• 29 اپریل, 2024

فقہی کارنر

نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا

حضرت مفتی محمد صادق ؓ تحریر کرتے ہیں:
ہندوستان میں عموماً مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ نماز کے اندر تکبیر اولیٰ کے بعد اور سلام پھیرنے سے قبل سوائے مسنون دعاؤں کے جو عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور کوئی دعا اپنی زبان اُردو یا فارسی یا انگریزی وغیرہ میں کرنا جائز نہیں ہے اور عموماً لوگوں کی عادت ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد پھر ہاتھ اُٹھا کر اپنی زبان میں دُعائیں کرتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہا فرمایا:
’’نماز کے اندر سجدہ یا رکوع کے بعد کھڑے ہو کر یا کسی دوسرے موقعہ پر مسنون دعا کہنے کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے کیونکہ اپنی زبان میں ہی انسان اچھی طرح اپنے جذبات اور دلی جوش کا اظہار کر سکتا ہے‘‘ کسی نے عرض کی کہ مولوی لوگ تو کہتے ہیں کہ نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔

فرمایا:
’’اُن کی نماز تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ دعا خواہ کسی زبان میں کی جائے۔ اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔‘‘

فرمایا:
’’جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُن کی مثال اُس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور تخت کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوائی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اُسے پڑھ کر سلام کر کے چلا آیا اور دربار سے باہر آ کر شاہی محل کے باہر کھڑے ہو کر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے۔ اُسے چاہئے تھا عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا‘‘۔ فرمایا ’’ایسے لوگوں کی مثال جو نماز میں دعا نہیں کرتے اور نماز کے خا تمہ کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُس شخص کی طرح ہے جس نے اکّے کی چوٹی کو اُلٹا کر زمین پر رکھا اور پیے (پہیئے۔ناقل) اُوپر کی طرف ہو گئے اور پھر گھوڑے کو چلایا کہ اُس اکّے کو کھینچے۔‘‘

(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ صفحہ197-198)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ ٹوگو 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2023