آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 76
مرکب صفات
Compound Adjectives
مرکب صفات پر تفصیلی بحث جاری ہے۔ اس سبق کا پہلا لاحقہ ہے فروش۔ اس لاحقے سے مل کر بننے والی مرکب صفات کو جاننے سے قبل ہم اس لفظ کے اپنے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
فروش: اس کے معنی ہیں بیچنے والا، سودا کرنے والا۔ یہ بطور لاحقہ مرکبات یعنی compounds میں آخری حصہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں کسی بھی قابل فروخت شے کے ساتھ اگر فروش لگا دیں تو یہ ایک پیشے کا نام بن جاتا ہے، جیسے پارچہ فروش یعنی کپڑے کا کاروبار کرنے والے، عطر فروش یعنی خوش بوئیں، عطر، پرفیوم وغیرہ کا کاروبار کرنے والا، سر فروش یعنی بہادر، جان کی پرواہ نہ کرنے والا اس ضمن میں ظہیر کاشمیری کا یہ شعر ملاحظہ ہو؎
عشق اک حکایت ہے سرفروش دنیا کی
ہجر اک مسافت ہے بے نگار صحرا کی
یعنی عشق ایک ایسی دنیا کی داستان ہے جہاں صرف جان کی پرواہ نہ کرنے والے بستے ہیں اور ہجر یعنی محبوب سے دوری گویا ایک ایسے صحرا کا سفر ہے جہاں کوئی زینت، آرائش اور نقوشِ راہ نہیں۔
سبزی فروش، پھل فروش، بَردہ فروش یعنی انسانوں، غلاموں، کنیزوں کا کا روبار کرنے والا Human-trafficker، ضمیر فروش یعنی ایمان بیچنے والا، دنیا کے لالچ میں جھوٹ کی تائید کرنے والا، اسے خود فروش بھی کہا جاتا ہےdishonest/ treacherous
گیر: یہ بھی بطور ایک لاحقہ استعمال ہوتا ہے اور فتح کرنا، غالب آجانا، قابو پالینا وغیرہ کے معنی دیتا ہے۔ اس کی مدد سے بننے والی صفات کی چند مثالیں پیش ہیں۔ عالمگیر یعنی دنیا میں یا دور دور تک پھیلنے والاinternational/ world-wide/ universal۔ جہاں گیر یعنی حاکم، عالم، دنیا کو فتح کرنے والا۔ راہگیر یعنی وہ شخص جو کسی راستے سے گزرے، مسافر۔ ماہی گیر یعنی مچھلیاں پکڑنے والا، مچھیرا Fisher۔ رسّہ گیریعنی مویشی چُرانے والا Rustler ملک گیر یعنی ملک بھر میں nationally۔ دلگیر یعنی مغموم، اداس کسی صدمے یا دکھ کا دل پر غالب آجانا، گلوگیر یعنی گلے میں کسی شے کا پھنس جانا،غم یا جذبات سے گلے سے رونے کی کیفیت جیسی آواز نکلنا۔ دامن گیر یعنی وہ خیال یا جذبہ جس سے انسان کسی طرح بھی پیچھا نہ چھڑا پائے، ایک خلش، ادھورا ارادہ وغیرہ۔ گرہ گیر یعنی بل کھایا ہوا، پیچیدہ complicated/ curled۔
خوار یا خور: بطور لاحقہ جب استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں کھانے پینے والا۔ اس کی مدد سے بننے والی صفات کی چند مثالیں پیش ہیں۔
حرام خور یعنی ناجائز طریقوں سے دولت کمانے والا، دھوکا دینے والا وغیرہ Unfaithful/ dishonest/ depending/ corrupt۔ چغل خور یعنی بری نیت سے کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنے والا، موجودہ زمانے میں تو یہ برائی حکمرانوں میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر قوموں کے حکمران فوائد حاصل کرنے کے لئے امیر ممالک کے حکمرانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے کے لئے یہ حکمت عملی استعمال کررہے ہیں۔ غوطہ خور یعنی پانی میں ارداۃً ڈبکی لگانے والا۔ پیشہ ورانہ ضرورت کے لئے تہِ آب جانے والا۔ مفت خور بنیادی طور پر اس کے معنی ہیں ایسا شخص جسے اپنی عزت نفس کا پاس نہ ہو یعنی وہ خوددار نہ ہو اور کوشش کرتا ہو کہ ہر کام بنا محنت اور معاوضے کے ہوجائے۔ سادہ الفاظ میں ایسا شخص جو ہر چیز بنا قیمت کے حاصل کرنا چاہتا ہو۔ عام طور پر یہ عادت نشہ کے عادی، کام سے جی چرانے والوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تربیت کا نہ ہونا، کمزور صحت، بری صحبت کا شکار ہوجانا وغیرہ ہوتا ہے۔ تاہم ہمیں ایسے لوگوں سے مہربانی اور دلنواز ی سے پیش آنا چاہیئے اس طرح اکثر لوگ اس بحران سے نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اصحاب صفہؓ، اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشاق صحابہؓ کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادوں کے منہ کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہر دم ان کے در پر حاضر رہتے ہیں کیونکہ ایسے مخلصین کے بارے میں بھی بعض اوقات لوگ بد ظنی کرتے ہوئے انہیں نعوذ باللہ مفت خورے سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ اصحاب صفہؓ کی مثالیں جماعت احمدیہ میں آج بھی موجود ہیں کیونکہ شمع خلافت روشن ہے اور اس کے گرد عشاق آج بھی پروانوں کی مانند موجود رہتے ہیں۔ خونخوار اس لفظ کے سادہ معنی تو ہیں خون پینے والا اور درندوں کے لئے یہ انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم جب انسانوں کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اس کا معنی ہوتا ہے ظالم، بے رحم بآسانی انسانوں کو قتل کردینے والا یا کروادینے والاblood-thirsty/ murderer/ cruel۔ میخوار یعنی شرابی، کثرت سے شراب پینے والا تاہم ادبی تحریرات اور شاعری میں اس کے مختلف معنی بھی کیے جاتے ہیں جیسے علم، عرفان یا معرفت کے حصول کا انتہا درجے کا شوقین، عاشق، طالب وغیرہ۔ حضرت مصلح الموعودؓ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں: ؎
ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی میخوار بھی ہو
ہے وہ بے پردہ کوئی طالب دیدار بھی ہو
(کلام محمود نظم 55 صفحہ 102)
یعنی خدا تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک جام یا پیالے کی طرح حسنِ معرفت، علم وعرفان اور سچائیوں سے بھر دیا ہے۔ بس ضرورت ایک ایسے شخص کی ہے جو کسی عادی شرابی کی طرح حسن عرفان کی اس شراب کو پیتا جائے۔ دوسری طرف خدا تعالیٰ اپنی تخلیقات میں ایک بے پردہ حسین کی طرح جھلک رہا ہے مگر اس کے دیدار کی شرط علم ومعرفت کے حصول کی انتہائی تڑپ ہے۔ سادہ الفاظ میں ایک حقیقی طالب علم اور تحقیقات کا شوق رکھنے والا ہی خدا تعالیٰ کی تخلیقات کے ذریعے اس کے حسن کو مشاہدہ کرسکتا ہے۔
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ؓ شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں:
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کی حدیث بھی جوامع الکلم میں سے ہے اور اسی وجہ سے بعض علماء نے اس کو ایک تہائی اسلام قرار دیا ہے اور بعض نے ایک تہائی علم کا اور اما م بخاریؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بڑھ کر پُر حکمت، پُر معانی اور کوئی حدیث نہیں (فتح الباری جزء اول صفحہ14) بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دین کی ساری ماہیت اس جملہ میں کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور یہ جملہ درحقیقت بطور اس اصل الاصول کے ہے کہ جس سے انسان کو حیوان سے امتیاز حاصل ہوتا ہے اور جس کی بناء پر انسان کے طبعی افعال دائرہ اخلاق میں داخل ہوکر انسان کو ذمہ وار اور اعمال کی جواب دہ ہستی بنادیتے ہیں اور شریعت کی تمام پابندیاں اس پر عائد ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اس حدیث کی تھوڑی سی وضاحت کرنی از بس ضروری معلوم ہوتی ہے تا کہ اس کا تعلق اس باب سے اور نیز اس کتاب کے مضمون سے پورے طور پر واضح ہوجائے۔
1۔ علماء اسلام نے فعل اور عمل کے درمیان یہ فرق بتلایا ہے کہ فعل طبعی حرکت کو کہتے ہیں جس میں نیت کا دخل نہیں اور عمل وہ فعل ہے جس میں نیت کا دخل ہو جو بالارادہ قصداً کیا جائے۔ جس کے کرنے پر انسان کا طبعی فعل اچھا یا برا کہلاتا ہے اور اس لئے وہ انعام یا سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ اس تعریف کو مدنظر رکھ کر اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کا یہ مفہوم ہوگا کہ طبعی افعال کو عملی یا اخلاقی حیثیت نیتوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ ان معنوں کے اعتبار سے بالنیات میں (ب) سببیہ ہے۔
(صحیح البخاری جلد1 صفحہ3 کتاب بدء الوحی)
اہم نکات
- انسان یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ ایک کام ارادۃً کرے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے وہ دیگر حیوانات سے مختلف ہے۔
- قصداً کام کرنے کی صلاحیت نے ہی انسان کو اپنے کاموں کے لئے جواب دہ اور ذمہ دار بنایا ہے۔ اسی وجہ سے اسے اپنے کاموں پر انعام یا سزا ملتی ہے۔
- طبعی افعال کو عملی یا اخلاقی حیثیت نیتوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔
اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی
جوامع الکلم: وہ کلام جن میں الفاظ تھوڑے اور مطالب بہت ہوں، مطلب بہت زیادہ نکلیںShort rich, significant expressions
ایک تہائی: کسی چیز کے تین برابر حصوں میں سے ایک 3/1۔
پُر حکمت: یعنی معنوں سے بھرا ہوا Full of wisdom and philosophy
پُر معانی: جس میں سے عقل و حکمت، علم و معرفت کے کئی اصول نکلتے ہوں۔
دین کی ماہیت: دین کی حقیقت، اصلیت اور کیفیت essence of religion of Islam
کوٹ کر بھرنا: بہت زیادہ ہونا، اتنا بھر دینا کہ کوئی جگہ خالی نہ رہ جائے۔
اصل الاصول: خلاصہ، علت غائی، بنیادی اصول Fundamental principle
طبعی افعال: وہ کام جنہیں انسانی جسم، دماغ وغیرہ قدرتی اور فطرتی طور پر خودبخود انجام دیتے ہیں۔ اس میں اچھے برے کی کوئی بحث نہیں ہوتی کیونکہ ان کاموں میں انسان کا ارادہ اس طرح سے شامل نہیں ہوتا جیسے وہ اخلاقیات میں ہوتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا، ہضم کرنا، اولاد کی پیدائش کا سلسلہ اور عمل وغیرہ۔
دائرہ اخلاق: وہ دائرہ جس میں داخل ہوکر اعمال مذہبی تعلیمات کی روشنی میں دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ یعنی یا وہ نیکی ہوتے ہیں یا بدی۔ مثلاً کھانا ایک فطری عمل ہے مگر جان بوجھ کر، نیت کرکے کسی کی مال دھوکے سے چھین کر یا لوٹ کر کھانا ایک بدی ہے۔ یعنی وہ کھانا جو ایک فطری عمل ہے جب حرام اور ناجائز طریق سے حاصل کی گیا ہو تو فطری عمل نہیں رہتا بلکہ وہ دائرہ اخلاق میں داخل ہوجاتا ہے۔
ذمہ وار، جواب دہ: پس فطری یا قدرتی عمل پر انسان جواب دہ یا جزا سزا کا مستحق نہیں ہے۔ مثلاً پیاس لگنے پر پانی پینا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن شراب پینے کی اسلام میں مناہی ہونے کے باعث اس کا پینا گناہ بن گیا اور اس کو پینے والا اپنے عمل پر جواب دہ ہے۔
ازبس: بہت زیادہ، نہایتExtremely
(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)