• 9 مئی, 2025

جامع سیدنا محمود الکبابیر حیفا

مسجد سیدنا محمود کا بنیادی پتھر 3؍اپریل 1931ء کو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے رکھا تھا۔آپؓ بنفس نفیس احباب جماعت کے ساتھ مسجد کے کاموں میں لگے رہے۔ مقامی احباب جماعت نے بڑے حوصلہ کے ساتھ اپنی طاقت کے مطابق اس مسجد کے لئے قربانی کی۔ پھر 3؍دسمبر 1933ء کو اس کا افتتاح حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے فرمایا۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بلاد عربیہ میں بنائی جانے والی یہ پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد کا نام حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منسوب ’’جامع سیدنا محمود‘‘ رکھا گیا جو کرمل پہاڑ کے اوپر سمندر سے قریب واقع ہے۔

ابتدائی مسجد میں تقریبا 12 میٹر مربع نماز کی ادائیگی کے لئے مخصوص تھی۔ اس میں شمال کی جانب سے مردوں کے لیے ایک مرکزی دروازہ اور شمال مشرقی جانب سے خواتین کے لیے بھی ایک چھوٹا سا اندرونی دروازہ تھا جہاں سے لکڑی سے بنے ایک گودام میں داخل ہوتے تھے جو پانچ میٹر لمبا اور چوڑا ہوتا ہے اور یہ خواتین کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ تھی۔

شمال کی طرف سے مسجد کے سامنے صحن تھا، جو تقریباً دس میٹر لمبا اور پانچ میٹر چوڑا تھا۔مسجد کے صحن کے نیچے بارش کے پانی کے دو کنویں تھے جو مسجد کے مکینوں کے لیے وضو وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ صحن کے آخر میں مغربی جانب ایک کمرہ تھا جسے مبلغین کرام دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

مسجد کے نچلے حصے میں تین کمرے بنائے گئے تھے، دو میں مبلغین اور ان کے اہل خانہ کی رہائش تھی اور تیسرا پرنٹنگ پریس کے لیے تھا۔ دفتر کے نیچے مہمانوں اور باہر کے کارکنوں کے لیے ایک کمرہ بھی تھا۔

1979ء کے بعد اس مسجد کی توسیع جدید عمارت کی صورت میں ہوئی اور توسیع کے بعد اس مسجد کے دو بلند مینار ے بنائے گئے جو تل ابیب حیفا مین سڑک پر بہت دور سے نظر آتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہماری موجودہ مسجد اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے بھی پورے ملک میں بے نظیر ہے۔ یہاں کثرت سے زائرین تشریف لاتے ہیں اور اسلام احمدیت کا تعارف حاصل کرتے ہیں نیز اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہم اس خوبصورت مقام پر آکر خوبصورت مسجد میں حقیقی اسلام کی خوبصورتی پائی ہے۔

(شمس الدین مالاباری۔ مشنری انچارج)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی