• 9 جولائی, 2025

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام (قسط 42)

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام
آسمانی تعلیم و تربیت
قسط 42

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا’’دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو۔ ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 164-165)

آنحضورﷺ کی بعثت کے وقت کے معاشرہ کی عکاس عربی شاعری پڑھ سکیں تو اندازہ ہو کہ آنکھوں کو پاکیزگی کا درس دینا کتنا بڑا انقلاب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو یہ سکھانے کا ارشاد فرمایا کہ

یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ

(النور:31)

ترجمہ:اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں۔

غضِّ بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔

(تفسیرالطبری جلد 18 صفحہ 116)

اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں نظر اُٹھانے اور نظر جھکانے کے آداب، اثرات، خطرات سب کچھ واضح کیا ہے۔ نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کی بنیاد بنتا ہے۔ مرد و عورت کے باہمی تعلقات کی ابتداء دونوں کی نظریں ملنے سے ہوتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ جب کسی پر نظر پڑتی ہے تو خواہ دوسرے کی نظر نیچی ہی ہو تب بھی اس پراثر پڑ جاتا ہے۔ بد نظر سے ہی دل میں تمام قسم کے بد خیالات و تصورات جاگتے ہیں۔ انسان کے دل میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت لذت یابی پر مائل ہوجاتی ہے۔ جس کے بھیانک نتائج کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہیں۔

نفس کے خالق سے بڑھ کر علم النفس کی باریکیاں کوئی نہیں جان سکتا۔ اس نے آنکھوں میں لذت لینے کی صلاحیت رکھی اور پھر اسے جائز حدود میں رکھنے کا حکم دیا تاکہ اجر عظیم سے نوازے۔ آنکھیں نیچی رکھو کہ کر وہ دروازہ بند کردیا جہاں سے خرابیاں در آتی ہیں۔

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد نظری کے حوالے سے ارشاد فرمایا:النَّظْرَةُ سَہْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِہَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَہَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ

(المنذری، عبدالعظیم، الترغیب والترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ھ، جلد3، صفحہ 153)

جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غَضِّ بصر کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔

نبی کریمﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ تمہاری نگاہیں اچانک پڑنے والی نظر کی پیروی نہ کریں۔ کیونکہ اچانک پڑنے والی نظر معاف ہے۔ لیکن اس کے بعد دیکھنا معاف نہیں۔

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ’’اچانک نظر پڑ جانے‘‘ کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’اِصْرِفْ بَصَرَکَ‘‘ اپنی نگاہ ہٹا لو۔

(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ما یؤمر بہ من غض البصر)

آنحضرتﷺ نے راستہ کے حق کے بارے میں وضاحت فرمائی: راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پھر رستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غَضِّ بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ61 مطبوعہ بیروت)

ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے۔ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عزّ و جل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو۔

(سنن دارمی، کتاب الجہاد، باب فی الذی یسھر فی سبیل اللّٰہ حارساً)

حضوراکرمﷺ کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لپٹتی جارہی ہے۔ ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرتھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔

(ترمذی42)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فضل(بن عباس) رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَمْ قبیلہ کی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑدیا۔

(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہ)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:اللہ تعالیٰ کی قسم! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کومَس نہیں کیا، آپ ان کوصرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے۔

( صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الممتحنۃ، باب اذا جاء کم المؤمنات مہاجرات، 3/350، الحدیث:4891)

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، (صحیح بخاری) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔ اچانک نظر پڑنا یا نیت کے ساتھ جان بوجھ کر دیکھنے میں فرق ہے۔ اللہ کے خوف سے جھکی رہنے والی آنکھوں والے مطہر و مقدس دجود پر لاکھوں درودو سلام۔

کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے

(درثمین)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے آقا و مطاع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے متبعین کو غض بصر کے قرآنی حکم پر عمل کی تلقین فرمائی اور خود عمل کرکے دکھایا۔ فرماتے ہیں:
’’مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہرطرف اٹھائے پھرے، بلک یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ (النور:31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہئے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ533)

’’ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں۔ ‘‘ (اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو پردہ میں نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو عورت پردے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں )۔ ’’اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے۔ ‘‘

(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ100 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدسوم صفحہ440)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضِ بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’خداتعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفّت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلادئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔

اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذباتِ شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔۔ ۔ ۔

خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ343۔ 344)

حضرت اقدس علیہ السلام فارسی الاصل مغل تھے آنکھیں بڑی بڑی اور پپوٹے بھاری تھے۔

’’آپ کی آنکھوں کی سیاہی، سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آ پ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کربھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں۔ اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثرہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی۔ گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد2صفحہ414)

ایک دفعہ حضرت صاحب مع چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھو ل کر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 364 روایت نمبر )

حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت شیخ غلام نبی صاحب سیٹھیؓ کے بعض سوالات کے جواب میں دست مبارک سے خط لکھا جس میں ایک فقرہ ہے ’’ بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے۔ ‘‘اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے سیر حاصل تبصرہ کیا ہے فرماتے ہیں۔

ایک اصولی بات اس خط میں موجودہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کر لینی کافی ہے کہ کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے اور یہ نہیں کہ ان کے سامنے بالکل ہی نہ آئے۔ کیونکہ بعض عورتوںمیں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیے کہ خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی ایسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے تھے جو غیر محرم ہوتی تھی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کیا کرتا تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں۔ لیکن بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ در اصل وہ اسی حکمت سے تھا۔ ‘‘

( سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ401۔ 402)

حضرت اقدس علیہ السلام گھر کی خواتین کے ساتھ رتھ میں سفر فرماتے تو حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی رضی اللہ عنہ کو انتظام وغیرہ کے لئے ساتھ رکھتے۔ جو پردے کا لحاظ رکھنے کے لئے منہ دوسری طرف کرکے کھڑے ہوجاتے ایک دن حضورعلیہ السلام نے فرمایا
’’ میاں عبدالرحمن !یوں تکلف کر کے الٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت۔ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ۔ اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غض بصر کر کے پردہ کی تاکید ہے آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں۔ چنانچہ اس کے بعد پھر میں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ۔ بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے۔ گاڑی سے اترتے وقت ان کے اٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضور نے روک دیا اور میں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا۔

(سیرت المہدی جلد2صفحہ384۔ 385)

آپ علیہ السلام جب کچہری سے واپس تشریف لاتےتھے تودروازہ میں داخل ہونے کےبعد دروازہ کو پیچھے مڑکر بندنہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظرنہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھرپیچھے مڑکر زنجیرلگایاکرتے تھے۔ ‘‘

(حیات طیبہ ازشیخ عبدالقادرسابق سوداگرمل، صفحہ20)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم ان پیاری ہستیوں کی پیروی میں غضِّ بصر کے حکم کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ آمِیْن اَللّٰھُمَّ آمِیْن

(امة الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

شاہد آفریدی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2022