• 18 مئی, 2025

آفتاب آمد دلیل آفتاب

آفتاب آمد دلیل آفتاب
لجنہ اماء اللہ کا قیام، مقاصد اور انکا حصول

لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اس اولو العزم صاحب عظمت پاک وجود کی دعاؤں، قیادت اور راہنمائی کا ثمر ہے جس کے بارے میں الہاماً بتایا گیا کَاَنَّ اللّٰہُ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء ِ گویا اس کا آنا خدا کا آنا اور اس کا نزول جلال الٰہی کے ظہور کا موجب تھا۔ وہ جوسخت ذہین و فہیم تھا جو کوہِ وقار تھا اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا گیا تھا۔ میری مراد اس سے ’’المصلح موعود‘‘ کی ذات بابرکات ہے اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو۔

لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے قیام کے پیچھے یہ روح کام کر رہی ہے کہ ایسی مائیں، ایسی بہنیں، ایسی بیٹیاں اور ایسی بیویاں قوم کو میسر آ جائیں کہ جو گھر کی اکائی سے لیکر معاشرے کی تمام کڑیوں کو جنت نظیر بنا دیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ133)

نابغہٴ روزگار حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسند خلافت پر بیٹھے ابھی آٹھ برس ہی ہو پائے تھے کہ آپؓ کی باریک بین نگاہ نے آئندہ کی نسلوں کو سنبھالنے اور جماعتی تربیت کی خاطر مستورات کی تنظیم کے قیام پر مزید کسی تاخیر کو گوارہ نہ کیا اور دسمبر 1922ء میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ52)

تنظیم لجنہ اماءاللہ کی عظیم الشان غرض و غایت کا اس سے بھی کسی قدر اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ جماعت میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی تنظیمیں عمل میں آئیں لیکن سب سے پہلے جو ذیلی تنظیم قائم ہوئی وہ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم ہے۔

بانیٴ تنظیم کے پیش نظر اگر ایک طرف رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تھا کہ اَلْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَات تو دوسری طرف اس ارشاد کی آبیاری بھی تھی کہ جس نے دو بچیوں کی اچھی تربیت کی وہ جنت کا وارث ہوا۔

(ترمذی)

ہر احمدی عورت کو لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا حصہ بننے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’دنیا میں کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کوئی مقصد اس کے سامنے نہ ہو… عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ کا قیام نہایت ضروری ہے… ضرورت ہے کہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم ہو اور سب بالغ عورتیں اس میں شامل ہوں اور کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جواس سے باہر ہو یہی ایک ذریعہ ہے جس سے عورتوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔‘‘

(اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اکتوبر 1938ء)

خدا تعالیٰ کے فضل اور خلافت کے بابرکت سایہ میں پروان چڑھنے والی لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ اپنے قیام کے مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی ہزاروں شاخیں دن رات مستورات کی علمی، اخلاقی، روحانی، جسمانی اور سماجی بہبود کےلئے کام کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچیوں کی ذیلی تنظیم ناصرات الاحمدیہ انہی مقاصد کو اپنے ابتدائی مراحل میں حاصل کرنے کے لئے اس تنظیم کی آغوش میں پرورش پا رہی ہے۔

لجنہ کی تنظیم کے کارہائے نمایاں تاریخ کا وہ درخشندہ باب ہیں کہ جس کے نقوش زمین کے چپے چپے پر ثبت ہو چکے ہیں۔ لجنہ اماءاللہ کے مالی جہاد کا یہ عالم ہے کہ اپنے مرکزی دفاتر اور معمول کے پروگراموں میں اٹھنے والے لکھوکھا ڈالرز کے اخراجات کے علاوہ رفاہی ادارے۔ ہسپتال، اسکول، مریم شادی فنڈ اور بلال فنڈ، ترجمہ قرآن کریم اور دیگر مالی قربانیوں کے ساتھ ساتھ یورپ کے سینے پر بلندوبالا مناروں والی وہ مساجد ہیں جو تثلیث کے گڑھ میں توحید کی منادی کے مراکز کے طور پر اہل مغرب کو اسلام کی دعوت دے رہی ہیں۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ مستورات نے اپنے گلے اور بازؤں کے دلکش طلائی زیورات بے دریغ اتار کر اپنی زینت پر اسلام کی زینت کو ترجیح دی۔

جہاں تک لجنہ کی علمی خدمات کا تعلق ہے تو لجنہ کا بے بہا قیمتی لٹریچر رسالہ جات کی شکل میں اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس میدان میں لجنہ اماءاللہ کی قربانیوں کا ایسا اعلیٰ معیار ہے کہ جو انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

ایک عظیم الشان غرض جو لجنہ اماءاللہ کے ذریعے عمل میں آئی وہ آئندہ ان کی گود میں پلنے والے وہ نونہال ہیں جودین اسلام کی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے اور پھر اپنا گھربار چھوڑ کر وطنوں سےدور تثلیث اور بد مذاہب کے قلعوں پر حملہ آور ہوئے۔ وہ سالوں اپنے بیوی بچوں سے دور غریب الوطنی میں اسلام کی فتح کی جنگ کرتے رہے۔ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ کوئی تو لوٹ آئے اور بعض کی قبریں آج بھی غیر ممالک میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کو خراج تحسین پیش کر رہی ہیں اوراس تنظیم کی جھولی کو اسلامی خدمات کی لازوال دولت سے مالامال کر چکی ہیں اور دراصل یہ وہی غرض ہے جس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے لجنہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوشش سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جوبچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ52)

فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ یعنی نیکیوں کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والی لجنات نے نہ صرف تعلق باللہ، دعوت الی اللہ اور مالی قربانیوں کی بے شمار مثالیں قائم کیں بلکہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بھی نصرت جہاں سپورٹس ڈے اور مصلح موعود ٹورنامنٹ جیسے کھیلوں کے پروگرام منعقد کروا کر آپس میں محبت، وحدت اور وابستگی کی روح پیدا کی جاتی ہے جو اس تنظیم کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

صبروتحمل اور ایمان کی دولت کو سینوں سے لگانے والی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں نے آج کے دور میں جو نمونے دکھائے ہیں وہ تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف سے لکھے گئے ہیں۔ حضرت خلیفة المسيح الرابع رحمہ الله تعالیٰ لجنہ اماءاللہ کو خراج تحسین دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’احمدی عورتوں نے سنہری حروف میں احمدیت کی تاریخ سجا رکھی ہے۔ یہ وہ زیور ہے جس سے بڑھ کر حسین زیور اور کوئی نہیں۔‘‘

(خطاب برموقع جلسہ سالانہ یوکے 1992ء)

لجنہ کا دنیا بھر میں تبلیغ سمپوزیم کا انعقاد کرنا، لجنہ کے تعاون سے عائشہ اکیڈمی کا مختلف ممالک میں قیام، قرآن کریم کی نمائشوں کا انعقاد، خون کے عطیہ جات میں حصہ لیکر انسانیت کی خدمت کرنا چیریٹی کے مختلف پروگرام بنا کر دکھی اور غریب لوگوں کو مدد فراہم کرنا، مختلف اخبارات و رسائل میں اسلام کے دفاع میں مضامین لکھنا، ہر سال تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابیوں پر تعلیمی ایوارڈ کا حصول، ملکی سطح پرسالانہ اجتماعات اور جلسہ جات کا تمام انتظام خود سنبھال کر اپنے تنظیمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کے لئے پمفلٹ تقسیم کرنا، ہسپتالوں میں جا کر مریضوں کی عیادت کرنا اور ان کے لئے تحائف لیکر جانا، اسلامی شعار کو اپناتے ہوئے اپنے نمونے قائم کرنا اس تنظیم کی قدرومنزلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ احمدی عورت نہ صرف ہر میدان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہے بلکہ خلفائے احمدیت کے خطابات میں ان مقاصد کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والی کئی مستورات کی مثالیں روشنی کا وہ مینار بن چکی ہیں جن پر چل کر آج کی عورت اور آئندہ آنے والی نسلیں اپنی راہیں متعین کر سکتی ہیں۔

روحانی جماعتیں ہمیشہ اپنی کامیابیوں پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوئی ترقیات کی نئی سے نئی راہوں کی طرف رواں دواں رہتی ہیں۔ وہ اپنے شاندار ماضی کو یاد رکھتی اور اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ ہمیں اپنی انہیں ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں، نمازیں پڑھنے میں باقاعدہ ہوں، نظام جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں، اجلاسوں اجتماعوں میں باقاعدہ شامل ہونے والی ہوں، ہر قسم کے تربیتی پروگراموں میں اپنے کاموں کا حرج کرکے حصہ لینے والی ہوں نظام جماعت کی پوری اطاعت گزار ہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں تو ایسے گھروں کے بچے عموماً دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور ماں باپ کے لئے بھی اطاعت گزار ہوتے ہیں اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیز ہے کہ ماں باپ خود اپنے بچوں کے لئے نمونہ بنیں۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء)

آج ہر احمدی عورت اپنی تنظیم کی پہلی شاندار صدی مکمل ہونے ہر خدا تعالیٰ کی شکر گزار اور بانیٴ تنظیم کے لئے دعا گو ہے کہ ؏

ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

اللہ تعالیٰ کرے کہ لجنہ اماءاللہ خلیفۂ وقت کی راہنمائی میں اپنے قیام کے مقاصد کے حصول کے لئے آگے سے آگے قدم بڑھاتی چلی جائے۔

؎منظور ہو تمہاری اطاعت خدا کرے
مقبول ہو تمہاری عبادت خدا کرے
اخلاص کا درخت بڑھے آسمان تک
بڑھتی رہے تمہاری ارادت خدا کرے

(امۃ القیوم انجم۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی