• 13 مئی, 2025

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

یاد رفتگان
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

کوئی موسم یاد کا موسم نہیں ہوتا۔ تنہا ئی ہو تو ماضی کی یادوں کی فلم سی چلنے لگتی ہے۔ ابھی تو میرے ساتھی کو بچھڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ساٹھ سالہ رفاقت کے شب و روز پل پل یاد آتے ہیں۔میری شادی بھی ایک دلچسپ واقعہ تھی۔ ہم کھاریاں میں رہتے تھے یہ بڑا شہر نہیں ہے۔ پہلے اس میں لڑکیوں کاسکول صرف میٹرک تک تھا مزید تعلیم کے لئے کسی دوسرے بڑے شہر جانا پڑتا تھا۔ اس لئے میری بڑی بہنوں نے قریب ترین شہر گجرات جا کر ہوسٹل میں رہ کر بی اے تک تعلیم حاصل کی جب میں نے میٹرک پاس کرلیا تو مجھے آگے پڑھنے کے لئے ربوہ بھیجنے کا فیصلہ ہوا کیونکہ میرے بڑے بھائی جان مکرم ڈاکٹر ضیاءالدین (مرحوم )فضل عمر ہسپتال میں خدمات بجا لا رہے تھے۔ جب میں ربوہ آئی تو مجھے بخار ہوگیا۔ بھائی جان نے محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب مرحوم سے ذکر کیا اور دعا کے لئے کہا کہ داخلہ لینے آئی ہے مگر بیمار ہوگئی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنی بہن کو نرسنگ میں لائلپور میں داخل کروا دیں ہمیں نرس کی بہت ضرورت ہے۔ بھائی جان حضور کے بعد میاں صاحب کی بات کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ مجھے کہنے لگے جامعہ نصرت نہیں نرسنگ کالج لائلپور میں داخلہ لے لو۔ میاں صاحب کا فرمان ہے اور میں انکار نہیں کر سکتا۔ تم تیار ہوجاؤ تمہیں لائلپور جانا ہے۔ میں نے کہا مجھے نرسنگ پسند نہیں میں نے نہیں جانا۔ لیکن وہ کسی صورت میری بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور اپنی امی کو خط لکھا کہ مجھے واپس بلا لیں۔ چنانچہ انہوں نے بھائی جان کو خط لکھا کہ اسے فوراً واپس بھیج دیں اس طرح میں واپس چلی گئی۔ داخلے کا وقت نکل گیا۔ خیال تھا اگلے سال داخلہ لے لوں گی مگر داخلے سے پہلے میرے لئے مولوی صاحب کا رشتہ آگیا۔ بات پکی ہوگئی۔ میں پڑھنا چاہتی تھی لیکن بڑوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ نکاح کر دیا جائے۔ دسمبر کے جلسے کے دن تھے۔ جلسے کے تین دن گزرنے کے بعد نکاح کا فیصلہ کیا گیا۔ بھائی جان نے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کو ظہر کی نماز بعد نکاح پڑھانے کی درخواست کی۔ میرے لئے یہ فیصلہ بہت اچانک تھا۔ ابھی شادی کا سوچا بھی نہ تھا۔ بھائی جان نے تسلی دی کہ ابھی نکاح ہی ہوگا رخصتی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد کریں گے۔ مگر نکاح کے بعد کون ٹھہرتا ہے۔ میرے خسر صاحب کے اصرار پر جلد رخصتی کا بھی فیصلہ ہوگیا اور یوں جنوری میں شادی کے بندھن میں بندھ گئی۔ میں الہڑ سی کھلنڈری سی لڑکی تھی۔ عمر بھی کم تھی کھیل کود میں وقت گزارنا پسند تھا مگر جو شوہر ملے وہ مربی بن کر فیلڈ میں کام کر رہے تھے۔ ابھی ٹھیک سے مانوس بھی نہ ہوئی تھی کہ شادی کے کچھ دن بعد ان کی تقرری باندھی سندھ ہوگئی اور ہم دونوں گھر سے بہت دور سندھ آگئے۔ وہاں بہت بڑا گھر تھا جو کہ حاجی عبدالرحمٰن کے بھائی حاجی عبد الستار صاحب کا تھا۔ وہ خود نواب شاہ میں رہتے تھے۔میں بھرے گھر سے گئی تھی۔ مجھے تنہائی سے وحشت ہونے لگی۔ یہ تو اپنے کام پہ چلے جاتے تھے اور میں اکیلی بیٹھ کر روتی رہتی تھی۔ کچھ دن بعد مجھے کہنے لگے کہ میں دورے پہ جا رہا ہوں اور حاجی صاحب کی چھوٹی بیٹی تمہارے پاس آکر رہے گی۔ میں نے کہا مجھے بہت ڈر لگتا ہے، گھر اتنا بڑا ہے اور بجلی بھی نہیں ہے تو کہنے لگے ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام والی قربانی دینی ہے۔ انہوں نے جنگل میں اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ ا تھا یہاں پر تو بہت اونچی دیواریں ہیں، گھبراؤ نہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ انہوں نے کچھ اس انداز سے سمجھایا کہ ڈر ختم ہوگیا اور یہ سمجھانا پھر ساری زندگی ساتھ رہا۔

یہ میری شادی شدہ زندگی کی شروعات تھیں۔ ہماری طبیعتوں میں بہت اختلاف تھا۔ زمانے کے نشیب و فراز سے نا آشنا تھی۔ میرے خدا نے ہی مجھے سنبھالا۔ واقف زندگی کی بیوی ہونے کی وجہ سے زندگی کے طور طریق عام لوگوں سے مختلف تھے۔ مجھے اس ماحول میں ڈھلنے میں ان کی نرم مزاجی نے بہت ساتھ دیا۔ یہ میری بہت سی بیوقوفیوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ میری خواہشوں کو پورا کرتے مجھے گھر کی اور کچن کی چیزوں کا شوق تھا۔ میں نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا لیکن اندازہ ہو گیا تھا اس لئے جہاں بھی جاتے کچھ نہ کچھ میری پسند کی چیزیں لے کر آتے۔ ایک اور بات جو مجھے بہت اچھی لگتی میرے لباس اور رکھ رکھاؤ کی بہت تعریف کرتے تھے۔ میرے کاموں میں دخل اندازی نہ کرتے کوئی خریداری کرتی تو کبھی مجھے نہیں پوچھا کہ یہ چیز کہاں سے لی تھی کتنے کی لی تھی اگر کسی کو تحفہ دینا چاہتی تو بھی نہ پوچھتے کتنے کا لیا ہے کس کو دیا ہے۔ میرے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کا بہت احترام کرتے تھے۔ جب بھی کوئی آتا تو بہت خوش ہوتے اور خوب تواضع کرتے تھے۔ ہمارے گھر تو اکثر مہمانوں کا میلہ لگا ہی رہتا تھا۔ اللہ تعالی کی ذات پر بہت توکل تھا۔ اگر کوئی پروگرام بناتے اور وہ کسی وجہ سے رہ جاتا تو ملال نہ کرتے بلکہ کہتے کہ اسی میں کوئی بہتری ہوگی۔

ان کی بڑی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ خلافت کے دل و جان سے وفا دار تھے اور ہر معاملے میں خلیفہ وقت کی اطاعت کرتے۔ یہی ایمان تھا کہ جو بات خلیفہ کی دور بین نظر دیکھ سکتی ہے وہ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ جہاں تک وہ دیکھ سکتے ہیں ہماری سوچ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی اور جو بھی حکم ملے بلا چون و چرا اس پہ عمل کرو کہ اسی میں برکت ہے۔

اسی فیصلے میں بہتری ہے۔ جہاں بھی بطور مربی تبدیلی ہوئی فوراً تیار ہوجاتے تھے اور کبھی کوئی عذر یا پس و پیش نہیں کیا۔ فوراً جگہ چھوڑ دیتے اور مجھے بھی سمجھاتے کہ اسی میں برکت ہے۔ ہر کام میں دعا اور مشورے کے لئے لکھتے تھے۔اگر مجھے فوراً تبدیلی میں تردد ہوتا تو سمجھاتے ہمیشہ کے لئے تو نہیں جا رہے وہاں سے بھی تبدیلی ہو جائے گی۔ اس لئے خوشی سے تیاری کرو۔ سلسلہ کے متعلق ادنیٰ سا شکوہ بھی نہ سنتے تھے۔ خاندان مسیح موعودؑ سے بہت عقیدت رکھتے تھےخلافت سے بہت وفا کا تعلق تھا اور خلفائے کرام کا بے حد احترام تھا۔ گھر میں بھی اور باہر بھی ان کے سامنے کسی کی مجال نہیں تھی کہ سلسلہ پہ کوئی اعتراض کر سکے۔۔

طبیعت میں مزاح تھا اس لئے عام گفتگو بھی پر لطف ہوتی ہر بات میں کوئی نہ کوئی چٹکلہ چھوڑ دیتے۔ میری سہیلیوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہم چار پانچ سہیلیوں کا ایک گروپ تھا۔ ہم اکثر کسی ایک کے گھر میں کچھ دنوں میں اکٹھی ہوتی تھیں۔ کبھی ون ڈش کر لیتے اور کبھی اچانک ایک ساتھ ہلہ بول دیتے۔ ایک بار ہمارے گھر بھی سب خواتین اچانک آگئیں۔ مولوی صاحب نماز کے لئے جا رہے تھے۔ ان خواتین میں سے ایک نے کہا میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ کہنے لگے میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں آ کر سنوں گا اور پنجابی میں کہا کہ ’’تسی کہیڑا چھیتی ٹر جانا ہے‘‘ (آپ نے بھی کون سا جلدی چلے جانا ہے)۔

ان کے اس جواب پہ سب بہت محظوظ ہوئیں۔ اسی طرح اپنی بیٹیوں، بیٹوں اور ان کے دوستوں سے بھی بہت شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ بچوں کو بھی عزت سے بلاتے تھے۔ مذاق مذاق میں نصیحت کی بات کہہ دیتے۔

مالی قربانی میں ہاتھ کھلا تھا اپنی توفیق سے بڑھ کر چندے دیتے تھے۔ غرباء پرور تھے۔

ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ان دنوں ہم کراچی میں تھے جب ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ وہاں تشریف لائے۔ حضور نے کچھ رقم مولوی صاحب کو دی کہ اپنے پاس رکھیں اور حضرت بیگم صاحبہ جب بھی کسی چیز کا پیغام بھجوائیں تو ان کو منگوادیں اور بیگم صاحبہ کو بھی بتا دیا۔ چنانچہ اس پر عمل ہوتا رہا۔ جس دن حضور کی کراچی سے روانگی تھی۔ انہوں نے وہی رقم جو حضور نے دی تھی یہ کہہ کر واپس کرنے کی کوشش کی کہ معمولی رقم خرچ ہوئی ہے اور یہ سعادت مجھے حاصل کرنے دیں۔ حضور نے فرمایا ’’سلطان میں تو تمہیں عقلمند آدمی سمجھتا تھا یہ کیا؟ یہ رقم اپنے پاس رکھو تم میرے بینک ہو۔‘‘ مولانا صاحب اس بات کو بہت یاد کرتے تھے اور کہتے تھے ان پیسوں کی برکت سے میں کبھی خالی ہاتھ نہیں ہوا۔ وہ میرے لئے بینک کا کام ہی کرتے ہیں۔

مولانا صاحب کو تقریر کا ملکہ تو تھا ہی اس لئے بات کرنے کا انداز بھی بہت موثر ہوتا تھا۔ شروع زمانے سے بہت مناظرے ہوتے تھے ہمیشہ مخالف فریق کو لا جواب کر دیتے تھے۔ میری ایک عزیز سہیلی جو لاہور میں تھیں انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ ان کے شوہر نے اپنے گھر میں کافی بڑی مجلس کا اہتمام کیا جس میں کئی غیر از جماعت نامور لوگوں کو بلایا ہوا تھا جو جماعت کے متعلق سوالات کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے مولانا صاحب کو مرکز سے بلایا گیا۔ ان خاتون کے شوہر بہت فکر مند تھے کہ سب پروگرام ٹھیک ہوجائے اور کوئی شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ جب مجلس شروع ہوئی تو لوگوں نے سوالات کرنے چاہے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ میں پہلے اپنی جماعت کا تعارف کروا دوں پھر آپ جو چاہے سوال کریں۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا صاحب نے اتنے اچھے رنگ میں جماعت کا تعارف کروایا کہ سب کہنے لگے کہ ہمارے سوالوں کے جواب ہمیں مل گئے ہیں اس طرح خوش اسلوبی سے یہ مجلس برخواست ہوئی۔

ایک واقعہ بنگلہ دیش جلسہ کا ہے۔ اس جلسے کے لئے مرکزی نمائندہ کے طور پر ان کا انتخاب ہوا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں جماعت کی مخالفت بہت زوروں پر تھی۔ کسی ایک جگہ جلسے کے دوران مخالفین ڈنڈے اٹھائے ہوئے بڑی تعداد میں جلسے کے شاملین پر حملہ کرنے کے لئے آگئے۔ مولانا صاحب نے بتایا کہ میں نے خدا کے حضور فریاد کی کہ اے اللہ! میں ہر معاملہ میں خلیفہ کو دعا کے لئے کہتا ہوں جس کے ساتھ تیرا دعائیں قبول کرنے کا وعدہ ہے۔ اس وقت وہ بہت دور ہیں اور میں ان تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا۔ ان کا واسطہ دے کر دعا کرتا ہوں کہ اس ہجوم کو تو ہی قابو کر اور جماعت کی حفاظت فرما۔ (مجھے پورا واقعہ تو یاد نہیں) ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے میری دعا سنی اور کسی بات پر وہ ہجوم منتشر ہوگیا اور جلسہ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا۔ الحمدللّٰہ

مولانا صاحب کو خلیفہ وقت کی دعا پر پورا یقین ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہمارا بیٹا سلمان جب نو مہینے کا تھا تو اس کو گردن توڑ بخار یا شاید سرسام ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یہ تیز بخار میں تھا۔ میں اس کو ڈاکٹر محمودہ نذیر (مرحومہ) کے کلینک پہ لے گئی۔ ابھی کلینک میں داخل ہوئی تھی کہ اس کی گردن اکڑ گئی اور آنکھیں اوپر چڑھ گئیں۔ بچہ میری گود میں ہی تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کو لے کر بیڈ پہ لٹا دیا اور کہنے لگیں آپ کے اٹھانے سے اس کو آرام نہیں مل رہا بلکہ زیادہ تکلیف ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ بھی فکر مند نظر آرہی تھیں، میں بھی رو رہی تھی، مولانا صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو فون بُک کرایا (اس وقت ڈائریکٹ فون کی سہولت نہیں تھی اور کال بک کروانی پڑتی تھی)۔ جب فون ملا تو حضرت بیگم صاحبہ نے فون اٹھایا تو بتایا کہ حضور تو نماز کے لئے مسجد تشریف لے گئے ہیں۔ آپ پیغام دے دیں میں پہنچادوں گی۔ مولانا صاحب نے بچے کی کیفیت بتائی اوردعا کی درخواست کی۔ اتنے میں حضور تشریف لے آئے تو کہنے لگیں ٹھہریں حضور آگئے ہیں۔ انہوں نے حضور سے بات کی تو آپ نے فرمایا ’’بچہ ان شاءاللّٰہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ مولانا صاحب فون پہ بات ختم کرتے ہی واپس کلینک پہنچے تو ڈاکٹر صاحبہ کمرے سے باہر پریشان کھڑی تھیں، ان کو دیکھ کر کہنے لگیں کہ مجھے خوشی تھی کہ یہ بچہ میرے کلینک میں پیدا ہوا تھا، آپ اس کو دیکھ کر مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھیں گے لیکن اب دکھ ہے کہ یہ میرے ہی کلینک میں جا رہا ہے اور میں کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ کہنے لگے کہ میں تو ابھی حضور سے بات کر کے آیا ہوں اور انہوں نے فرمایا ہے کہ بچہ ان شاءاللّٰہ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ سن کر وہ ڈاکٹر صاحبہ بھاگتی ہوئیں کمرے میں آئیں اور بچے کو دیکھا۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ جب گردن کو ہلایا تو وہ جو کچھ دیر پہلے تک اکڑی ہوئی تھی آرام سے دائیں بائیں مڑ گئی۔ کہنے لگیں بچہ تو ٹھیک ہوگیا ہے اور بخار بھی اب اتر جائے گا۔ یوں خلیفۂ وقت کی دعا سے خدا تعالیٰ نے اس بچے کو صحت اور زندگی عطا فرمائی۔

مولانا صاحب نماز کے خود بھی پابند تھے اور بچوں کو بھی پابندی کرواتے تھے نمازوں میں کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایک نماز کے بعد دوسری کی فکر ہوتی تھی۔ گھر میں نماز کے وقت اگر کوئی مرد مہمان آجاتا تو اس کو بھی کہتے کہ چلو پہلے نماز پڑھ آئیں۔ بعض اوقات عجیب بھی لگتا تھا کہ کوئی تھوڑا سا وقت نکال کر آیا ہے اور اس کو آتے ہی یا مسجد ساتھ لے جاتے یا گھر میں باجماعت کا موقع ہوتا تو شامل کر لیتے۔ کہا کرتے تھے کہ کسی کو نماز کے لئے کہنے میں کوئی شرم محسوس کرنے والی بات نہیں ہے۔ نماز کا وقت ہے تو ہر ایک کو احساس ہونا چاہئے کہ نماز پڑھنی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم سے بھی بے حد محبت تھی۔ بہت خوش الحانی سے تلاوت کیا کرتے تھے۔ بچوں کو بھی صبح فجر کے بعد تلاوت قرآن کریم کی تلقین کرتے رہتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ گھر میں قرآن کی تعلیم پر عمل بھی ہو۔ اپنا معمول تھا کہ کم سے کم ایک پارہ روز تلاوت کرتے تھے اور ایک مہینے میں ایک دور مکمل کر لیتے تھے۔ آخری بیماری میں بھی جب خود قرآن کریم پڑھنا مشکل تھا مجھے سنا کہ قرآن پڑھ رہی ہوں تو مجھے کہا کہ مجھے بھی دو میں نے پڑھنا ہے۔ میں نے دیا لیکن وہ پڑھ نہیں سکے اور مجھے واپس کر دیا تو میں نے پوچھا کہ میں پڑھ کر سنا دوں؟ تو کہنے لگے ہاں ضرور! میں نے سورت رحمٰن پڑھ کر سنائی تو بہت خوش ہوئے۔ ہر وقت درود شریف اور دعاؤں کا ورد کرتے رہتے تھے۔ بیماری کے دوران جب ہسپتال میں داخل تھے بے ہوشی کی سی کیفیت میں بھی ہونٹ ہلتے رہتے تھے جیسے کچھ پڑھ رہے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ ان کا معمول کیا تھا تو ان کو بتایا کہ یہ ہر وقت دعائیں اور درود شریف پڑھتے رہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر بے حد توکل تھا۔ ہر کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ جو بھی ہوگا اسی میں بہتری ہوگی۔ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ربوہ کے ایک صاحب نے مجھے فون کیا کہ میرا پتے کا آپریشن ہونا ہے۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ میں مولانا صاحب کو دعا کے لئے کہا کرتا تھا۔ اب وہ تو ہیں نہیں لیکن آپ ان کی ساتھی ہیں اس لئے آپ سے دعا کی درخواست کر رہا ہوں۔ میں نے کچھ دن گزرنے کے بعد ان کا حال پوچھنے کے لئے فون کیا تو کہنے لگے آپریشن نہیں ہوا۔ ڈاکٹر صاحب چھٹی پہ چلے گئے اور آپریشن کی تاریخ آگے کرنی پڑی۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ میں مطمئن ہوں اس لئے کہ مولانا صاحب نے یہ بات مجھے سکھائی تھی کہ جب کوئی کام ہوجائے تو شکر ادا کرو اور نہ ہو تو زیادہ شکر ادا کرو کہ اس میں کوئی بہتری اور خدا کی حکمت ہوگی۔ اس وقت با وجود تکلیف میں ہونے کے انہیں شکر کرنے کا سبق یاد تھا۔ کچھ عرصے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ان کا آپریشن ہوگیا ہے اور وہ ٹھیک بھی ہیں الحمد للّٰہ

گھر کے ملازمین کے ساتھ بہت شفقت کا سلوک کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ یہ غریب لوگ ہیں ان کے دل بھی نازک ہوتے ہیں ان کے ساتھ زیادہ شفقت سے پیش آنا چاہئے۔ میرے پاس اکثر کوئی نہ کوئی بچی ہوتی تھی جو ہمارے ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ یہ بچیاں گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ مجھ سے قرآن کریم بھی پڑھتیں جو بھی بچی ہوتی اس کو ہمیشہ بیٹی کہہ کر ہی پکارتے تھے۔ کبھی ملازمہ نہیں سمجھا۔ نہ صرف شفقت کا سلوک تھا بلکہ کہا کرتے تھے کہ میں ہمیشہ ان بچیوں کے لئے دعا بھی کرتا ہوں۔ ان کی وفات کے بعد کئی بچیوں نے کہا یہ مولانا صاحب کی دعائیں ہی ہیں جو ہمارے کام آرہی ہیں اور ہم اپنے گھروں میں اللہ کے فضل سے خوش اور آباد ہیں۔ ایک ملازمہ نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ جب میں امریکہ گئی ہوئی تھی اور مولوی صاحب گھر میں اکیلے تھے تو میں نے سوچا کہ ہمارے باپ کی طرح ہیں اس لئے میں نے کہا کہ میں آپ کے گھر کا کام (صفائی اور کھانا وغیرہ) آکر کر دیا کروں گی تو کہنے لگے کہ نہیں اس کی ضرورت نہیں میں ٹھیک ہوں میری بیگم واپس آئیں گی توکام پہ آجانا۔ انہوں نے اپنے آرام پر شریعت کے حکم کو ترجیح دی کہ جہاں ایک مرد اور عورت ہوں وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

ان کو جب بھی کوئی دعا کے لئے کہتا تھا تو نام لے کر خصوصی دعا کیا کرتے تھے ہم ایک بار جلسے کے لئے لندن گئے ہوئے تھےوہاں۔ کوئٹہ کی ایک بہن سے (جو اب لندن میں ہیں) ملاقات ہوئی۔ مولانا صاحب کو مل کر بہت پریشانی کا اظہار کیا کہ بیٹے کو کوئی نوکری نہیں مل رہی۔ جہاں بھی درخواست دیتا ہے مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔دو دن کے بعد پھر ایک جگہ انٹرویو ہے اس لئے آپ خصوصی دعا کریں۔ انہوں نے اس بچے کا نام وغیرہ لے لیا اور بہت دعا کرتے رہے۔ دو تین دن کے بعد وہ خاتون ملنے آئیں کہ اللہ کے فضل سے بیٹے کو جاب مل گئی ہے۔ الحمدللّٰہ

قبولیت دعا کے واقعات تو بے شمار ہیں لیکن تحریر میں لانا مشکل ہے۔

جماعت کی خدمت کو سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ گھر میں بالکل محسوس نہ ہوتا کہ کئی اہم کام ان کے سپرد ہیں رازداری بھی رکھتے۔ میرا رشتہ ایسا تھا کہ ظاہرو باطن ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو سمجھتی تھی میں پورے وثوق سے آپ کی بے نظیر اطاعت خلافت کی گواہ ہوں اور دعا گو ہوں کہ آگے آل اولاد میں نسلوں تک اطاعت کا یہ جذبہ سلامت رکھے میری درخواست ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

آپ کی وفات پر جماعت کے احباب نے کثرت سے بڑی محبت اور خلوص سے آپ کو یاد کیا اور ہمیں بے شمار تعزیتی پیغام ’’فون‘‘ واٹس ایپ میسیج اور خطوط موصول ہوئے۔ اس کے لئے شکر گزار ہوں اور اس مشکل وقت میں ساتھ دینے پر سب کے لئے جزائے خیر کی دعا کرتی ہوں۔ سب پیغام تو نہیں لکھ سکتی تاہم ایک سادہ سا بے تکلف اظہار تعلق نے بہت متاٴثر کیا من و عن پیش ہے:
’’مولوی صاحب ایک نہایت ہی بزرگ اور شفیق ہستی تھے خاکسار کو بہت چھوٹی عمر سے آپ کے گھر بطور خادمہ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں نے مولوی صاحب کو تہجد اور نماز باجماعت کا پابند دیکھا قرآن پاک بہت اچھی آواز میں پڑھتے اور بہت پڑھتے گھر میں ٹی وی پر بے کار پروگرام لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ جماعتی کاموں میں مصروف رہتے۔ لوگوں کے مسائل ہمدردی سے سنتے اور حل کرنے کی کوشش کرتے دھیمی طبیعت تھی جو ملتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ آپ کی بیگم صاحبہ آپ کا بہت خیال رکھتیں آخری بیماری میں جان ڈال کر خدمت کی اللہ انہیں بہت جزا دے مولوی صاحب کے جانے سے لگا جیسے اپنے ابا رخصت ہو گئے ہوں۔ اللہ اونچی جنت عطا فرمائے‘‘ آمِیْن اللّٰھُمَّ آمِیْن

(محمودہ شوکت اہلیہ سلطان محمود انور)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی