• 17 مئی, 2025

ملائیشیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد

مسجد بیت السلام کوجماعت احمدیہ ملائیشیا کی سب سے پہلی مسجدہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ مسجد کمپونگ ناکھوڈا، سنگائی توآکے علاقے باتو کیوز سیلنگور میں واقع ہے۔ اس مسجد کو اس وقت جماعت احمدیہ ملائیشیا کے نیشنل مرکز کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ 1956ء میں جب محترم محمد زین صاحب مرحوم نے کمپونگ بہارو میں اپنے پڑوسی محترم احمد نادی صاحب کی تبلیغ سے متاثر ہو کر احمدیت کو قبول کیا تو اُس وقت ان کوکمپونگ بہارو میں مقامی لوگوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد اُن دونوں نے کمپونگ بہارو میں سرگرمی سے تبلیغ شروع کی جس کی وجہ سے اُنہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں احمدی کمپونگ بہارو میں ریسٹورنٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ مقامی لوگوں کی طرف سے اُن کی ان تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجے میں اُن پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے یہاں تک کہ بعض لوگ کہتے کہ وہ اپنے تیارکردہ کھانے میں سوٴر کی ہڈیوں اور خون کو کھانے میں ذائقے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب اُن کے الزامات کام نہ آئے تو انہوں نے گٹر کا پانی جس میں فضلہ بھی شامل تھا کی سات بالٹیاں بھر کر محترم احمد نادی صاحب کے ریسٹورنٹ اور پھر محترم محمد زین صاحب کے گھر کے صحن میں چھڑک دیئے۔ جب اس سے بھی کچھ نہ بنا تو پھر اُن کے مالک مکان کو مقامی لوگوں نے دھمکی دی کہ وہ انہیں دوبارہ مکان کرایہ پر نہ دیں اور انہوں نے احمدیوں کو کمپونگ بہارو سے نکالنے کی بھرپورکوشش کی۔ آخر کارتمام احمدی خاندان وہاں سےنقل مکانی کر کے کمپونگ داتوک کرامت میں ایک نئی بستی میں رہائش پذیر ہوگئے۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے اسٹیٹ کے چیف منسٹر سے وہاں احمدیوں کے آبادہونے کی شکایت کی چنانچہ چیف منسٹر نے وہاں کے احمدیوں کے مکانات کو گرانے کا نوٹس جاری کر دیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے جماعت کے تمام احمدی احباب کو عارضی طور پر جالن گومبک میں منتقل ہونا پڑا۔ حالات کے پیش نظراُس وقت محترم محمد زین صاحب مرحوم ضلعی افسر سے ملنے گئے جو ایک انگریز افسر تھا۔ ضلعی افسرنے اُنہیں سنگائی توآ میں ایک بستی قائم کرنے کی اجازت دے دی اور محترم محمدزین صاحب کو جن جنگ (Jinjang) میں ایک ملائیشین افسر سے ملنے کو کہا۔ جب جن جنگ (Jinjang) میں اُس افسر سے ملاقات ہوئی تو اُس افسر کو معلوم ہوا کہ محترم محمد زین صاحب تو ایک احمدی مسلمان ہیں تو وہ اُنہیں سنگائی توآ میں واقع ایک جگہ پرلے گیااور وادی میں دریا کے قریب زمین کی الاٹمنٹ کی جو مکان بنانے کے لیے موزوں نہ تھی۔ جب محترم محمد زین صاحب نے کہا کہ یہ جگہ مناسب نہیں ہے تو اُس افسر نے جواب دیا کہ اگر آپ کو یہ جگہ پسند نہیں ہے تو آپ کو یہاں مکان بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے محترم محمد زین صاحب نے دوبارہ انگریز ضلعی افسر سے ملاقات کی اور اس مسئلے کی شکایت کی۔ضلعی افسر بہت ناراض ہوا اور محترم محمد زین صاحب کو واپس جن جنگ لے گیا تاکہ اُس متعصب ملائی افسر سے ملاقات کر سکے۔اُس متعصب ملائی افسر سے مل کر انگریز ضلعی افسر نےمحترم محمد زین صاحب اور دوسرے احمدی مسلمان دوستوں کو ایک اچھا اور موزوں علاقہ دینے کا حکم دیا۔ آخر کار اُس متعصب ملائی افسر کو اپنے باس کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی اوریوں جماعت احمدیہ کو کمپونگ ناکھوڈا کا علاقہ آباد کرنے کا موقعہ ملا۔ محترم محمد یوسف عمر صاحب نے اپنی زمین پر لکڑی اور اینٹوں کی مدد سے دو منزلہ عمارت مشن ہاؤس اور مسجد کے طور پر بنانے کی توفیق پائی جو کہ 1964ءکے آغاز میں مکمل ہوئی۔بعد میں اسے مزید خوبصورت مسجد بنانے کی غرض سے اُس عمارت کو منہدم کر دیا گیا۔ 1989ء میں نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی۔ تعمیر کی تکمیل کے بعد اسے بیت السلام مسجد کا نام دیا گیا جو آج بھی شان و شوکت سے اپنی جگہ موجودہے۔ اَلْحَمْدُللِّٰہ

(فواد احمد۔ نمائندہ الفضل آن لائن ملائیشیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی