مکرم ملک منور احمد عارف جہلمی مرحوم سے میرا تعارف الفضل اخبار کے ذریعے سے ہوا تھا۔ ایک لمبے عرصے کی معذوری اور بیماری کے بعد بالآخر 2؍نومبر 2022ء کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 86 سال تھی۔ ہر طرح کی کمزوری اور معذوری کے باوجود ان کا حافظہ غضب کا تھا جو آخری وقت تک قائم رہا۔ سب دوستوں اور عزیزوں کے فون نمبر زبانی یاد تھے۔
ان کے پاس کئی نامور لوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ میں بھی جاتا تھا۔ ربوہ کے ابتدائی دنوں کے واقعات یاد تھے۔ مضامین بھی لکھتے رہتے تھے۔ جن صحابہ سے ملے ان کی ناموں کی فہرست بنائی ہوئی تھی جو کثیر تعداد میں تھے۔
خلیفہٴ وقت اور خاندان مسیح موعودؑ کے ساتھ عشق تھا۔ بتایا کرتے تھے کہ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایک سو سے زائد مرتبہ تشریف لا چکے ہیں اور اسی طرح میاں احمد (صاحبزادہ مرزا غلام احمد مرحوم) بھی۔ کووڈ کے دنوں میں خط لکھ کر بھجوا دیتے۔ جیسا کہ اوپر لکھا ہے حافظہ قائم رہا۔ ایک دو خطوط میں اپنی حالت پر یہ شعر لکھا؎
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
ان کی خدمت کے لئے ان کے بھائی ملک لطیف احمد صاحب کئی کئی ماہ کینڈا سے آکر ان کے پاس رہتے تھے۔ ان کے دیگر عزیز و اقارب بھی ان کی خدمت پر مستعد رہتے تھے۔ اکثر ہسپتال داخل ہوتے اور پھر عزیزواقارب آجاتے۔ ان کے لئے گھرمیں ان کی دیکھ بھال اور خوراک کے لئے ان کے بھائی اور رشتہ داروں نے انتظام کیا ہوا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی کینیڈا سے آکر ان کے پاس رہتی تھیں۔ آخری ایام میں چھوٹی بیٹی چکوال لے گئیں اور جب طبیعت بہت خراب ہوئی تو کینیڈا والی بیٹی بھی آگئی۔ اس طرح دونوں بیٹیوں کے سامنے چھوٹی بیٹی کے گھر ان کی 2؍نومبر 2022ء کو وفات ہوئی اور اسی دن 2؍نومبر کو ربوہ صدر انجمن احمدیہ کے احاطہ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ناظر اعلی مکرم سید خالد احمد شاہ صاحب نے نماز جنازہ کی امامت کروائی۔ تدفین نئے بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔
انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے عزیزوں اور دوستوں کی لسٹ دی ہوئی تھی کہ ان کی وفات کی اطلاع انہیں لازماً کرنی ہے۔ چنانچہ اس عاجز کو بھی اطلاع کینیڈا سے فون کرکے ان کے بھائی ملک لطیف احمد صاحب نے دی اور خدا کا شکر ہے خاکسار جنازے میں شامل ہو گیا۔
ان کی خواہش تھی کہ ان کی وفات پر یہ عاجز ان پر الفضل کے لئے مضمون لکھے۔ بلکہ مضمون کے لئے کئی پوائنٹ لکھ کر دے گئے تھے۔ ان کی خواہش کے مطابق درج ذیل معروضات عرض کرتا ہوں۔
مکرم ملک منور احمد صاحب عارف جہلمی کلر کہار ضلع چکوال کے رہنے والے تھے۔ چکوال پہلے ضلع جہلم میں شامل تھا۔ چکوال بعد میں ضلع بنا۔ اس لئے نام کے آگے جہلمی لگاتے تھے۔ ان کی پیدائش 9؍مئی 1935ء کی تھی۔ آپ کے والد صاحب کا نام میاں سلطان بخش تھا جو کہ کلر کہار کے پہلے احمدی تھے اور انہی کے ذریعے کلر کہار کی جماعت قائم ہوئی۔ تعلیم کے لئے منور صاحب مرکز میں آگئے اور چنیوٹ اور پھر ربوہ میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ میں زیر تعلیم رہے اور 1954ء میں انہوں نے میٹرک کیا اور نظارت بیت المال آمد میں ان کی تقرری ہوئی اور مسلسل اسی نظارت میں کام کرتے رہے اور ریٹائر ہو کر پنشن پائی۔
مرحوم بہت ملنسار، دعاگو اور نیک صالح انسان تھے۔ ان کو نظارت مال آمد میں اکتالیس سال کام کرنے کی توفیق ملی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مورخہ 29؍ستمبر 1948ء کو ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور پہلی نمازظہر پڑھائی تھی۔ اس بابرکت تقریب میں آپ بھی شامل تھے۔ آپ کا نام تاریخ احمدیت جلد 12 میں درج ہے۔
یہ اپنے رفقائےکار سے بھی بہت پیار اور محبت کرتے تھے۔ اس لئے وہ بھی ان کا بہت ادب و احترام کرتے تھے۔ اللہ کے فضل سے 24 سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہوئے تھے اور وصیت کی شرائط کے مطابق زندگی گزارنےکی کوشش کی۔ ان کو سلسلہ کی کتب اور الفضل کے مطالعے کا بہت شوق تھا۔ ملکی اخبار بھی ساری عمر لگوا رکھی تھی اور مطالعہ کرتے رہتے تھے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد کی ملاقات و زیارت کا شرف حاصل تھا۔ علاوہ ازیں ان کو حضرت مسیح موعود ؑکے 115 صحابہ کی زیارت بھی نصیب ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے جلیل القدر صحابہ کرام کے پاس اکثر جاتے رہتے تھے اور اپنے غیر از جماعت دوستوں کو ان سے ملاقات کرواتے رہے۔ مثلاً حضرت مولوی غلام رسول راجیکی، حضرت مولوی محمد ابراہیم بقا پوری اور حافظ مختار احمد شاہجہانپوری رضی اللہ عنہم سے خاص تعلق تھا۔ خلیفہ وقت سے بڑی عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔
جب ریٹائر ہوئے تو ان کے ناظر مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب مرحوم نے آپ کو لکھا کہ آپ بہت فرض شناس اور نیک اور دعا گو کارکن رہے ہیں۔ معذوری کے باوجود فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ جزاک اللّٰہ
خط و کتابت اور دعا
کووڈ کے دنوں میں آپ کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ خط لکھ کر بھیج دیتے تھے۔ تمام تر معذوری اور بیماری کے باوجود خاکسار سے آپ کی خط و کتابت جاری رہی۔ بہت دعا گو دوست تھے۔ اس عاجز کو کئی دفعہ لکھا۔ طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے جواب ارسال نہ کرسکا۔ ویسے میں باقاعدگی سے آپ کے لئے اور آپ کی بیگم صاحبہ کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہوں۔ (اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرمائے)۔ بہت دعا گو تھے۔ دعاؤں کی سیڑھی پر ساری عمر چڑھتے رہے اور چڑھاتے رہے اور دعا سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ایک خط میں لکھا۔ بھائی جان! میری صحت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ بھائی ظہور احمد اٹھاتے بٹھاتے ہیں۔ کئی عوارض لا حق ہیں جن سے مجھ کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ انسان صبر اور دعا کے علاوہ کرہی کیا سکتا ہے؟۔ میرے لئے بہت دعائیں کیا کریں۔ مجبوراً انہیں بعض کلر کہار کے سفر درپیش آئے۔ لکھا اس تکلیف دہ حالت اور سفر میں بھی دعائیں کرنے کی توفیق پاتے تھے۔
میری ایک مشکل کے وقت صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے مشورہ دیا۔ چالیس دن مسلسل حضور کو خط لکھیں اور چالیس دن ہی بہشتی مقبرہ جا کر دعا کریں۔ میں ان دنوں ملک صاحب کو بھی دعا کی یاد دہانی کرواتا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا مصیبت ٹل گئی لیکن ایک ڈاکومنٹ کا حصول ضروری تھا جو معین تاریخ کو پیش کرنا تھا۔ یہ ڈاکومنٹ ان کے بھائی صاحب کی ذاتی واقفیت اور یادداشت سے کسی متعلقہ افسر کے ذریعہ حاصل ہوا۔ میں حیران ہوں کس طرح دعا سے اللہ تعالیٰ کڑیاں ملاتا ہے اور بظاہر ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزا
باتیں تو اور بھی ہیں لیکن اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ جنت الفردوس کے اعلی علیین میں جگہ دے اور ان کے جملہ لواحقین کو صبر عطا کرے اور ان کی نیکیوں اور دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین
(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)