• 30 اپریل, 2024

سقراط کو جمہوریت سے کیوں نفرت تھی ؟

بیشتر مغربی دنیا کے لوگ اور اسی سوچ سے متاثرہ باقی دنیا بھی جمہوریت کے گن گاتی نہیں تھکتی اور اس کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی تہذیب، جہاں جمہوریت نے جنم لیا، کے بھی بے حد معترف اور دلدادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یونانی دیوی پارتھنن کی خانقاہ جمہوری قدروں کی پاسداری کی علامت مانی جاتی ہے۔ اسی لئے دنیا کے اکثر جمہوری لیڈر اس خانقاہ کے آثار کے ساتھ اپنی تصویر بنوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ جان کر اکثرجمہوریت کے حامی لوگوں کو شدید دھچکا لگے گا کہ یونانی فلاسفروں میں چوٹی کے فلاسفر جمہوریت کے خلاف تھے۔یونانی فلسفے کا بانی سمجھا جانے والا مشہور زمانہ فلسفی، افلاطون اپنی کتاب ‘‘دی ریپبلک’’ کی جلد 6 میں سقراط کے ایک فرضی کردار سے مکالمے کے بارے میں لکھا ہے۔ جس میں سقراط جمہوری نظام پر شدید نقطہ چینی کرتے ہوئے ایک بحری جہاز کی مثال دیتے ہوئےسوال کرتا ہے کہ اس جہاز کا کپتان کون ہونا چاہیے ؟ کوئی بھی!یا پھر کوئی ایسا شخص جو اس کام کا تجربہ رکھتا ہو اور اس میں تربیت یافتہ بھی ہو ؟پھر ہم یہ کیوں مان لیتے ہیں کہ کوئی بھی چاہے کتنا بھی نا سمجھ اور بے شعور ہو، اسے بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے اپنے ملک کی حکومت چلانے کا اختیار دے دے ؟ سقراط کہتا تھا حکومت بنانے کے لئے ووٹ دینا کوئی عام سا بے تکاغیر اہم سا حق نہیں جو ہر کسی کو بغیرکسی سمجھ بوجھ کے دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ تعلیم اور تربیت دینا ضروری ہے ورنہ یہ اسی طرح ہوگا جیسے کسی بھی غیر تربیت یافتہ نا تجربہ کار شخص کو جہاز کا کپتان بنا دیا جائے اور اس سے امید رکھی جا ئے کہ وہ جہاز کو مسافروں سمیت با حفاظت اور وقت پر اپنی منزل مقصود تک پہنچا دے گا۔ بعد ازاں سقراط کو خود بھی اسی جمہوری نظام کے دردناک ترین تجربے سے گزرنا پڑا جب اسے اپنےہی خلاف یونانی نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے الزام میں ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں 500 افرد کی ایک جیوری میں بہت معمولی فرق کے ساتھ اسے اس الزام میں زہر کا پیالہ پینے کی سزا سنا دی گئی۔سقراط اس بات کا شدید مخالف تھا کہ شعور نہ رکھنے والے نا سمجھ لوگوں کو ووٹ دینے کا حق دیا جا ئے۔ وہ صرف باشعور اورمعاشرتی مسائل پر گہری نظر اور سوچ رکھنے والوں کو یہ حق دینے کا حامی تھا جو اس بات کا بھی تعین کریں کہ حکومت کے چلانے کے لئے کس قسم کی تعلیم و تربیت اور تجربہ درکار ہونا چاہیے اور اس کے لئے اہل لوگوں کی نیک نامی اور سابقہ عوامی خدمات کا کوئی مستند تصدیق شدہ ریکارڈ ہونا کتنا ضروری ہے۔

جمہوریت کے حامی در اصل یہ نہیں جانتے کہ در اصل اس نظام کی اصل روح سے بالکل نا واقف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ جمہوریت کے نام پر سامراجی نظام کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں، جس بات کا ڈر اس کے بانی یونانی فلسفیوں کوبھی تھا، کہ تربیت یافتہ تجربہ کار، اچھے اور با شعور افراد کی جگہ وہ مفاد پرست لوگ صرف زبانی دعوےکر کے اور سبز باغ دکھا کر اپنی ہی عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے بعد صرف اپنےذاتی فوائد کی خاطرالیکشن جیت کرحکمران بن بیٹھتے ہیں اور جاہل عوام انہی کواپنا لیڈر مان لیتی ہے۔تاریخ میں اسی قسم کی ایک انتہائی تکلیف دہ مثال ایک یونانی امیر زادے السبیدیز کی موجود ہے جس نے اپنی خوبصورت گفتگو اور پرکشش شخصیت کے ساتھ حکومت تو حاصل کر لی مگر بنیادی انسانی حقوق سلب کر کے یونان کو جنگ کی تباہی میں جھونک دیا۔ سقراط اس قسم کی نام نہاد جمہوریت کا بہت اچھی طرح سے ایک مثال کےساتھ ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فرض کریں ایک انتخابی تحریک میں ایک ٹافیوں اور چاکلیٹ فروش دکاندار کا ایک ڈاکٹر سے مقابلہ ہو تو دکاندار کا کہنا یہ ہوگاکہ:’’یہ شخص آپ پر کتنی مصیبتیں اور برائیاں مسلط کرتا ہے۔ آپ کو تکلیف دیتا ہے، کڑوے کسیلے قسم کے مشروب دوا کے نام پر پلاتا ہے۔ پھر کہتا ہے یہ نہ کھاؤ، وہ نہ پیو، یہ چھوڑ دو، وہ نہ کرو۔ یہ شخص کبھی آپ کو آپ کی مرضی سےزندگی گزرانے، کچھ بھی کرنے اور مزے دار چیزیں کھانے نہیں دے گا جیسے میں آپ کے لئے وہ سب کر سکتا ہوں جس کی آپ کو ہمیشہ خواہش ہے۔‘‘

اب خود ہی سوچیں عوام کی اکثریت جو شعور نہیں رکھتی اور نا سمجھ ہے، وہ کس کو ووٹ دے گی ؟اس صورت حال کا صرف ایک ہی بہترین حل اور سب سے بہتر طریقہ ہے جو ہمیں ہمارے خالق حقیقی نے سکھایا کہ ہمیشہ خود سے بہتر، اچھے اور نیک انسان کو نظام چلانے کے لئے چنو اور اپنے آپ کو کبھی اس خدمت کے لئے خود سے پیش مت کرو۔ ہمیشہ کسی اور بہتر شخص کو نامزد کرو اور اسی کو ووٹ دو۔ کیونکہ ایک اچھا اور نیک انسان قابل بھروسہ، دانا اور باشعور ہوتا ہے۔مگر ایسا تبھی ممکن ہوتا ہے جب بہت نچلی اورگلی محلے کی سطح پر حلقہ جات میں چناؤ کا عمل شروع ہو جہاں سب لوگ ذاتی طور پر ایک دوسرے سے واقفیت رکھتے ہوں اور جب اس سطح سے لوگ چن لئے جائیں تو وہ اپنے سےاوپر کی سطح کے لئے آپس میں ووٹنگ کر کے نمائندہ منتخب کریں اور اسی طرح بتدریج شہر صوبے اور ملکی سطح پر نمائندگان منتخب ہوں۔

کسی پارٹی کے دعووں یا منشور یا پھر ارد گرداور صرف میڈیا سے کسی کی نیک نامی اور اچھائی کو سن کر نہیں، ذاتی طور پر واقفیت رکھنے والے اچھے،واقعی نیک اور باشعور انسان کا چناؤ ضروری ہے۔تبھی ایک اچھا نظام تشکیل پا سکتا ہے۔ ورنہ جس نام نہاد جمہوریت کے گن پوری دنیا گاتی پھرتی ہے وہ در اصل سامراجی نظام کا ایک شوگرکوٹڈ ورژن ہے جس میں صرف عوام کو ہر قسم کی آزادی اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے جھانسے میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔اقبال نے اس طرز حکومت کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ:’’ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔‘‘

(کاشف احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی