18؍دسمبر 1922ء دو شنبہ (سو موار)
مطابق 28؍ربیع الثانی1341 ہجری
صفحہ اول پر حضرت قاضی ظہورالدین صاحب اکملؓ کی ایک نظم ’’میرا چاند‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کے چند اشعار ذیل میں درج ہیں:؎
اے چاند! چاند میرا بھی اک قادیاں میں ہے
دارالامان خطۂ جنت نشاں میں ہے
اس چودھویں صدی میں ہوا ہے ضیاء فگن
پَرتَو اسی کے نور کا سارے جہاں میں ہے
اس چاند پر نثار ہوں تجھ سے ہزار چاند
اور تا ابد یہ ہم پہ رہے نور بار چاند
صفحہ2 پر ’’افسوسناک نقصان‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش ہوئی ہے۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ سلسلہ کے دو کارکنان (محاسب صاحب و ہیڈ کلرک صاحب دفتر محاسب) پانچ عدد cheques کا روپیہ لینے کی غرض سے لاہور گئے۔ واپس قادیان آتے ہوئے نہر کے قریب پہنچے تو نوٹوں والی جیب کو دیکھا تو اسے خالی پایا۔کُل رقم مبلغ 5800 روپیہ تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کے نتیجہ میں ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل فرمایا۔ کمیشن نے حضورؓ کی خدمت میں یہ رائے پیش کی کہ
کُل ضائع شدہ رقم کا نصف روپیہ دونوں سے وصول کیا جائے۔وصولی کی شرح 3/1ازمحاسب صاحب اور 3/2ہیڈ کلرک صاحب سے ہو۔طریق وصولی یہ ہو کہ ہیڈ کلرک صاحب کا مکان واقع قادیان اور پراویڈنٹ فنڈ فوراً ضبط کر لیے جاویں۔ ان دونوں کی مالیت سے جو زائد روپیہ ان کے ذمہ بنے وہ دس روپے ماہوار ان کی تنخواہ سے وضع ہوتا رہے حتیٰ کہ یہ رقم پوری ہو جائے۔محاسب صاحب سے ان کے حصہ کی رقم نقد وصول کی جائے۔اس کے علاوہ محاسب صاحب کی تنخواہ میں سے پانچ روپیہ ماہوار اور ہیڈ کلرک صاحب کی تنخواہ میں سے دو روپیہ ماہوار کا تنزل کیا جائے اور جتنا عرصہ یہ معطل رہیں اتنے عرصہ کی تنخواہ نہ دی جائے۔ محاسب صاحب کو واپس ان کے عہدہ پر لگا لیا جائے جبکہ ہیڈ کلرک صاحب کا دفتر محاسب سے کسی اور دفتر میں تبادلہ کر دیا جائے۔ نیز یہ تمام امور ہر دو کی سروس بک میں درج کر دی جائیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں جب یہ رپورٹ پیش ہوئی تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’نقصان کی وصولی کے متعلق سب کمیٹی کے فیصلہ سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ نقصان پورا ہی وصول کرنا چاہیے گو اگرچہ وہ امداد کے مستحق ہیں تو اور طرح کی مدد کر دی جائے۔ بغیر اس طریق کے اختیار کیے آئندہ کارکنوں کو توجہ نہ ہو سکے گی۔
پس میں فیصلہ کرتا ہوں کہ پوری رقم نقصان شدہ ایک اور دو کی نسبت سے (محاسب صاحب بیت المال اور ہیڈ کلرک صاحب دفتر محاسب) وصول کی جائے۔‘‘
سروس بکوں میں نوٹ کے متعلق حضورؓ نے فرمایا کہ
’’محاسب صاحب کی سروس بک میں نوٹ نہ کیا جائے۔ نیز ان کی تنخواہ میں پانچ روپے کمی کی بجائے دو روپے قرار دی۔‘‘
اس جملہ واقعہ اور بعدازاں فیصلہ میں قابلِ ذکر امریہ ہے کہ جیساکہ پیشگوئی مصلح موعود میں درج ہے کہ وہ دل کا حلیم ہو گا۔ چنانچہ اُس دل کے حلیم نے شفقت ورافت فرماتے ہوئے روپیہ کی وصولی بابت ایک علیحدہ تجویز فرمائی۔آپؓ نے فرمایا:
’’(محاسب صاحب) کی پرانی خدمات اور ان کے والد مرحوم کے گہرے تعلقاتِ سلسلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور (ہیڈ کلرک صاحب) کی پرانی خدمات اور غربت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں تجویز کرتا ہوں کہ ان دونوں سے اپنے حصۂ نقصان میں سے صرف پانچ سو اور ایک ہزار روپیہ بالترتیب وصول کیا جائے۔ بقیہ تینتالیس سو روپیہ ان کی امداد کے لیے میں ان شاء اللّٰہ بعض دوستوں سے جمع کرا دوں گا جو ان کی طرف سے داخلِ خزانہ کیا جائے۔ پانچ روپیہ میں ان شاء اللّٰہ اس مد میں دوں گا اور میں نے اپنے باقی رشتہ داروں کے نام سترہ سو روپیہ اور لگا دیا ہے۔ یہ بائیس سو روپیہ ہو جائے گا۔بقیہ رقم بھی ان شاء اللّٰہ میں چھ سات دوستوں کے ذمہ لگا دوں گا اور بیت المال کا نقصان پورا کر دوں گا۔میں سمجھتا ہوں کہ قرآنِ کریم کے حکم صاحبِ عزم کی مدد کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے۔‘‘
یقیناً خلافتِ احمدیہ کی ایک سو چودہ سالہ تاریخ قدم قدم پر وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا پرشاہد ہےاور ہر احمدی اس امر پرگواہ ہے کہ خلافتِ احمدیہ ہم احمدیوں کے لیے محبتِ پدری اور شفقتِ مادری سے بڑھ کر درجہ رکھتی ہے۔ خلافت درحقیقت محبتوں اور شفقتوں کا ایک لامتناہی خزانہ ہے۔ایک ایسا خزانہ جس کی قدر و قیمت کا غیر اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اللّٰھم اَیِّد اِمَامَنَا بِرُوحِ القُدُسِ وَانصُرہُ نَصراً عَزِیزاً ؎
بتاؤں میں کیسے اس الفت کی لذّت
غلاموں کی آقا سے اپنے محبت
اور آقا کی اپنے غلاموں سے چاہت
نہیں دو، وجود اک جماعت خلافت
صفحہ نمبر3 تا 4 پر اداریہ شائع ہوا ہے جودرج ذیل مختلف موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
1۔ نئے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ سے مسلمانانِ ہند کی بیزاری 2۔واقعاتِ مالابار اور آریہ صاحبان 3۔مولوی محمد علی صاحب کا جواب الجواب 4۔لاہور میں آریوں سے کامیاب مباحثہ
صفحہ نمبر5 پر ’’مکتوبات امام علیہ السلام‘‘ کے عنوان سے حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے افسر ڈاک (حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب درد) کی جانب سے حضرت مصلح موعودؓ کے بعض مکتوبات شائع ہوئے ہیں جو آپ نے مختلف احباب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں تحریر فرمائے۔
1۔حضورؓ نے ایک صاحب کو لکھوایا کہ ’’قادیان میں آنا دو موقعوں پر بڑا ضروری ہوتا ہے۔ ایک جلسہ کے موقع پر۔ وہ خاص برکات کے نزول کا اور وعظ و نصیحت اور دوستوں سے ملنے کا موقع ہوتا ہے۔ اور ایک کسی ایسے موقع پر جب لوگوں کا زیادہ ہجوم نہ ہو تا کہ ذاتی تعارف پیدا ہو سکے۔‘‘
2۔ایک دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں گھر میں نماز پڑھ رہا ہوں کہ ایک شخص آیا اور آتے ہی کہا کہ گھر میں نماز نہ پڑھو۔اس طرح نماز کی قدر دل سے جاتی رہتی ہے۔
حضورؓ نے جواب میں فرمایا ’’یہ خواب بہت صحیح ہے۔ اس کے متعلق میں نے بار بار جلسہ پر اور متعدد موقعوں پر توجہ دلائی ہے۔‘‘
3۔ڈراموں کے بارہ میں فرمایا: ’’ڈرامہ تو ایک نقل ہے اور نقل کبھی اخلاق پر اچھا اثر نہیں ڈال سکتی۔ دوسرے کی نقل سے حقیقت مٹتی ہے نہ کہ قائم ہوتی ہے۔کوئی ڈرامہ کرنے والا آج تک اخلاق کے اعلیٰ مقام پر ثابت نہیں ہوا۔‘‘
4۔ایک دوست نے لکھا کہ میں احمدی ہوں اور میرے والدین کا میرے ساتھ مذہبی تخالف ہے۔ حضور ان سے سلوک کے بارہ میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔
جواب میں لکھوایا ’’دنیاوی طور پر ہر طرح سے سلوک کریں اور دین کے معاملہ میں ان کو سمجھا دیں اور اپنی نیکی اور محبت اور والدین کی خدمت کا ایسانمونہ دکھاویں کہ ان کو ماننا پڑے کہ آپ نے احمدی ہو کر کچھ حاصل کیا ہے۔‘‘
5۔ایک خط میں آپؓ نے لفظ ’’خاتم‘‘ کے سوال پراس لفظ کے متعلق جواب تحریر فرمایا۔
6۔ایک صاحب نے لکھا کہ کیا مرزا صاحب مجددیت کی لائن میں ہیں یا باہر۔اگر باہر ہیں تو کس نام سے انہیں خطاب کیا جائے گا۔
فرمایا ’’حضرت مرزا صاحب مجددوں میں اسی طرح شامل ہیں جس طرح سب نبی شامل ہوتے ہیں۔ کوئی نبی نہیں جو مجدد نہ ہو۔ہاں حضرت مرزا صاحب اس سے زیادہ بھی کچھ ہیں۔اور وہ یہ کہ آپ کو امتی نبوت کا درجہ حاصل ہے۔یعنی آپؑ نبی ہیں۔ باتباع اور فرمانبرداری آنحضرت ﷺ۔‘‘
7۔ایک صاحب نے لکھا کہ میرا ایک بھانجا جو غیر احمدی ہے اور احمدیت کا سخت دشمن ہے، مجھے بہت دکھ دیتا ہے۔ میں نے غیر احمدی ہونے کی حالت میں اس سے وعدہ کیا تھا کہ اس کو ایک مربع زمین دوں گا۔اب اس کے متعلق کیا کیا جاوے۔
حضورؓ نے جواب میں فرمایا ’’وعدہ کا توڑنا جو خدا ور رسول یا حکومت کے حکم کے خلاف نہ ہوسخت جرم ہے۔ خواہ جس سے وعدہ کیا جائے وہ ابو جہل کی طرح بھی ہوتب بھی اپنا وعدہ پورا کریں اور اس کو مربع دے دیں۔‘‘
8۔ایک دوست نے لکھا کہ میں اپنے نام کے ساتھ احمدی لکھتا ہوں۔ بعض لوگ عداوت سے افسروں کو میرے خلاف بر انگیختہ کر دیتے ہیں۔ کیا میں لکھنا چھوڑ دوں۔
حضورؓ نے جواب میں فرمایا ’’اگر کوئی شروع سے نہ لکھے تو کچھ حرج نہیں لیکن ڈر کر چھوڑنا ٹھیک نہیں۔
9۔ایک دوست نے لکھا کہ میں عرصہ آٹھ سال سے احمدی تھا مگر قریباً تین سال سے میری عملی حالت بہت کمزور ہو گئی تھی۔اب میری غفلت دور ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ توجہ دلائی ہے۔ کیا میں دوبارہ بیعت کروں۔
حضورؓ نے جواب میں فرمایا ’’دعا کروں گا۔ بیعت جب تک انسان توڑے نہیں تجدید کی ضرورت نہیں۔ آپ استغفار کریں اور آئندہ کے لیے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔جس قدر اس زندگی میں دین کا کام ہو جائے غنیمت ہے۔‘‘
صفحہ 7 اور 8 پر پر حضرت مولانا غلام احمد صاحب بدوملہویؓ کا مضمون بعنوان ’’قرآنِ کریم کب لکھا گیا‘‘ شائع ہوا ہے۔
مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔
https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221218.pdf
(م م محمود)