• 29 اپریل, 2024

اللہ کی ڈور سے بندھے ڈوری کے لوگ

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خاکسار کو ڈوری کے علاقہ میں تین سال سے زائد عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔اس دوران جہاں مخلص حضرات کے اخلاص وفا کے نظارے دیکھنے کو ملے وہاں ان کی عقیدت وپختہ ایمان کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا غریب افراد جماعت جن کے پاس کوئی باقاعدہ روزگار نہیں تھا، لیکن جب بھی کوئی جماعتی پروگرام ہوتا تو بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ان کو دیکھ کر رشک آتا کہ یہ لوگ کیسے اس صحرائی علاقہ میں اخلاص میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ کی مثالیں دوبارہ قائم کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون میں ان لوگوں کے اخلاص ووفا، ایمان کی پختگی اور توکل علی اللہ کے بعض واقعات پیش کیے جائیں گے۔چنانچہ سب سے پہلا واقعہ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زبان مبارک سے پیش خدمت ہے:
’’برکینا فاسو سے مبارک منیر صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ Peygou جماعت کے ایک مخلص احمدی الحاج ابراہیم کے دو بچے کچھ عرصہ سے بیمار تھے۔کافی علاج کروایا لیکن بہتری نہیں ہورہی تھی۔ایک دن ہمارے معلم صاحب نے انہیں مالی قربانی کی تحریک کی۔ تو انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیااور دعا کی کہ اے اللہ! میری قربانی کو قبول فرما اور میری اولاد کو جلد صحت یاب کردے۔کہتے ہیں کہ چند دن بعد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان بچوں کی حالت کافی حد تک بہتر ہونے لگی۔ایک بچہ تو بالکل ٹھیک ہوگیا ہے اور دوسرے بچے میں کافی حد تک بہتری ہے۔ان کو بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو قبول فرماتے ہوئے یہ برکت عطاء فرمائی۔‘‘

(خطبہ جمعہ موٴرخہ 9؍نومبر 2018ء)

ہر مذہب کی ابتداء میں بہت سے لوگ ایمان لے آتے ہیں لیکن سچے اور کھرے کی تمیز اس وقت ہوتی ہے جب قربانی دینی پڑے خواہ وہ قربانی مالی ہو، جسمانی ہو یا وقت کی ہو، بہت سے لوگ ایسے مواقعوں پر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ایسے ہی جماعت احمدیہ میں بھی افراد جماعت کااخلاص اس وقت نکھر کر سامنے آتا ہے جب لوگ مالی قربانی کر کے اپنے گھرو ں اور کاروبار کا ہرج کر کے جلسہ سالانہ پر جاتے ہیں۔چنانچہ ڈوری ریجن سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں افراد جماعت جلسہ سالانہ کے لیے ڈوری سے دارالحکومت واگا ڈوگو جاتے ہیں۔ ان میں کئی بہت غریب ہونے کے باوجود جلسہ سالانہ کے لیے خاص اہتمام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ خاص ہی سلوک کرتا ہے۔ ان کے لیے غیب سے سفرکے اخرجات کے انتظامات کر دیتا ہے۔

مہدی آباد کے افراد جماعت خاص طور پر اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر سال صرف مہدی آباد سے ہی ڈیڑھ سو سےزائد افراد جلسہ سالانہ کے لیے آتے تھے۔ایک سے زائد بس صرف مہدی آباد سے ہی ہوتی تھی اور وہ بس کھچا کھچ بھری ہوتی تھی جس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ہر ماں کے ساتھ دو دو بچے، مرد کھڑے ہوتے تھے۔یہ سب قربانی مسیح پاک کی محبت اور الٰہی سلسلہ کے لیے ہی کی جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ الہام کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء کئی رنگوں میں پورا ہوتا نظر آتا تھا۔

خاکسار نے ڈوری میں مشاہدہ کیا کہ کئی افراد جماعت جو انتہائی غریب تھے، جلسہ پر جانے کے لیے کئی ماہ پہلے سے ہی ہر جمعہ پر تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کروانے شروع کر دیتے۔ان میں ڈوری شہر کے ایک مخلص احمدی یاترا اکمد (Yattara Akmud) ہیں،ان کا کوئی باقاعدہ روزگار نہیں تھالیکن محنت مزدوری کر کےیہ ہر جلسہ اور ہر اجتماع پر جانے کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔ایک دفعہ مشن تشریف لائے اور کہا کہ اس دفعہ میرے پاس کرایہ کے لیے مکمل پیسے نہیں ہیں لیکن خواہش ضرور ہے کہ جلسہ پر جاؤں، اس لیے اگر آپ میری مدد کر دیں تو میں واپس آکر بقایا پیسے دے دوں گا۔چنانچہ ہم جلسہ پر گئے اور خاکسار بالکل بھول گیا کہ انہوں نے کوئی قرض لیا تھا۔ کچھ مہینوں کے بعد جمعہ پر ملے تو خاکسارکو پیسے دیے کہ یہ آپ کے پیسے ہیں، خاکسار بہت حیران ہوا کہ میرے کونسے پیسے ہیں۔ اس پر انہوں نے یاد دلایا کہ جلسہ کے موقع پر انہوں نے قرض لیا تھا۔

2016ء میں خدام الاحمدیہ برکینا فاسو کے سالانہ اجتماع پر پروگرام بنایا گیا کہ تمام ریجنز سے خدام سائیکلوں پردارالحکومت پہنچیں۔ چنانچہ خدام کی ایک بڑی تعداد ڈوری سے بھی سائیکلوں پر 268کلومیٹر کا سفر طے کر کے واگا ڈوگوپہنچے۔جن سائیکلوں پر خدام پہنچے ان کی حالت دیکھنے والی تھی۔ کسی بھی سائیکل کی کوئی بریک نہیں تھی۔ٹائیروں پر ٹاکیاں باندھی ہوئی تھیں، گدیاں پھٹی ہوئیں، انتہائی پرانے سائیکل لیکن جذبہ بھرپور تھا۔یہ جوش اور جذبہ کس نے پیدا کیا، یہ سب اسی خدا کی پیدا کی ہوئی محبت والفت تھی جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں رہنے والے لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی۔ جنھوں نے سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تھی۔اس پیروی سے جو انقلاب صحابہ میں پیدا ہوا اس کے آثار اب مسیح و مہدی امام وقت کے ماننے والوں میں بھی نظر آتے ہیں۔

ڈوری کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخلص جماعت ہے اوریہ لوگ شریعت کے احکامات پر بڑی دلجمعی اور سختی سے عمل کرنے والے ہیں۔ڈوری سےچند کلومیٹر دور ایک گاؤں Korea کوریا ہے وہاں ایک مخلص احمدی رہتے تھے جن کو الحاجی کوریا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کے پاس بہت سےجانور تھے۔چنانچہ وہ مخلص احمدی ہر سال باقاعدگی سے جانوروں کی زکوٰة نکالتے اور آکر رسید کٹواتے اور پھر اس کے علاوہ فصل پر بھی ہر سال زکوٰة دیتے۔اس طرح ہر سال صرف ان کی طرف سے ہی تین لاکھ فرانک کے قریب زکوٰة دی جاتی۔یہ ان کا اخلاص ہی تھا جو کہ وہ اپنے گاؤں میں غیر احمدی حضرات اور فیملی کی مخالفت کے باوجود مشن باقاعدگی سے جمعہ پڑھنے آتے اورمالی قربانی بھی کرتے۔

اس طرح ڈوری سے تقریباًتیس کلومیٹر دور ایک گاؤں ٹوکا (Touka) میں مخلص احمدی جیالو ابوبکر رہتے تھے۔ پورے گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر تھا۔شدید مخالفت تھی۔یہ ہر جمعہ ڈوری شہر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ یہ جمعہ پر اتنی باقاعدگی سے آتے تھے کہ اگر وہ نہ آئیں تو ضرور فکر لاحق ہوتی کہ ضرور کوئی مسئلہ ہوا ہوگا جس کی وجہ سے وہ جمعہ پر نہیں آسکے۔پورے گاؤں میں اکیلا احمدی گھر ہونے کی وجہ سے ان کی بھی شدید مخالفت تھی۔گاؤں کا مولوی بہت برا بھلا کہتا رہتا تھااور کافی دباؤ ڈالتا تھا کہ احمدیت چھوڑ دو اور ہماری مسجد میں میری اقتدا میں نماز پڑھو۔لیکن یہ مخلص احمدی اپنے گھر میں الگ فیملی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور مشکل حالات کے باوجود اپنے عہد پر قائم تھے۔ایک دفعہ خاکسار اس گاؤں کے دورے پر گیا تو مختلف غیر احمدی حضرات کو ملنے بھی گیا۔ اس طرح راستہ میں جاتے ہوئے غیر احمدی مسجد کے سامنے سے گزرے تو وہاں کے امام نے خاکسار کو بلا یا اور کہا کہ سارا گاؤں میرے پیچھے نماز پڑھتا ہے لیکن ابوبکر اور اس کے گھر والے میرے پیچھے کیوں نماز نہیں پڑھتے اور اس کے علاوہ بھی برا بھلاکہا۔اس پر خاکسار نے جواب دیا کہ اگر کوئی تمہارے باپ کو گالیا ں دے کیا تم اس کے پیچھے نماز پڑھو گے؟اللہ تعالیٰ نےوقت کے امام کو بھیج دیا ہے اور تم لوگ اس کی مخالفت اور بد زبانی بھی کرتے ہو تو کیسے تمہارے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نماز تو اللہ تعالیٰ کے لیے پڑھی جاتی اور اس نے ہی قبول کرنی ہے جب اس کے فرستادہ کو ہی نہیں مان رہے تو تمہارے پیچھے نماز پڑھ کر تو ضائع کرنے والی ہی بات ہے۔اس پر وہ کہتا جاؤ جاؤ یہاں سے چلے جاؤاور ہم وہاں سے آگئے۔

ڈوری شہر میں جماعت کے مشن ہاؤس کے چوکیدارجن کا نام عبدالحئ تھااور یہ نئے احمدی تھے لیکن جتنی جلدی انہوں نےاخلاص میں ترقی کی ہے اس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔خاکسار کا جب ڈوری تبادلہ ہوا تواپنے چوکیدار کے ساتھ اکثر ڈوری کے بازار جانے کا موقع ملتا۔خاکسار یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مشن کے چوکیدار پورے شہر میں احمدیہ کے نام سے مشہور تھے۔شروع میں تو خاکسار نے سمجھا کہ شاید ویسے ہی کسی نے دیکھ کر آواز لگائی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے چوکیدار کو بلاتے ہی احمدیہ کے نام سے ہیں اور ان کے اصل نام کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ عبدالحئی انتہائی ایماندار شخص تھا۔ خاکسار تین سال ڈوری میں رہا اور سارا مہینہ جماعتی اور ذاتی اخراجات عبدالحئی کے ذریعہ ہی ہوتے۔ ہمیشہ ایک ایک روپے کا حساب رکھتا۔ کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ پیسے ختم ہونے پر اپنی جیب سے پیسے خرچ کرتا رہتا اور جب ہم پیسوں کا حساب کرتے اس وقت بتاتا کہ جماعتی پیسے ختم ہوگئےتھے اس لیے میں نے ذاتی پیسے لگائے ہیں۔ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ حساب کرتے ہوئے یہ واضح نہیں ہوا کہ کتنے پیسے رہتے ہیں تو عبدالحئی نے خود کہا آپ میرے طرف ہی زائد پیسے رکھیں کیونکہ یہ نہ ہو کہ چند پیسوں کے لیے میرے پر سے اعتماد ختم ہوجائے۔عبدالحئی میں بہت سی خصوصیات تھیں، میں نےدیکھا کہ بعض دفعہ جب اس کے مالی حالات خراب ہوتے تو یہ کئی کئی دن روزے رکھتا، راتوں کو نوافل پڑھتا اور کثرت سےقرآن مجید پڑھتا۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود ایسے ایمان والے کم لوگ ہی ہوتے ہیں۔ تبلیغ کا جوش بہت تھا۔ اکثر ہمارے معلمین کی تقاریر سن سن کر حوالے یاد کر لیے تھے چنانچہ بعض دفعہ ایسے ایسے جواب دیتا کہ حیرانی ہوتی۔

ایسے ہی ایک مخلص احمدی ڈیکو حمیدو نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ وہ سوناڈھونڈنے کا کام کرتے تھے۔ اسی پر گزر بسر تھی۔بعض دفعہ بہت دنوں کی محنت شاقہ کے بعد بھی سونا نہیں ملتا تھا۔اسی طرح کچھ مہینوں سے ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔سونا نہیں مل رہا تھا۔بے انتہا محنت کے باوجود کچھ عرصہ سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔اسی اثناء میں معلم صاحب کی طرف سے جلسہ سالانہ پر جانے کی تحریک کی گئی۔اس پر ان کا کہناتھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی سبب بنا دیا تو ضرور جاؤں گا۔ جلسہ سالانہ میں تین دن رہ گئے تھے کہ ان کوسونا مل گیا جس کی مالیت تقریباً ایک لاکھ فرانک تھی۔ چنانچہ یہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ جلسہ پر گئےاور اپنا موٹر سائیکل بھی ٹھیک کروایا جو کہ کچھ عرصہ سے خراب تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جلسہ سے واپس آکر بھی وہی صورت حال ہوگئی کہ کافی عرصہ تک پھر سونا نہیں ملا۔ ان کے لیے یہ ایک معجزہ تھا کہ جب الٰہی سلسلہ کا کام تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے پیسو ں کا انتظام کر دیا اور انہیں جلسہ میں شمولیت کی توفیق مل گئی۔لیکن اس کے بعد وہی صورت حال پیدا ہوگئی۔

اسی طرح ایک اور مخلص احمدی جن کا نام عمرتھا، نے بیان کیا کہ جلسہ سالانہ2018ء کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔چنانچہ انہوں نے اپنے بھائی جو کہ مالی میں کام کرتے تھے اور ان کا کاروبار بھی سونا ڈھونڈنا تھا، کو فون کیا کہ میری مدد کریں کیونکہ میں جلسہ پر جانا چاہتا ہوں۔اس پر ان کے بھائی نے کہا کہ میں اس وقت کام کے لیے جارہا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میرے پاس کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں،اس لیے میں آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔چنانچہ عمر صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر سے کچھ جانوروں کا چارہ وغیرہ بیچا اور جلسہ میں شمولیت اختیار کی۔جب جلسہ سے واپس آئے تو ان کو ان کے بھائی جو کہ مالی میں تھے، کا فون آیا کہ جیساکہ تم نے مدد مانگی تھی اور اس وقت میرے پاس کوئی پیسے نہیں تھے۔ لیکن الحمدللّٰہ اب مجھے سونا مل گیا ہے چنانچہ میں کچھ پیسے بھیج رہا ہوں تاکہ اس سے موٹر سائیکل خریدسکو۔ چنانچہ انہوں نے پانچ لاکھ فرانک سیفا بھیجے جس سے انہوں نے موٹر سائیکل بھی خریدا اور باقی کام بھی کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جلسہ کی برکات ہی تھیں جس سے اللہ نے اس پر فضل کیا۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک

خلیفہ وقت کی دعاؤں سے پانی کا مسئلہ حل ہوگیا

ریجن ڈوری میں سیبا (seba) کے علاقہ کی طرف ایک گاؤں وینڈے علی(wende ali) ہے۔ ہمارے معلم صاحب کا کہنا ہے کہ میں دورہ پر گیا تو گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ تقریباً 30سالوں سے ہم پانی نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔دس سے زائد دفعہ بور کیا گیا ہے لیکن پانی نہیں نکلتا جس کی وجہ سے شد ید پریشانی کا سامنا ہے۔ معلم صاحب نے ان کو توجہ دلائی کہ خلیفۃ وقت کو خط لکھیں ان شاء اللّٰہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا اور پانی نکل آئے گا۔اس پر گاؤں والوں نے حضور کو خط لکھا کہ دعا کریں کہ ہمارے گاؤں میں پانی نکل آئے۔ چنانچہ اس کے بعد دوبارہ پانی کی تلاش کی گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی مقدار میں پانی نکل آیا۔ اور پانی کا مسئلہ جو کہ ایک لمبا عرصہ سے چلا آرہا تھا،وہ ختم ہوگیا۔ گاؤں میں احمدی افراد کے علاوہ غیر احمدی افراد بھی بہت خوش تھے اور سب کا برملا کہنا تھا کہ ان کا مسئلہ خلیفہ وقت کو خط لکھنے کے بعد ہی حل ہوا اور خلیفہ وقت کی دعاؤں سے ان کے گاؤں میں پانی نکل آیا۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک

ریجن ڈوری کی ایک جماعت گورم گورم کے ممبر احمد ورمگالے نے خاکسار سے ذکر کیا کہ وہ ریجن ڈوری میں موجود سونے کی کان میں عام سے مزدور تھے۔اور بہت سی مشکلات میں گھرے رہتے تھے،مالی حالات بھی کوئی اچھے نہ تھے۔چنانچہ ہمارے معلم صاحب کی بار بار کی نصیحت پر انہوں نے چندہ دینا شروع کردیا۔چنانچہ اس سال انھو ں نے خود دیکھا کہ چندہ کی برکت سے ان کے حالات اچانک تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے دفتر میں ترقی مل گئی اور افسر بن گئے، اس کے ساتھ ان کی تنخواہ میں بھی بے شمار اضافہ ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں ان کی زندگی بہت خوشحال ہوگئی اور اب انہوں نے اپنی ذاتی گاڑی بھی خرید لی۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید کاروبار بھی شروع کر دیے اور ڈوری شہر میں ایک اور گھر بھی بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں ا تنی ترقی کی ہے کہ و صیت بھی کر لی۔

ریجن ڈوری کی ایک جماعت اوروبانگابے (OROBANGABY) کے افراد بیان کرتے تھے کہ پہلے وہ چندہ بہت کم دیتے تھے۔لیکن مشنری کی بار بار کی نصیحت سے انہوں نے چندہ دینا شروع کردیا۔چنانچہ ایک سال پہلے تک ان کی طرف سے ٹوٹل زکوٰۃ 125000فرانک سیفا آتی تھی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے بعد میں ایسا فضل کیا کہ اگلے سال ان کی فصل میں اتنی برکت پڑی اور اتنی اچھی فصل ہوئی کہ تین لا کھ فرانک سیفا زکوٰۃ دی۔ چنانچہ اس بات نے ان کے اپنے ایمان میں بھی بے شمار اضافہ کیا اور ان کا جماعت کے ساتھ تعلق دن بدن بڑھتا چلا گیا۔

یہ چند مثالیں پیش کی گئیں جن سےان کے حالات و واقعات کا آسانی سے پتہ چل سکتا ہے۔ان کے ایمان میں اتنی تبدیلی پیدا ہونا جبکہ انہوں نے امام مہدی کو ملے تک نہیں صرف ان تک نام اور تصویر پہنچی نیز ان کی زبانیں بھی مختلف ہونا یہاں تک کہ جنہیں فرنچ زبان بھی نہ آتی ہو او ر اس کے باوجود جماعت کے ساتھ اتنے تھوڑے عرصہ میں مضبوط تعلق بن جا نا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ یہ تب تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کےدل نہ بدلیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈوری علاقہ کے احمدی سارے افریقہ کے لیے نموبہ بن جائیں اور آنے والی نسلیں ان کی مثالیں دیں اور سبق سیکھیں۔آمین

(مبارک احمد منیر۔ نمائندہ الفضل برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی