فلپائن جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے اور یہ ملک سات ہزار سے زائد جزیروں کا مجموعہ ہے۔ مذہب کے لحاظ سے 90 فی صد آبادی رومن کیتھولک ہے اور اس لحاظ سے ایشیا کا واحد رومن کیتھولک ملک ہے۔ 1565ء سے لے کر تین سے زائد صدیوں تک فلپائن پر سپین کا قبضہ رہا اور 1898ء میں اسپین سے امریکہ کے قبضہ میں آیا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد 1946ء میں اسے آزادی ملی۔ ہسپانوی نو آبادیاتی دور سے قبل موجودہ فلپائن میں مختلف حکومتیں قائم تھیں جن میں سے کئی سلطنتیں مسلمان تھیں۔ فلپائن میں اسلام عرب تاجروں کے ذریعہ آیا اور جلد ہی تقریباً تمام علاقوں میں پھیل گیا اور کئی اسلامی سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 1380ء میں ملائشیا میں پیدا ہونے والے ایک عرب تاجر سمیونول نامی جزیرہ میں وارد ہوئے اور اس علاقہ کے مقامی راجہ کو تبلیغ کے ذریعہ مسلمان کیا اور ان کی بیٹی سے شادی کی اور اس طرح پہلی مسلمان سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔
فلپائن میں احمدیت کا باقاعدہ آغاز جنوری 1955ء میں ہوا جب مکرم حاجی محمد ایبا صاحب نے جماعت سے ملنے والے لٹریچر کے ذریعہ بورنیو احمدیہ مشن سے رابطہ کر کے بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ گو اس سے پہلے بھی چند بیعتوں کا ذکر ملتا ہے مگر ان کے کوائف موجود نہیں اور نہ ہی ان سے رابطہ بحال رہ سکا۔ مکرم حاجی محمد ایبا صاحب محض پہلے احمدی ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب داعی الی اللہ بھی تھے۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے اسکول سپرنٹنڈنٹ تھے اور آپ کی کوششوں سے مختلف علاقوں میں کئی اساتذہ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ کے آبائی علاقے کا موجودہ نام ماپون ہے گو آپ کام کے سلسلہ میں سمیونول میں بھی مقیم رہے اور وہاں بھی جماعت قائم کی۔ مبلغین سلسلہ کی غیر موجودگی میں آپ ہی جماعت کے نیشنل صدر کے علاوہ تبلیغی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
فلپائن میں پہلی مسجد 1984ء (اور بعض روایات کے مطابق 1982ء) میں ماپون نامی جزیرہ میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کا نام مسجد بیت الاحد ہے۔ فلپائن میں احمدیت کا نفوذ بھی اسی جزیرہ سے ہوا تھا۔ یہ جزیرہ پہلے کاگیان دے سولو پھر کاگیان دے تاوی تاوی (Cagayan De Sulu/Tawi-Tawi) اور بعد ازاں ماپون نے نام سے موسوم ہے۔ یہ جزیرہ ایک لحاظ سے بالکل الگ ہے اور فلپائن کے دیگر جزیروں کی نسبت ملائشیا کے زیادہ قریب واقع ہے۔ 1980ء کی دہائی میں اس جزیرہ کی آبادی بیس ہزار افراد پر مشتمل تھی اور آج بھی وہاں کی آبادی تقریباً تیس ہزار تک ہی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ مکرم حاجی ایبا صاحب کا آبائی گھر یہی جزیرہ ہے، مسجد کی تعمیر کے لئے انہوں نے اپنی زمین جماعت کو ہبہ کی۔ مسجد کی تعمیر کے لئے مٹیریل بھی احباب جماعت کی طرف سے دیا گیا۔ حاجی حبیب الرحمان صاحب (یہ بزرگ حیات ہیں گوادھیڑ عمر کے باعث حافظہ و قوٰی ساتھ چھوڑ گئے ہیں، ان کے لئے دعا کی درخواست ہے) نے تعمیر کے لئے لکڑی (Lumber) فراہم کی۔ اس کے علاوہ باقی دوستوں نے بھی حسب توفیق قربانی کی توفیق پائی۔ باقی رہ جانے والا مٹیریل بھی مکرم حاجی محمد ایبا صاحب نےفراہم کیا۔ مسجد کی تعمیر کا کام وقار عمل کے ذریعہ ہوا۔ اس میں تمام احباب جماعت نے شرکت کی مگر خاص طور پر ایسونگ برادران، مکرم رِک ایسونگ، آہیرون ایسونگ اور اسنیراجی ایسونگ (Rick Esong, Ahiron Esong, Isniraji Esong) سر فہرست ہیں۔ مسجد کا علاقہ ساحل سمندر پر واقع ہے اور اس جگہ پر پہلے مینگروو کے درخت تھے جنہیں صاف کر کے وقار عمل کے ذریعہ پتھر ڈالے گئے اور ان پر مسجد کی تعمیر عمل میں آئی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً مسجد کی تزئین و آرائش کے علاوہ مرمت کا کام بھی ہوتا رہا۔ آخری بار 2019ء میں رنگ و روغن کے علاوہ مزید پتھر ڈالنے کا کام ہوا تھا۔ اس سال، ان شاءاللّٰہ، مسجد کی چھت کی مرمّت کی جائے گی۔ الحمدللّٰہ، اس پہلی مسجد کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو فلپائن میں 5 مزید مساجد کی تعمیر کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔
(طلحہ علی۔ مبلغ سلسلہ فلپائن)