لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۸﴾
(مریم: 88)
سوائے اُسے جس نے خدائے رحمان سے عہد لے رکھا ہے کسی کو سفارش کرنے کا حق نہیں ہو گا۔
مسلمانوں میں یہ خیال عام ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن تمام مسلمانوں کی سفارش کریں گے۔ خواہ وہ آپؐ کی تعلیمات پر پورا اُترنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کا بھی یہی زعم ہے کہ اُلوہیتِ مسیح ؑ کو ماننے والا ضرور نجات پائے گا۔ خواہ کوئی ساری عمر چور بازاری میں گزار دے۔ اگر آخری دم دینے سے پہلے پہلے عیسائیت کو مان لے تو نجات یافتہ سمجھا جائے گا۔
خیر اس کی تو تردیدمذکورہ بالا آیت نے کردی۔ بلکہ اگلی آیات مزید وضاحت کر دیتی ہیں کہ اُلوہیتِ مسیح کا عقیدہ اور شفاعت لازم و ملزوم نہیں۔ چنانچہ آگے فرماتا ہے:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ﴿ؕ۸۹﴾ لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا ﴿ۙ۹۰﴾ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَتَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۱﴾
(مریم: 91-89)
اور وہ کہتے ہیں رحمان نے بیٹا اپنا لیا ہے۔ یقیناً تم ایک بہت بیہودہ بات بنا لائے ہو۔ (یہ ایسی بیہودگی اور ظلم ہے کہ) قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑیں۔
در اصل کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آج کل کے مسلمان کا یہ عقیدہ عیسایوں کے فلسفۂ نجات سے ملتا ہے۔ آنحضورؐ کی پیشگوئی بخاری میں موجود ہے:
عَنْ اَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّؐ قَالَ:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا۔ بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ۔ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ:فَمَنْ
ترجمہ: حضرت ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی پیروی کرو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ فرمایا: تو اور کون؟
(صحیح بخاری كتاب الاعتصام بالكتاب والسنةباب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ)
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نجات کے لئے اتنی سی شرط پر اکتفا کیونکر کر لیا؟ ہمیں اس دنیا میں ساٹھ ستر برس گزارنے کے لئے کیوں بھیجا؟ اگر کام اتنا ہی آسان ہے تو پھر یہ بات بھی بعید نہیں کہ رسولِ کریمؐ کے قول کے مطابق ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے نام رَٹ لے اپنے اُوپر جنّت واجب کر سکتا ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ، اَنَّ رَسُولَ اللَّهِؐ قَالَ:اِنَّ لِلّٰهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إلَّا وَاحِدًا، مَنْ اَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا کہ اللہ کے نِنانوے نام ہیں۔ جو اِنہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہو گیا۔
(صحیح بخاری كتاب التوحيد، باب إِنَّ لِلّٰهِ مِائَةَ اسْمٍ إِلَّا وَاحِدًا)
کس نے اللہ تعالیٰ کے حضور عہد لے رکھا ہے؟
اِس نظریہ کا رَدّکہ یسوع مسیح ؑ کو شفاعت کا حق ہے۔ اُوپر بیان کر دیا گیا ہے۔ لیکن اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ حق شفاعت رکھنے والا ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفٰی ﷺ ہیں۔ اس کے جواب میں ہمیں مندرجہ ذیل حدیث پر غور کرنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِؐ ’’اُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ اَحَدٌ قَبْلِي:نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَاَيْنَمَا اَدْرَكَ الرَّجُلَ مِنْ اُمَّتِي الصَّلاَةُ يُصَلِّي، وَاُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ وَلَمْ يُعْطَ نَبِيٌّ قَبْلِي وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً۔
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ ایک مہینہ کی مسافت کے رعب سے میری مدد کی گئی ہے۔ تمام زمین میرے لئے مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنائی گئی ہے۔ جہاں بھی میری اُمت کے کسی آدمی پر نماز کا وقت آئے وہ وہاں نماز پڑھ سکتا ہے۔ (دوسرے مذاہب کی طرح انہیں عبادت خانے میں نہیں جانا پڑتا) مجھے شفاعت کا شرف حاصل ہوا جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں ہوا۔ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے حالانکہ مجھ سے پہلے خاص قوم کیلئے نبی مبعوث ہوتا تھا۔
(سنن نسائی كتاب الغسل والتيمم، باب التَّيَمُّمِ بِالصَّعِيدِ)
شفاعت کے معنی
یہ جاننے کے بعد کہ آیت زیرِ بحث میں مذکور شفیع کون ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شفاعت کا اصل مفہوم کیا ہے۔ سو ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم جیسی عظیم نعمت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان بھی کر دیا کہ اُسے عربی زبان میں نازل کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
عربی کا اطراد مواد الفاظ بھی پورا نظام رکھتا ہے اور اس نظام کا دائرہ تمام افعال اور اسماء کو جو ایک ہی مادہ کے ہیں ایک سلسلہ حکمیہ میں داخل کر کے ان کے باہمی تعلقات دکھلاتا ہے اور یہ بات اس کمال کے ساتھ دوسری زبانوں میں پائی نہیں جاتی۔
(منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد9 صفحہ138)
چنانچہ کئی سوالات اور مشکلات لفظ کی گہرائی پر غور کرنے سے حل ہو جاتے ہیں۔
لفظِ شفاعت کا مادہ ش۔ ف۔ ع ہے۔ امام راغب الاصفہانیؒ لکھتے ہیں کہ اَلشَّفْعُ ضَمُّ الشَّيْءِ اِلَی مِثْلِہٖ۔ یعنی شفع کے معنی کسی چیز کو اس جیسی دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے کے ہیں۔ اسی طرح لکھا ہے کہ اَکْثَرُ مَا یُسْتَعْمَلُ فِیْ اِنْضِمَامِ مَنْ ھُوَ اَعْلیٰ حُرْمَةً وَ رُتْبَةً اِلَی مَنْ ھُوَ اَ دْنٰی۔ یعنی اس لفظ کا اکثر استعمال کسی اعلیٰ چیز کے ساتھ ادنیٰ چیز کو ملانے پر کیا جاتا ہے۔
(مفردات الراغب صفحہ346۔ 347)
ان معنوں سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کے ستّر اَسّی سال محض عطا نہیں کئے بلکہ اِن چند سالوں کو گزارنے کے لئے طریقہ اور لائحہ عمل بھی مقرر کیا۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 32 اور سورۃ احزاب کی آیت نمبر 22 میں بھی اِسی کی طرف اشارہ ہے۔
شفاعت کے مضمون کو سمجھنے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے مثال یوں دی ہےکہ تم بازار میں جاؤ اور دوکاندار سے کہو کہ مجھے اچھی قسم کے لنگڑے آم دو۔ وہ چند اچھے آم نکال کر تمہیں دے دیتا ہے اور تم انہیں ٹوکری میں ڈال لیتے ہو۔ اب اگر تمہیں ضرورت زیادہ ہے اور ویسے آم تمہیں اَور نہیں مل سکتے تو تم دو کاندار سے کہو گے کہ اس سے ملتے جلتے اگر کچھ چھوٹے سائز کے آم ہوں تو وہ بھی رکھ دو۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ لنگڑے آم کا سائز اَور ہوگا اِس وجہ سے کہ تمہیں ضرورت ہوگی تم ذرا چھوٹے سائز کے آم بھی لے لو گے اور کہو گے کہ یہ آپس میں ملتے ہی ہیں اگر اِن کا سائز کچھ چھوٹا ہے تو کیا ہوا۔ لیکن تم اس کی جگہ کوئی ٹوٹی ہوئی جوتی نہیں رکھو گے۔ تم اس کی جگہ کیلے کا چھلکا نہیں لے آؤ گے۔ تم اس کی جگہ آم کی گھٹلیاں نہیں لے آؤ گے تم بہرحال آم ہی لاؤ گے خواہ وہ سائز میں کچھ کم ہی ہوں۔ اسی طرح شفاعت میں بھی ایک مشابہت کا پایا جانا ضروری ہے۔
اِس مثال سے واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپؐ سے مشابہت پائی جائے۔ یعنی جس طرح آپ نے اپنا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ہمیں بھی حتی الوسع اُس نمونہ پر چلتے ہوئے آپؐ سے مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو شخص پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلے۔ جو شخص پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلے۔ لیکن باوجود اس کوشش اور جدوجہد کے اس کے اعمال میں کچھ کمی باقی رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس جدوجہد اور کوشش کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انکشاف فرمائے گا اور آپؐ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے لئے رحم کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے کہ اس شخص نے کوشش تو کی تھی لیکن پیچھے رہ گیا۔ اب تُو اپنے فضل سے اس کی کمی کو پورا فرمادے۔ یہی لغت والے لکھتے ہیں کہ شفاعت کیلئے ہم مثل ہونا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ ایک قسم کی جب دو چیزیں ہوں جن میں ایک ادنیٰ ہو اور ایک اعلیٰ، تو ادنٰی کو اعلیٰ سے ملانے کو شفاعت کہا جاتا ہے۔ یہی حقیقت اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۸﴾
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب تمام انبیاء شفاعت سے انکار کریں گے اور میں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکا ہوا ہونگا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا کہ اے محمد رسول اللہ! سجدہ سے اپنا سر اُٹھا اور اللہ تعالیٰ سے مانگ کہ تجھے دیا جائے گا اور اس کے بندوں کی شفاعت کر کہ تیری شفاعت قبول کی جائیگی۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر، باب ذُرِّیَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّهُ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا)
شفاعت کا مستحق ہونے کے لئے قرآن کریم نے دو مزید شرطیں رکھی ہیں۔ فرماتا ہے لَا یَشۡفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰی یعنی شفاعت کا مستحق بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے راضی ہو۔
(انبیاء: 29)
پھر تیسرا قانون یہ کہ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ کوئی شخص اس وقت تک شفیع نہیں بن سکتا جب تک شفاعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن نہ ہو۔
اگر آجکل کے مسلمان کے بقول سب مسلمان شفاعت کے مستحق ہیں بلکہ اکثر کا تو یہ خیال ہے کہ شفاعت ہے ہی گنہگار کے لئے۔ تو پھر شفاعت کے لفظ اور رضاء اور اذن کی شرط کی کیا ضرورت تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ شفاعت کا مستحق وہی ہے جو سرورِ کونین کی خوبیوں پر غور کر کے اُس جیسا بننے کی پوری کوشش کرے گا۔
(ماخوذ از تفسیرِ کبیر جلد پنجم صفحہ379-375 زیرِ آیت لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ آمین
(رانا شیراز احمد۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)