ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
حضور انور سے ملاقات کے بعد
ایک احمدی فیملی کے جذبات
اگلے روز میری ملاقات مکرم نوید احمد (بعمر بتیس سال) سے ہوئی جن کے ساتھ ان کی اہلیہ مکرمہ امۃ الشکور صاحبہ بھی تھیں۔ ان دونوں کی کچھ دیر قبل حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔ مکرمہ امۃ الشکور صاحبہ کو زندگی میں پہلی مرتبہ خلیفہٴ وقت سے ملاقات کا شرف ملا تھا۔ ان لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں یہ دن دیکھوں گی جہاں میں اللہ کے خلیفہ سے اس قدر قربت میں بیٹھوں گی۔ یہ خلافت کا سائبان ہے جو ہماری حفاظت کرتا ہے اور سیدھے راستے پر قائم رہنے کے لیے ہمارا واحد ہتھیار ہے۔حضور انور سے ملاقات نے مجھے اللہ تعالیٰ سے قرب میں بڑھایا ہے اور میں دعا کرتی ہوں کہ یہ کیفیت دائمی بن جائے۔
ان کی ملاقات اس دن کے پہلے حصے میں خالہ سبوحی (حضور انور کی اہلیہ) سے ہوئی تھی۔ آپ سے ملاقات پر مکرمہ امۃ الشکور صاحبہ نے بتایا کہ ’’آپا جان سے ملاقات بھی بہت بڑی سعادت تھی۔ آپ نہایت شفیق اور ہمدرد ہیں۔ جب آپ ان سے ملتے ہیں تو آپ کو اس بات کا ادراک حاصل ہوتا ہے کہ ان کے اخلاق کتنے اعلیٰ ہیں اور یہ کہ ان کے پاس اسلام کے بارے میں کس قدر علم ہے جس سے وہ ہماری راہنمائی فرماتی ہیں۔
اس دن منعقد ہونے والی دونوں کلاسز کے اختتام پر حضور انور مسجد سے باہر تشریف لے آئے اور مجھے کوریڈور میں دیکھنے کے بعد آپ نے مجھے اپنے دفتر میں طلب فرمایا۔ اگلے چند منٹ جو حضور انور کی صحبت میں گزرے وہ نہایت انمول تھے۔ الحمدللّٰہ
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ میری اہلیہ مالہ کیسی ہیں اور میرے بیٹے ماہد کے بارے میں بھی پوچھا۔ میں نے عرض کی کہ الحمدللّٰہ سب خیریت سے ہیں۔
نہایت شفقت سے حضور انور نے استفسار فرمایا کہ جرمنی میں کھانے کا معیار کیسا تھا۔حضور انور کی یاداشت نہایت غیر معمولی ہے۔ اس لیے آپ کو یاد تھا کہ ایک روز قبل ہم ایک احمدی کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ اس لیے آپ نے دریافت فرمایا کہ کھانا کیسا تھا۔حضور انور نے یہ بھی دریافت فرمایا کہ اس دن منعقد ہونے والی وقف نو کی کلاس کیسی رہی۔
میں نے عرض کیا کہ یہ کلاس بہت اعلیٰ تھی۔ ماشاءاللّٰہ۔ تاہم ایسا لگتا تھا کہ خدام پر وفات کا خیال بہت غالب ہے کیونکہ کئی سوالات اسی کے متعلق تھے۔ حضور انور نے خوب تبسم فرمایا نیز فرمایا کہ ’’ہاں اس کے بارے میں کئی سوالات تھے۔‘‘
دعا کی اہمیت کے متعلق حضور انور کی رہنمائی
دفتری ملاقات کے دوران میں نے حضور انور سے عرض کی کہ ان کی بہو مکرمہ ہبہ صاحبہ کا کیا حال ہے۔جیسا کہ ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ حضور انور نے جواباً فرمایا ’’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بچے کی پیدائش کب ہو۔ ہمیں دعا جاری رکھنی چاہیےکہ جب بھی پیدائش ہو بچہ صحت مند اور خیریت سے ہو۔‘‘
الحمدللّٰہ حضور انور کی لندن واپسی کے ایک روز بعد محترمہ ہبہ اور محترم وقاص بھائی (صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب) کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی اور حضور انور نے نومولود کا نام مرزا عماد معاذ احمد تجویز فرمایا۔ (اللہ تعالیٰ نومولود کو صحت و سلامتی اور عمر دراز سے نوازے)۔ آمین
حضور انور کے الفاظ سے مجھے وہ وقت یاد آگیا جب میری اہلیہ مالہ، ماہد کے وقت امید سے تھیں۔ میری اہلیہ کو امید سے ہونے کی خبر ملنے میں بہت وقت لگا تھا اور ہمیں یقین ہے کہ یہ حضور انور کی دعاؤں کی بدولت تھا کہ ہمیں اولاد نصیب ہوئی۔ اس وقت حضور انور کو یہ اچھی خبر بتانے پر آپ نے فرمایا کہ آپ کی خواہش ہے کہ آپ ہمیں کچھ نصیحت فرمائیں اور ہدایات دیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ ’’مجھے پتہ ہے کہ تم دونوں میں بہت زیادہ جذباتی ہونے کی اہلیت ہے تاہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ اگلے نو ماہ دعاؤں اور استغفار کرنے کا وقت ہے۔‘‘
جب دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئےتو مجھے ادراک ہوا کہ حضور انور کی نصیحت کس قدر قیمتی اور پر حکمت تھی۔ مجھے سمجھ آئی کہ دوران حمل کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور کئی خطرات پیش آتے ہیں اس لیے مستقل دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک ذاتی ملاقات
بعد ازاں میں نے حضور انور سے عرض کی کہ کسی نے مجھے ای میل میں لکھا ہے کہ انہوں نے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنا ہے اور حضور انور کے الفاظ سننے کے بعد وہ ہمیشہ خلافت کے مطیع اور فرمانبردار رہیں گے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’آپ کو اس شخص کو اپنی مثال دے کر بتانا چاہیے تھا کہ چند سال پہلے تک تمہیں کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب تم ہماری جماعت میں خوب جانے اور پہچانے جاتے ہو اور تم کئی لوگوں سے ملے ہو اور کئی مواقع میسر آئے ہیں۔ یہ سب تمہاری کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض اس لیے ہے کہ تم نے خلافت سے قربت اختیار کی ہے۔‘‘
مجھے اس جواب کی توقع نہ تھی اور کچھ دیر توقف کے بعد سوچا کہ حضور انور نے بالکل درست فرمایا تھا۔ دراصل جب حضور انور یہ بیان فرما رہے تھے تو میں اپنی سابقہ زندگی پر نظر دوڑا رہا تھا جو آٹھ سے نو سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت میں ایک نوجوان وکیل تھا جس کی ابھی ابھی شادی ہوئی تھی اور نوکری کی تلاش میں تھا۔ مجھے جلد احساس ہوا کہ میری زندگی کا مقصد ہرگز وکیل بننا نہ تھا جو مجھے ذہنی سکون اور اطمینان دے سکے۔ میں کچھ عرصہ قبل ہی لندن شفٹ ہوا تھا اور Hartlepool میں پرورش پائی تھی جہاں میرے مرحوم والدین رہتے رہے تھے۔
اب لندن میں شفٹ ہونے کے بعد مجھے حضور انور سے اکثر ملاقات کا موقع ملتا تھا اور یہ بھی کہ آپ کی اقتدا میں نمازیں ادا کروں۔ انہی دنوں میں، میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی ساری زندگی جماعت اور خلافت کی خدمت میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میری بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان مشکل دنوں میں حضور انور نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے بطور واقف زندگی قبول فرمایا۔آپ نے مجھے قبول فرمایا باوجود اس حقیقت کے کہ میرے میں کوئی خوبی یا ہنر نہ تھا۔ میں جامعہ سے فارغ التحصیل بھی نہ تھا۔ میرا مذہبی علم کم تھا۔ جماعتی دفاتر کا بھی اچھا تعارف نہ تھا۔ میری بس یہی ایک خواہش تھی کہ اپنے خلیفہ کی قربت میں رہوں۔
اس روز سے جب سے میرے خلیفہ نے مجھ پر شفقت فرماتے ہوئے مجھے قبول فرمایا تھا میری زندگی میں ایک (نہایت مثبت) تبدیلی رو نما ہوئی جو محض خلافت کی برکے اور قربت کی وجہ سے تھی۔ الحمدللّٰہ۔
یوں کئی سالوں کے بعد جب جرمنی میں حضور انور نے مجھے فرمایا کہ مجھے خلافت کی برکات کے حوالہ سے اپنی ذاتی مثال پیش کرنی چاہیئے تھی تو میرا جواب یہی تھا کہ ’’حضور آپ سو فیصد درست فرما رہے ہیں۔‘‘
(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015 اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان حصہ دوم)
(باتعاون: مدثرہ ثروت۔ جرمنی)
(مترجم: ابو سلطان)