• 9 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 67)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 67

دوسری خبر امریکہ میں شائع ہونے والے ایک اخبار کے صفحہ اول پر یہ خبر تھی کہ علامہ طاہر القادری نے جہاد پر مرزا غلام احمد قادیانی کا مؤقف اپنا لیا۔ (یہ خبر اس سے قبل گزر چکی ہے) حضرت بانی جماعت احمدیہ نے ایک کتاب لکھی ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ جو 22؍ مئی 1900ء کو شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں آپ نے حقیقت جہاد اور اس کی فلاسفی بڑی وضاحت کے ساتھ لکھی ہے نیز قرآن و حدیث اور تاریخ سے جہاد کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اوائل اسلام میں مسلمانوں کو بحالت مجبوری جو جنگیں کرنا پڑیں وہ محض وقتی اور مدافعانہ تھیں۔ جس کا مقصد صرف مذہبی آزادی ہی قائم کرنا تھا ورنہ اسلام سے بڑھ کر صلح و آشتی اور امن و سلامتی کا علمبردار کوئی اور مذہب نہیں اور حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی متعدد تصانیف میں جہادکے مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا مشن ادیان عالم پر دلائل اور براہین کی رو سے اتمام حجت اور اسلام کا غلبہ ثابت کرنا تھا اور مغربی فلسفیوں اور مستشرقین علماء کا سب سے بڑا اعتراض اسلام پر یہ تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور وہ مذہب کے معاملہ میں جبر واکراہ رکھتا ہے۔

بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ چونکہ مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا تھا اور ادھر اکثر علماء اسلام کا خیال تھا کہ جب مسیح مہدی آئیں گے تو کافروں سے جنگ کریں گے اور پھر بزور شمشیر اسلام کی اشاعت کریں گے۔

چنانچہ عیسائی پادریوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے جب آپ کے دلائل سے شکست کھائی تو اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے یہ آسان صورت اختیار کی کہ گورنمنٹ کو آپ کے خلاف بدظن کرکے آپ کو قید کرا دیں۔ یا تبلیغ اسلام کی آپ پر پابندی کرادیں۔ اس وجہ سے آپ نے مذکورہ بالارسالہ ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ لکھا۔

جہاد بالسیف کی سب سے بڑی مناہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے کہ ’’یَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ یعنی جب مسیح موعود آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کرے گا۔ خاکسار نے اتنا لکھنے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی نظم کے چند اشعار بھی لکھے ہیں۔

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ و قتال
اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے
دین کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

اس کے بعد خاکسار نے متعدد اقتباسات حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب سے جہاد کی فلاسفی اور یضع الحرب کے بارے میں لکھے ہیں اور اس کے بعد آپ کی جماعت کو نصائح بھی لکھی ہیں۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 17؍جون 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہِ ھدیٰ یہی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 22؍جون 2011ء صفحہ19 پر حضور انور کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ اس عنوان سے شائع کیا ہے: ’’نماز، دعا اور خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا‘‘

اس دوسرے حصہ میں اخبار نے بیان کیا کہ حضور انور نے فرمایا ’’اس وقت بہت سے ایسے لوگ ہیں جو زبان سے تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کادعویٰ کرتے ہیں لیکن اگر تم غور سے ان کے کرتوتوں اور اعمال کو دیکھو تو تمہیں ان سے الحاد کی بُو آئے گی۔ وہ دنیوی امور میں اس قدر غرق ہیں کہ خدا کو بالکل ہی بھول گئے ہیں بلکہ یہ بات بھی بھول گئے ہیں کہ ایسے لوگوں پر جو خدا سے غافل ہوجائیں، لاپرواہ ہوجائیں ان پر پھر خدا کا غضب بھی نازل ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ سے اس کی معرفت کے حصول کے لئے دعا سے کام لیا جائے۔ دعا کے لئے انسان کماحقہ اس کا ادراک نہیں پاسکتا۔ خدا تعالیٰ سے قطع کرنے کا مطلب سوائے ہلاکت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان کو اس بات کی فکر رکھنی چاہیئے کہ اس کا دل ہر وقت دنیوی افکار و مشاغل میں لگا ہوا ہے یا کچھ دین کی طرف بھی رغبت ہے۔ پھریہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ آیا اس کی ساری دعائیں بھی دنیاوی امور ہی کے لئےوقف ہیں یا دین کے لئے بھی ہیں؟

انسان کو ہر دم دعا میں لگا رہنا چاہیئے یہ نہیں کہ جب ہموم و غموم آگھیریں تو پھر دعا کی طرف توجہ ہو۔ حضور انور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیات کی تفصیل و تشریح بھی فرمائی۔

وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی

(المائدہ: 3)

مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ

(آل عمران: 54)

اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا

(المومن: 52)

وَہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیۡنَ

(الاعراف: 197)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ کے آخر میں چند دعائیں پڑھنے کی بھی تلقین فرمائی۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ
ربِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ
رَبِّ کُلِّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ
رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَ اَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْن

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز پیپر میں 23؍جون 2011ء کی اشاعت 1/4صفحہ کا ہمارا تبلیغی اشتہار حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا۔ اس اشتہار میں بائبل کا حوالہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر آپ حضرت عیسیٰؑ کا انتظار کررہے ہیں تو وہ آچکے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی رات کے وقت چور کی طرح ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ مسجد بیت الحمید کا ایڈریس، فون نمبر، مسجد کا فوٹو اور کتب کی فہرست وغیرہ بھی شائع ہوئی ہیں۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 24؍ جون 2011ء میں صفحہ 5 پر 3 تصاویر کے ساتھ ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ’’جماعت احمدیہ جنوبی کیلی فورنیا نے یوم خلافت منایا۔‘‘

کیلی فورنیا: (پ۔ر) جنوبی کیلی فورنیا کے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے احباب اور ان کے اہل و عیال نے گزشتہ ہفتے 103واں یوم خلافت منایا۔ اس موقعے پر مسجد بیت الحمیدمیں تقریباً 350 مرد و خواتین اور بچے جمع ہوئے۔ نظمیں پڑھیں اور تقاریر کیں۔ افتتاحی تقریر مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے کی، اس موقعے پر انہوں نے حاضرین کو ایک سال قبل جماعت احمدیہ لاہور پر ہونے والا ایک حملہ یاد دلایا جس میں 80 افراد جو نمازجمعہ ادا کر رہے تھے شہید کر دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عقائد میں اختلاف کی بنیاد پر انتہاء پسندوں کی طرف سے ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاہم ہماری جماعت نےنہ پہلے کبھی تشدد کا پرچار کیا اور نہ آئندہ کرے گی۔‘‘

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 24 تا 30؍جون 2011ء میں صفحہ11 پر خاکسار کے مضمون کی اگلی قسط بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔ اس مضمون میں خاکسار نے ’’جہاد‘‘ کے بارے میں اسلامی تعلیم اور نظریہ کا ذکر کیا ہے۔ جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں جہاد کی 3 اقسام کا پتہ چلتا ہے۔

اوّل جہاد: یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرے۔ اپنے نفس کی اصلاح کرنا اور اسے پورے طور پر خدا کا مطیع اور فرمانبردار بنانا اصل جہاد ہے۔ (العنکبوت: 7)

دوسری قسم کا جہاد: انسان قرآنی تعلیمات کو دنیا میں پھیلائے، تبلیغ کرے۔ وَجَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۳﴾ یہاں پر تبلیغ قرآن کو بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے۔

تیسری قسم کا جہاد: دشمن کے خلاف دفاعی جنگ کی جائے جس کا ذکر سورۃ الحج آیت 40، 41 میں ہے۔ وہ لوگ جن سے بلاوجہ جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے…

حدیث میں ایک شخص کے جنگ پر جانے کی اجازت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ماں باپ کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ تمہارا جہاد یہی ہے۔

جہاد کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہر وقت لڑائی پر تلے رہو اور دوسروں کو مارنا، قتل کرنا ہی جہاد ہے۔ یہ جہاد کے بالکل غلط معانی ہیں۔

خاکسار نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتاب ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ سے ایک لمبا اقتباس بھی لکھا جس میں آپ نے فرمایا کہ:
اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے؟سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہوگئیں تھیں لہٰذا وہ اسی فکر میں لگ گئے کہ اس طرح اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹا دیں……… نہایت ہی ظالمانہ اور جابرانہ کارروائیاں ان سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے بندے اور نوع انسان کے فخر ان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر تاکید تھی کہ شر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو…… تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑکا۔ اس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں۔‘‘

پھر فرماتے ہیں:
’’قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو۔‘‘

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تاکہ دین کے کام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنے حجج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں‘‘

(ملفوظات جلد سوم)

یہ ہے جماعت احمدیہ کا عقیدہ جہاد کے بارے میں۔ لیکن افسوس کہ مسلمان اس وقت ایک ایسے ہی مہدی اور مسیح کا انتظار کر رہے ہیں جو آکر مزید خون خرابہ کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ یہ نام نہاد مسلمان دوسروں کا خون بہانے اور دوسروں کو کافر ٹھہرانے میں ہرگز دیر نہیں لگاتے۔ خاص طور پر جہاد اور مسئلہ ختم نبوت کے بارے میں انہوں نے بہت ہی من گھڑت باتیں بنا لی ہوئی ہیں۔

فیصل آباد کے عالمی تحفظ ختم نبوت شفاعت محمدی اور آل پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک ورقہ پمفلٹ شائع کر کے عام تقسیم کیا اور اشتعال دلایا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ‘‘ایسے لوگوں کو بھرے بازار میں گولی مارنا جہاد ہے ان کو مارنا ثواب ہے۔

اسی پمفلٹ میں جماعت احمدیہ کے خلاف یوں اشتعال دلایا ہے۔

’’اگر آپ قیامت کے دن محمدؐ کی شفاعت چاہتے ہیں اور آپؐ کے جھنڈے کے نیچے جگہ چاہتے ہیں تو آپ کو تحفظ ختم نبوت کا کام کرنا پڑے گا اور مرزا غلام احمد قادیانی کے ٹولے کے مقابلہ میں بھی آنا پڑے گا۔ لہٰذا اپنے ضمیر کو جگائیں اور ختم نبوت کے نڈر مجاہد ہو کر ان کو قتل کر کے شہادت کا رتبہ حاصل کریں‘‘

یہ پمفلٹ کثیر تعداد میں شائع کرایا گیا اور تقسیم ہوا۔ جب بھی کوئی ملّاں اس قسم کے کام کرتا ہے اس وقت پھر کوئی نہ کوئی جہاد اور شہادت کا رتبہ حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو قتل کرتا ہے پھر حکومت بھی اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتی قانون ایسے لوگوں کو ایسے جرم کی اجازت دیتا ہے۔

آپ بانیٔ جماعت احمدیہ کی تحریرات پڑھ لیں اور ان نام نہاد مولویوں کے فتاویٰ بھی پڑھ لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کون صحیح اسلام کی تعلیمات پیش کررہا ہے اور کون دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں کو آشکار کر رہا ہے۔

ہم تو یہی کہیں گے کہ ان ظلموں سے باز آجاؤ۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر آپ کو سمجھانے کے لئے کوشش کر رہی ہے اگر سمجھ جائیں تو بہتر ہے ورنہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اس وقت جو حالات پاکستان پر گزر رہے ہیں کہ یہ واقعی ان لوگوں کے حالات ہیں جن پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے۔ یا جن پر خدا کا غضب ہوتا ہے۔ کون سی بُرائی ہے جو ان میں پائی نہیں جاتی۔ ہر قسم کا گھناؤنا جرم خدا اور اس کے رسول کے نام پر کیا جارہا ہے اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ صحیح اسلام ہے اور تحفظ ختم نبوت۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

اے اللہ! ان کو سمجھ اور عقل اور رشد عطا فرما۔ آمین

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین اکتوبر 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ