بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 37
سوال: ایک دوست نے حضور انور کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضورﷺکے حکم کے مطابق مردوں کو زرد رنگ کا لباس پہننے کی مناہی ہے۔ لیکن حضرت عثمان ؓ کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اس رنگ کا لباس استعمال کرتے تھے۔ ہر دو باتوں کی تطبیق کس طرح ہو سکتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24؍مئی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:
جواب: کتب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ نے مردوں کیلئے معصفر، ورس اور زعفران سے رنگے کپڑوں (جو عموماً زرد اور سرخ رنگ یا ان سے ملتے جلتے رنگ ہوتے تھے) نیز خالص ریشم یا قسّی (ایک قسم کا ریشم) کا لباس پہننے سے منع فرمایاہے۔ (صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃبَاب النَّهْيِ عَنْ لُبْسِ الرَّجُلِ الثَّوْبَ الْمُعَصْفَرَ) (صحیح بخاری کتاب المرضی بَاب وُجُوبِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ) (صحیح بخاری کتاب اللباس بَاب الثَّوْبِ الْمُزَعْفَرِ) جبکہ اصفر اور صفرہ (یہ بھی زرد رنگ ہی تھا) کا حضورﷺ نے خود بھی استعمال فرمایا اور خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ بھی یہ رنگ استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے سرخ اور زرد رنگ کا جبہ (حُلَّةٌ حَمْرَاء) پہنا۔ (صحیح بخاریکتاب اللباس بابالثَّوْبِ الْأَحْمَرِ) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو زرد رنگ سے اپنے (بالوں اور داڑھی) کو رنگتے ہوئے دیکھا اس لئے میں بھی اپنے (بالوں اور داڑھی) کو اس رنگ سے رنگتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الوضوء بَاب غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ فِي النَّعْلَيْنِ وَلَا يَمْسَحُ عَلَى النَّعْلَيْنِ) اسی طرح حضرت عبدالرحمٰن بن عوف پر حضورﷺ نے زرد رنگ دیکھا تو حضورﷺ کے پوچھنے پر انہوں نے عرض کی کہ انہوں نے شادی کی ہے، اس لئے ان پر زرد رنگ لگا ہوا ہے۔
(سنن نسائی کتاب النکاح باب التَّزْوِیجُ عَلَی نَوَاةً مِنْ ذَھَبٍ)
رنگوں کی کئی اقسام اور کئی Shades ہوتے ہیں۔ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے کسی خاص قسم کے زرد رنگ سے منع فرمایا تھا جسے یا تو اس زمانہ میں اس علاقہ میں عورتیں استعمال کرتی تھیں۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کو گلابی مائل زرد (بِعُصْفُرٍ مُوَرَّد) کپڑا پہنے دیکھا تو اسے ناپسند فرمایا۔ جس پر حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس کپڑے کو جلا دیا۔ حضورﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اسے جلانے کی بجائے اپنی کسی بیوی کو دیدیتے۔ (سنن ابی داؤد کتاب اللباس بَاب فِي الْحُمْرَةِ) یا پھر کفار اس زرد رنگ کو پہنتے تھے۔ لہٰذا حضورﷺ نے صحابہ کرام کو کفار سے مشابہت سے بچانے کیلئے اس رنگ کے استعمال سے انہیں وقتی طور پر منع فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃبَاب النَّهْيِ عَنْ لُبْسِ الرَّجُلِ الثَّوْبَ الْمُعَصْفَرَ) جس طرح حضورﷺ نے بعض ایسے برتنوں کے استعمال سے صحابہ کو وقتی طور پر منع فرمایا تھا جو ان کے علاقہ میں شراب کشید کرنے کیلئے استعمال ہوتے تھے۔
(صحیح بخاری کتاب الایمان بَاب أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنْ الْإِيمَانِ)
سورۃ البقرہ میں بنی اسرائیل کی گائے کے رنگ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بعض رنگ باہم مشابہ ہوتے ہیں اور مختلف نقطہ ٔ نگہ سے ان پر مختلف الفاظ بول لئے جاتے ہیں۔ گہرا زرد رنگ بھی ایسے ہی رنگوں میں سے ہے۔ کوئی دیکھنے والا اسے زرد قرار دیدیتا ہے اور کوئی سرخ جیسے زعفران ہے۔ زعفران اگر مختلف لوگوں کے سامنے رکھا جائے تو بعض لوگ اس کا رنگ سرخ بتائیں گے اور بعض اس کا زرد رنگ قرار دیں گے۔
(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 505-506)
پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معصفر، ورس اور زعفران سے رنگا جانے والا کپڑا زیادہ قیمتی ہو اور ریشم کے لباس کی طرح اس زمانہ میں تکبر اور فخر کی علامت سمجھا جاتا ہو۔ اس لئے حضورﷺ نے اپنے صحابہ کی تربیت کے پیش نظر اور انہیں دنیوی آسائشوں کی بجائے اخروی نعماء کی طرف مائل کرنے اور ان میں فخر و مباحات کی بجائے عاجزی اور انکساری پیدا کرنے کیلئے اس قسم کے قیمتی لباس کے استعمال سے منع فرمایا ہو اور اس کے مقابلہ پر عام زرد رنگ کے استعمال یا عام زرد رنگ کے لباس کے استعمال جس کے نتیجہ میں ان برائیوں اور ان دنیوی آسائشوں کی طرف میلان نہ پیدا ہوتا ہو، اس کی اجازت دی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، تابعین اور بعد میں آنے والے علماء و فقہاء کا مردوں کیلئے اس رنگ کے لباس کے استعمال میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر یت نے جن میں حضرت ابو حنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی شامل ہیں اس کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض نے اسے مکروہ تنزیہی (جس کام کے ترک کرنے میں سختی نہ پائی جاتی ہو۔ یا جس کام کے نہ کرنے سے ثواب ہو اور کرنے سے سزا کی وعید نہ ہو) قرار دیا ہے۔
پس حضورﷺنے جس خاص زرد رنگ یا خاص Shade کے استعمال سے مسلمانوں کو منع فرمایا تھا حضرت عثمان ؓ نے اس رنگ یا اس Shade کو ہر گز استعمال نہیں فرمایا بلکہ یہ وہ زرد رنگ تھا جو حضورﷺ نے بھی استعمال فرمایا اور دیگر صحابہ بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے لباس کے رنگ کیلئے ان روایات میں اصفر اور صفرہ کے الفاظ آئے ہیں، معصفر اور زعفران کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔
سوال: ایک خاتون نے حدیث نبویﷺ ’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِي ثَلاَثٍ فِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ ‘‘ کے پہلے حصہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریح کا ذکر کر کے اس حدیث کے دوسرے حصہ یعنی گھوڑے، عورت اور گھر میں نحوست کے ہونے، کے بارہ میں کئے جانے والے اعتراض کے ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس حدیث کی وضاحت چاہی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29؍مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل راہنمائی عطاء فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: شارحین حدیث نے اس حدیث کی مختلف تشریحات بیان کی ہیں۔ چنانچہ ابن عربی کہتے ہیں کہ حدیث میں ان چیزوں کا نحوست کے ساتھ جو حصر کیا گیا ہے وہ ان کی تخلیق کےلحاظ سے نہیں بلکہ ان کی صفت کے لحاظ سے ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہو سکتی ہے تو وہ ان تین چیزوں میں ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس عورت کے ہاں اولاد نہ ہو اور جو گھوڑا جنگ میں استعمال نہ ہو اور جس مکان کا ہمسایہ بُرا ہو تو یہ ان چیزوں کی نحوست ہے۔ ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ نحوست کا اعتقاد رکھتے تھے، چنانچہ حضورﷺ نے انہیں اس سے منع فرمایا اور انہیں بتایا کہ نحوست کوئی چیز نہیں۔ اس کے باوجود ان تین چیزوں کی نحوست کے وہ قائل رہے۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر بَاب مَا يُذْكَرُ مِنْ شُؤْمِ الْفَرَسِ)
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں حضورﷺ نے اپنا موقف بیان نہیں فرمایا بلکہ اس زمانہ کے لوگوں کا اعتقاد بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اس نظریہ کی تائید حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں حضرت عائشہ ؓ سے ذکر کیا گیا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے، عورت اور گھر میں نحوست ہوتی ہے۔ اس پر ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ شدید ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ حضورﷺ نے ہرگز ایسا نہیں فرمایا بلکہ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ ان تین چیزوں کو نحوست کا باعث خیال کرتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل کتاب باقی مسند الانصارباب باقی المسند السابق، حدیث نمبر 24841) اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس بات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے حضورﷺ کی بات کا صرف آخری حصہ سنا، پہلا حصہ نہیں سنا۔ اصل میں حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے جو کہتے ہیں کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے۔
(مسند ابی داؤد الطیالسی کتاب احادیث النساء باب علقمة بن قيس عن عائشة)
ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ اصل میں اس حدیث میں زمانہ جاہلیت کے نحوست کے بارہ میں غلط عقیدہ کا بطلان کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ اگر کسی کا گھر ایسا ہو جس میں وہ رہنا ناپسند کرے، یا کسی کی بیوی ایسی ہو جس کی صحبت اسے ناپسند ہو یا کسی کا گھوڑا ایسا ہو جس کی سواری اسے پسند نہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ان چیزوں سے الگ ہو جائے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ مارنے والا گھوڑا، اپنے خاوند سے بے وفائی کرنے والی بیوی اور مسجد سے دور ایسا گھر جہاں اذا ن کی آواز نہ پہنچے نحوست کا باعث ہیں۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر بَاب مَا يُذْكَرُ مِنْ شُؤْمِ الْفَرَسِ)
بہرحال یہ مختلف تشریحات ہیں جو شارحین نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کی ہیں۔ لیکن اگر اس حدیث پر غور کیا جائے اور قرآن و حدیث میں بیان تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تو اس حدیث کے مطلق یہ معانی کہ عورت، گھوڑا اور گھر نحوست کا باعث ہیں درست نہیں ٹھہرتے۔ کیونکہ آنحضورﷺ نے ان تینوں چیزوں کو پسند فرمایا اوران کی تعریف فرمائی۔ گھر اور گھوڑا حضور ﷺ کے زیر استعمال رہے جبکہ عورتوں سے حضور ﷺ کا بطور والدہ، بیوی اور بیٹی بہت گہرا تعلق رہا۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے عورت کے متعلق بطور ماں کے فرمایا کہ جنت اس کے قدموں تلے ہے۔ (سنن نسائی کتاب الجہاد باب الرُّخْصَةُ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَةٌ) نیک بیوی کو دنیا کی سب سے بہترین متاع قرار دیا۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع بَاب خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ) بیٹی کی اچھی تربیت کو جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ (صحیح مسلم كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَاب فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ) بیوی سے حسن سلوک کرنے والے خاوند کو بہترین انسان قرار دیا۔ (سنن ترمذی کتاب الرضاع بَاب مَا جَاءَ فِي حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا) اور دنیا کی چیزوں میں سے خواتین اور خوشبو کو اپنی محبوب متاع قرار دیا۔
(سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء بَاب حُبِّ النِّسَاءِ)
اسی طرح قرآن کریم نے گھوڑوں کو انسان کیلئے زینت کا باعث قرار دیا۔ (سورۃ النحل: 9) حضرت سلیمان کے گھوڑوں سے غیر معمولی محبت کے اظہارکو یاد الٰہی کا موجب قرار دیا۔ (ص: 23-34) نیز آنحضورﷺ نے گھوڑوں کی غیر معمولی اہمیت کے حوالہ سے فرمایا کہ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر و برکت رکھ دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر بَاب الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ) گھروں کی بابت آنحضورﷺ نے انصار کے گھروں میں سے بنو نجار، بنو عبدالاشھل، بنو حارث اور بنو ساعدہ کے گھروں کو بہترین گھر قرار دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب بَاب فَضْلِ دُورِ الْأَنْصَارِ) پھر حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ نیا گھر لینے، نئی سواری خریدنے اور نئی بیوی کے آنے پر صدقہ بھی دو۔ تو یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے بد اثرات سے محفوظ رکھے اور ان ذرائع سے برکات حاصل ہوں۔
پس قرآن کریم اور آنحضورﷺ کا ان چیزوں کو اس طرح قابل تعریف قرار دینا ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کے وہ معانی بہرحال نہیں ہو سکتے جن کی وجہ سے یہ حدیث قابل اعتراض ٹھہرتی ہو۔
علاوہ ان تمام امور کے اس حدیث کو سمجھنے کیلئے بنیادی بات وہی ہے جواس زمانہ کے حکم و عدل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حدیث کے پہلے حصہ کی تاویل کرتے ہوئے اپنی تصنیف نور الحق میں بیان فرمائی ہے (اور آپ نے بھی اپنے خط میں اس کا ذکر کیا ہے) کہ ’’تمام تاثیریں عدویٰ وغیرہ کی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور بجز اس کے حکم اور ارادہ اور مشیت کے اس عالم کون اور فساد میں کوئی مؤثر نہیں۔‘‘ (نورالحق، روحانی خزائن جلد8 صفحہ15) یعنی دنیا کی ہر چیز کی اچھی اور بُری تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی ہیں اورکوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت کے بغیر اپنے اچھے یا بُرے اثرات دوسرےپر نہیں ڈال سکتی۔
پس حضور علیہ السلام کی بیان فرمودہ اس تشریح کے مطابق مذکورہ بالا حدیث کے اگلے حصہ کا بھی یہی مطلب بنے گا کہ عورت ہویا انسان کی سواری ہو یا اس کا گھر ہو، ان تمام چیزوں کے اچھے یا بُرے اثرات خدا تعالیٰ کے اذن سے ہی دوسرے شخص پر پڑ سکتے ہیں۔ اوربالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان اپنی بیوی سے یا اپنی سواری سے یا اپنے گھر سے خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہی فائدہ یا نقصان اٹھاتا ہے۔
البتہ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ کسی چیز کے اچھے یا بُرے اثرات پیدا ہونے میں انسان کا کچھ بھی دخل نہیں اور جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےکلام میں اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں خوب کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ انسان کے جیسے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ان کے نتائج بھی مرتب فرماتا ہے۔ چنانچہ سورۃ التغابن میں مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارے ازواج میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔ (التغابن: 15-16) اور سورۃ النور میں فرمایا کہ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کیلئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کیلئے ہیں۔ اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کیلئے ہیں۔ (سورۃ النور: 27) پھر ایک حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ صالحہ بیوی، اچھا گھر اور اچھی سواری انسان کیلئے سعادت کا موجب ہے اور بد عورت، بُرا گھر اور بُری سواری انسان کیلئے بدبختی کا باعث ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ مُسْنَدُ أَبِي إِسْحَاقَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، حدیث نمبر 1368)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں:
جب انسان سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے تو اسی کے مطابق خدا بھی اپنی طرف سے ایک فعل صادر کرتا ہے مثلاً انسان جس وقت اپنی کوٹھڑی کے تمام دروازوں کو بند کر دے تو انسان کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہوگا کہ وہ اس کوٹھڑی میں اندھیرا پیدا کر دے گا۔ کیونکہ جو امور خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں ہمارے کاموں کیلئے بطور ایک نتیجہ لازمی کے مقدر ہو چکے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے فعل ہیں۔ وجہ یہ کہ وہی علّتُ العلل ہے۔ ایسا ہی اگر مثلاً کوئی شخص زہر قاتل کھالے تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل صادر ہوگا کہ اسے ہلاک کر دے گا۔ ایسا ہی اگرکوئی ایسا بیجا فعل کرے جو کسی متعدّی بیماری کا موجب ہو۔ تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہوگا کہ وہ متعدّی بیماری اس کو پکڑ لے گی۔ پس جس طرح ہماری دنیوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کیلئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتاہے۔ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (الصف: 6) یعنی جو لوگ اس فعل کو بجا لائے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کیلئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہوگا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھاویں گے اور جن لوگوں نے کجی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا فعل اس کی نسبت یہ ہوگا کہ ہم ان کے دلوں کو کج کر دیں گے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ388-389)
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے تین طلاقوں کے بعد اسی بیوی کے ساتھ خانہ آبادی کی بابت مسئلہ دریافت کیا۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مؤرخہ 8؍جون 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل اصولی ہدایات سے نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اس معاملہ پر میں آپ ہی کی بیان کردہ تین طلاقوں کے اجراء کی صورتحال کی ظاہری حالت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیم کی رو سے آپ کو جواب دے چکا ہوں۔ تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ البقرہ کی الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (البقرہ: 230) والی آیت کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اسی کی روشنی میں آپ کویہ جواب دیاگیا ہے اور اس کے مطابق تو آپ اپنی اہلیہ کو طلاق بتہ دے چکے ہیں۔
اس لئے اگر آپ کی سابقہ اہلیہ کے والدین اپنی بیٹی کیلئے نیا رشتہ تلاش کر رہے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دیں۔ کیونکہ آپ اپنی طلاقوں کی جو بھی توجیہہ کریں، ان کے نزدیک تو ان کی بیٹی کو طلاق بتہ ہو چکی ہے۔
باقی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے دیوانگی کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاقیں دی ہیں اور اس وقت آپ اپنے ہوش میں نہیں تھے تو پھر آپ اپنے لئے جو بہتر سمجھتے ہیں فیصلہ کر لیں لیکن غلطی کی صورت میں پھر اس کا گناہ آپ ہی کے سر ہو گا۔
(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔ انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)