• 15 مئی, 2025

رشتہ ازدواج اور اسلامی تعلیمات

الله تعالیٰ قرآن كريم ميں فرماتا هے:

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا

ترجمہ: وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے۔

(الاعراف: 190)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح یافتہ جیسے دو محبت کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی 10736)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شادی کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ہمیں قرآن نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ پرہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولاد صالح طلب کرنے کے لئے دعا کرو جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: مُحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ (النساء: 25) یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیزگاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ ……اور مُحْصِنِیْنَ کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ سو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں۔ایک عفّت اور پرہیزگاری دوسری حفظ صحت تیسری اولاد۔‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد10 صفحہ22)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ46 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک موقع پر بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو ان شاء اللّٰہ نکاح ضرور سُکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودّت کا باعث ہو، وہ پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا کہ ’’سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذَاتِ الدِّیْن ہو۔حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب ونسب اس کے محرکات نہ ہوں۔ پہلے نیت نیک ہو۔ پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو۔‘‘

(خطباتِ نور صفحہ518-519 خطبہ فرمودہ 25؍دسمبر 1911ء)

حضرت خليفہ اوّل رضي اللہ عنہ نے خطبہ نکاح کي اغراض بيان کرتے ہوئے فرمايا: ’’نکاح کي اصل غرض تقويٰ ہوني چاہئے اور قرآن مجيد سے يہي بات ثابت ہے۔ نکاح تو اس لئے ہے کہ احصان اور عفت کي برکات کو حاصل کرے۔ مگر عام طور پر لوگ اس غرض کو مدنظر نہيں رکھتے بلکہ وہ دولتمندي، حسن و جمال اور جاہ و جلال کو ديکھتے ہيں مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمايا عليک بذات الدين بہت سے لوگ خدوخال ميں محو ہوتے ہيں جن ميں جلدتر تغير واقع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے قول کے موافق تو سات سال کے بعد وہ گوشت پوست ہي نہيں رہتا۔ مگر عام طور پر لوگ جانتے ہيں کہ عمر اور حوادث کے ماتحت خدوخال ميں تغير ہوتا رہتا ہے اس لئے يہ ايسي چيز نہيں جس ميں انسان محو ہو۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ و سلم نے نکاح کي اصل غرض تقويٰ بيان فرمائي۔ ديندار ماں باپ کي اولاد ہو۔ ديندار ہو۔ پس تقويٰ کرو اور رحم کے فرائض کو پورا کرو۔ ميں تمہارے لئے نصيحتيں کرتا ہوں۔ يہ تعلق بڑي ذمہ داري کا تعلق ہے۔ ميں نے ديکھا ہے کہ بہت سے نکاح جو اغراض حب پر ہوتے ہيں ان سے جو اولاد ہوتي ہے وہ ايسي نہيں ہوتي جو اس کي روح اور زندگي کو بہشت کر کے دکھائے۔ ان ساري خوشيوں کے حصول کي جڑ تقويٰ ہے اور تقويٰ کے حصول کے لئے يہ گر ہے کہ اللہ تعاليٰ کے رقيب ہونے پر ايمان ہو۔ چنانچہ فرمايا۔ ان اللّٰہ کان عليکم رقيباً جب تم يہ ياد رکھو گے کہ اللہ تعاليٰ تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کي بے حيائي اور بدکاري کي راہ سے جو تقويٰ سے دور پھينک ديتي ہے بچو گے۔‘‘

(خطبات نور جلد1 خطبہ نمبر29 صفحہ294)

15؍مئی 2011ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں اعلانِ نکاح کے موقع پر دیئے گئے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
’’نکاح اور شادی انسانی نسل کے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے، جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ بعض صحابہ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے۔ تجرد کی زندگی گزاریں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میری سنت پہ عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں ہو گا۔ میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں۔ کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍جون 2012ء)

(بلال حسن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی