• 11 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 70)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 70

کلمہ طیبہ کی حقیقت

آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں کئی بار ظاہر کرچکا ہوں کہ تمہیں صرف اتنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے قائل ہیں۔ جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف زبانی قیل و قال سے کبھی راضی نہیں ہوتا اور نہ نری زبانی باتوں سے کوئی خوبی انسان کے اندر پیدا ہو سکتی ہے جب تک عملی حالت درست نہ ہو کچھ نہیں بنتا۔‘‘

حضور علیہ السلام نے یہودیوں کی مثال دی کہ وہ بھی تو تورات پر ایمان لاتے تھے۔ مگر ان کا اندرونہ صاف نہ تھا اس لئے ان کو سور اور بندر بنا دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اتنی ہی بات کو پسند نہ کیا کہ وہ نِرے زبان سے ہی ماننے والے ہوں اور ان کے دل زبان سے متفق نہ ہوں۔ فرماتے ہیں:
’’خوب یادرکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں خدا کو وحدہ لاشریک مانتاہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں …… لیکن اگر یہ اقرار صرف زبان ہی تک ہے اور دل معترف نہیں تو یہ زبانی باتیں ہوں گی اور نجات اس سے نہیں مل سکے گی……! اب یادرکھنا چاہئے کہ کلمہ جو ہم ہر روز پڑھتے ہیں اس کے کیا معنے ہیں؟ کلمہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود، محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں۔ اِلٰہ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کے لئے آتا ہے۔ یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے۔ چونکہ ایک بڑی اور مبسوط کتاب کا یا د کرنا آسان نہیں۔ اس لئے یہ کلمہ سکھا دیا گیا تاکہ ہر وقت انسان اسلامی تعلیم کے مغز کو مدنظر رکھے اور جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہ ہو جاوے۔ سچ یہی ہے کہ نجات نہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے…… یعنی جس نے صدق دل سے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کو مان لیا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ لوگ دھوکہ کھاتے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طوطے کی طرح لفظ کہہ دینے سے انسان جنت میں داخل ہو جاتاہے۔ اگر اتنی ہی حقیقت اس کے اندر ہوتی تو پھر سب اعمال بے کار اور نکمے ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ102-103)

حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بار بار اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے کیوں کہ مذہب اسلام یہی سکھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور پیوند ہو۔ اگر مذہب یہ بات نہیں سکھاتا تو وہ مذہب مذہب ہی نہیں اور یہ تعلق صرف اور صرف نمازکے ذریعہ قائم ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک قوم آپؐ کے پاس آئی اور اسلام قبول کیا اور کہنے لگے کہ ہم اسلام کی سب باتیں ماننے کو تیار ہیں مگر ہمیں نماز معاف فرمائی جاوے کیوں کہ یہ مشکل بھی ہے اور ہم مصروف لوگ ہیں آپؐ نے اس کی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ جب نماز ہی نہیں تو پھر ہے ہی کیا؟

خاکسار نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور وفا کا تعلق پیدا کرنے کے بعد مزید لکھا کہ یہ جو آج کل پاکستان میں ہورہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام صرف نام کا رہ گیا ہے۔ عملی حالت بالکل ٹھیک نہیں رہی۔ زبان سے صرف لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار ہے اور دلوں سے خوف خدا بالکل نکل چکا ہے اور صحن سینہ سے ایمان اسی طرح پرواز کر چکا ہے جس طرح پرندہ گھونسلے سے اُڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی جان لینا، قتل و غارت کرنا اور درندگی سے پیش آنا ان کا دینی مشغلہ بن چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 22؍جولائی 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدیٰ یہی ہے‘‘ کی اگلی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ یہ مضمون وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکا ہے۔

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 22؍جولائی 2011ء میں خاکسار کا مضمون ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ کی پانچویں قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ یہ مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔ کہ اسلام دنیا کے تمام بحرانوں کا حل پیش کرتا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ جہاں زبان سے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کااقرار کیا جائے وہاں دل کی عزیمت سے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ نیز کلمہ طیبہ کی حقیقت بھی حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ صرف زبان سے کہہ دینا کہ ہم مسلمان ہیں کافی نہیں۔ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق قائم کرنا چاہئے اور وہ نماز کے ذریعہ ہی ہوتا ہے اور آخر میں پاکستان کے لوگوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔

ڈیلی بلٹن اپنی اشاعت 26؍جولائی 2011ء میں صفحہ A9 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان

‘‘Freedom Impossible Without Justice’’

کہ ’’آزادی بغیر انصاف کے ممکن نہیں ہے‘‘ شائع کرتا ہے۔

امریکی اپنا یوم آزادی 4؍ جولائی کو مناتے ہیں جبکہ پاکستانی 14؍اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں۔ یہ امریکہ اور پاکستان کے ایام آزادی کی قربت ہی صرف ایک ایسی چیز ہے جس سے امریکہ کے پاکستان سے تعلقات کو ’’قریب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ دیگر تمام معاملات میں ہم رات اور دن کی طرح الگ الگ ہیں۔ اس بات کا سہرا بھی امریکہ کو جاتا ہے کیونکہ اس کے آئین اور ترامیم میں شہریوں کو ان کے حقوق اور تحفظ کی حفاظت کے ذرائع فراہم ہوتے ہیں۔ بیشک مختلف گروہوں اور طبقوں کے ذریعہ ان حقوق اور آزادی کے حصول کے لئے کئی دہائیاں لگ گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جس آزادی کی نمائندگی کرتا ہے وہ ایک چمکتی ہوئی روشنی ہے جو لوگوں کو پوری دنیا سے ہمارے ساحلوں کی طرف کھینچتی ہے۔ امریکہ ایک مثالی جگہ ہے جہاں کے لوگ پہلے نمبر پر امریکی ہیں اور پھر دوسرے نمبر پر قومیت اور مذہب ہے۔ امریکی خواب میں یہ انوکھے پن کا خاصہ خواب ہی ہے جس کو سب کے لئے حقیقت بنانا چاہئے۔ افریقی باشندے غلام بنا کر امریکہ لائے گئے تھے اور آخر کار نہ صرف اچھے دل کے لوگوں کی کوششوں سے آزاد ہوئے تھے بلکہ تھامس جیفرسن (غلام مالک اور آزادی کے اعلان کے مصنف) کے وعدے کے الفاظ سے فیضیاب بھی ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں ان سچائیوں کو خود کو ظاہر کرنے کے لئے رکھنا ہے کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں اور یہ کہ انہیں اپنے خالق کے ذریعہ کچھ ناقابل اعتبار حقوق سے نوازا گیا ہے جن میں زندگی، آزادی اور خوشی کی جستجو ہیں۔ یہ ایسے الفاظ ہیں جنہوں نے بالآخر ہمارے آئین بل آف رائیٹس کو جنم دیا ہے۔ وہ آزادی جو تمام مسلم اقوام کے حکومتی منشور میں ہے کیا وہ واقعی قرآن مجید میں بیان کردہ انصاف کے احکام پر عمل پیرا ہیں؟

ایک مسلمان ملک، پاکستان نے انصاف کی سمت صحیح راہ پر اس وقت آغاز کیا جب 14؍اگست 1947ء کو اس کے بانی محمد علی جناح نے ریاست کے کنڑول سے پاک مذہبی آزادی سے لطف اٹھانے کے لئے تمام پاکستانیوں کے بنیادی حقوق بیان کئے تھے۔ اس تقریر میں جناح نے اعلان کیا کہ ہر پاکستانی، مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو یا سکھ اپنی مساجد، گرجا گھروں، عبادت خانوں یا مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں۔ ریاست پاکستان کسی بھی شہری کے مذہبی معاملات یا مذہب کے انتخاب میں مداخلت نہیں کرے گی۔ تاہم جب جناح انتقال کر گئے مذہبی آزادی کا خواب بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ اس دور کے ملّاں وقت ضائع کئے بغیر قومی اسمبلی میں پاکستان کو ایک غیر مذہبی ریاست کی بجائے اسلامی ریاست کی حیثیت سے ظاہر کرنے کے لئے برسر پیکار ہوگئے۔ چونسٹھ سال بعد (یہ 2011ء کی بات ہے) پاکستان میں تمام مذہبی اقلیتیں مرکزی سنی ملاؤں اور ان کے اجتماعات کے تعصب، ظلم و ستم اور خوف و ہراس میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین اور تعزیزی ضابطے لوگوں کے مذہبی حقوق، آزادی اور جناح کے تصور کے مطابق زندگیوں کے تحفظ کی بجائے، توہین مذہب اور مذہبی اظہار کے آزادانہ استعمال کو مجرم قرار دینے والے، خوفناک توہین رسالت کے قوانین کے ذریعہ ان کی موت کی منظوری دیتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے نام پر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کسی کو بھی محض اسلام کے ذریعہ توہین رسالت کے الزام میں جرمانہ، جیل یا یہاں تک کہ موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے اور توہین کے لفظ یا فعل کے ذریعہ پیغمبر اسلام کے لئے کوئی ثبوت درکار نہیں ہے کیونکہ اسے پیش کرنے سے اس مبینہ جرم کو دوبارہ کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔

احمدی مسلمان، عیسائی، شیعہ مسلمان، سکھ اور ہندو سب ان بدنما توہین رسالت کے قوانین کے سب سے بڑے شکار ہیں۔ جو اپنے ہی گھروں، رہنماؤں اور یہاں تک کہ اپنی زندگیوں تک سے اپنے پڑوسیوں اور کاروباری حریفوں کے ہاتھوں باقاعدگی سے بے دخل ہورہے ہیں۔ یہ ایک روحانی کینسر ہے جس سے تین دہائیوں سے ہزاروں بے گناہ جانیں شکار ہوئی ہیں۔ اس کینسر سے اصل فائدہ اٹھانے والے اشتعال انگیز ملّاں ہیں۔ مذہبی علماء اور جنونی طور پر گستاخ رسول کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال قبل مسلمانوں کو متنبہ کیا تھا اور انہیں ’’آسمان کے نیچے بدترین مخلوق‘‘ قرار دیا تھا لیکن کیا پاکستانی مسلمان یہ سنتے ہیں اور اپنے مذہب کے بانی کی اس وارننگ والی پیشگوئی پر عمل کرتے ہیں تاکہ خود کو مسلمانیت کے اس طاعون سے نجات دلاسکیں؟ اس کے برعکس، پاکستانیوں کی اکثریت یا تو ملّاؤں کے خوف سے کاربند ہے یا خوشی خوشی ان ہی ملّاؤں کی قابل نفرت حرکتوں کی حمایت کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان کو ’’جمہوریت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کوئی جمہوریت نہیں۔ نہ ہی انصاف ہے اور نہ ہی شہری حقوق، نہ قانون کے تحت یکساں تحفظ موجود ہے۔ قانون کی حکمرانی کو ان ملّاؤں نے اپنی مٹھیوں میں بند کر رکھا ہے جو نفرت اور قتل کی زہر آلود آوازوں کے ساتھ خود کو اجاگر کر رہے ہیں اور ان کی جماعتیں عملی طور پر پاکستان کی ہر مسجد میں اس جہنم میں داخل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مستقل مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں میں حقیقی ٹھوس روحانی تبدیلی اور حقیقی انصاف پر اثر انداز ہونے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ملک کو مولویت سے پاک کیا جائے۔ اس مقصد کی طرف پہلا اور سب سے مؤثر قدم یہ ہے کہ پاکستان کے آئین اور تعزیری ضابطوں سے توہینِ رسالت کے قوانین اور سزاؤں کو نکالا جائے اور اگلا قدم قانون کی حکمرانی کو سختی سے نافذ کرنا ہے اور تمام پاکستانیوں کو قانون کے تحت یکساں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جب پاکستان کا آئین، امریکی آئین سے مشابہ ہونے لگے گا تب ہی دونوں ممالک کے مابین ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم ہونے لگیں گے۔ جنہیں باہمی احترام، انسانی حقوق اور حقیقی مذہبی آزادی پر مبنی ایک ’’قریبی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ تب ہی بانی پاکستان محمد علی جناح اپنی قبر میں سکون سے رہ سکتے ہیں اور پاکستان یعنی ’’پاک سرزمین‘‘ پر فخر کیا جاسکتا ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 29؍جولائی 2011ء میں خاکسار کا یہی مضمون کہ انصاف کے بغیر آزادی کا کیا مطلب؟ من و عن شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے۔

نیوز انڈیا ٹائمز نے اپنی اشاعت 22؍جولائی 2011ء میں صفحہ3 پر خاکسار کا مضمون انگریزی میں بعنوان کہ آزادی بغیر انصاف کے؟ من وعن خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔

الاخبار نے اپنے عربی سیکشن کی 27؍جولائی 2011ء کی اشاعت میں صفحہ 8 پر حضرت امیر الموٴمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کی ساتھ شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنا‘‘ یہ خطبہ اس سے قبل الانتشار العربی کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

نیویارک عوام نےاپنی اشاعت 29؍جولائی 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے قرآن و حدیث، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات، خلفاء کرام کے خطبات اور اقوال بزرگان سے رمضان میں نیکیوں کے بجا لانے کی ترغیب دی ہے اور ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) نماز باجماعت (2) قیام اللیل یعنی تہجد (3) نماز تراویح (4) تلاوت قرآن کریم (5) دعائیں کریں، دعائیں کریں (6) ذکرالٰہی، توبہ و استغفار اور درود شریف کا ورد (7) صدقہ و خیرات کی فضیلت (8) صدقۃ الفطر (9) رمضان کا آخری عشرہ لیلۃ القدر و اعتکاف (10) لیلۃ القدر (11) عید الفطر

ان 11 باتوں کی تشریح، توضیح اور ان کی اہمیت خصوصاً رمضان المبارک کے حوالہ سے اور فقہی مسائل بیان کئے گئے ہیں۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 29؍جولائی 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گذر چکا ہے۔ 11 پوائنٹس رمضان المبارک کے حوالہ سے استفادہ کی غرض سے بیان کئے گئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 2؍اگست 2011ء میں صفحہ 20 پر انگریزی سیکشن میں ہماری ایک خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے:

’’ماہ رمضان کا مہینہ یکم اگست سے شروع ہورہا ہے۔‘‘

’’رمضان کا مہینہ انسان کی روحانی حالتوں کو ترقی دینے اور تزکیہ نفس کے لئے آتا ہے۔‘‘

’’مسلمان اور غیر مسلم سب کو مسجد بیت الحمید میں رمضان کی عبادات اور ڈنر میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔‘‘

اخبار لکھتا ہے امریکہ میں رمضان یکم اگست سے شروع ہورہا ہے جب کہ یورپ اور دیگر علاقوں میں دو اگست سے رمضان شروع ہوگا۔ رمضان کا مطلب ہے کہ صبح سے شام تک خدا کی خاطر انسان اپنے آپ کو کھانے پینے اور دیگر حوائج ضروریہ سے باز رکھے۔ امام شمشاد نے رمضان کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ رمضان انسان کی روحانی حالتوں کو مزید صیقل کرنے اور تزکیہ نفس کے لئے آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنی اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے۔ اس سے ضبط نفس بھی بڑھتا ہے اور قربانی کرنے کا مادہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ نیز دوسروں کا خیال رکھنا بھی رمضان کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ رمضان کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کے اندر دوسروں کے لئے ہمدردی بھی پیدا ہوتی ہے اور وہ اچھے اعمال بجا لانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ضرورت مندوں کے لئے مالی قربانی اور ان کی مدد کی بھی ترغیب ملتی ہے۔

اس قسم کا پیغام اس سے قبل جماعت احمدیہ برطانیہ کے سالانہ جلسہ پر بھی دیا گیا تھا جو 22 تا 24؍جولائی کو لندن میں احمدیہ مسلم جماعت کا ہوا تھا۔ جس میں 30 ہزار احباب شامل ہوئے تھے۔ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور احمد (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے اپنی جماعت کے لوگوں کو تقویٰ اور عملی حالتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور جماعت احمدیہ کا سب سے بڑا مقصد خدا کا قرب پانا ہے۔

امام شمشاد نے رمضان کے بارے میں مزید بتایا کہ وہ مسلمان جس کی صحت اچھی ہے اور وہ سفر پر بھی نہیں ہے اسے اس مہینہ میں خدا کا قرب پانے کے لئے روزے رکھنے چاہئیں نیز بنی نوع انسان کی خدمت بھی ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ بجا لانی چاہئے۔

امام شمشاد نے مزید بتایا کہ اس مہینہ میں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کو امن قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ دنیا میں اسلامی تعلیمات کے مطابق صحیح معنوں میں امن قائم ہوجائے اور جب رمضان میں ان سب باتوں کی ٹریننگ حاصل ہوجائے تو ان تمام باتوں کو سال کے دوسرے دنوں میں بھی اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں۔ پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ نوافل، استغفار اور ذکر الٰہی کی بھی ایک مسلمان کو عادت ڈالنی چاہئے۔ رمضان میں ایک اور خاص نفلی عبادت قیام اللیل یعنی تہجد کا قیام ہے۔

مسجد بیت الحمید میں روزانہ پانچ نمازوں کے علاوہ تراویح کی نماز کا بھی انتظام ہوگا اور درس القرآن کا بھی جو کہ روزانہ نماز عصر سے نماز مغرب تک ½1گھنٹہ کا درس ہوگا جو امام شمشاد دیا کریں گے۔ اس کے علاوہ سوال و جواب کا بھی پروگرام ہوگا۔

ہم اپنے ہمسایوں کو اور مسلمان و غیر مسلموں کو دعوت دیتے ہیں کہ اس میں روزانہ شامل ہوں۔ خبر کے آخر میں مسجد کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا گیا ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاءاللّٰہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی