیں۔ پھر وقت بدلنا شروع ہوگیا گھروں کے رہن سہن بدل گئے۔صحن کی جگہ لاؤنج بن گئے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو نے بہت کچھ ہم سے چھین لیا، چمکتے ستارے مدہم اور دور ہوتے چلے گئے۔ ساتھ سونے جاگنے والے بہن بھائی بھی دور ہوگئے، امی ابا بھی چھٹ گئے، وقت کے دھاروں میں سب کچھ مدہم پڑ گیا، ’’بجلی آگئی ہے‘‘ کی آواز نے سب یادوں کے کواڑ بند کردیے ’’ہم ابا کے آنگن سے ایک بار پھر جدا ہوگئے‘‘

’’یاد ماضی متاع حیات ہے
یارب! بڑھادے حافظہ میرا‘‘

(مرسلہ: سعدیہ طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ