• 29 اپریل, 2024

اسلام کا فلسفہ اخلاق

اسلام کا فلسفہ اخلاق
کلام حضرت مسیح موعودؑ کے سرقہ کی ایک مثال

اسلام کے فلسفہ اخلاق کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک نہایت اہم مضمون جو آپؑ نے اپنی مشہور کتاب نسیم دعوت میں بیان فرمایا اتنا وسیع پہلو اپنے اندر رکھتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ مخالفین نے بھی آپ کے اس مضمون کو نقل کر کے اپنی کتب میں لکھا چنانچہ یہ روح پرور مضمون مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ کے صفحہ 223 اور 224 میں اول سے آخر تک نقل شدہ موجود ہے۔

اسلام کا فلسفہ اخلاق بیان کرتے ہوئے حضور اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ:
انسان کی فطرت پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مختلف قویٰ اس غرض سے دیے گئے ہیں کہ تا وہ مختلف وقتوں میں حسب تقاضا محل اور موقعہ کے ان قویٰ کو استعمال کرے۔ مثلا انسان میں منجملہ اور خلقوں کے ایک خلق بکری کی فطرت سے مشابہ ہے اور دوسرا خلق شیر کی صفت سے مشابہت رکھتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ انسان سے یہ چاہتاہے کہ وہ بکری بننے کے محل میں بکری بن جائے اور شیر بننے کے محل میں وہ شیر ہی بن جائے اور جیسا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہر وقت انسان سوتا ہی رہے یا ہروقت جاگتا ہی رہے یا ہردم کھاتا ہی رہے یا ہمیشہ کھانے سے منہ بند رکھے۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی اندرونی قوتوں میں سے صرف ایک قوت پر زور ڈال دے اور دوسری قوتیں جو خدا کی طرف سے اس کو ملی ہیں۔ اس کو لغو سمجھے۔ اگر انسان میں خدا نے ایک قوت حلم اور نرمی اور درگزر اور صبر کی رکھی ہے تو اسی خدا نے اس میں ایک قوت غضب اور خواہش انتقام کی بھی رکھی ہے۔ پس کیا مناسب ہے کہ ایک خدا داد قوت کو تو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے اور دوسری قوت کو اپنی فطرت میں سے بکلی کاٹ کر پھینک دیا جائے۔اس سے تو خدا پر اعتراض آتا ہے کہ گویا اس نے بعض قوتیں انسان کو ایسی دیں جو استعمال کے لائق نہیں۔ کیونکہ مختلف قوتیں اسی نے تو انسان میں پیدا کی ہیں۔ پس یاد رہے کہ انسان میں کوئی بھی قوت بری نہیں ہے بلکہ ان کی بد استعمالی بری ہے سوانجیل کی تعلیم نہایت ناقص ہے جس میں ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ علاوہ اس کے دعویٰ تو ایسی تعلیم کا ہے کہ ایک طرف طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیں مگر اس دعویٰ کے موافق عمل نہیں ہے مثلاً ایک پادری صاحب کو کوئی طمانچہ مارکر دیکھے کہ پھر عدالت کے ذریعہ سے وہ کیا کارروائی کرتے ہیں۔ پس تعلیم کس کام کی ہے جس پر نہ عدالتیں چل سکتی ہیں۔ نہ پادری چل سکتے ہیں۔ اصل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو حکمت اور موقعہ شناسی پر مبنی ہے مثلاً انجیل نے تو یہ کہا کہ ہر وقت تم لوگوں کے طمانچے کھاؤ اور کسی حالت میں شر کا مقابلہ نہ کرو مگر قرآن شریف اس کے مقابل پر یہ کہتا ہے

وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِی عنی اگر کوئی تمہیں دکھ پہنچاوے مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کر دو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیدا ہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے تو اس صورت میں معاف کرنا بھی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجرملے گا۔

اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا۔ سویہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم چل رہا ہے۔ رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقع گرم اور سرد غذائیں بدلتے رہتے ہیں اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں۔ پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ غرض ہر ایک وقت کہ ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے پس جو کسی رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے نہ انسان اور وہ وحشی ہے نہ مہذب۔

(نسیم دعوت صفحه71-72 طبع اول 1903ء)

(ملک قیصر محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی