• 27 اپریل, 2024

محترمہ محمودہ باسط مرحومہ

پیاری ہستی جس کی پیشانی پر نور اور پاؤں میں جنت تھی!
میری ماں محترمہ محمودہ باسط مرحومہ

پیاری امی جان کی پیدائش انڈیا میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام چراغ دین صاحب مرحوم اور والدہ کریم بی بی صاحبہ مرحومہ تھا۔ پچیس سال سے زائد عرصہ اپنی پوری فیملی میں سے اکیلی حیات تھیں۔ شادی سے پہلے آپ لاہور کے قریب سانگلہ ہل میں رہیں۔ انڈیا سے ہجرت کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی۔ ابوجان مولانا عبدالباسط شاہد سے شادی کے بعد آپ ربوہ آگئیں۔ ابوجان کی پاکستان میں مبلغ سلسلہ کی حیثیت سے جہاں جہاں تقرری ہوئی آپ ساتھ رہیں مثلا کراچی، ملتان، بورے والا، جہلم، لاہور اور حیدر آباد۔

جب ابو جان ایک مبلغ کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کے لئے 1966ء میں تنزانیہ افریقہ گے تو ہم جہلم سے ربوہ چلے گے۔ جہاں میری دادی اماں مرحومہ دارلرحمت وسطی میں رہتی تھیں۔ جب میرے داداجان درویش مرحوم کا قادیان سے پاکستان چکر لگا تو انہوں نے ہمارے لئے خود مکان تعمیر کیا کہ باسط کے بچے آرام سے رہیں اس طرح اپنے بڑے اباجان کو مزدوروں کے ساتھ مزدور بنے ہوئے دیکھا۔ اس وقت ان کی زبان پر اکثر دعاوٴں کے ساتھ یہ شعر پڑھتے سنا کہ:؎

لاج رکھ لینا الٰہی کوشش تعمیر کی
میں نے کچھ تنکے چُنے ہیں آ شیانے کےلئے

ساتھ ساتھ دعائیں کرتے اور اونچی آواز میں اللہ اکبر، کبھی سبحان اللّٰہ اور الحمدللّٰہ کہتے۔ آج ہم اللہ کے فضلوں کے وارث ہیں خدا کرے کہ آئندہ ہماری نسلیں بھی ان کی دعاؤں کی وارث بنیں آمین۔

اب جب کہ امی جان ہم میں نہیں رہیں ان کی زندگی پر کچھ لکھنے کا سوچا تو یہ اشعار بار بار زبان پر آئے:؎

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

یہ وہ اشعار ہیں جو میری پیاری امی جان مجھے لوری دیتے وقت سنا تی تھیں۔ پہلے دعائیں پڑھیں پھر نظمیں پڑھیں جب بھی لب پہ آتی پڑھیں تو ساتھ بتاتیں تھیں کہ یہ ہمارے اسکول کی اسمبلی میں پڑھاجاتا تھا۔ اب ایسے لگتا ہے کہ ان کی زندگی بھی کچھ اس طرح شمع کی مانند رہی ہے جس نے ہماری زندگیوں کو اجالا کیا۔ الحمدللّٰہ

دوسری بہت بچپن کی نظم جو مجھے اسکول کی عمر سے پہلے کی یاد ہے وہ درثمین سے ہے۔

؎ذکرِ خدا پہ زور دے ظلمت دل مٹائے جا
گوہر شب چراغ بن دُنیا میں جگ مگائے جا

سمجھ نہیں آرہا کہ امی جان مرحومہ کی صفات کا ذکر کہاں سے شروع کروں۔ بس ایسے لگ رہا ہے کہ یہ دونوں شعر ان کی زندگی پر بہت ٹھیک چسپاں ہورہے ہیں اور ان کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ بنی الحمدللّٰہ۔ امی جان بڑی نیک، دعا گو، نمازوں کی پابند، خدمت خلق کرنے والی،پیار دینے والی، ملنے ملانے والی،مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے والی، اس خاطر تواضع اور مہمان نوازی کے ماپنے کے لئے کوئی پیمانہ نہ مل سکا۔ گھر آنے والے مہمان کو کبھی کھانے یا پینے کے بغیر نہ جانے دیتیں۔ اس میں جلسہ سالانہ کے مہمان بھی شامل ہیں۔ جو دور و نزدیک سے جلسہ پر ربوہ آتے ان کی ہر طرح کی ضرورت کا خیال رکھتیں۔ رضائی بستر سب جلسہ سے پہلے صاف کرتیں۔ کئی مہمان تو امی جان کی صفائی کی وجہ سے بھی ہمارے ہاں ٹھہرنا پسند کرتے۔ امی جان نے اپنی تنگ دستی کا ذکر نہ کبھی گھر میں کیا اور نہ ہی باہر۔ بہت صابر و شاکر خاتون تھیں۔ پرانے کپڑوں سے نئے کپڑے بنا لیتیں اور ہم بھی عید پر نیا لباس پہن کر بے حد خوش ہوتے۔

سلائی، کڑھائی اور ہر طرح کے پکوان کی ماہر تھیں۔ بعض دفعہ تو رشتے دار یا ملنے والے فرمائش کر کے اپنی پسند کا کھانا پکواتے جس میں شامی کباب،سرسوں کا ساگ،قیمہ بند کریلے،پکوڑے اور کدو چنے کی دال شامل ہیں۔مردانہ اور زنانہ ہر ڈیزائن کا کپڑاسینا شامل ہے۔ کافی لوگوں کو یہ کام سکھائے بھی۔ گھر کے کچھ کام جو مزدورں کے کرنے والے ہوتے جیسے چھت کی لپائی یا چھوٹا موٹا پلستر کا کام خود کر لیتیں اور ہم بہن بھائی ان کاموں میں امی جان کی مدد کرتے۔ چھت کی لپائی کی چیزیں تیار رکھتیں اور یہ کام رات کو چادر اوڑھ کر کرتیں۔

ابھی تک مجھے بچپن کی ایک ایسی بات یاد ہے جس نے میرے ذہن پر بہت گہرے نقش چھوڑے وہ یہ کہ جب کبھی گرمی زیادہ ہوتی تو امی جان ہمیں کسی کے ہاں سے برف لانے کا کہتیں شاید اس لئے کہ پاس سے کام ہو جائے اور بازار نہ جانا پڑے۔ میں نے ایک مرتبہ امی جان سے کہا کہ فلاں کے ابو بھی باہر ہیں اور ان کے گھر فریج ہے ہمارے ابا بھی باہر گئے ہوئے ہیں تو ہمارے پاس فریج کیوں نہیں؟ پیاری امی جان کا جواب یہ تھا کہ آپ کے ابو جان مبلغ ہیں اور تم کیا سمجھتی ہو کہ میں حضور کے پاس جاکر ایسی بات پوچھوں جس سے حضور ناراض ہوں۔ یہ کام تو میں ہر گز نہیں کروں گی اور تم بھی دوبارہ ایسی بات مت سوچنا جس سے خلیفہٴ وقت ناراض ہو جائیں۔ کیا شاندار جواب ملا کہ وہ دن جائےاور آج کا آئے کہ نہ صرف خلیفہٴ وقت سے پیار کرنا اور اس خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا سکھا دیا اسی کی بدولت آج میں بھی اور میری اولاد در اولاد اس مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہے۔ الحمدللّٰہ

خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خواتین مبارکہ سے پیار کا تعلق تھا۔ 1978ء میں میری منگنی میرے ماموں زاد سے ہوئی۔میری چھوٹی ممانی جان جو میری ساس بھی تھیں، میری اور دو کزن انگلینڈ سے ربوہ آئے۔ جلسہ کے بعد منگنی کا پروگرام تھا ابوجان ان دنوں میں بھی افریقہ میں تھے۔ اس تقریب میں بھی امی جان نے خاندان کی چند خواتین مبارکہ کو مدعو کیا اور حضرت چھوٹی آپا اُم ِمتین صاحبہ مرحومہ نے مجھے منگنی کی انگوٹھی پہنائی۔میرے لئےیہ بہت بڑی سعادت ہے اور آج بھی میں اس بات سے فخر محسوس کرتی ہوں۔ آپا ناصرہ بیگم صاحبہ مرحومہ ہمارے پیارے موجودہ حضور کی والدہ سے بھی پیار اور عقیدت کا رشتہ تھا۔ فروری 1980ء میں میری ربوہ سے رخصتی ہوئی تب امی جان اپنے حلقہ دارالرحمت وسطی کی صدر تھیں۔ ان دنوں ان کی میٹنگز آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوتی تھیں اس طرح امی جان کا ایک اور پیارا تعلق بھی ان کے ساتھ رہا۔ الحمدللّٰہ

میری شادی فروری 1980ء میں ہوئی اس وقت کا بھی ایک یادگار واقعہ ہے۔ خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ جو مبلغین ملک سے باہر ہیں جب ان کی بیٹیوں کی شادی ہو تو مجھے بتائیں میں ان بچیوں کو خود رخصت کروں گا کیوں کہ وہ اپنے والد کی غیر موجودگی کو محسوس نہ کریں۔ جب میری شادی کا وقت آیا توحضور دورہ کیلئےربوہ سے باہر کراچی تشریف لے گئے تھے۔ امی جان کافی پریشان ہوئیں کہ اب کیا ہوگا۔ ظاہر ہے پہلی بچی کی شادی ہے۔ میاں ملک سے باہر ہیں۔۔۔۔ انگلینڈ آنے کیلئے مجھے بھی کراچی سے روانہ ہونا تھا۔ امی جان مجھے سوار کروانے آئی تھیں۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں ملاقات کیلئے درخواست دی۔ ہماری خوش قسمتی تھی ملاقات کا وقت مل گیا اور ہم مقررہ وقت پر حضور کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ جہاں باقی خواتین ملاقات کیلے انتظار کر رہی تھیں ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضور کی طرف سے پیغام ملا کہ میں نے سفر کیلئے نکلنا ہے اس لئے ملاقاتیں نہیں ہونگی صرف وہ بچی جس کی رخصتی ہو رہی ہے وہ یہاں ہی انتظار کریں۔ چند منٹ کے بعد حضور اور محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ سیڑھیوں سے نیچے آتے نظر آئے ۔ حضور نے میرے بارے پوچھا تو میں ان کے قریب چلی گئی۔ انہوں نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر رکھا دعائیں دیں اور اپنی بیگم صاحبہ سے فرمایا کہ بچی کو سلامی دے دیں۔ انہوں نے مجھے دو سو روپے سلامی دی۔ اللہ اللہ! اپنی خوش قسمتی پر آج بھی رشک آتا ہے۔ اور اپنے پیارے آقا اور بیگم صاحبہ کیلئے دعائیں نکلتی ہیں۔ حضرت منصورہ بیگم صاحبہ نے مجھے سو سو کے دو نوٹ دیے تھے۔ ایک میں نے اور دوسرا میرے میاں نے ہمیشہ اپنے والٹ میں رکھا اور ان کی دعاؤں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ خدا نے بھی بہت برکتوں سے نوازا۔ الحمدللّٰہ

امی جان ہماری دینی اور دنیاوی پڑھائی کا بہت خیال رکھتیں۔ ربوہ میں رہنے سے ہمیں دینی ماحول میسر تھا جو ہم سب کیلئے ایک نعمت عظمی تھا۔ گھر میں بچے امی جان سےصبح اور شام قرآن پڑھنے آتے، محلے کی مسجدوں سے اذان کی آوازیں آتیں تو بڑے اور بچے مسجدوں کا رخ کرتے۔ہمارے ناصرات کے مقابلہ جات ہوتے۔جب میں چھوٹی تھی تو اسلامی ہسٹری کو سمجھنا تھوڑا مشکل تھا تو امی جان ہمیں پاس بٹھا کر اونچی آواز سے پڑھتی تھیں جس سے مجھے سبق بآسانی یاد ہو جاتا۔ میرے ماشاءاللّٰہ چار بچے ہیں دوبیٹے اور دو بیٹیاں۔ چاروں کے ساتھ میرا پاکستان کا ایک چکر لگا چونکہ بچے اسکولوں میں تھے۔ ایک دو دفعہ الگ سے بھی گئی۔ امی جان نے بچوں کے ساتھ بہت پیار کیا اور ان کو پیار پیار سے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کا سمجھایا مثلا کپڑوں کی تہ کیسے لگانی ہے، برتن کیسے دھونے ہیں اور کیسے رکھنے ہیں۔

میرے کزن جو بڑی پھوپھو جان امۃ اللطیف خورشید مرحومہ کے بڑے بیٹے ہیں انہوں نے میری والدہ صاحبہ کی وفات پر جب میرے ساتھ افسوس کا اظہار کیا تو مجھے یہ بھی بتایا کہ جب ممانی جان شادی ہو کر آئیں تو میں چھوٹا بچہ تھا ممانی جان کی جو بات مجھے سب سے زیادہ یاد ہے وہ یہ کہ وہ وضو بہت اچھا کرتیں تھیں اور ہمیں ان کے بنائے ہوئے کھانے بہت پسند تھے۔

وقت گزرتا گیا اورہم بڑے ہوگئے۔ دو بہنوں کی شادی ہوگئی اس وقت امی جان کو مرکز کی طرف سےابو جان کے پاس زیمبیا بھجوا دیا گیا۔اس طرح امی جان کو وہاں بھی دین کی خدمت کا موقعہ ملتا رہا۔ ابو جان سے یہ بات بھی سنی کہ جب وہ زیمبیا رہتے تھے ان کی جگہ سے کافی دور ایک جگہ تھی جہاں سے ایک خاتون قرآن پڑھنا چاہتی تھیں۔ دور سے ان کا اس کام کیلئے آنا مشکل تھا۔ امی جان نے ان کو اپنے پاس رکھا اور چند ماہ میں ان کو قاعدہ اور قرآن کریم کا دورختم کروایا۔

جب ابو جان اور امی جان 1996ء میں انگلینڈ آئے تو ابو جان نے مرکز میں وقف عارضی کرنے کی درخواست دی جو منظور ہوگئی اور ابوجان کو لیسٹر مڈ لینڈز کی جماعت میں ایک ماہ کیلئے بھجوایا گیا اس وقت وہاں ایک چھوٹی جماعت تھی۔ امی جان کے ساتھ جانے کا یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نے بھی مبلغ کی بیوی ہونے کا حق ادا کیا۔ لجنہ کو قرآن پڑھانے اور میٹنگز میں باقی کاموں میں مدد کی۔ اس کا جماعت کو کافی فائدہ ہوا۔ ساری جماعت امی جان اور ابوجان سے بہت خوش تھے۔ لجنہ نے مرکز سے ابو جان کے وقت کو مزید بڑھانے کا پوچھا اور اس طرح امی جان اور ابوجان لیسٹر میں تین سال کا عرصہ رہے۔ اس عرصہ میں کچھ اور فیملیاں لیسٹر آگئیں اب جماعت کافی بڑی اور منظم ہو گئی۔ لیسٹر سے رخصتی کے وقت سب افراد جماعت کی آنکھیں پر نم تھیں۔

امی جان کی بہادری کی ایک مثال بھی بیان کرتی ہوں 1989ء میں امی جان کراچی بچوں کے پاس گئی تھیں جہاں سفر کے دوران ایک بہت سنگین اور دردناک حا دثہ پیش آیا جس میں امی جان کا ایک ہاتھ اور ایک پاوٴں فریکچر ہوگیا اس کے باوجود امی جان بچوں اور بڑوں کو اپنے ساتھ لگا کر یا اس ٹانگ پر بٹھا کر تسلی دیتی رہیں۔ اس وقت سب نے امی جان کے صبر اور حوصلے کی داد دی۔ ابو جان نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس بہادری پر میں نے ان کو انعام بھی دیا۔

میرے لئے میری ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور،آنکھوں میں ٹھنڈک، الفاظ میں محبت،آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت تھی۔ جماعتی خدمات میں حصہ لینے والی، نہایت سلیقہ شعار، نفاست پسند، معاملہ فہم، صلہ رحمی کرنے والی، اپنوں اور غیروں سے اپنائیت اور خلوص کا تعلق رکھنے والی خاتون تھیں۔

میں ان کی بڑی بیٹی ہونے کو بھی اپنے لئے ایک سعادت سمجھتی ہوں کہ میرے پہلی بار ماں کہنے سے وہ کتنی خوش اور نہال ہوئی ہونگی اور ان کی زندگی کے آخری روز آخری مرتبہ جو تھوڑا بہت کھایا وہ بھی میرے ہاتھوں سے کھایا۔ میں نے ویسے ہی بات کرنے کے لئے پوچھا کہ میں اتنی دیر سے آپ کے پاس ہوں مجھے بتا ئیں میں کون ہوں؟ انہوں نے میری طرف دیکھا اور نہایت نحیف آواز میں کہا مبشرہ۔ اُس وقت امی جان کے ہم سے جدا ہوتے ہوئے یہ آخری الفاظ تھے جن کی آواز ہر وقت میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ اس وقت میرے ساتھ ابو جان میری بڑی بیٹی صبیحہ اور بڑی نواسی وہاں موجود تھے۔؎

بلانے والا ہے سب سی پیارا
اسی پر اے دل تو جاں فدا کر

اللہ تعالی ہمارے ابو جان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور امی جان کی دعائیں ہمیشہ ہم سب کو پہنچتی رہیں۔ آمین

اللہ تعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے۔ آمین

امی جان نے پسماندگان میں ابوجان کے علاوہ چار بیٹیاں دو بیٹے، بیس پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اور چوبیس پڑ نواسے نواسیاں اور پڑ پوتے پڑ پوتیاں چھوڑے ہیں۔ ماشاءاللّٰہ الحمدللّٰہ

اللہ تعالیٰ میری امی جان مرحومہ کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد در اولاد کو ان کی نیکیاں اپنانے کی توفیق دے۔ ان کا خلافت اور جماعت سے اخلاص و محبت کا تعلق ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے اور بڑھاتا چلا جائے۔ آمین

تعزیت کیلئے ہماری توقع سے بڑھ کر احباب آئے پوری دنیا سے ان کے چاہنے والوں نے فون پر تعزیت کی بلکہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ یہ سب کا پیار ہماری توقع سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اللہ تعالی سب تعزیت کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے آمین۔ ابوجان اور ہم سب تعزیت کرنے والوں کے دل سے شکر گزار ہیں۔ اللہ تعالی سب کو بہترین جزا سے نوازے۔ آمین

(مبشرہ شکور بنت عبدالباسط شاہد۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

بيعت وہ ہے جس ميں کامل اطاعت کي جائے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2023