• 14 مئی, 2025

سو سال قبل کا الفضل

8؍فروری 1923ء پنج شنبہ (جمعرات)
مطابق21؍ جمادی الثانی1341 ہجری

صفحہ دوم پر اخبارِ احمدیہ کے تحت جماعت احمدیہ سکندرآباد حیدرآباد کی یہ خبر شائع ہوئی:
’’16؍جنوری روز سہ شنبہ کو مولوی ثناء اللہ صاحب واردِ حیدرآباد ہو کر 18؍جنوری 1923ء روز پنج شنبہ کو سیٹھ احمد بھائی صاحب برادر سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے پاس مدعو ہوئے۔ جہاں جماعتِ احمدیہ سے کوئی چار پانچ گھنٹہ تک مباہلہ کی نسبت بقرار داد حکم احمد بھائی صاحب باقاعدہ گفتگو ہوئی۔مولوی ثناء اللہ حضرت اقدس کے مقابلہ میں اپنی کامیابی کے دلائل پیش کرتے تھے اور جناب سید بشارت احمد صاحب تردید دلائل کرتے جاتے تھے۔حتیٰ کہ اہلِ مجلس نے بالعموم یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مسیحِ موعودؑ اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے مابین کوئی مباہلہ کا ہونا ثبوت نہیں۔اس پر مولوی ثناء اللہ صاحب کھسیانے ہو کر چل دیے اوردو سرے دن اپنی تقاریرِ عام کا سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ 19؍جنوری جمعہ کو سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کی بلڈنگ سے متصل ہی ان کی ایک تقریر ہوئی جس میں بجز ہزل و استہزاء کے کوئی علمی بات نہیں کہی۔ پھر متواتر تقریریں مختلف جگہ یکے بعد دیگرے کر کے شہر میں ایک گند پھیلا دیا۔جس کو خودپبلک کا سمجھدار حصہ ناپسند کرنے لگا۔‘‘

صفحہ نمبر3 تا 4 پر اداریہ شائع ہوا ہے جودرج ذیل متفرق موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے:
1۔صداقتِ احمدیت اور پارسیوں کی کتاب دساتیر 2۔حق برزبان

ثانی الذکر موضوع کے تحت ایک نہایت دلچسپ اور اہم حوالہ پیش کیا گیا ہے جو خاکسار یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہے۔اخبار اس موضوع کے تحت لکھتاہے کہ:
’’افرادِ جماعتِ احمدیہ جب کبھی آیت یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ اجرائے نبوت و رسالت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں تو منکرینِ حق اس برہان کے اٹل پہاڑ کو رکیک تاویلوں کی بیمار انگلیوں سے گرانے کی کوشش کیا کرتے ہیں لیکن اس آیت سے متعلق یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ فرقہ اہلِ حدیث کے مولانا ’’شمس محمدی‘‘ کی ادارت میں جو رسالہ اہل الذکر فیض آباد سے شائع ہوتا ہے اس کے پرچہ ربیع الاول 1340ھ کے صفحہ12،11 پر آیت ھٰذا کو جو ترجمہ اور مطلب بیان ہوا ہے وہ بیّن شہادت ہے کہ حق اپنی طاقت سے آخر دلوں پر چھا جاتا ہے اور زبان و قلم پر ضاوی و جاری ہو کر رہتا ہے اور آہستہ آہستہ ضرور دماغوں میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ گو ظاہر میں کیسا ہی انکار کیا جائےمگر سچائی اندر ہی اندر دلوں میں گھر کرتی جاتی ہے۔جس طرح وفاتِ مسیحؑ کی بحث سے علماء نیم جان ہو چکے ہیں بالآخر مسئلہ نبوت کے سلسلہ میں بھی حق کے آگے سر جھکنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ اہل الذکر کا مضمون مندرجہ ذیل بھی پکار پکار کر اس کی شہادت دیتا ہے۔‘‘

بعدازاں اخبار الفضل نے مذکورہ بالا اخبار کا درج ذیل حوالہ اس بارہ میں شائع کیا ہے:
’’لازم ہے کہ انسان اپنے مبدءکا خیال رکھے اور پانے لیے جو سامانِ قدرت دیکھتا ہے ان سے سبق لے اور بہکانے والوں کے بہکاوے میں نہ آوے اور پھر سب سے زیادہ اپنے انجام کی فکر اور ان سب باتوں کے لیے اس بھولنے والے غافل انسان کو ضرورت ہے کہ اس مربی کائنات کی طرف سے پیغامات آویں اور ان پیغامات کو پہنچانے والے بھی آویں۔

چنانچہ فرمایا یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اے بنی آدم تم میں تمہاری جنس سے رسول آتے رہیں گے جو تم کو میری آیات سناتے رہیں گے۔ پس جو ڈرا اور اپنے کو سنوارا (ایسے لوگوں کے لیے وعدہ ہے کہ) نہ ان پر خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

سبحان اللّٰہ! کس حسنِ ترتیب سے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ اس کی شانِ ادا پر دل قربان کر دیا جائے اور جان نثار کر دی جائے۔ لباس کا تذکرہ پھر لباس کی صلاحیت کا بیان۔ اس کے بعد مغویوں کی شرارتوں پر تنبیہ۔ پھر اس کے بعد انجام اور موت کی یاددہانی اور ان سب ضرورتوں کے پورا کرنے کے ذمہ دار اپنے پیغامبروں کی آمد کا ذکر اور ان رسولوں کی خدمات اور کارہائے متعلقہ میں سے آیات ونشانات و دلائلِ ربانیہ کے سنانے اور سمجھانے کا حامل بیان فرما کر پھر ان پر جو نتیجہ مترتب ہوتا ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کا مآل (کہ جو ان کو مان لیں اور اپنی اصلاح کر لیں) بھی بتا دیا کہ نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ کسی طرح یہ لوگ غمگین ہوں گے۔‘‘

(رسالہ اہل الذکر فیض آباد ربیع الاول1340ھ صفحہ11-12)

صفحہ 4 پر ’’آریہ مسافر سے ایک حل طلب سوال‘‘ کے عنوان سے مولوی اللہ دتہ صاحب جالندھری متعلم مدرسہ احمدیہ قادیان (مولانا ابوالعطا صاحب) کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔

صفحہ5 اور 6 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 2؍فروری 1923ء شائع ہوا ہے۔ اس خطبہ میں حضورؓ نے پہلی مرتبہ احمدی خواتین کو برلن مسجد کی تعمیر کی تحریک فرمائی۔

صفحہ7 پر ایک مضمون زیرِ عنوان ’’اخبار پیغام اور ہم پر تقلیدِ بابیت کا الزام‘‘ شائع ہوا ہے۔ اخبار لکھتا ہے:
’’جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے وکیل لاہور اور ان کے رفقاء میں سے ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہمارا سیدنا حضرت محمدﷺ کے بعد امتِ محمدیہ میں بابِ نبوت کو مفتوح یقین کرنا بتقلیدِ عقائدِ بابیہ ہے۔کیونکہ وہ بھی بابِ نبوت کو مفتوح جانتے ہیں۔‘‘

چناچہ اس اعتراض کا جواب مذکورہ مضمون میں مفصل دیا گیا ہے۔

صفحہ8 اور 9 پر حضرت مصلح موعودؓ کا ایک خطاب شائع ہوا ہے۔ یہ خطاب ’’جلسہ مستورات میں حضرت خلیفة المسیح ثانی ایدہ اللہ کی تقریر برائے چندہ مسجد برلن (جرمنی)‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس خطاب کے آغاز میں حضورؓ نے فرمایا:
’’جیسا کہ ہماری بہنوں کو معلوم ہو گیا ہو گا میں نے اس جگہ تمام مستورات کو جمع کیا ہے کہ مسجد برلن کے لیے چندہ کی تحریک کی جاوے۔ لڑائی یعنی جنگ سے پہلے ملک جرمنی کو یہاں کی زیادہ عورتیں نہ جانتی تھیں۔ مگر اب ہر ایک کے منہ پر جرمنی کا لفظ سنائی دیتا ہےکیونکہ ان کی لڑائی ہر ایک یورپ کے ملک سے ہو گئی تھی۔ اس لیے معلوم ہو کہ اب ہم نے اس ملک جرمن میں تبلیغ شروع کی ہے۔ دیکھو یہ دنیا کا نقشہ ہے (اس موقع پر آپ نے نقشۂ دنیا کھول کر اس میں سے اس ملک پر انگلی رکھی) اس میں یہ ملک ہندوستان ہے اور یہ یورپ۔ دیکھو یورپ کا ملک ہمارے ملک سے بہت چھوٹا ہے اور اب اسی ملک کے لوگ ہم لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ اپنی عقل اور دانشمندی کی وجہ سے یہ لوگ بہت تیز و ہوشیار ہیں۔ فرانس، امریکہ،انگلستان وغیرہ ان سب سے جرمنی کا مقابلہ اور لڑائی تھی۔ روپیہ بہت خرچ ہو گیا۔ اس واسطے اب اس ملک کی یہ حالت ہے کہ ایک روٹی تین سو روپے کو آتی ہے اور اس ملک کے پندرہ ہزار روپے ہمارے ملک ہندوستان کے ایک روپے میں مل جاتا ہے اور روٹی اس قدر مہنگی ہے کہ مثلاً وہاں کے ایک شخص نے اعلان کیا کہ ہمیں برتن مانجنے کے لیے ایک ملازمہ چاہیے تو دوہزار عورتوں نے درخواستیں دیں جن میں ایک شہزادی بھی تھی اور وہ ایسی ذلیل ترین ملازمت پر راضی تھی۔ تو اس ملک کی بہت تنگ حالت ہے۔ایسی حالت میں ہم کو وہاں تبلیغ کی ضرورت پیش آئی۔ اس لیے کہ قاعدہ ہے کہ جو شخص بہت آرام اور راحت کی زندگی بسر کرے اور عیش و عشرت میں سے مصیبت آجائے، اس کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ ضرور عیاش تھے مگر ان کی خراب حالت کے ساتھ ہی ان کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف ہو سکتی ہے۔کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ اگر اسے روحانی تکلیف ہے تو وہ عموماً اللہ تعالیٰ کی جانب جھکتا ہے چنانچہ مولوی مبارک علی صاحب کا ایک خط بھی آیا ہے جس مین وہ لکھتے ہیں کہ یہاں کے بازار میں جو شخص نہایت دبلا پتلا اور آنکھیں اندر گھسی ہوئیں چلتا نظر آئے جس کے چہرے پر گوشت پوست نہ ہو وہ یہاں کے کسی کالج کا پروفیسر ہوتا ہے۔ غرضیکہ بہت تکلیف اور تنگی میں انسان خدا کی طرف توجہ کرتا ہے۔اس لیے اب ان لوگوں کی توجہ اسلام کی طرف ضرور ہو گی۔ گو یہ حالت ان لوگوں کی عارضی ہے کیونکہ وہ بہت ہوشیار ہیں اور اپنی حالت کو جلد تر اپنی دانشمندی اور سمجھداری سے سدھار لیں گے۔وہ انگریزوں سے بھی زیادہ علم والے ہیں۔اگر اسلام جیسے سچے مذہب کی طرف ان کی توجہ ہو گئی تو اسلام کو بہت مدد ملے گی اور اگر وہ اسلام کا بازو بن گئے تو بہت ہی مفید ثابت ہو گا۔ اول تو یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ جرمنی کے ملک میں اسلام پھیلایا جاوے۔ دوسری ضرورت یہ بھی ہے کہ حضرت مسیحِ موعودؑ کا الہام اور پیشگوئی بھی ہے کہ رو س مسلمان ہو گا۔اب دیکھو نقشۂ دنیا میں سے معلوم ہوتا ہے کہ روس کا ملک بھی اس ملک کے ساتھ لگا ہوا ہے۔‘‘

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل link ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19230208.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

کیوں نہ جائیں ہم ان سب پے قرباں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی