• 27 اپریل, 2024

بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعداد کی کثرت معیار میں کمی کر دیتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے ایک استاد جو بھوپال کے رہنے والے تھے، کہتے ہیں کہ: انہوں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ بھوپال کے باہر (بھوپال ہندوستان کا ایک شہر ہے) ایک پُل ہے، وہاں ایک کوڑھی پڑا ہوا ہے جو کوڑھی ہونے کے علاوہ آنکھوں سے اندھا ہے، ناک اُس کا کٹا ہوا ہے، انگلیاں اُس کی جھڑ چکی ہیں اور تمام جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے۔ مکھیاں اُس پر بھنبھنا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُسے دیکھ کر مجھے سخت کراہت آئی اور میں نے پوچھا کہ بابا تو کون ہے؟ وہ کہنے لگا کہ میں خدا ہوں۔ یہ جواب سن کر مجھ پر سخت دہشت طاری ہو گئی اور میں نے کہا کہ تم خدا ہو؟ آج تک تو تمام انبیاء دنیا میں یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین نہیں۔ ہم جو اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کرتے ہیں تو کیا اسی شکل پر؟ اُس نے کہا انبیاء جو کہتے آئے وہ ٹھیک اور درست کہتے ہیں۔ میں اصل خدا نہیں ہوں۔ میں بھوپال کے لوگوں کا خدا ہوں۔ یعنی بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں مَیں ایسا ہی سمجھا جاتا ہوں۔ یعنی ان لوگوں کی نظر میں خدا تعالیٰ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ455-456 خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس خدا تعالیٰ تو نہیں مرتا مگر جب کوئی انسان اُسے بھلا دیتا ہے تو اُس کے لحاظ سے وہ مر جاتا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو یہ بھی سمجھا دوں کہ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بس لوگ ایسے ہو گئے تو خدا نے یہ شکل اختیار کر لی اور معاملہ ختم۔ اصل میں تو یہ شکل اُن لوگوں کی اپنی ہے جنہوں نے خدا کو چھوڑا۔ جس طرح آئینہ میں اپنی تصویر نظر آتی ہے۔ اصل چیز یہی ہے اپنی شکل نظر آ رہی ہوتی ہے۔ یہ شکل جو اُس نے خواب میں دیکھی، وہ اُن لوگوں کا آئینہ تھا۔ وہ روحانی لحاظ سے کوڑھی ہو گئے اور ایسے لوگ پھر اپنے انجام کو بھی پہنچتے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا نے مر کر اُن سے کنارہ کشی نہیں کر لی۔ اللہ تعالیٰ کو ایسا سمجھنے والوں کو خدا تعالیٰ بعض دفعہ اس دنیا میں بھی سزا دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ ایک طرف ہو کے بیٹھ نہیں جاتا بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے لوگوں کوسزا دیتا ہے۔ بلکہ متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا انجام یہی بتایا ہے کہ وہ جہنم میں جانے والے ہیں جو خدا کو بھول جائیں۔ پس اس مثال سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ خدا کو چھوڑ دیا یا بے طاقت تصور کر لیا توبات ختم ہو گئی، کچھ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ بدلہ لینے والا بھی ہے، سزا دینے والا بھی ہے اور اُس کا غضب جب بھڑکتا ہے تو پھر کوئی بھی اُس کے غضب کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ پس اس لحاظ سے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ خدا کو بھول گئے اور قصہ ختم ہو گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ: عجیب بات ہے کہ ہمارے علماء حضرت عیسیٰ کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ روح پیدا نہیں کرتے جس سے اللہ تعالیٰ کا فہم اور ادراک پیدا ہو۔ ہماری اصل کوشش خدا تعالیٰ کو زندہ کرنے کی اور اُس سے زیادہ تعلق پیدا کرنے کی ہونی چاہئے۔ اگر خدا سے ہمارا زندہ تعلق ہے تو چاہے عیسیٰ کو زندہ سمجھنے والے جتنا بھی شور مچاتے رہیں، ہمارے ایمانوں میں کبھی بگاڑ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ خدا ہر قدم پر ہمیں سنبھالنے والا ہو گا۔

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد17 صفحہ456 خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس بیشک وفاتِ مسیح، ختمِ نبوت یا جودوسرے مسائل ہیں جن کا اعتقاد سے تعلق ہے اُن کا علم ہونا تو بہت ضروری ہے اور ان پر دلیل کے ساتھ قائم رہنا بھی ضروری ہے، بغیر دلیل کے نہیں، لیکن عملی اصلاح کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہو گا اور اس کے لئے وہ ذرائع اپنانے ہوں گے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے۔ ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہو گا۔ جو ہم دوسروں کو کہیں اُس کے بارے میں اپنے بھی جائزے لیں کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں جماعت احمدیہ کے جوجامعات ہیں جہاں مبلغین اور مربیان تیار ہوتے ہیں، ان میں نوجوان مربی اور مبلغ بننے کے لئے بہت سارے بچے داخل ہو رہے ہیں اور خاص طور پر پاکستان میں بڑی تعداد میں بچے جامعہ میں آتے ہیں۔ ان میں بہت کثرت سے واقفینِ نو بھی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعداد کی کثرت معیار میں کمی کر دیتی ہے اور بعض دفعہ یہ مثالیں بھی سامنے آتی ہیں کہ روحانی معیار کے حصول میں کوشش نہ کرنے، بلکہ بعض غلط عادتوں کی وجہ سے اور صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ مربی اور مبلغ کا کیا تقدس ہونا چاہئے جب ایسے لڑکے بعض حرکتیں کرتے ہیں تو پھر اُن کو جامعات سے فارغ بھی کیا جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 31؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

بیٹے کی دعا باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2023