• 15 مئی, 2025

جواں سال بیٹے طاہر ذیشان افضل کا ذکرِ خیر

خاکسار کے جوان سال بیٹے مکرم طاہر ذیشان افضل صاحب موٴرخہ 5؍اکتوبر 2022ء کو صبح پونے دس بجے وفات پا گئے۔ آپ 30 اپریل 1986ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوسائٹی پبلک ہائی سکول مغل پورہ لاہور سے مکمل کرنے کے بعد نائیکون کالج کے ذریعے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور سے آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا جس کے بعد آپ سپیریئرر یونیورسٹی لاہور میں داخل ہوئے جہاں سے بی ایس سی (کمپیوٹر سائنس) کی ڈگری مکمل کی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ملازمت کا مرحلہ آیا تو اس دوران 28؍مئی 2010ء کا المناک سانحہ وقوع پذیر ہو چکا تھا اور آپ سارے سانحے کے چشم دید گواہ تھے۔ واقعہ سے کچھ ہی لمحہ پہلے دارالذکر سے ملحقہ پڑول پمپ پر پہنچے تھے کہ دہشت گردوں کی طرف سے حملوں کا آغاز ہو گیا اور یوں آپ دارالذکر کے اندر جانے سے رہ گئے اور سارا عرصہ باہر رہ کر دعائیں کرتے ہوئے گزارا۔ جب پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کی طرف سے اندر جانے کی اجازت ملی تو اس وقت تک دارالذکر کے اندر ہی رہے جب تک کہ تمام شہداء اور زخمیوں کے ہسپتال لے جانے کے لئے آنے والی ایمبولینسوں میں تمام شہداء کے جسدِ خاکی اور مجروحین کو اپنے ہاتھوں سے کمال ضبط کے ساتھ ہسپتال منتقل نہ کردیا۔ دارالذکر سے فراغت کے بعد جب گھر واپس آئے تو پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے اور افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ میں بروقت دارالذکر اندر نہ جا سکا، بعد میں اِس بات کا اظہار بھی کیا کہ کاش میرا نام بھی شہداء کی فہرست میں شامل ہوتا۔

گزشتہ سال انیسویں روزے آپ کو پیٹ میں تکلیف ہوئی جس کے بعد اگلے روز مختلف ٹیسٹوں کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آپ کے بائیں گردے کے اوپر ٹیومر ہے جس نے تاحال اپنی جڑیں نہیں پکڑیں۔ اس کے بعد مختلف ڈاکٹروں کے باہمی مشورے کے ساتھ مختلف ادویات استعمال ہوتی رہیں اور بالآخر میں اس ٹیومر کا کامیاب آپریشن ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے طاہر ذیشان افضل کو صحت عطا کردی۔ جس کے بعد کچھ عرصہ آرام کرنے کے بعد اپنی ملازمت (نیسلے پاکستان لمیٹڈ) پر جانے کے علاوہ جماعتی خدمات میں بھی پوری دلجمعی سے مشغول ہوگئے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا اگست 2022ء کے آخر پر اس کی شکایت پر کہ ’’ابو میں کام سے آکر تھک سا جاتا ہوں‘‘ فوری طور ضروری ٹیسٹ کروائے گئے تو یہ جان فرسا خبر سامنے آئی کہ اس کے گردے کسی حدتک ناکارہ ہو چکے ہیں۔ نفرالوجسٹ نے فوری طور پر ڈائلیسز کروانے اور پھر گردے کی تبدیلی کے لئے مشورہ دیا۔ ڈائلیسز کی تیاری ہو رہی تھی کہ تقدیر نے مہلت نہ دی۔ موٴرخہ 5؍اکتوبر 2022ء کو آپ کل جہاں کے مالک خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ وفات کےوقت عمر 36 سال تھی۔

آپ کی نماز جنازہ اِسی دن بعد نماز عصر حلقہ گلشن پارک میں ادا کرنے کے بعد میت کو محترم طاہر احمد ملک صاحب کی ہدایت پر دارالذکر لے جایا گیا جہاں آپ نے ساڑھے پانچ بجے نماز جنازہ پڑھائی۔ دونوں جگہوں پر غیر معمولی تعداد میں احباب جماعت نماز جنازہ میں شریک ہوئے نماز جنازہ کے بعد مغرب سے کچھ پہلے جسد خاکی کو بذریعہ ایمبولینس ربوہ روانہ کر دیا گیا جہاں اگلے دن بعد نماز فجر صبح ساڑھے پانچ بجے دارالضیافت کے احاطہ میں محترم ڈاکٹر عبدالخالق خالد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور بہشتی مقبرہ توسیع میں تدفین کے بعد دعا بھی کروائی۔

مرحوم حلقہ گلشن پارک میں رہائش پذیر اور محترم صدر صاحب حلقہ کی عاملہ میں سیکرٹری امورِ خارجہ تھے، مجلس خدام الاحمدیہ گلشن پارک میں معتمد، ناظم اصلاح و ارشاد کے علاوہ نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ گلشن پارک کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور میں نائب ناظم عمومی کے علاوہ گزشتہ پندرہ سال سے (2005ء سے 2019ء) نظارت کے تحت قادیان جلسہ سالانہ کے لئے متواتر ڈیوٹی دیتے چلے آ رہے تھے۔ آپ اپنی ملازمت سے سارا سال فقط اس بنا پر چھٹی نہ کرتے تھے کہ قادیان جلسہ سالانہ کے لئے ڈیوٹی دینی ہے۔ رات دارالذکر میں جماعت ضلع لاہور کے شعبہ امور عامہ میں صبح قادیان جانے والے مہمانوں کی فہرستیں مرتب کرتے جس کے لئے آپ کو رات دیر تک بھی بیٹھنا پڑتا تو بیٹھتے مگر صبح نو بجے واہگہ بارڈر پر ڈیوٹی کے لئے حاضر ہو جاتے۔

مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کی عمومی ٹیم کے ایک بہت ہی فعال رکن تھے اور احسن طریقے سے ہر ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصہ معاون قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور بھی رہے۔ وفات سے ایک روز قبل بھی طبیعت کی خرابی کے باوجود عمومی ٹیم کے ساتھ ڈیوٹی پر موجود تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بوجہ خرابی طبیعت میں نے ان کو جانے سے منع کیا تو ناراضگی کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ ’’مجھے جماعتی خدمت سے نہ روکا کرو!‘‘

آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ ہر ایک کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے اور جو بھی خدمت ہو سکتی بجا لاتے اور اس ضمن میں کوئی کوتاہی نہ کرتے۔ مرحوم نے پسماندگان میں والدین، اہلیہ اور دو بچیاں جاذبہ طاہر بعمر 9 سال اور بارعہ طاہر بعمر 5 سال یاد گار چھوڑی ہیں۔ آپ کی اہلیہ اور دونوں بیٹیاں خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک وقفِ نو میں شامل ہیں۔

خاندان میں احمدیت

آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے پردادا مکرم میاں دین محمد مرحوم صاحب کے ذریعے آئی جنہوں نے ایک روٴیا کی بناپر حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ کے پردادا کا تعلق باٹھانوالہ متصل بدو ملہی ضلع ناروال سے تھا جہاں آپ آڑھت کا کام کرتے تھے۔

مرحوم کے نانا مکرم قریشی محمدحفیظ صاحب مرحوم کے خاندان میں احمدیت ان کے نانا حضرت منشی مہر دین صاحب ؓ مرحوم صحابی حضر ت مسیح موعودؑ اوردادا حضرت غلام قادر صاحبؓ مرحوم صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ آئی۔حضرت منشی مہر دین صاحبؓ مرحوم کا نام منارۃ المسیح قادیان کی تعمیر میں نمایاں قربانی کرنے والوں کی فہرست میں108نمبر پر کندہ ہے۔

حضور انور کا شفقت بھرا پیغام

حضور انورنے اپنے خط کے ذریعے مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کو تحریر فرمایا:
’’آپ کی طرف سے لاہور کے ایک خادم مکرم طاہر ذیشان صاحب کی وفات کی اطلاع ملی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور تمام پسماندگان کو یہ صدمہ صبر و ہمت سے برداشت کرنے کی توفیق دے۔ میری طرف سے تمام عزیز و اقارب سے دلی تعزیت کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے سب اہلِ خانہ کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین‘‘

نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے بھی حضور کے نمائندہ کے طور پر حاضر ہو کر تعزیت فرمائی۔

سابق قائد مجلس گلشن پارک بیان کرتے ہیں۔ مکرم طاہر ذیشان صاحب ایک نہایت ہی خوش اخلاق، محنتی اور خدمت گزار خادم دین تھے۔خاکسار کے ساتھ بطور نائب قائد مجلس و ناظم اصلاح و ارشاد خدمت کی توفیق پائی۔قیادت کی جانب سے جو ذمہ داری دی جاتی اس کو احسن انداز میں پورا کرتے۔ عمومی ٹیم کے نہایت فعال ممبر تھے۔ جب بھی مجلس یا ضلع کی جانب سے عمومی ڈیوٹی کے لئے بلایا جاتا تو ضرور حاضر ہوتے۔ سانحہ 28؍مئی 2010ء کے بعد تو باقاعدگی کے ساتھ بیت الذکر گلشن پارک کے مرکزی گیٹ کے باہر ڈیوٹی کرتے۔ ان کا دفتر ماڈل ٹاؤن میں تھا پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ مقامی بیت الذکر میں عمومی ڈیوٹی کے لئے تشریف لاتے اور کہا کرتے کہ قائد صاحب میری پوسٹ کے حوالہ سے بے فکر رہیں میں ہر صورت ڈیوٹی پر پہنچ جاؤں گا۔ مالی قربانی میں صف اول کے خدام میں شامل تھے۔

ناظم عمومی ضلع لاہورنے بیان کیا کہ مرحوم خاکسار کے ساتھ گزشتہ تین سال سے بطور نائب ناظم عمومی ضلع لاہور خدمت سرانجام دے رہے تھے۔مرحوم بہت ہی نفیس،عاجز، اطاعت گزار اورذمہ دار شخصیت کے مالک تھے۔ہر وقت خدمت کے لئے پرجوش اور تیار رہتے، جب بھی عمومی ڈیوٹی کے لئے کہا گیا تو صحت اوروقت کی فکر کئے بغیر ہمیشہ لبیک کہا۔ ڈیوٹی کے دوران ساتھی خدام کی صحت اور ان کے کھانے اور آرام کا مکمل خیال رکھتے اور ان کی ہر وقت حوصلہ افزائی کرتے رہتے۔

مالی قربانی

جب بھی مالی قربانی کی تحریک کی جاتی ہمیشہ لبیک کہتے۔ کسی بھی مد میں جس قدر رقم مانگی جاتی ادا کر دیا کرتے۔وفات سے ایک رات قبل جب طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی تب بھی مجھے کہا کہ ’’ابو لگتا ہے کہ میرا وقت آ گیا ہے، میری وصیت کا اگر کوئی چندہ ہے تو اس کی رسید کٹوا دینا۔‘‘

میرا بیٹا طاہر ذیشان افضل واقعی ایک جنتی انسان تھا۔ میرے سانس کے ساتھ سانس لینے والا، مجھے پریشان نہ دیکھنے والا، میرا خیال رکھنے والا، میرے جذبات کو سمجھنے والا، میرا دست و بازو، میرا دوست اور ہم و غم کا ساتھی تھا۔ اس کی بیماری میں ہر ڈاکٹر کے پاس میں ہمیشہ اس کے ساتھ گیا۔ ہر ڈاکٹر اس کی چہرے کی مسکراہٹ اور صحت دیکھ کر حیران ہو جاتا تھا اور اس کی بیماری کے بارے میں سن کر اور دیکھ کر غم زدہ ہوجاتا اور دعا کرتا تھاکہ اللہ تعالیٰ اس کو شفائے کامل عطا فرمائے۔آمین

طاہر ذیشان افضل کو گھر میں سب ہی پیار سے ’’شانی‘‘ کہتے ہر اپنا اور پرایا محبت کرتا تھا، اس کے دادا ابو (محترم غلام نبی قمر صاحب جن کی اس وقت عمر 95 سال کے قریب ہے) شانی کی طبیعت کا سن کر ہر روز گھر آتے اور اس کی طبیعت کا پوچھتے، مالی پریشانی دیکھتے ہوئے فوری طور پر ایک لاکھ روپیہ دیا اور جب اس کے گردوں میں خرابی کے بارے میں علم ہوا تو مزید پچاس ہزار روپے لا کر دعائیں دیتے ہوئے دیئے اور کہا کہ ’’افضل پریشان نہیں ہونا، خدا سب اچھا کرے گا۔‘‘ اس کے چچا مکرم بشارت احمد ثاقب صاحب (چیئر مین ہیومینٹی فرسٹ بیلجیم) اور مکرم ڈاکٹر فضل احمد ناصر صاحب ہمہ وقت ساتھ رہے اور اب تک ہیں اور ہر طرح کی معاونت کی۔

چھوٹے بھائی ڈاکٹر فضل احمد ناصر کو جب علم ہوا کہ ڈاکٹرز نے گردوں کی تبدیلی کے لئے کہا ہے تو فوری طور اپنا گردہ دینے کی پیش کش کردی۔طاہر ذیشان کے ماموں مکرم قریشی رضوان احمد صاحب نے اپنا گردہ عطیہ کرنے کی پیش کش کی جبکہ دوسرے دونوں ماموں (مکرم محمد انور قریشی صاحب اور مکرم قریشی عمران احمد صاحب از لندن) بھی ہر طرح ساتھ رہے۔ طاہر ذیشان کے چھوٹے بھائی مکرم نعمان افضل نے اپنا گردہ دینے کی پیش کش کی۔

اس کی ایک خالہ تو ایک رات اس قدر پریشان ہوئی کہ اگلے دن آکر خطیر رقم روتے ہوئے میری جھولی میں ڈالی اور کہا کہ بھائی جان! مجھے رات نیند نہیں آئی اور ساری رات روتی رہی کہ میں اپنی بڑی بہن، بھائی اور بیٹے شان کی کیسے مدد کروں؟ صبح اس نے اپنی ہاتھوں کی چوڑیاں بیچ ڈالیں اور ملنے والی رقم ہمیں دے دی۔

اسی طرح دوسری خالہ نے خطیر رقم بیماری کے علاج کے لئے دے دی۔اس پریشان کن اور مشکل گھڑی میں جس رنگ میں بھی میری مدد کی اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی جناب سے بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین

میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ صفت بیٹا مجھے عطافرمایا تھا جو بہت فرمانبرداراور دکھ سکھ میں ساتھ دینے والا تھا۔ جس دن اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اِس دن قادیان میں ڈیوٹی پر تھا، ہر وقت جماعت کی خدمت کے لیے تیار رہتا۔ 28؍مئی کے واقع والے دن بھی گھر نہیں آیا۔ہر رشتہ کے ساتھ انصاف کرنے والا، بہترین شوہر، بہترین باپ اور بہترین بیٹا تھا۔ ہر روز سورۃ الرحمن کی تلاوت کرتا۔ وفات سے چند روز قبل جب سورۃ الرحمن کی تلاوت کر رہا تھا جس میں برزخ کا ذکر ہے تو آپ نے کہا کے مرنے کے بعدسب روحیں برزخ میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ اپنی چھوٹی بہن جو اس وقت 6 سال سے زائد عرصہ سے اپنے خاوند، بچوں اور ساس سسر کے ساتھ ملائیشیا میں ہے کے بارے میں بہت پریشان رہتا تھا اور ہمیشہ کہتا تھا کہ میری بہن جب آئے گی اس کو پورے پروٹوکول سے گھر لے کر آؤں گا، کیا پتہ تھا کہ وہ خود ہی چلا جائے گا۔

مرحوم کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ آپ نے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا اور کبھی بھی دین کے کام سے پیچھے نہیں ہٹے۔ایک شوہر کی صورت میں وہ شخص خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھا اتنا پیار اور اخلاص تھا کہ بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں،اپنے حقوق وفرائض کو احسن طریقے سے نبھایا، مجھے کبھی بھی ان کو کچھ کہنا نہیں پڑا، بہت اچھے شوہر اور بہت اچھے باپ تھے،میں اور میری بیٹیاں وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی ان کی طرح دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مرحوم کےبھائی مکرم نعمان افضل کہتے ہیں کہ میرے بہت ہی پیارے بھائی میرا ہر طرح خیال رکھنے والے تھے ہر پہلو میں میری رہنمائی کرتے، بھائی کے علاوہ میرے دوست بھی تھے۔ جماعتی کاموں کے لیے باقاعدہ تحریک کرتےرہتے اورجماعتی کاموں میں سستی برداشت نہیں کرتے تھے۔جنون کی حد تک جماعت کی خدمت کاشوق تھااور عہد خلافت کے مطابق جان، مال، عزت اور وقت کی قربانی کے لیے ہر دم تیار رہتے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میرے بیٹے کوکروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور والدین، بھائی بہن، اہلیہ اور بیٹیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور بچوں کا خود متکفل ہوجائے۔ آمین

(محمد افضل قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی