• 29 اپریل, 2024

شاہد آفریدی

تیز ترین سینچری بنانے والے دائیں ہاتھ کے پاکستانی آل راوٴنڈر شاہد آفریدی کو کون نہیں جانتا اورپوری دنیا کے شائقین کرکٹ میں سے کون ہے جو شاہد آفریدی کی بیٹنگ دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ پہلی سینچری سے لے کر آخری اننگز تک آفریدی کا انداز ایک جیسا ہی رہا۔

یہ ستمبر 1996ء کا سال تھا۔ پاکستان انڈر 19کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے دور دراز اور مشکل دورہ پر تھی اسی دوران ٹیم منیجر کو پیغام ملا کہ دائیں ہاتھ کے لیگ سپنر16سالہ شاہد آفریدی کو فوراً دورے سے واپس بھیج دیا جائے۔ انہی دنوں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم چار ملکی ون ڈے ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں موجود تھی۔ پاکستان کو ایک اچھے لیگ سپنر کی فوری ضرورت تھی کیونکہ تجربہ کار لیگ سپنر مشتاق احمد سہارا کپ میں گھٹنے کی انجری کے بعد سرجری کروا کر آرام کی غرض سے ٹیم سے باہر ہو چکے تھے۔

چار ملکی ون ڈے ٹورنامنٹ میں پاکستان، ساؤتھ افریقہ، سری لنکا اور میزبان کینیا کی ٹیمیں پنجہ آزمائی کے لیے تیار تھیں۔ سب سے بڑا خطرہ سری لنکا کی ٹیم تھی جس میں نامی گرامی بائیں ہاتھ کے اوپنر بیٹسمین سینتھ جے سوریا۔ فاسٹ باولرز کے بخئے ادھیڑ دینے والے وکٹ کیپر بیٹسمین رمیش کالو ودھارنا کے علاوہ مڈل آرڈر کی ریڑھ کی ہڈی مانے جانے والے اروندا ڈی سلوا، اشانکا گروسینا، روشان ماہنامہ اور سری لنکا کے چیمپئن کپتان ارجونا رانا ٹونگا موجود تھے۔ ایسے میں مشتاق احمد کی غیر موجودگی میں ایک اچھے لیگ سپنر کا ٹیم میں ہونا بے حد ضروری تھا اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹیم انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی نے نظریں دوڑائیں تو قرعہ فال نوجوان شاہد آفریدی کے نام نکلا لہٰذا آفریدی ویسٹ انڈیز سے کراچی پہنچے اور پھر ضروری کاروائی کے بعد فوراً نیروبی کے لیے روانہ ہو گئے کسے خبر تھی کہ یہ طویل تھکا دینے والا سفر ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے ہو رہا تھا اور ایک گوہر نایاب کرکٹ کی دنیا میں حکمرانی کے لیے تیار ہونے جا رہا ہے۔

آفریدی نیروبی پہنچے اور جس ٹیم میں شامل ہو رہے تھے اس میں پہلے سے ہی ایک سے بڑھ کر ایک اسٹار بلکہ سپر سٹار موجود تھے کپتان سعید انور۔ وسیم اکرم وقار یونس اعجاز احمد اور دیگر کئی نامی گرامی کھلاڑیوں سے سجی اس تجربہ کار ٹیم کے ساتھ پہلی بار ٹیم میں شامل ہورہے نوجوان اور پر جوش شاہد آفریدی کو خوش آمدید کہا گیا۔ سینئرز اور تجربہ کار کھلاڑیوں نے نوجوان کو ایسا پر سکون ماحول فراہم کیا کہ اسے اس ماحول میں ایڈجسٹ کرتے ذرا دیر نہ لگی۔ نیٹ پریکٹس کے دوران نوجوان کو جب بیٹگ کے لیے کہا گیا تو وہ خود حیران تھے کہ مجھے بطور لیگ سپنر بلایا گیا ہے لیکن ٹیم انتظامیہ مجھ سے بیٹنگ کیوں کروا رہی ہے۔ آفریدی نے نیٹ پریکٹس شروع کی تو وقار یونس، وسیم اکرم، ثقلین مشتاق، اظہر محمود کے خلاف اعتماد کے ساتھ کھیلے اور ان کی گیندوں پر کھل کر سٹروکس کھیلتے گئے تجربہ کار اور پرانے کھلاڑی اس نوجوان کی اس دلیری پر داد دئیے بنا نہ رہ سکے۔

اگلے روز پریکٹس شروع ہوئی تو وسیم اکرم اور وقار یونس پوری رفتار سے گیند کر رہے تھے جو گزشتہ دن کی پریکٹس میں کچھ رعائت تھی آج کی باولنگ میں بالکل نہ تھی لیکن آفریدی بغیر ڈرے تیزی سے آتی گیندوں کو پوری قوت سے شاٹس لگا کر دور کا رستہ دکھاتے رہےاور تمام ساتھی کھلاڑی اس کی دیدہ دلیری پر داد دیتے رہے۔ آفریدی کہتے ہیں کہ:
میں اپنی بیٹنگ سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کچھ سینئر کھلاڑیوں کی آواز آئی آفریدی کو اوپنر یا ون ڈاون کے طور پر آزمایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں! میں ظاہری طور پر حیران تھا لیکن دل میں بہت خوش تھا کہ میں بھی بیٹنگ میں کچھ کر سکتا ہوں۔

چار ملکی ٹورنامنٹ شروع ہو چکا تھا پاکستان کا پہلا میچ 2؍اکتوبر کو کینیا کے خلاف تھا آفریدی ٹیم کاحصہ بن چکے تھے اور انہیں اس بات کی اتنی خوشی تھی اور وہ اس قدر پر جوش تھے کہ رات کو صحیح طرح سو بھی نہ سکے۔

صبح ہونے والے میچ کے متعلق وہ کہتے ہیں:
آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو مجھے لگا کہ صبح ہو چکی ہے اور میں نے گراونڈ جانے کے لیے تیاری شروع کردی اور اپنے ساتھی کھلاڑی شاداب کبیر کو بھی جگا دیا کہ جلدی اٹھو میچ کا وقت ہو گیا ہے۔ جب شاداب نے اٹھ کر ٹائم دیکھا تو رات کے اڑھائی بج رہے تھے۔ جب صبح تمام کھلاڑی بیدار ہو گئے تو آفریدی نے شاداب سے کہا بھائی! میں نے رات کو خواب دیکھا ہے کہ میں مرلی دھرن اور سنتھ جے سوریا کو خوب چھکے مار رہا ہوں انہوں نے آفریدی کا خوب مذاق بنایا کہ بھائی تم تو رات سوئے ہی نہیں تو خواب کیسے دیکھ لیا۔

آفریدی نے پہلا میچ کینیا کے خلاف کھیلا۔ اس میچ میں ان کی بیٹنگ نہیں آئی جبکہ باولنگ میں دس اوورز میں بتیس رنز دئیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔

ریکارڈ ساز کارکردگی کا دن

4؍اکتوبر 1996ءکو پاکستانی ٹیم نیروبی کے جم خانہ گراونڈ میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں ورلڈ چمپین سری لنکا کی تجربہ کا ٹیم کے مد مقابل تھی سری لنکن ٹیم میں ایک سے بڑھ کر ایک باؤلر موجود تھا۔ شائقین کرکٹ کو کیا خبر تھی کہ آج ایک ریکارڈ ساز اننگز دیکھنے والے خوش نصیب بننے والے ہیں۔

سری لنکن کپتان رانا ٹونگا نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ کپتان سعید انور اور سلیم الٰہی نے اننگ کا آغاز کیا۔ جب سکور 60پر پہنچا تو سلیم الٰہی 23رنز بنا کر کمارا دھرماسینا کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ کریز پر آنے والے نئے بیٹسمین شاہد آفرید ی تھے۔ آفریدی نے پہلی گیند روکی ان کے ہاتھوں میں ماسٹر بلاسٹر بھارتی بلے باز سیچن ٹنڈولکر کا بیٹ تھا جو انہوں نے وقار یونس کو تحفہ دیا تھااور آفریدی کو یہ بیٹ وقار یونس نے بیٹنگ کرنے کے لیے دیا تھا جو آج تک آفریدی کے پاس موجود ہے۔ آفریدی نے دوسری ہی گیند پر چھکا لگا دیا۔ سری لنکن ٹیم میں لیفٹ آرم فاسٹ چمنداواس – سجیوا ڈی سلوا – سپنر متھیہ مرلی دھرن۔ سنتھ جے سوریا۔ کمارا دھرما سینا جیسے کہنہ مشق بولرز شامل تھے۔ یہ تمام بولرز سوچتے رہ گئے کہ آفریدی کو ایسی کونسی گیند کروائی جائے جسے وہ باؤنڈری پار نہ بھیج سکیں۔ یہی وہ بولرز تھے جنہوں نے اسی سال آسٹریلیا کے خلاف سری لنکا کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ون ڈے کا عالمی چیمپیئن بنوایا تھا لیکن آج ایک نوجوان ناتجربہ کار بیٹسمین انہیں پوری طرح بے بس کئے اپنی مرضی سے کھلا رہا تھا اور چند دن پہلے دیکھے خواب کی تعبیر عملاً پوری کر رہا تھا۔ لیفٹ آرم تجربہ کار سپنر جے سوریہ کے ایک ہی اوور میں آفریدی نے تین چھکے اور دو چوکے مارے۔ یہاں تک کہ دو مرتبہ گیندیں اسٹیڈیم سے باہر کار پارکنگ میں جا کر گریں۔ مرلی دھرن جیسے جادوگر نے بھی بے بسی سے گیند کو گراونڈ سے باہر جاتے دیکھا۔ لیکن آج آفریدی انہیں کسی قسم کی رعائت دینے کو بالکل تیار نہ تھے اور جو بولر بھی سامنے آیا وہ آفریدی کے قہر سے نہ بچ سکا اور سری لنکا کے فیلڈر اور سپورٹر بے بسی کی تصویر بنے رہے۔

آفریدی نے اپنے کیرئیر کی پہلی نصف سینچری محض 18گیندوں پر مکمل کی یوں وہ صرف ایک گیند کی کمی سے جے سوریا کا 17گیندوں پر نصف سینچری کرنے کا عالمی ریکارڈ برابر نہ کر سکےلیکن سینچری اور وہ بھی ورلڈ ریکارڈ سینچری مکمل ہونا ابھی باقی تھی۔ نوجوان آفریدی جس بے رحمی سے ہر گیند کو کھیل رہے تھے اور اپنی خواب کی تعبیر پوری کر رہے تھے وہ قابل دید و تحسین تھی۔

ان کے کپتان بائیں ہاتھ کے منجھے ہوئے اوپنر بیٹسمین سعید انور ہر چھکے اور چوکے پر ان کے پاس آکر کبھی ان کا سر کبھی کندھا اور کبھی گردن تھپتھپا کر حوصلہ افزائی کر رہے تھے آفریدی نے مرلی دھرن کی گیند پر لیگ سائیڈ پر سویپ شاٹ کے ذریعہ چوکا مار کر اپنی سینچری صرف 37گیندوں پر مکمل کی اس اننگز میں 6چوکے اور 11 بلند و بالا چھکے شامل تھے وہ چالیس گیندوں پر 102رنز بنا کر ڈی سلوا کی گیند پر مرلی دھرن کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ کپتان سعید انور نے بھی 13چوکوں اور 1چھکے کی مدد سے 120گیندوں پر 115رنز کی خوبصورت اننگز تراشی اور مرلی دھرن کی گیند پر روشان ماہنامہ کو کیچ تھما بیٹھے۔

آفریدی کی برق رفتار اننگز سے پہلے ون ڈے کی تیز ترین سینچری کا اعزاز سنتھ جے سوریا کے پاس تھا جنہوں نے صرف چھ ماہ قبل سنگا پور میں پاکستان کے خلاف 48گیندوں پر سینچری بنائی تھی۔

وقار یونس کہتے ہیں:
آفریدی نے انٹرنیشنل کرکٹ میں آکر جس طرح دھواں دھار بیٹنگ کی وہ بڑا کارنامہ ہے۔

وقار یونس اس میچ کی یادوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ:
جب شاہد آفریدی چھکے پر چھکے مار رہے تھے تو ڈریسنگ روم میں سبھی اس اننگز کو انجوائے کر رہے تھے اور جیسے کسی پارٹی کا ماحول بن گیا تھا لیکن سب کھلاڑیوں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمیں ایک ایسا کھلاڑی مل گیا ہے جو گیم چینجر ہے۔

پاکستان نے اس میچ میں 9کھلاڑیوں کے نقصان پر 371رنز کا بڑا ٹوٹل بناڈالا۔ جواب میں سری لنکن ٹیم پچاسویں اوور میں 289رنز بنا کر آل آؤٹ ہو گئی۔ لیگ سپنر شاہد آفریدی نے 10اوورز میں 43رنز دے کر ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ اس طرح جہاں پاکستان یہ میچ بآسانی جیت گیا وہیں آئندہ دنیائے کرکٹ کے لیےتقریباً دو دہائیو ں تک راج کرنے والا آل راونڈر پیدا کر دیا۔

آفریدی کا یہ ریکارڈ 17سال تک قائم رہا۔ یکم جنوری 2014ء کو نیوزی لینڈ کے کھلاڑی کورے اینڈرسن نے ویسٹ انڈیزکے خلاف 36گیندوں پر 100رنز بنا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ لیکن ایک سال کچھ دن بعد ہی ویسٹ انڈیز کے خلاف جنوبی آفریقہ کے جارح مزاج بیٹسمین اے بی ڈیویلئیر نے 18؍جنوری 2015ء کو جوہانسبرگ میں 31گیندوں پر سینچری بنا کر ون ڈے کی تیز ترین سینچری کے مالک بن گئے۔ اے بی ڈی نے اس اننگز میں صرف44گیندوں پر 149 رنز بنائے۔

شاہد آفریدی نے اس کے بعد بھی کئی یاد گار اننگز کھیلیں اور کئی بار پاکستان کو ہارے ہوئے میچ جتواتے رہے۔ مثال کے طور پربنگلہ دیش کے خلاف ایشیاء کپ کا میچ ہو یا ویسٹ انڈیز میں- انڈیا کے خلاف ہو یا آسٹریلیا کے خلا ف آفریدی اپنے پورے کیرئیر میں ٹیم کے لیے اہم ثابت ہوتے رہے ٹیسٹ ہو ون ڈے ہو یا ٹی ٹوینٹی آفریدی ہر فارمیٹ میں حریف ٹیموں کو ناکوں چنے چبواتے رہے۔

آفریدی سے کسی نے پوچھا اس کے علاوہ کون سی اننگز یاد ہے؟ کہنے لگے! آسٹریلیا کے خلاف ہوبارٹ میں جب گلین میگرا کو میں نے دو چھکے اور تین چوکے مارے تھے اسی طرح بریٹ لی کو دو چھکے اور ایک چوکا مارا تھا 26گیندوں پر 56کی اننگز آج بھی یاد ہے۔

اسی طرح 2010ء کے ایشیاء کپ میں 109رنز کی اننگز میں میں نے مرلی دھرن کوپانچ چھکے مارے تھے۔ پھرشائقین کرکٹ 2014ء کے ایشیاء کپ میں انڈیا کے خلاف آخری اوور میں آر ایشون کی دو گیندوں پر لگنے والے چھکے بھی کبھی نہ بھلا سکیں گے۔ یاد ہوگا جب بنگلہ دیش کے شہر میرپور کے شیر بنگلہ سٹیڈیم میں روایتی حریف انڈو پاک مد مقابل تھے ایک لمحہ کے لیے پاکستان میچ تقریباً ہار ہی چکا تھا۔ شاہد آفرید کریز پر موجود تھے پاکستان کوآخری اوور میں جیت کے لیے 10رنز درکار تھے اور پاکستان کے 8کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ انڈین ٹیم نے اپنے سب سے کارگر ہتھیار سے حملہ کی پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ آخری اوور میں گیند تجربہ کار رائٹ آرم سپنر روی چندرن ایشون کے ہاتھ میں تھی سامنے سعید اجمل تھے ایشون نے ایک کیرم بال کی لیکن اجمل اس مشکل گیند کو بالکل بھی پڑھ نہ پائے اور اجمل کی سویپ شارٹ مارنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے گیند لیگ سائیڈ سے ڈائریکٹ وکٹوں کو اکھاڑ تے ہوئے نکل گئی اجمل آؤٹ ہو چکے تھے۔ پاکستان کو اب 5گیندوں پر 10رنز کی ضرورت تھی آفریدی باولنگ اینڈ پر آخری امید بنے کھڑے تھے۔ پاکستان شائقین بے یقینی کی کیفیت سے دوچار دعاؤں میں مشغول سامنے جیند خان تھے اس صورت حال میں جنید خان کا پریشر ہینڈل کرنا بالکل نا ممکن نظر آ رہا تھا گراونڈ میں موجود بھارتی شائقین نے شور سے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ کسی بھی طرح سنگل کرنا ضروری تھا تا کہ باقی بچی گیندوں کا سامنا مرد میدان شاہد آفریدی کر سکے۔ دوسری طرف ٹی وی پر میچ دیکھنے والے پاکستانی شائقین کی ڈھارس بندھانے کے لیےمشہور پاکستانی کومینٹیٹر رمیز حسن راجہ اپنی پوری کوشش کر رہے تھے اور مایوسی سے بچاتے ہوئے لہو گرمانے میں کوشاں تھے۔ ایشون نے آخری اوور کی دوسری گیند پھینکی جنید خان نے گرتے پڑتے ایک رن لے ہی لیا۔ یوں بوم بوم آفریدی کروڑوں پاکستانیوں کی واحد امید کریز پر انڈیا کے مہلک ہتھیار آر ایشون کا سامنا کرنے کو بالکل تیار کھڑے تھے پاکستان کو جیت کے لیے اب بھی 4گیندوں پر 9رنز درکار تھے۔ ایشون نے اپنے ترکش سے بہترین تیر آفریدی کی طرف پھینکا آفریدی پوری طرح بھانپ چکے تھے۔ تھوڑا سا پیچھے ہٹے لیگ سائیڈ کی وکٹ سے پیچھے ہٹ کر روم بناتے ہوئے پوری قوت سے بیٹ گیند پر دے مار۔ ٹکراؤ بالکل درست تھا اور گیند فیلڈر کو منہ چڑھاتی چھ رنز کے لیے باؤنڈری سے باہر جا گری۔ پاکستان شائقین خوشی سے جھوم اٹھے۔ ادھر رمیز حسن راجہ کومینٹری سے سب کو سحر میں جکڑے ہوئے تھے جونہی گیند چھ رنز کے لیے گری رمیز نے کہا:

Its six Shahid Afridi …..Unbelievable short indians cant believe it

خیرمنزل ابھی تھوڑی دور تھی اور خطرہ ابھی باقی۔ پاکستان کو ابھی بھی تین گیندوں پر 3رنز چاہیے تھے۔ آفریدی کےہوتے ہوئے امید چھوڑی نہیں جا سکتی تھی۔ ایشون نے پہلے سے بھی بہتر گیند پھینکی شاہد آفریدی نے پورا زور لگا کر بیٹ گھمایا گیند پوری طرح بیٹ پر تو نہیں آئی جس طاقت سے بیٹ مارا گیا تھا گیند کچھ دیر ہوا میں معلق رہنے کے بعد چھ رنز کے لیے باؤنڈری سے باہر جا گری۔ آفریدی کے دونوں ہاتھ اپنے مخصوص انداز میں ہوا میں بلند تھے جبکہ ایشون کے دونوں ہاتھ سر پر تھے۔ رمیز حسن راجہ کہہ رہے تھے:

Shahid Afridi you beauty

آفریدی نے 18گیندوں پر 34رنز بنائے اور پاکستان میچ جیت گیا۔

بہرحال جب تک کرکٹ کا کھیل باقی رہے گا تب تک شائقین کی سماعتوں سے یہ آواز ٹکراتی رہے گی:

شاہد آفریدی یو بیوٹی

آئندہ بھی دنیائے کرکٹ میں میچ کی ایسی صورتحا ل پر کئی مڈل آرڈر اور فنشر ہٹر آتے رہیں گے مگر ہر دور اور ہر زمانے میں کرکٹ کے میدانوں میں ایک نام سپر ہٹر اور فنشر کے طور پر اس عظیم بلے باز کا نام گونجتا رہےگا۔

شاہد آفریدی اپنے آپ میں ایک زمانہ تھا۔ شاہد آفریدی ایک دور تھا۔ ہر کرکٹ شائق آپ کو رمیز راجہ کے الفاظ میں ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتا رہے گا کہ

شاہد آفریدی یُو بیوٹی

(ڈاکٹر رضوان احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی