• 29 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (8؍اکتوبر 2022ء )

This Week with Huzoor
8؍اکتوبر 2022ء
دورہٴ امریکہ 2022ء

غیر احمدی مہمانان کا اظہار خیال

ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ آپ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ہمارے ساتھ یہاں شامل ہونے کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں۔

میں اور کسی بھی مذہبی جماعت کو نہیں جانتی جس کا مجھ سے واسطہ پڑا ہو جو اس قدر کامل اور مکمل طور پر ان تعلیمات پر عمل کرتی ہو جن کی وہ پرچار کرتی ہے۔

صیحون کا شہر بہت خوش نصیب ہے کہ ایک ایسی امن پسند، محبت کرنے والی اور خدمت گزار جماعت نے یہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا اور اتنی خوبصورت مسجد تعمیر کی۔

بروز ہفتہ یکم اکتوبر 2022ء صیحون کے شہر کی پہلی مسجد یعنی مسجد فتحِ عظیم کے افتتاح کے لئے خاص تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ایک سو چالیس سے زائد مہمانان کرام جن میں سیاست دان، میڈیا کے لوگ، ماہرین تعلیم اور مسجد کے اردگرد کے مقامی لوگ شامل تھے۔ انہیں حضرت امیر الموٴمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نہایت روح پرور خطاب سننے کا موقعہ ملا۔ اس تقریب سے قبل ’’یدرااسینچز آلسن‘‘ کوجو کہ لیک کاؤنٹی نیوز سن کی نمائندہ ہیں۔حضور انور سے کچھ سوالات کرنے کا موقعہ ملا۔

سوال: اس زمانہ میں جبکہ بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں مثلاً جرائم، بے گھری، عدم تحفظ۔ خوارک وغیرہ تو آپ کااس حوالے سے کیا پیغام ہو گا تا کہ خدشات میں کمی واقع ہو؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’احمدیہ جماعت کے بانی کا اپنی بعثت کے متعلق یہ دعویٰ تھاکہ جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری آمد کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں کو ان کے خالق کے قریب لانا اور دوسرا یہ کہ انسانوں کے حقوق ادا کرنا۔ اگر آپ انسانوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں تو جرائم، خوراک کی کمی، حفاظتی لحاظ سے یاکسی اور لحاظ سے کسی چیز کا خوف نہیں ہونا چاہیےاورہم اسی طور پر عمل کر رہے۔ ہم تبلیغ کر رہے ہیں اور اس پیغام کا پرچار کر رہے ہیں اور ہم ہر جگہ جہاں ہماری جماعت ہے اس پیغام پرعمل پیرا ہیں۔ یہاں تک کہ افریقہ میں، پاکستان میں یا دیگر ایشیائی ممالک میں، تیسری دنیا کے ممالک ہیں یا محروم ممالک میں یا مغربی ممالک میں جہاں کہیں بھی ہم جاتے ہیں وہاں یہ پیغام پہنچاتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کیلئے ہم اپنے سکول اور ہسپتال چلا رہے ہیں نیزاور بہت سے طریقوں سے مخلوق کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘

سوال: آپ کے پاس تمام مذاہب اور ان کی پیروی کرنے والوں کیلئے کوئی نسخہ ہے کہ وہ امن کے حصول کیلئے کوشاں ہوں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’(امن قائم تب ہو سکتا ہے) جب لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہےکہ اپنے خالق کے قریب ہو جائیں اور ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے کہ ہمیں ایک قادر خدا یعنی اللہ نے پیدا کیا ہے اور ہماری اس دنیا میں پیدائش کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کریں یا تباہ کریں،ہمارے نزدیک تمام مذاہب اللہ کی طرف سے ہیں، ہمارے نزدیک تمام مذاہب ابتداء میں سچے مذاہب تھے اور بعد میں ان کی تعلیمات میں کچھ بدعات راہ پا گئیں اور تعلیمات اپنی اصل شکل میں نہ رہیں۔پھر بالآخر تمام انبیاء اور تمام مذاہب کے بانیوں کی یہ پیشگوئی تھی کہ آخری زمانہ میں ایک نبی کی آمد ہو گی جو تمام انبیاء کی تعلیمات کو لائے گا اور ان کو یکجا کرے گا۔وہ ان کی حقیقی تعلیمات پیش کرے گا اور اس کی تعلیمات حتمی تعلیمات ہوں گی۔ ہمارے نزدیک وہ ہستی جس کے بارے میں سابق انبیاء نے یا گزشتہ مذاہب کے بانیوں نے پیشگوئی کی تھی وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک آپ دیکھ سکتی ہیں کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی، محفوظ ہے۔اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ دیگر کتب بہت سے طریقوں سے تبدیل ہو چکی ہیں اور اس کی بانئ اسلام نے پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ بےشک تعلیم اور کتاب اپنی اصل شکل میں محفوظ رہے گی لیکن میرے متبعین بھی اسلام کی حقیقی تعلیم بھلا بیٹھیں گے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا نہیں رہیں گےتب اس وقت ایک مصلح آئے گا جو میری امت میں سے ہو گااور وہ اصلاح بھی کرے گا اور ہمارے نزدیک وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہیں جو احمدیہ جماعت کے بانی ہیں جن کے بارہ میں ہمارا ایمان ہے کہ وہ اس زمانہ کے مسیح اور مہدی ہیں اور آپ نے تمام مذاہب سے فرمایا کہ آیا تم میرے مذہب پر ایمان لاتے ہو یا نہیں آیا تم اسلام کو مانتے ہو یا نہیں تم میری اتباع کرو یا نہ کرومگر کم از کم ہمیں مل جل کر اکٹھے ہم آہنگی اور پیار اور محبت کے ساتھ رہنا چاہیے۔اس طرح ہم اس دنیا میں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور اس طرح ہم اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر سکتے ہیں تو یہی پیغام ہے اور یہی واحد راستہ ہے۔‘‘

انٹرویو کے بعد مختلف معززین اور مہمانان نے حضور انور سے ملاقات کی جن میں ’’ڈاکٹر کریگ کانسڈائن‘‘ بھی شامل تھے جو ’’رائس‘‘ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ: کیا حال ہے؟

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ: امجد خان صاحب مجھے آپ کا تعارف کروانا چاہ رہے تھے۔ میں نے ان کو کہا کہ اگر میں پروفیسر صاحب کو نہیں جانتا تو پھر کوئی بھی ان کو نہیں جانتا ہو گا۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: میں بہت خوش ہوں کہ آپ یہاں آئے ہیں اور خطبہ جمعہ میں بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: یہ بہترین خطبات میں سے تھا جو میں نے سنے ہیں۔۔۔میری ایک کتاب شائع ہو رہی ہے اس میں آپ کا بھی متعدد بار ذکر ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: اس کا مو ضوع کیا ہے؟

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: میں تہذیبوں کے مکالمے سے آگے کی بات کر رہا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: آپ دعا کریں کہ آپ کی کتاب شائع ہو جائے قبل اس کے کہ وہ ساری دنیا کو ہلاک کر بیٹھیں۔ وہ تباہی پر تُلے ہوئے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ صرف ملاں ہی ہیں جو تباہی پر تُلے ہوئے ہیں تاہم اب صورت حال بدل چکی ہے۔ یہاں تک کے اب ایشائی رہنما بھی ان کو صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: ایک پیغام ’’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ واقعی محبت کا پیغام ہے اور میرے نزدیک اسی وجہ سے میں احمدیہ جماعت سے اتنی وابستگی محسوس کرتا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: یہ وہ پیغام ہے جسے سب بھول رہے ہیں۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: یہ بہت ہی بنیادی اور ضروری پیغام ہے اور محبت بہت اچھی لگتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: اگر ہم سب انسان ہیں تو کم از کم ہمیں انسان ہونے کے ناطہ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور اگر ہمیں احساس ہو جائے کہ ایک دوسرے کا احترام کیسے کیا جا سکتا ہے تو پھر محبت، امن اور ہم آہنگی پیدا ہو گی۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: اس بنیادی بات کو وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ جب احترام ہی نہیں تو محبت کیسے کی جا سکتی ہے۔ محبت تو انتہا ہے مگر اس محبت تک پہنچنے کیلئے آپ کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور احترام اس منزل تک پہنچنے کیلئے وہ مشکل جدو جہد ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: ہم نے لفظ آ زادی کی غلط تشریح کی ہے یہاں تک کہ طلباء اور نو جوان سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں جو چاہیں کہیں، ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں اوریہ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کا احترام کریں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے کہ جو چاہیں کریں یہی وجہ ہے کہ اب ہم ایک اچھے انسان بننےکے بنیادی اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنی روایات سےاورایسی باتوں سے بھی جو ہماری زندگی کے لئے اچھی ہیں ہٹ رہے ہی۔ یہ افسوس کی بات ہے۔۔۔آپ کا تعلق بوسٹن سے ہے؟

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: جی

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے Boston Herald کے مشہور مضمون جس میں حضرت مسیح موعودؑ کے مباہلہ جیتنے کے بارہ میں ذکر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسی جگہ سے جس کے اخبار نے ہمارے بانی کے بارہ میں لکھا تھا؟

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: جی۔ یہ بہت حیرت انگیز ہے۔ میں اپنے آپ کو یہاں بہت خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں جو کچھ یہاں ہو رہا ہے میں اس کی اہمیت محسوس کر رہا ہوں۔کیا ہی خوب واقعہ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: جہاں تک نیک فطرت لوگوں کا تعلق ہے۔ بوسٹن ایک زرخیز علاقہ ہے۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: میں بہت ہی شکر گزار ہوں کہ مجھے آپ کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: آپ کا بہت شکریہ۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن: آپ کا شکریہ۔ ان شاءاللہ میری خواہش ہے کہ ایک دن آپ کو لندن میں آپ کے گھر ملنے آؤں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: میں آپ کا منتظر رہوں گا۔

ڈاکٹر ’’کیٹرینا لنٹوس سویٹ‘‘ جو کہ ’’ٹفٹس‘‘ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ’’لنٹوس فاؤنڈیشن‘‘ جو کہ انسانی حقوق اور انصاف کی خاطر قائم کی گئی ہے کی صدر بھی ہیں۔ انہیں بھی اپنی بیٹی ’’چلسی ہڈقئسٹ‘‘ کے ساتھ حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: پچھلے ڈیڑھ ہفتے سے جب سے ہم اپنے اس سفر کیلئے تیاری کر رہی تھیں تو ہم دونوں کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا ہم ہوا میں تیر رہی ہیں کیونکہ ہم یہ محسوس کرتی ہیں کہ ہمارا آپ کی صحبت میں وقت گزارنا ایک خاص تجربہ ہے۔ ہم اس نور اور حکمت کو محسوس کرتی ہیں جو آپ سے آتی ہے اور آپ سے ملاقات کرنے کے بعد ہمارے دن اور ہمارے ہفتے بہتر گزرتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ یہ ہمارے لیے بڑی سعادت کی بات ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: شکریہ

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: یہ ملاقات ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔یہ بہت شاندار تقریب ہے۔ یہ جو مباہلہ چیلنج کی داستان ہے مجھے کہنا پڑے گا کہ یہ نہایت شاندار اور متا ثر کن واقعہ ہے اور حضور اس واقعہ میں جو بات مجھے سب سے زیادہ اچھی لگی ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے حضور کی طاقتور روح کا ثبوت ملتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یعنی جماعت احمدیہ کے بانی کی (طاقتور روح)

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: اور آج جماعت کی جو طاقت ہے یہ ایسی طاقت ہے جو دین پر کامل اعتماد سے آتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کا اپنا وجود بھی (حضرت مسیح موعودؑ) کی کامیابی کا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: آپ کا بہت بہت شکریہ

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ ہمارا پیغام لوگوں تک پہنچا رہی ہیں۔ آپ جہاں بھی جاتی ہیں لوگوں کو بتاتی ہیں کہ جماعت احمدیہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو لوگوں سے پیار کرتی ہے اور پیار کی تعلیم دیتی ہے۔

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: یہ درست ہے، یہ 100 فیصد درست ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ ایک لحاظ سے ہمارے سفیر ہیں۔

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: میرے لئے اس عظیم الشان جماعت کی سفیر بننے سے زیادہ اور کوئی سعادت کی بات نہیں ہو گی۔ ہم دونوں کے دل رنجیدہ ہوتے ہیں جب ہم پاکستان میں جماعت کے حالات کے متعلق خبریں سنتے ہیں یہ بہت ہی افسردہ حالات ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ (مخالفت) تو بڑے عرصے سے ہو رہی ہے لیکن اب محض اسی نہج پر ہی نہیں بلکہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ تمام احمدی خواتین کا حمل ضائع کر دینا چاہیے۔ انہیں کسی بچے کو جنم نہیں دینا چاہیے گویا کہ وہ مصر کے فرعون سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔مصر کے فرعون نےتو کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی کا کوئی نو مولودبچہ، بیٹا ہو، تو اسے مار دیا جائے۔ مصر کے فرعون نے یہ اعلان کیا تھا لیکن اب یہ لوگ (پاکستان میں) کہتے ہیں کہ (حاملہ خواتین) کا حمل ضائع کر دینا چاہیے۔ یہ نام نہاد تعلیم یافتہ دنیا میں اس طرح کی باتیں پھیلارہے ہیں۔

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: یہ بہت ہی ہولناک صورتحال ہےلیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بہت حیران کن اور قابل تعریف ہے کہ آپ کی سر کردگی میں یہ جماعت اس قدر طاقتور ہے کہ وہ بدی کا جواب بدی سے نہیں دیتی اور نہ ہی وہ نفرت کا جواب نفرت سے دیتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جی ہم بھی اس طرح کا جواب دے سکتے ہیں اور ہم تو ان سے زیادہ منظم ہیں۔ ہمیں انگریزی کے محاورہ Tit for Tat کا مطلب آتا ہے لیکن ہم اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنا اسلام کی حقیقی تعلیم کے خلاف ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں اور بلآخر دعاؤں کے زور سے ان پر فتح پائیں گے۔ (ان شاء اللّٰہ)

ڈاکٹر کیٹرینا لنٹوس سویٹ: ایسے ہی ہے۔

انفرادی ملاقات کے بعد کچھ دیگر مہمانوں کو بھی حضور انور سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔

ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو سلام عرض کیا۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: وعلیکم السَّلام

خاتون: حضور میں بھی گھانا میں کچھ عرصہ رہی ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: آپ وہاں کب رہی تھیں؟

خاتون: شاید 2002ء میں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز: 2002ء میں؟ میں گھانا سے 1985ء کے شروع میں چلا گیا تھا۔ آپ گھانا تب گئی ہیں جبکہ وہاں کے اقتصادی حالات بالکل ہی بدل گئے تھے۔ آپ گھانا کے کس علاقے میں مقیم تھیں؟

خاتون: اکرا (Accra) میں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ سنٹرل ریجن یا شمالی ریجن میں نہیں رہیں۔

خاتون: میں ان علاقوں سے گزری ہوں لیکن شکاگو اور آکرا کے درمیان ایکش چینج تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں تقریباً چار سال شمال میں دور دراز علاقوں میں رہا ہوں اور پھر چار سال جنوب میں رہا ہوں۔

خاتون: دونوں جگہیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تب بھی میں آکرا میں نہیں رہا تھا بلکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں اور شہر میں رہا تھا۔ اس لیے مجھے گھانا کے ملک کا بہت گہرا علم ہے۔

ملاقاتوں کے بعد حضور انور ایدہ للہ بنصرہ العزیز مسجد فتحِ عظیم کی افتتاحی تقریب کیلئے تشریف لے گئے جو صیحون میں تعمیر ہوئی۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں الیگزنڈر ڈوئی کے متعلق ایک عظیم پیشگوئی پوری ہوئی۔ حضور کے خطاب سے قبل شاملین نے مختلف مہمانان کرام کے خیالات بھی سماعت فرمائے۔

صیحون شہر کے میئر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خواہش اور دعا ہے کہ یہ عبادت گاہ ہمارے ماضی اور مستقبل کیلئے ایک پل کا کردار ادا کرے پس جماعت احمدیہ کو انکی صیحون شہر کیلئے شاندار خدمات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور آپ کو اس شہر کو مزید بہتر بنانے کیلئے عزم اور اس کے باشندوں کی فلاح و بہبودی کو بہتر بنانے کیلئے ہم شہر کی چابی کو حضور انور کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

ایک اور مہمان عورت نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ حضور انور حقوق نسوانی کے بھی علمبردار ہیں جس کی میں خود عینی گواہ ہوں کیونکہ میں نے صیحون کی احمدی خواتین کے ساتھ وقت گزارہ ہے۔ اس جماعت کی خواتین اپنی عزت و وقار کو قائم رکھتی ہیں اور ہماری اس کمیونٹی کی بڑی فعال رکن ہیں۔

ایک مہمان نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ بہت ہی خوبصورت دن ہے اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ یہاں پر ہونا ایک اعزاز کی با ت ہے۔ اور ایسی تقریب میں موجود ہونا (مسکراتے ہوئے کہا کہ) جہاں پر میرا نام صحیح طرح سے ادا کیا جاتا ہے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ہم نے امریکہ کے کنگریشنل /ایوانی ریکارڈ میں اس تاریخی دن کی یاد کو محفوظ کر دیا جو تاریخ کے ورقوں میں محفوظ رہے گی تا کہ یہ یاد رہے کہ آج کے دن اس پُر مسرت تقریب میں کیا رونما ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آج حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود ؑ کے پیروکار اللہ تعالیٰ کا شکر اد کرتے ہیں کہ ہم صیحون میں مسجد فتحِ عظیم کا افتتاح کر رہے ہیں جو حقیقی مذہبی آزادی کی نشانی ہے۔ اس کے دروازے ایک روشن پیغام کے ساتھ کھلتے ہیں۔ جس میں تمام لوگوں اور جماعتوں کے مذہبی حقوق اور پُر امن عقائد کا ہمیشہ کے لیے تحفظ اور احترام کیا جائے گا۔ جماعت احمدیہ کا نصب العین بنی نوع انسان کو روحانی نجات کی راہ پر گامزن کرنا ہےاور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تمام لوگ خواہ کسی بھی رنگ و نسل کے ہوں خیر سگالی اور ہم آہنگی کے جذبہ کے ساتھ اور حقیقی امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔۔۔ میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں کہ یہ مسجد ان شاءاللّٰہ تمام انسانیت کے لیے ہمیشہ امن، رواداری اور محبت کے مینار کا کام دیتی رہے۔ میری دعا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ثابت ہو جہاں لوگ اپنے خالق کو پہچاننے، اس کے سامنے جھکنے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کے لیے پوری عاجزی کے ساتھ جمع ہوں کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ہم تب ہی کامیاب اور خوشحال ہو سکتے ہیں جب ہم عبادت الٰہی اور انسانیت کے حقوق ادا کریں گے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آج کی شام ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزاء دے آمین۔ میں راجہ صاحب اور میئر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے اس شہر کی چابی دی اور مجھے یقین ہے کہ اب یہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ آپ سب کا شکریہ۔

تقریب کے اختتام کے بعد میئر صاحب نے بیان کیا کہ آج حضور انور سے ملنا میرے لئے بہت اعزاز کی بات تھی۔یہ میری زندگی میں پہلا موقعہ ہے جب کسی سے مل کر میں حیران رہ گیا اور الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ میں کیا کہوں۔حضور انور کا ایک غیر معمولی رعب ہے اور جماعت احمدیہ نے ہماری کمیونٹی کی بہت مدداور خدمت کی ہے۔

ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھے بتا یا تھا کہ حضور بہت اچھے مقرر ہیں۔ میں حضور انور کے الفاظ سے بہت متا ثر ہوا ہوں جب آپ نے دوستی اور کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے کے متعلق فرمایا: میرے لئے حضور انور کی موجودگی میں ہونا اور آپ کے خطاب کو سننا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔یہ بہت نورانی ماحول تھا۔

ایک مہمان نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ میرے خیال میں اس وقت یہ دنیا کا سب سے زیادہ پوشیدہ راز ہے۔ میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ مساوات، انصاف، عدل اور سب کیلئے محبت۔ یہ ہے وہ تمام چیزیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔

ڈاکٹر کریگ کانسڈائن نے بیان کیا کہ حضور انور کا ہنسنا میرے لئے ایک خوش کن موقعہ تھا۔ جب میں نے کہا کہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا بہترین ذریعہ کھانا ہے۔۔۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا بالکل صرف کھانا ہے اور اس بات پر ہم ہنسے۔ ایک بہت ہی خاص موقعہ تھا۔ میں حضور سے محبت رکھتا ہوں۔

ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ مسجد تمام جماعتوں کیلئے ایک امید اور دوستی کی کرن ہے۔ میں آج امید اور محبت کے جذبات سے لبریز ہوں۔

ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس بات کو جاننا کہ ہمارے پاس ایسے رہنما ہیں ایک بہت اچھی بات ہے جو لاکھوں لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور اکٹھے ہو رہے ہیں اور اس امر کے متعلق بات کر رہے ہیں کہ ہم ایک ہو سکتے ہیں اور یہ کہ تمام مذاہب ہی اہم ہیں۔حضور کی شخصیت زبردست اور متاثر کن ہے۔

حضور انورایدہ اللہ کے دورہ اور حضرت مسیح موعود ؑ اور الیگزنڈرڈوئی کے درمیان تاریخی مباہلہ کو 13 ممالک کے 400 سے زائد میڈیا آؤٹ لیٹس نے خبریں دیں جن میں ایسوسی ایٹڈپریس، واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز شامل ہیں۔

موٴرخہ 2؍اکتوبر 2022ء کو حضور انور مسجد بیت الاکرام کے افتتاح کے لئے صیحون کے شہر سے ڈیلس، ٹیکساس کے لیے روانہ ہوئے۔ جیسے ہی حضور انور ایدہ اللہ کی آمد ہوئی تو سب نے مسجد میں جمع ہو کر حضور انور کا استقبال کیا۔ سوموار کے روز حضور انور نے مسجد بیت الاکرام کی تختی کی نقاب کشائی فرمائی۔شام کے وقت نماز سے چند منٹ قبل حضور انور نے ازراہ شفقت مقامی جماعت کے باربی کیو کے پروگرام میں شمولیت اختیار کرتے ہوئےان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اگلے روز حضور انور کی مصروفیات اور ملاقاتوں کے علاوہ حضور انور نے مسجد کے صحن میں ایک پودا لگایا اور مسجد کی خوبصورت عمارت کا معائنہ فرمایا: بدھ کے روز حضور انور نے 12 سال سے اوپر کے واقفینِ نو اور واقفاتِ نو کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔پہلی ملاقات واقفاتِ نو کے ساتھ تھی۔

ملاقات واقفاتِ نو

واقفاتِ نو نے حضور انور سے مختلف سوالات کے ذریعہ جو رہنمائی حاصل کی اس کی تفصیل یوں ہے۔

سوال: کسی کی وفات پر ہم اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھتے ہیں۔ تاہم مادی اشیاء کے گم ہونے پر ہم یہ کیوں پڑھتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’کیا آپ اس کے معنی جانتی ہو؟‘‘ واقفہ نو نے جواب دیا کہ۔ جی نہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ہم اللہ کے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ وفات کے موقع پر ہی یہ نہیں پڑھتے بلکہ جب بھی آپ کچھ کھودیں یا آپ کسی مشکل میں ہوں یا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو یہ پڑھی جائے۔ یہ آپ کو اللہ کی قدرت کی یاد دلائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس جہاں میں ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور باقی چیزوں نے تو مرنا ہے۔ اس لئے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے لطیف معنی بھی ہیں کہ جب آپ سے کوئی چیز گم ہو جاتی ہے یا آپ اس چیز کو کہیں رکھ کر بھول جاتی ہیں تو اگر آپ ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘ پڑھتی ہیں تو (بعض دفعہ) ایسا ہو تا ہے بلکہ کئی مرتبہ میرے ساتھ بھی اور دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ جب ہم ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘ پڑھتے ہیں تو فوراً وہ چیز ہمیں مل جاتی ہے یا پھر ہمارے ذہن میں آجاتی ہے کہ میں نے وہ چیز وہاں رکھی تھی تو گم شدہ اشیاء کے ملنے اور آپ کو نقصان سے بچانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ یہ ایک دعا ہے کہ اگر کوئی فوت ہوتا ہے تو انسان کہتا ہے کہ مجھے اس پر بھروسہ تھامیں اس کی وفات پر بہت غمگین ہوں تاہم اللہ ہر وقت موجود ہے وہ میری حفاظت کرے گا، وہ مجھے بچائے گا۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو ایسا ہی ہوا کہ آپ علیہ السلام بہت پریشان تھےکیونکہ آپ کہیں بھی کام نہیں کر رہے تھے اور آپ کے والد صاحب ہی آپ کی آمد کا ذریعہ تھے۔ پریشانی کی حالت میں آپ نے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘ پڑھنے کے بعد دعا فرمائی کہ یا الٰہی میر اکیا بنے گا؟ تب فورا َآپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’الیس اللّٰہ بکاف عبدہ‘‘۔ کیا اللہ اپنے بندوں کیلئے کافی نہیں؟ یعنی تم اللہ کے بندہ ہو اللہ تمہارے لئے کافی نہیں؟ تو یوں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی۔ پس یہ ایک دعا ہے جو آپ کو سکون دیتی ہےاس لئے ہم ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘ پڑھتے ہیں۔’’

سوال: صوفی ازم کا دعویٰ ہے کہ ان کی روحانی مشقوں کے ذریعہ قرب الٰہی ہو سکتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ آیا اللہ کا قرب دلانے والےصوفی اعمال اور رسومات کے کچھ فوائد ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو کوئی صوفی ازم نہیں تھا۔ کیا اس وقت کوئی صوفی تھے؟ خلفائے راشدین کے دور میں کوئی صوفی نہیں تھے بلکہ کئی صدیوں بعد یہ (سلسلہ) شروع ہوا کیونکہ اس وقت خلافت روحانی خلافت نہ رہی تھی وہ دنیاوی خلافت تھی اور اس دور کے خلفاء دنیاوی مفاد کے پیچھے تھے اور خلیفہ جماعت کی طرف سے منتخب شدہ نہ تھا بلکہ خلافت ان کو ورثہ میں ملتی تھی اسلئے اُس وقت لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہو اجن کا کہنا تھا کہ ہم روحانی لوگ ہیں اور ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تمہارے دین کی اصل روح کیا ہے۔ دعاؤں کی کیا روح ہے۔ آپ کو کیسے عبادت کرنی چاہیے۔ آپ کوکس طرح اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ آپ کو قرآنی احکامات پر کیسے عمل کرنا چاہیے۔ پس ان کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ انہوں نے قرآنی تعلیمات سمجھانی شروع کیں مگر اب حضرت مسیح موعود ؑ کی آمد کے بعد جوکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق دین اسلام کے احیاء کیلئے تشریف لائے ہیں اب کسی صوفی کی ضرورت نہیں رہی۔ کسی صوفی کے پیچھے چلنے کی ضرورت نہیں رہی۔بلکہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ میں نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں آیت ’’اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض‘‘ کی وضاحت کی تھی۔ تب ایک عرب نو مبائع نے بتایا کہ وہ پہلے صوفی ہوا کرتا تھا اور اب جبکہ میں نےآپ کا خطبہ سنا ہے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ سے بڑے کوئی صوفی نہیں۔ جس طرح آپ ؑ نے قرآن کریم کی تعلیم ہمیں سمجھائی ہے۔اس کے بعد کسی اور صوفی کی ضرورت نہیں رہتی اور اب خلافت بھی اللہ سے ہی رہنمائی پاتی ہے۔ جب تک یہ قائم رہے گی تب تک کسی صوفی ازم کی ضرورت نہیں۔پس یہ ماضی کی ضرورت تھی۔ حال کی نہیں۔‘‘

سوال: وقفِ نو نو مولود بیٹے کی حیثیت سے کیا اس کے شروع کے سالوں میں اس کی پرورش کے کوئی ایسے خاص طریق ہیں جس سے اس کا جماعت کی خدمت کا عہد اور مضبوط ہو سکے؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا کہ اس کی عمر کیا ہے؟ موصوفہ نے عرض کیا کہ تقریباً پندرہ ماہ۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: ’’پہلی بات یہ کہ آپ پنجوقتہ نمازوں میں اس کے لئے دعائیں کریں اور دو رکعات نفل اس کے لئے ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے حقیقی واقفِ نو بنائےاور جب وہ بڑا ہو جائے تو آپ اسے اخلاق اور قرآن کریم کی تعلیم سکھائیں۔ آپ اسے اپنا نمونہ پیش کریں۔ آپ دونوں میاں بیوی کو اپنے بچوں کے سامنے اپنا نمونہ قائم کرنا چاہیے تا انہیں پتہ ہو کہ ہمارے ماں باپ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ (یعنی والدین) قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم کی عمدہ مثال ہیں اور اسلام احمدیت کے حقیقی پیروکار ہیں۔جب وہ ایسے ماحول میں پرورش پائیں گے تو وہ اچھے واقفین نو بنیں گے۔‘‘

سوال: عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جب مختلف نسل یا ثقافت کے لوگ آپس میں شادی کریں تو انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی شادیوں کے بارہ میں احمدیت کا نقطہ نظر کیا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اگر مختلف نسلی ثقافتوں کے لوگ آپس میں شادیاں کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن دونوں طرف کو بہت روادار ہونا ہو گا۔ بات یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی انتخاب سے پہلے تمہیں یہ کوشش کرنی ہو گی کہ تم کسی ایسے کو منتخب کرو جو روحانی طور پر اچھا ہو جس کو دینی علم پر عبور حاصل ہو اور وہ ایک پکا مسلمان ہو۔ پس جب دونوں فریق مرد اور عورت ان سب باتوں کا خیال رکھیں گے تو پھر وہ زندگی سے لطف اندوز ہوں گے خواہ دونوں مختلف یا ایک ہی نسل یا ثقافت سے ہوں۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی شخص کامل نہیں ہے سب میں کمزوریاں موجود ہیں اگر دونوں روادار ہوں اور اپنی آنکھیں، منہ اور کان ایک دوسرے کی برائی سننے سے محفوظ رکھیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو برا کہیں گے تب ایک اچھی عائلی زندگی گزاریں گے۔ جب مختلف ثقافتوں کے لوگ احمدیت میں اکٹھے ہو جائیں گے تو ایک بہت اچھا احمدی ماحول قائم ہو جائے گا اور ہمیں اسے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بات ہمیں اسلام سکھاتا ہے اور میں اس پر یقین رکھتا ہوں لیکن لوگوں میں کمزوریاں ہوتیں ہیں کبھی کبھی وہ اس طرز پر عمل نہیں کرتے۔ ہم عام طور پر مالی حالات، اچھی جاب دیکھتے ہیں یا یہ کہ لڑکی یا لڑکا تعلیم یافتہ ہے پس ان سب کو دیکھنے کی بجائے ہمیں اس بات پر دھیان دینے کی کوشش کرنی چاہیےکہ اس شخص کا دینی پس منظر اچھا ہو اور با عمل مسلمان ہو۔‘‘

سوال: کیا مسجد مبارک اسلام آباد حضور انور کو اس جھونپڑی کی یاد دلاتا ہے جب حضور ٹمالے، غانا میں مقیم تھے؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا کہ آپ کا مطلب ہے مسجد کی شکل کی وجہ سے؟ موصوفہ نے جواب دیا۔ جی حضور۔ حضور انور ایدہ اللہ اس پر مسکرائے اور فرمایا ’’نہیں اس مسجد مبارک کا فن تعمیر اس جھونپڑی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔‘‘

واقفاتِ نو کی ملاقات کے بعد 12 سال سے اوپر واقفینِ نو کو بھی حضرت امیر الموٴمنین سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔

واقفینِ نو امریکہ کی
حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات

سوال: میرا نام نعمان احمد فرید ہے اور میں منسوٹا جماعت سے ہوں۔ میرے خطوط کے کئی جوابات میں جو حضور انور سے مو صول ہوئے ہیں ان میں حضور نے تلقین فرمائی ہے کہ نماز اور تلاوتِ قرآن کریم میں باقاعدگی کامیابی کی کنجی ہے تو پھر ایلان مسک جو ٹسلا کے بانی ہیں اور جف بیزاس جو ایمزن کے بانی ہیں جو نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ پھر اتنے کامیاب اور امیر کیوں ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟

واقف نو نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جی ابھی میرے پچھلے خطبہ میں بھی میں نے یہی بات بیان کی تھی اور دنیاوی لوگوں کی زندگیوں کا کیا مقصد ہے؟

واقفِ نو نے جواب دیا: دنیاوی مقام حاصل کرنا۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو اس وقت شیطان نے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور حضرت آدمؑ کی اطاعت سے انکار کر دیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ تکبر اور دنیاوی خواہشات تھی اس نے اللہ تعالیٰ کو چیلنج کیا تھا کہ زیادہ تر لوگ میری پیروی کریں گے اور میں انہیں سیدھے راستے سے بھٹکاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تُو ایسا نہیں کر سکے گابلکہ فرمایا کہ ہاں بعض ایسے متقی لوگ ہوں گے جو میرے احکامات اور ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں گےاور میرے انبیاء پر ایمان لائیں گے۔ اگرچہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوں گے لیکن وہی لوگ آخر کار کامیاب ہوں گے۔آپ کا مقصد دنیاوی خواہشات حاصل کرنا نہیں ہےبلکہ آپ کا مقصد اللہ کا پیار حاصل کرنا ہے۔ ایک متقی شخص ہمیشہ اللہ کا پیار حاصل کرنے میں کوشاں رہتا ہے تاکہ آخرت میں زندگی ملے۔ ایک متقی شخص کو آخرت میں جزا دی جائے گی اور ان دنیاوی لوگوں کو ان کا اجر اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کی دائیں آنکھ اندھی ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کی مذہبی علم اور مذہب کی آنکھ اندھی ہے اور ایسے لوگوں کی بائیں آنکھ کام کرتی ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ وہ دنیاوی لحاظ سے ترقی پائیں گے۔ اگر آپ کی زندگی کا مقصد محض دنیاوی مفاد حاصل کرنے ہیں تو پھر آپ نماز اور اسلام کو چھوڑ کر کوئی بھی کام کر سکتے ہیں جس کا آپ کو دل کرے لیکن اگر آپ کو اس بات پر ایمان ہو کہ موت کے بعد بھی ہماری ایک زندگی ہے جو ایک دائمی زندگی ہےتو پھر آپ کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ کا پیار حاصل ہو گا۔

کیا آپ سکول نہیں جا رہے؟

واقف نو: میں سکول جا رہا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ: کیا آپ اپنی پڑھائی میں اچھے نہیں ہیں؟

واقف نو: میں پڑھائی میں اچھا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ: آپ ہیں نا؟

واقف نو: جی

حضور انور ایدہ اللہ: کیا آپ کو اپنی دنیاوی ضروریات پوری کرنے میں کوئی مسئلہ یا کوئی کمی ہے؟

واقف نو: نہیں

حضور انور ایدہ اللہ: آپ کو روزانہ کھانا ملتا ہے یعنی ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور اگر آپ پسند کریں تو شام کا کھانا، ہے نا؟

واقف نو: جی

حضور انور ایدہ اللہ: آپ نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں الغرض اس دنیا کی ہر چیز آپ کے لیے دستیاب ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کر رہے ہیں۔ اگر آپ اپنا ہدف حاصل کرلیں۔ آپ کا کیا ہدف ہے؟ آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں؟

واقف نو: میں ہارٹ سرجن بننا چاہتا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ: اگر آپ اپنے اس ہدف کو پا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دنیاوی مفاد حاصل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے سے روزانہ اللہ تعالیٰ کے حضور پنج وقتہ نماز ادا کرنے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے آپ کو آخرت میں بھی اجر ملے گا جبکہ ان لوگوں کو نہیں ملے گا۔تو اب معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو دونوں فائدے چاہئیں یا صرف اس دنیا میں ایک ہی فائدہ چاہیے؟آپ کیا چاہتے ہیں، ایک فائدہ یا دو فائدے چاہتے ہیں۔

واقف نو: میں دونوں فائدے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ان لوگوں کو صرف دنیاوی مفاد پہنچ رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ دیا گیا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اجر ملے گاتو ہماری زندگی کا مقصد محض دنیا حاصل کرنا نہیں ہے۔ ایک اچھے مومن کی زندگی کا مقصد اللہ کی محبت جیتنی ہے اور اللہ کا پیار جیتنے کے لئے آپ کو اپنی روحانی ترقی کی خاطر اور بنی نوع انسان کی خدمت کی خاطر جدو جہد کرنی پڑے گی۔

سوال: اگر جنگِ عظیم چھڑ جائے تو ہم کس طرح تیار رہ سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ ایسا نہ ہو۔کم از کم آپ کی زندگی میں تو اس کی تاخیر ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ آ پ اپنے آپ کواسلام کی تبلیغ اور اسلام کے پیغام کے پرچار کے لئے تیار کریں۔آپ ثابت قدم رہیں اور اللہ تعالیٰ سے وعدہ کریں کہ جب آپ بڑے ہوگے توآپ اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلائیں گے۔ اگر ہم لوگوں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کی زندگیوں کا کیا مقصد ہے اور یہ کہ انہیں اپنی زندگیاں کیسے بسر کرنی چاہئیں اور ہم انہیں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی طرف لے آئیں تو پھر ہم نہ صرف اس جنگ کے خوف کو ختم کر سکتے ہیں بلکہ کچھ عرصے تک اس میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے اتار چڑھاؤ تو آتے ہی رہیں گے اور آتے ہیں۔دوسری بات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر خاندان کو اپنے گھر میں چند ماہ کا راشن رکھنا چاہیےاور نوجوان بھی ان میں موجود ہیں ان کو بھی ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں۔ یہی چیز ہے۔اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ ہم دنیا کو کس طرح جنگ سے بچا سکتے ہیں؟ تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں یہی ایک طریق ہے۔ اگر دنیا تباہی پر مُصر ہے اور اس کے سربراہ عقل سے کام نہیں لے رہے تو پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

سوال: جب ہم حضور انور یا خلیفہٴ وقت کیلئے دعا کرتے ہیں تو حضور کیا پسند فرمائیں گے کہ ہم کیا دعا کریں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آپ کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ خلیفہٴ وقت کو اس کے فرائض کی ادئیگی میں نصرت فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے جن ذمہ داریوں کا بوجھ خلیفہٴ وقت کے کندھوں پر ڈالا ہے وہ پوری طرح سے ادا ہوں۔اللہ تعالیٰ اسے قوت دے۔ اللہ تعالیٰ اسے صحت دے تا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی خاطر صحیح طرح سے خدمت کر سکےاور خلیفہٴ وقت کے ذہن میں جو بھی منصوبے ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے کم وقت میں اور بہترین طریق پر مکمل ہوں اور اللہ تعالیٰ اسے مددگار بھی عطا کرے یعنی سلطانِ نصیر تا کہ مدد گاروں کی ایک ٹیم خلیفہٴ وقت کی مدد کر سکے اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خلیفہٴ وقت کے سلطان نصیر میں شامل کرے تا کہ وقف نو کی حیثیت سے ہم خلیفہٴ وقت کی، اس کے منصوبوں، خواہشوں اور تدابیر کی تکمیل میں مدد کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادئیگی کر سکیں۔‘‘

سوال: بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ حقیقتاً موجود ہے یا نہیں۔ حضور مجھے کونسے ایسے اقدام اٹھانے چاہئیں جن سے میں ہستی باری تعالیٰ کا قائل ہو جاؤں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آپ خدا تعالیٰ کو ننگی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے ہو۔ آپ کو یہ پتہ ہے یا نہیں؟

واقف نو: جی

حضور انور ایدہ اللہ: اللہ تعالیٰ نور ہے۔ کیا آپ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہو؟ کیا آپ کو کبھی قبولیت دعا کا تجربہ ہوا ہے؟

واقف نو: جی

حضور انور ایدہ اللہ: تو پھر یہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور اس نے وہ قبول کر لی اور آپ جانتے ہو کہ جو بھی آپ نے حاصل کیا وہ قبولیت دعا کےطفیل سے ہوا ہے اور بعض اوقات جب آپ دعا کر رہے ہوتے ہیں آپ سجدہ کی حالت میں ہیں اور روتے ہیں، بہت روتے ہیں تو آپ کو اطمینانِ قلب محسوس ہوتا ہے کہ اب میری دعائیں قبول ہو گئی ہیں یا اللہ تعالیٰ میرے لئے بہتری کے سامان پیدا فرمائے گا۔یہ بھی ہستی باری تعالیٰ کا ایک ثبوت ہےتو احمدیوں کو ہمیشہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق تجربہ رہا ہے۔ کیا آپ نے کبھی قبولیت دعا کا نظارہ دیکھا ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنا روپ دکھاتا ہے اگر آپ کا اس سلسلہ میں کوئی دوسرا سوال ہے تو آپ وہ پوچھیں جو واقعتاً آپ پوچھنا چاہتے ہو۔

واقف نو: میری مراد یہ ہے کہ جب آپ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہوں اور آپ کئی چیزوں کے متعلق خواہش رکھ رہے ہوں لیکن وہ قبول نہیں ہوتیں۔

حضور انور ایدہ اللہ: ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام دعاؤں کو قبول فرمائے۔ وہ مالک ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں تمہاری بعض دعائیں قبول کروں گا لیکن بعض دفعہ تمہاری بعض کی گئی دعائیں آپ کے لیے اچھی نہیں ہیں۔ اگر آپ بڑے خشوع و خضوع سے دعائیں مانگ رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں ہونے دے گا۔ وہ آپ کے کریڈیٹ اکاؤنٹ میں جائیگا۔ جب بھی آپ کو کوئی چیز درکار ہو تو اللہ تعالیٰ آپ کو وہ عطا کر دے گا۔اس چیز کا کریڈٹ بینفٹ آپ کو ملے گا۔

(ٹرانسکرپشن و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی