• 26 اپریل, 2024

قلم کا رشتہ اور الفضل کی ادب گاہیں

ہم جب بچے تھے تو تشحیذ الاذہان کو غور سے خوشی خوشی پڑھتے تھے۔ ہمیں اس میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا اور تشحیذ کے خاندان میں ہم بھی شامل ہوتے اور ہمارے بہت سے عزیزو اقارب اور جاننے والے ہم عصر، ہم جولی اور ہم نوا بھی۔ رسالہ میں ایک کالم ’’قلمی دوستی‘‘ کے عنوان سے مستقل طور پر ہوتا۔ جس سے خطوط لکھنے والوں سے ہم بذریعہ رسالہ تشحیذ رابطہ کرتے اور اگر کسی طفل نے اپنا ایڈریس بھی دے رکھا ہو تا تو ہم باوجود تنگ دستی کے کفایت کر کے ڈاک کی ٹکٹ خریدتے اور ان سے اندرون ملک اور بیرون ملک قلم کا رشتہ قائم کرتے۔

اسے ہم قلمی دوستی یا قلمی خاندان کا نام دیتے۔ ہمیں انتظامیہ کی طرف سے بھی ہدایت ہوتی کہ اپنا قلمی خاندان بڑھائیں۔

چند دن کی بات ہے کہ میری جماعت کی ایک معروف شاعرہ مکرمہ فرحت ضیاء راٹھورآف جرمنی سے الفضل میں نظمیں اور مضامین لکھ کر بھجوانے کے حوالہ سے بات ہو رہی تھی۔ تو آپ نے اپنے کلام میں سے یہ شعر پڑھا کہ

؎کیا جان سکے مجھ کو فقط لفظ کا رشتہ
اس قلبی تعلق میں ادب گاہوں سے گزروں

اس شعر کو سن کر مجھے ایک اور شاعرہ مکرمہ بشریٰ بختیار خان آف لندن کے DP پر لکھا ہوا ان کا اپنا ایک شعر یاد آگیا۔ جو یوں ہے:

؎مجھے دوام کی چاہت نہیں مگر اے خدا!
میں چاہتی ہوں کہ میرا کلام زندہ رہے

اس پر مجھے خیال گزرا کہ جو خیالات اور میرے ارادے مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔ ان میں میَں اپنے قارئین کو بھی ہمسفر بنا لوں اور ان کو لفظ کے رشتہ سے جوڑ کر قلمی تعلق قائم کر کے الفضل آن لائن کی ادب گاہوں سے گزرنے کی درخواست کروں۔

الفضل آن لائن کی ادب گاہیں

ان سے گزرنے کے دو طریق ہیں:

  1. اس کو سمجھ کر پڑھنا، اس میں درج تعلیمات کو اپنے جسمانی سانچے میں ڈھالنا اور دوسروں کو اس معاملہ میں ہمراہی بنانا۔
  2. شعراء اپنا منظوم کلام اور نثر نگار اپنی تحریرات اس میں شائع کرنے کے لیے بھجوا کر ادب گاہوں کا حصہ بننا اور دوسروں کو بھی بنانا۔

ادارہ الفضل کو ان ہر دو امور میں احمدی اسکالرز، علما، مختلف فنون و علوم کے ماہر، علمی ذوق رکھنے والے دوست احباب و خواتین کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ اوّل تو بانیٴ الفضل حضرت مصلح موعودؓ کی اس آرزو اور خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جہاں عملی طور پر سعی کرنی ہے اور اس ادب گاہ کو ہر احمدی کے گھر گھر پہنچانے کے لیے کوشش کرنی ہے کہ ذیل میں درج خواہش کے مطابق اس کے پڑھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں چلی جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’اے میرے مولا! لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کا فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس کے سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔‘‘

(الفضل 18؍جون 1913ء صفحہ3)

اس کے لیے ایسے تمام Sources جیسے واٹس ایپ، انسٹا گرام،ٹیلی گرام، فیس بک اور اسٹیٹس کو بروئے کار لاکر اس کو پھیلانا ہے۔ وہاں اس کی تشہیر و ترویج کے لیے دعائیں بھی کرنی ہیں اور صدقات بھی دینے ہیں۔

مجھے علم ہے کہ سابقہ رشین اسٹیٹس میں ہمارے نمائندگان و مربیان الفضل کے بعض حصوں کا لوکل زبان میں ترجمہ کر کے ویب سائٹ پر چڑھاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اطلاع ملی ہے کہ مشرقی افریقہ کے بعض ممالک جیسے کینیامیں ہمارے نمائندگان اور مبلغین الفضل کے بعض حصوں کا اپنی لوکل زبان میں ترجمہ کر کے ویب سائٹ اور فیس بک پر روزانہ ڈال دیتے ہیں۔ یہی کیفیت یا اس سے ملتی جلتی لاطینی ممالک اور اوشیانا ممالک کے بعض ممالک میں الفضل کے بعض حصوں کے تراجم ہوتے اور ویب سائٹ پر چڑھ جاتے ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

یہ درحقیقت الفضل کی ادب گاہوں میں چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں اور Pave بنانے کے مترادف ہے۔

الفضل کی ادب گاہوں سے گزرنے کا دوسرا طریق

ادب گاہوں میں گزرنے کا دوسرا کٹھن طریق قلمی خاندان میں شامل ہو کر اپنی تحریرات اور منظوم کلام سے اس کی پگڈنڈیوں اور Paves اور راستوں کو سجانا ہے اور سجاتے چلے جانا ہے۔ اس کے لیے سینکڑوں نثر نگار، احباب و خواتین اور شعرا کرام اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور خوب ڈال رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ادب گاہوں پر قدم مارنے والے نثر نگار اور شعرا اپنے اس خاندان میں اضافہ کریں اور یہ تعداد سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں بلکہ لاکھوں تک جانی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ایک تحریر کی صلاحیت ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت۔ تھوڑے کو بڑھانا اور اس میں اضافہ کرتے رہنے کی تعلیم تو ہمیں دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ نیز اس دعا کے کرنے کا حکم ملا۔ رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا کہ اے اللہ! میرے علم کو بڑھا۔ اس علم میں تحریر کا علم بھی ہے۔ اس لیے الفضل کے تمام قارئین مرد و خواتین حضرت سلطان القلمؑ کے معاون بن کر قرآن، حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء عظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھیں اور الفضل کی ادب گاہوں کے راستوں میں بنی کیاریوں میں اپنی تحریر کے پھول لگائیں اور اپنے نام کو مکرمہ بشریٰ بختیار خاں کے اوپر بیان شعر کی روشنی میں تا ابد زندہ کر جائیں۔

حضرت مرزا بشیر احمدؓ کی نصیحت

حضرت مرزا بشیر احمدؓ اس طرف یوں توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قلم، علم کی اشاعت اور حق کی تبلیغ کا سب سے بڑا اور سب سے اہم اور سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے اور زبان کے مقابلہ پر قلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کا حلقہ نہایت وسیع اور اس کا نتیجہ بہت لمبا بلکہ عملاً دائمی ہوتا ہے۔ زبان کی بات عام طور پر منہ سے نکل کر ہوا میں گم ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قلم کے ذریعہ محفوظ کر لیا جائے۔ مگر قلم دنیا بھر کی وسعت اور ہمیشگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور پریس کی ایجاد نے تو قلم کو وہ عالمگیر پھیلاؤاور وہ دوام عطا کر دیا ہے جس کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں کیونکہ قلم کا لکھا ہوا گویا پتھر کی لکیر ہوتا ہے جسے کوئی چیز مٹا نہیں سکتی اور قلم کو یہ مزید خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اسے اپنے منبع کی نسبت کے لحاظ سے کامل یقین کا مرتبہ میسر ہوتا ہے۔ ہمیں بعض اوقات کسی شخص کی طرف سے کوئی بات زبانی طور پر پہنچی ہے مگراس کے سننے والوں کی روایت میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ مگر جب کسی شخص کے قلم سے کوئی بات نکلے تو پھر اس بات کے منبع اور مآخذ کے متعلق کسی قسم کا شبہ نہیں رہتا۔ بہرحال اس زمانہ میں جب کہ اسلام کے دشمن اسلام کی تعلیم اور حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے خلاف ہزاروں لاکھوں رسالے اورکتابیں شائع کر رہے ہیں۔ قلم سے بڑھ کر اسلام کی مدافعت اور اسلام کے پرامن مگر جارحانہ علمی اور روحانی حملوں سے زیادہ طاقتور کوئی اور ظاہری ذریعہ نہیں۔

پس اے عزیزو اور اے دوستو! اپنے فرض کو پہچانواور سلطان القلم کی جماعت میں ہو کر اسلام کی قلمی خدمت میں وہ جوہر دکھاؤ کہ اسلاف کی تلواریں تمہاری قلموں پر فخر کریں۔ تمہارے سینوں میں اب بھی سعد بن ابی وقاص اور خالد بن ولید اور عمرو بن عاص اور دیگر صحابہ کرام اور قاسم اور قتیبہ اور طارق اور دوسرے فدایانِ اسلام کی روحیں باہر آنے کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ انہیں رستہ دو کہ جس طرح وہ قرونِ اولیٰ میں تلوار کے دھنی بنے اور ایک عالم کی آنکھوں کو اپنے کارناموں سے خیرہ کیا۔ اسی طرح وہ تمہارے اندر سے ہو کر (کیونکہ خدا اب بھی انہی قدرتوں کا مالک ہے) قلم کے جوہر دکھائیں اور دنیا کی کایا پلٹ دیں۔‘‘

(مضامین بشیر جلد سوم صفحہ564-565)

مکرمہ فرحت ضیاء راٹھور اور مکرمہ بشریٰ بختیار خان کے منظوم کلام سے متاثر ہو کر خاکسار کو اداریہ لکھنے کی توفیق مل رہی ہے۔ لہٰذا ان دونوں کا کلام اس اداریہ کا حصہ بنا رہا ہوں۔

منظوم کلام فرحت ضیاء راٹھور

یہ حکم ملا ہے کہ نئی راہوں سے گزروں
کانٹوں میں چھپے پھول ہیں پلکوں سے اٹھا لوں
کوزے کو سمندر میں سمونے کا ہنر ہے
اتروں جو سمندر میں نئی موجوں سے کھیلوں
مکتب ہے ادب کا تو کوئی طفل بہت ہے
تحریر کے اسرار بھلا ہاتھوں سے کھولوں
کیا جان سکے مجھ کو فقط لفظ کا رشتہ
اس قلمی تعلق میں ادب گاہوں سے گزروں
اک شعر کی دنیا ہی نبھائی نہیں جاتی
تحریر کے مقتل میں صلیبوں پہ بھی لٹکوں
کھو جانے کا احساس بہت جان بلب ہے
میں خود کو کہاں ڈھونڈوں کہاں رکھوں کہاں جاؤں
ضیاء سوچ لیا ہے کہ کوئی مان نبھاؤں
لہروں کے تھپیڑے ہیں کناروں سے بھی الجھوں

منظوم کلام بشریٰ بختیار خان

تمہارے ہونٹوں پہ بس میرا نام زندہ رہے
تمہارے ساتھ بتائی یہ شام زندہ رہے
خدا کرے کہ یہ نیت ہی کام آ جائے
حوالہ ہو یا نہ ہو میرا کام زندہ رہے
مجھے دوام کی چاہت نہیں مگر اے خدا
میں چاہتی ہوں کہ میرا کلام زندہ رہے
عجیب ڈھنگ کی یہ چال چل گیا ہے کوئی
کہ بادشاہ نہ ہو اور غلام زندہ رہے
مری غزل کے سب اشعار چاہے رد ہو جائیں
مگر امام پہ میرا سلام زندہ رہے
زمانے بھر کا مجھے ہوش تک نہ ہوبشریٰ
تمہاری یاد کا بس ایک جام زندہ رہے

اللہ تعالیٰ الفضل کے قارئین کے دلوں کو اس حوالے سے کھولے کہ وہ مضامین لکھیں اور منظوم کلام بھی۔ کان اللّٰہ معہم و ایدہم

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

خادم ترے اہلِ زمیں تُو عبدِ شاہِ آسماں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2023