تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط80
نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 9 تا 15؍ دسمبر 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’ جس نے میری سنت زندہ کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون اوپر درج ہوچکا ہے۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 16 تا 22؍ دسمبر 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’دلِ خون ہے غم کے مارے کشتی لگا کنارے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے امریکہ، کینیڈا کے اخبارات میں جو وطن عزیز کی خبریں اور حالات پڑھنے کو ملے ان کے بارے میں تحریر کیا ہے اور پھر TVپر بھی خبریں سن کر اور دیکھ کر جو دل کی کیفیت ہوتی ہے وہ لکھنے سے بھی قاصر ہے اور یہ سب کچھ کیوں ہے۔ اس لئے کہ دلوں میں خوف خدا نہیں رہا۔ تقویٰ جو کہ تعلیم القرآن کا خلاصہ ہے بالکل مفقود ہوگیا ہے۔ اس سلسلہ میں خاکسار نے پریس اور میڈیا سے بھی درخواست کی کہ وہ بھی تعصب سے کام نہ لیں بلکہ انسانیت پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور یہ مطالم انسانیت سوز ہیں ان کی نشاندہی بھی کریں اور عقیدہ کے اختلاف کے باوجود انسانیت کو تو کم از کم ہاتھ سے نہ جانے دیں اور وہ عقیدہ اور مذہب بھی کیا ہے۔ جس میں انسانیت کا احترام اور قدر نہ ہو۔ انسانیت سے پیار نہ ہو۔ بعض اخبارات اور میڈیا کی تعریف بھی کرتا ہوں کہ وہ صحیح خبریں بھی دیتے ہیں اور بغیر تعصب اور حسد کے بلا امتیاز بات کرتے ہیں۔
خاکسار اب آپ کی خدمت میں کچھ کالم نگاروں کے اقتباسات پیش کرتا ہے:
ایک کالم نویس محترم محمود بن عطاء (مرحوم) ٹیکساس سے اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں ’’ایک معتوب لیڈر کی آخری رسوم‘‘کے عنوان سے جس میں انہوں نے کرنل قذافی مرحوم کے جنازے اور تدفین کے بارے میں لکھا ہے۔ (میں اس کی کوئی سیاسی حیثیت سے بات نہیں لکھ رہا۔ صرف کالم نگار کا اقتباس پیش کر رہا ہوں) وہ لکھتے ہیں۔ قذافی صاحب کی نماز جنازہ جس میں لے دے کے کم و بیش 20مومن شامل ہوئے اور امام نے بھی ڈرتے ڈرتے اس سنت پر عمل کیا۔ (یعنی نماز جنازہ پڑھانے کا) مجھے دو اور سیاسی شخصیات کے جنازے یاد آگئے۔ بابائے بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان صاحب ان کا جناز پڑھانے کے لئے ایک امام صاحب کو مکلف کیا گیا اس نے معذرت کرتے ہوئے عرض کی کہ اس فوجی انقلاب کا ان کے اعصاب اور یادداشت پر کچھ ایسا اثر ہے کہ نماز جنازہ کی دعا ہی ذہن سے ماؤف ہوگئی ہے اور اب جنازہ کی دعا کا ایک حرف بھی یاد نہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ گورنر سلمان تاثیر کے جنازہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ افسوس ہے کہ لاہور جیسے شہرمیں اچانک اماموں کا کال پڑ گیا۔ دراصل اماموں کو کال کر کے دہشت گردوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھنے کی جسارت کی تو اگلے دن خود اس کا جنازہ تیار ہوگا لہٰذا ہر ملّا نے معذرت کردی۔ اسی طرح کی کال جج صاحبان کو بھی موصول ہوتی ہے اور وہ دھڑا دھڑ دہشت گردوں کو رہا کرتے چلے جارہے ہیں۔ قصہ مختصر کوئی بھی لاہور میں ان کا جنازہ پڑھانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہاں تک تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہمارے ملّاں دین کا کتنا علم رکھتے ہیں حالانکہ نماز جنازہ میں جو دعا پڑھی جاتی ہے 80 فیصد لوگ یہ دعا جانتے ہی نہیں پھر بہت کم لوگ اس کے ترجمہ سے واقف ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ حضرات کس قسم کی نماز جنازہ پر اتراتے پھرتے ہیں انہوں نے 25؍ اکتوبر 2011ء کی دنیا چینل پر نشر ہونے والی یہ روح افزا خبر سنی ہوگی اور دیکھی ہوگی کہ پاپوش نگر کے قبرستانوں کی قبروں کی حفاظت پر مامور ریاض نامی ایک بدبخت شخص اور سیاہ کار مسلمان قبروں سے عورتوں کی لاشیں نکال کر ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔ اس درندے نے 48 قبروں میں مدفون خواتین کی بے حرمتی کا اعتراف کیا ہے۔ قبرستان میں رات کی تاریکی میں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی بے حرمتی کرنے والے کی نہ معاشرے کو خبرہوئی اور نہ جنازہ کا بائیکاٹ کرنے والے اماموں کو! کوئی مانے نہ مانے مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ یہ رسوائی، بدنامی اور بے چینی خدا تعالیٰ کی طرف سے برسنے والی لعنت کا تازیانہ ہے۔‘‘
ایک اور اخبار سے ایک بزرگ سید ارشاد حسین صاحب کا مضمون بعنوان ’’مساجد کا احترام ‘‘سے ایک حصہ نقل کرتا ہوں جنہوں نے بڑی دیانتداری کے ساتھ یہ مضمون لکھا ہے:
’’مساجد مسلمانوں کے لئے ایک محترم جگہ ہے تاہم یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ سب مذاہب کی عبادت گاہیں ہمارے لئے قابل احترام ہیں بعض نا سمجھ مسلمان چرچوں کو جلا کر یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ نیکی ہے ان کے لئے سورۃ الحج کی آیات قابل غور ہیں۔
یہ مستند بات ہے کہ ہمارے مرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں عیسائیوں کو اپنے طریقہ پر عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔ استنبول میں مسجد صوفیہ اور چرچ ہے۔ اسی طرح یہ ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر ایک کمرہ عبادت گاہ کے لئے ہے جہاں پر ہر مذہب والے اپنے طور پر عبادت کر سکتے ہیں۔ مساجد اللہ کے لئے ہیں لیکن ہم نے مسجدوں میں بھی تفریق کردی ہے یہ اہل سنت کی مسجد ہے، یہ اہل تشیع کی مسجد ہے، یہ بوہری مسجد، یہ قادیانی مسجد، آغا خانی، صوفیا اور کالے امریکن کی۔ اس سے اجتناب چاہیئے مسجد ہر مسلمان کے لئے ہے‘‘
اس قسم کی ایک خبر روزنامہ الفضل میں بھی پریس ریلیز کی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ آپ کسی سے ضرور اختلاف عقیدہ رکھیں لیکن اس بنیاد پر کہ دوسرے کا عقیدہ ہم سے مختلف ہے اُسے جینے کا حق بھی نہ دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی بے حرمتی کریں یہ کون سا اسلام ہے جس کی خدمت ہورہی ہے۔ پریس ریلیز ملاحظہ فرمائیں:۔
’’دنیا پور ضلع لودھراں میں احمدیہ قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کا افسوسناک واقعہ‘‘
دنیاپور ضلع لودھراں میں شر پسند عناصر نے رات کے اندھیرے میں احمدیہ قبرستان میں داخل ہو کر قبروں کی بے حرمتی کر ڈالی اور قبروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ 7 قبروں کے کتبے بھی توڑ دیئے۔
تفصیلات کے مطابق دنیا پور ضلع لودھراں میں 1976ء سے احمدیہ قبرستان موجود ہے جس میں 29 قبریں ہیں۔ 3؍ دسمبر 2011ء کی رات شرپسندوں نے رات کی تاریکی میں قبروں کی بے حرمتی کی اور قبروں کے کتبے توڑ کر ان کو ویرانے میں پھینک گئے۔ جن کو مقامی پولیس نے برآمد کیا ہے۔ جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان نے اس غیر انسانی واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے افراد کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں جو امتیازی سلوک رہا ہے وہ اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن جو احمدی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ ان کی قبروں کی بے حرمتی انتہائی انسانیت سوز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1984ء کے جاری کردہ امتیازی قوانین کے بعد سے قبروں کی بے حرمتی کے اب تک 24 واقعات ہو چکے ہیں………ترجمان نے مزید کہا کہ ایسے واقعات کی بڑی وجہ جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت و تعصب پر مبنی بے بنیاد اور شر انگیز پراپیگنڈہ کی مسلسل جاری مہم ہے جس سے انگیخت ہو کر شر پسند افراد احمدیوں کے خلاف مجرمانہ کارروایاں کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب تک جماعت احمدیہ کے حوالہ سے جاری کئے گئے مخصوص امتیازی قوانین ختم نہیں ہوجاتے اس طرح کے واقعات پر قابو پانا مشکل ہے۔‘‘
ایک اور کالم نویس زاہدہ حنا لکھتی ہیں:
’’کتنے عیسائیوں کے گھر جلے، ان کی عبادت گاہوں کی کس طرح بے حرمتی کی گئی۔ کتنے ہندوؤں نے جان کے خوف سے نقل مکانی کی اور اپنی دھرتی کو چھوڑ کر روتے ہوئے ہندوستان گئے۔ احمدیوں کی جان کس طرح ہر وقت سولی پر رہتی ہے، انہیں ملازمتوں سے نکالنے کا برسرِ عام مطالبہ ہوتا ہے۔ ان کی دکانوں کو نشان زدہ کر کے اکثریت سے کہا جاتا ہے کہ ان کا معاشی مقاطعہ کیا جائے۔ یہ سب کچھ ہمارے ہاں روزمرہ امور ہیں۔ اکثریت کو اس بات کا گمان بھی نہیں گزرتا کہ ان کے درمیان رہنے والے غیر مسلم جوآٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں وہ ہرلمحہ خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کب ان کے گھر پر حملہ ہوجائے۔ کب ان پر توہین رسالت کا الزام لگ جائے کہ غیر مسلموں سے ذاتی دشمنی چکانے کا سب سے آسان طریقہ یہی رہ گیا ہے ۔‘‘
یہ ہے پاکستانی مسلمان کا نقشہ جو ہمارے مہربان کالم نویسوں نے اپنے اپنے مضامین میں کیا ہے۔ پاکستانی ملّاں کا تو علم ہے ہی نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ قرآن میں کیا لکھا ہے، یہی بات کہ احمدی اپنی مسجد کو مسجد بھی نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ قرآن کریم نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی مسجد کہا ہے اس کے لئے سورۃ الکہف کی آیت 22 پڑھیں۔ پس مسلمانوں کے جاہلانہ رویّے اور انسانیت سوز اعمال سے ہمارا تو یہ حال ہے اور لبوں پر دعا ہے:
دلِ خون ہے غم کے مارے کی کشتی لگا کنارے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے دوستو! پیارو عقبیٰ کو مت بسارو
کچھ زادِ راہ لے لو کچھ کام میں گذارو
سایہ خدائے ذوالجلال
پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 16؍دسمبر 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مندرجہ بالا مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ‘‘دلِ خوں ہے غم کے مارے کشتی لگا کنارے’’۔ نفس مضمون وہی ہے۔
چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 17؍ دسمبر 2011ء میں صفحہ 5Bپر مختصراً ہمارے ہونے والے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے۔ جس کا عنوان ہے۔
’’Convention at Chino Mosque‘‘۔ ’’چینو کی مسجد میں جلسہ کا انعقاد‘‘
خبر میں لکھا ہے کہ چینو کی مسجد میں اندازاً ایک ہزار احمدی احباب اپنے جلسہ سالانہ ویسٹ کوسٹ کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ جلسہ 23 تا 25؍ دسمبر 2011ء ہو رہا ہے۔ سلور سپرنگ میری لینڈ ہیڈ کوارٹر سے بھی مقررین جلسہ میں خطاب کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقعہ پر ان عناوین پر تقاریر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم، امام شمشاد ناصر اس جلسہ کے انعقاد کے لئے منتظمین سے مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس موقع پر دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی جارہی ہے۔ آخر میں مسجد کا فون نمبر بھی درج ہے۔
الاخبار نے اپنے عربی سیکشن میں 19؍ دسمبر 2011ء کی اشاعت میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ خطبہ عید الاضحیہ کا خلاصہ شائع کیا ہے۔ یہ خلاصہ اس سے قبل الانتشار العربی کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 23 تا 29؍ دسمبر 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ‘‘جو ہو مفید لینا، جو بد ہو اس سے بچنا۔ عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے’’ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے خاکسار نے اس میں لکھا کہ:۔
دنیا تیزی کے ساتھ ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کو نہ صرف بھول گئی ہے بلکہ ہر زیادتی، ظلم، فساد، شرارت، بدچلنی اور فسق و فجور کو شیر مادر کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ اس کے بعد خاکسار نے ہر دو جنگوں (جنگ عظیم اول و دوم) کے نقصانات کا ذکر کیا اور پھر لکھا اس وقت تو معاشرے میں اتنی بے حسی پائی جاتی ہے کہ ساتھ والے گھر میں اگر کوئی بھوکا ہے تو اس کی بلا کو۔ حالانکہ اسلامی تعلیم ایسی نہیں ہے۔ اسلام میں تو ہر ایک کی خیر خواہی ہے۔ ملک (وطن عزیز پاکستان مراد ہے) کی سیاسی حیثیت اور ان کی سیاست پر تبصرہ کرنا میرا کام نہیں ہے میرا کام صرف اتنا ہے کہ
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
خبریں سن کر، تبصرے دیکھ کر، حالات دیکھ کر، اخبارات میں پڑھ کرجو آج کل ہورہا ہے(یہ 2011ء کی بات کر رہا ہوں) ایک شریف آدمی کچھ نہ کچھ سوچنے پر تو مجبور ہو ہی جاتا ہے۔ بس یہی کچھ کیفیت اس وقت ہماری ہے۔
مضمون کے عنوان کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس وقت جو کچھ معاشرہ میں ہو رہا ہے۔ اگر کوئی واقعی مفید بات ہے تو اسے لینا چاہیئے اور اگر خراب اور غلط ہے تو اس سے الگ ہوجانا چاہیئے عقلمندی اسی میں ہے اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ نیکیوں میں قدم آگے بڑھاؤ۔ برائیوں سے خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔ ورنہ تم خود ظالم شمار کئے جاؤ گے!
جنگ عظیم اول اور دوم تو دور کی بات ہے۔ 1947ء میں پاکستانی قوم نے کس قدر عظیم قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا۔ مگر افسوس آج وہ قربانیاں بھلادی گئی ہیں۔ قوم جس طرح برائیوں میں ملوث ہے وہ غالباً قربانیوں کے نام سے ہی بے خبر ہوگئی ہے۔ وہ قربانیاں اس لئے دی گئی تھیں کہ سب امن کا سانس لیں گے۔ مگر آج 60 سال گذرنے کے بعد بھی حال پہلے سے بھی بدتر ہے۔ وطن عزیز کے کسی گوشہ اور کونہ میں بھی امن نہیں ہے۔ نہ مذہبی امن، نہ سیاسی امن، نہ معاشی اور نہ ہی اقتصادی امن، جائیں تو جائیں کہاں؟
ہفت روزہ لاہور کےصفحہ 14 پر ’’آج کل‘‘ سے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان میں شیعہ فرقہ کے خلاف ہونے والے دو واقعات انتہائی افسوسناک ہیں اور اس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ لیکن محسوس یہ ہورہا ہے کہ پاکستان کی ریاست کو اس خطرے کا احساس نہیں ہے۔
1980ء، 1990ء فرقہ وارانہ کارروائیاں پاکستان میں ایک معمول بن گیا تھا اور یہ سب کچھ ضیاء الحق کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ پاکستان سمیت دوسری جماعتوں کی مدد اور انہیں پروان چڑھایا تاکہ وہ ان کے گھناؤنے منصوبوں کو آگے بڑھا سکیں………سیکورٹی ایجنسیوں کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ مگر وہ پاکستان میں عوام کا تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ انتہائی قابل نفرت بات ہے کہ ہم شیعہ افراد کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو مسلسل نذر انداز کر رہے ہیں………کیوں کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ، نسل یا مذہب سے ہو۔ پاکستان دنیا کے ان معاشروں میں سے بنتا جارہا ہے جو تیزی سے ’’عدم برداشت‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ احمدیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف حملے تو ہو ہی رہے ہیں ………لیکن ان حملوں کو روکنے یا ان عناصر کو جڑ سے اکھیڑنے کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا اور ہم تیزی سے ایک اچھوت ریاست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسلام تو رواداری کا سبق دیتا ہے۔ صرف ملک کا اسلامی جمہوریہ نام رکھ دینے سے اسلام کی خدمت نہیں ہوسکتی۔
پس جنرل ضیاء کے دور میں یہ دہشت گردی پھیلی اور پنپی ہے اور اس وقت وطن عزیز اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ احمدی ہوں، شیعہ ہوں، ہندوں یا عیسائی کوئی بھی ہو کسی فرقہ یا مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک رکھنا یا ان کے حقوق کو غصب کرنا ظلم ہے۔ اگر اسے پہلے قدم پر نہ روکا گیا تو یہ اژدھا سب کو نگل جائے گا۔ عدل کا نام لینے سے تو عدل قائم نہیں ہوجاتا۔ انصاف، انصاف کرنے سے تو انصاف قائم نہیں ہوجایا کرتا جب تک ایسے قوانین نہ ہوں اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہا جائے اور جھوٹوں کو عبرت ناک سزا نہ دی جائے۔ یہ کام اسی طرح رہے گا۔
ہم ہر ایک قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں خواہ وہ کسی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ اس کا علاج یہی ہے کہ برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے اور پھر آخری زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک امام مہدی کے آنے کی خبر دی ہے اسے مانا جائے۔ کیوں کہ جس مسیحا کی خبر آپؐ نے دی تھی جب تک اسے نہ مانیں گے علاج نہ ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روا داری تو یہاں تک تھی کہ آپ ایک مجلس کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، بت، پرست، یہودسب ملے جلے تھے۔ آپ نے ان سب کو السلام علیکم کہا۔ آپ نے بلا تفریق السلام علیکم کہہ کر سب کو امن کی دعا دی ہے۔ یہی اسوہٴ رسول اپنائیں گے تب بات بنے گی ورنہ نہیں!
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 23؍ دسمبر 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مندرجہ بالا مضمون بعنوان ’’جو ہو مفید لینا، جو بد ہو اس سے بچنا، عقل و خرد یہی ہے، فہم و ذکاء یہی ہے‘‘ کوخاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ لیکن مضمون کا عنوان یہ رکھ دیا کہ ’’دلِ خوں ہے غم کے مارے کشتی لگا کنارے‘‘ بہرحال نفس مضمون وہی ہے جو اوپر دوسرے اخبار کے حوالہ سے بیان کیا جا چکا ہے۔
ویسٹ سائیڈ نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 29؍ دسمبر 2011ء پر ہمارا ایک تبلیغی اشتہار شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے۔
’’مسیح موعود مرزاغلام احمد قادیانی (علیہ السلام) بانیٔ جماعت احمدیہ‘‘
اس کے درمیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر ہے اور شرائط بیعت پہلی اور دوسری لکھی ہوئی ہے۔ آخر میں مسجد بیت الحمید کی تصویر اور جماعت کا ایڈریس ہے۔ اس اشتہار کی تفصیل اس سے قبل بھی آچکی ہے۔
ڈیلی بلیٹن نے ایک بڑی رنگین تصویر کے ساتھ اپنے پہلے صفحہ پر اور پھر خبر کا بقیہ حصہ کو A4پر دیا ہے۔ خبر کا عنوان ہے۔
’’Muslims Gather in Chino‘‘ ’’مسلمان چینو میں اکٹھے ہو رہے ہیں‘‘(ویسٹ کوسٹ جلسہ سالانہ کے لئے)
تصویر کے نیچے لکھا ہے:امام شمشاد بیت الحمید مسجد، 26 ویں ویسٹ کوسٹ کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر خطبہ جمعہ دے رہے ہیں۔ یہ خبر Monica Rodriguesنے لکھی ہے۔ خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ لوکل مسجد 3 دن جلسہ کی مہمانی کر رہی ہے۔ جماعت احمدیہ ویسٹ کوسٹ کے ممبران، مسجد بیت الحمید میں اپنے جلسہ سالانہ کے لئے اکٹھے ہورہے ہیں یہ جلسہ مذہبی نوعیت کا ہے جس میں اپنے ایمان کی تازگی اور روحانیت بڑھانے کی باتیں ہوں گی۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ جلسہ سالانہ میں ایک ہزار سے زائد لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔ ’’اس جلسہ میں لوگ ربّانی باتیں سنیں گے اورمذہب کو سمجھ پائیں گے اس کے ساتھ ساتھ تین دن نمازیں اکٹھی پڑھیں گے اور سوشل تعلقات بڑھانے کا بھی یہ ذریعہ ہوگا۔‘‘
یہ باتیں راشد سید نے بتائیں۔ اس موقع پر فیملیز بھی آتی ہیں اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس جلسہ میں بچوں کے لئے بھی باتیں ہوں گی اور خواتین کا بھی الگ ایک پروگرام ہوگا۔ جلسہ سالانہ میں غیر مسلم مہمان بھی بلائے جاتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ روابط کو مضبوط کر کے افہام و تفہیم کو بھی بڑھایا جاسکے۔ یہ لوگ عمومی طور پر انٹرفیتھ میں بھی شامل ہوتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کے ممبران نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مل جل کر امن کے قیام کے لئے کام کیا جانا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کے لئے بھی کام کرنا چاہیئے۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی کے عقائد کو بھی لوگ غلط طور پر سمجھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے بانی جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام ) ہیں۔ جنہوں نے انڈیا سے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس زمانے کے امام اور ریفارمر ہیں۔ جماعت احمدیہ سب نبیوں پر ایمان لاتی ہے اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) پر بھی ایمان لاتی ہے۔
چینو کے ایک رہائشی نے کہا کہ وہ گذشتہ 14 سال سے متواتر جلسے میں شامل ہورہا ہے جس سے وہ ہر سال اپنے ایمان، علم اور روحانیت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس جلسہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو لوگ عرصہ دراز سے نہیں ملے ہوتے وہ بھی آپس میں مل پاتے ہیں۔ یہ بات محمد عبدالغفار نے بتائی جو ریڈیو شو میں امام شمشاد ناصر کے ساتھ بطور میزبان ہوتے ہیں۔ اخبار نے آخر میں جلسہ کے پروگرام کی تفصیل بھی دی ہے۔ کہ تلاوت ہوگی، نظمیں ہوں گی اور تقاریر ہوں گی۔
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت میں ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی۔ خبر کا عنوان یہ ہے۔
’’جماعت احمدیہ ویسٹ کوسٹ کا کنونشن 24؍ دسمبر سے شروع ہوگا‘‘
اخبار لکھتا ہے۔ چینو کیلی فورنیا۔ دسمبر کی 24 تا 26 تاریخوں کو جماعت احمدیہ ویسٹ کوسٹ کا 25 واں سالانہ جلسہ ہو رہا ہے۔ یہ تین روزہ اجتماع بیت الحمید مسجد چینو میں ہوگا۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس اجتماع میں تقریباً 12 سو احمدی شریک ہوں گے۔ جماعت احمدیہ کے اراکین کے لئے سہ روزہ کانفرنس کے انعقاد کی روایت کی وضاحت کرتے ہوئے امام شمشاد احمد ناصر نے کہا ہماری اس مسجد کی تعمیر سے بہت قبل سے ہم اپنا کنونشن تعطیلات سرما میں منعقد کرتے آرہے ہیں اور اس طرح ہر سال اس ذریعہ سے ہم اپنے ہمسایوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی حمایت اور تعاون ہمیں حاصل ہے۔ اس کنونشن میں ہمارے قومی سطح کے رہنما بھی آتے ہیں اور ہماری طرف سے دیگر اہم شخصیتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ ہمارے اس سال کے جلسہ کا مرکزی موضوع ’’مسلمان اور وفاداری‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین روزہ کنونشن کی روایت ایک سو سال قبل احمدیت کے بانی (علیہ السلام )نے ڈالی تھی۔
چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 24؍ دسمبر 2011ء میں صفحہ 5Bپر ہمارے ہونے والے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے سالانہ کنونشن مسجد بیت الحمید میں ہو رہا ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کا 26 واں جلسہ ہوگا اور 24تا 26؍ دسمبر کی تاریخوں میں چینو میں ہو رہا ہے۔ انتظامات جلسہ میں امام شمشاد ناصر نے دوسری انتظامیہ کے ممبران سے مل کر کام کر رہے ہیں۔
ڈیلی بلیٹن نے اپنی اشاعت 30؍ دسمبر 2011ء میں ایک عیسائی مسٹر James Loganکا ایک خط شائع کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے ڈیلی بلیٹن کے ایڈیٹر کو شکایت کی ہے کہ کیا وجہ ہے 25؍ دسمبر کو آپ نے عیسائیوں کو بھلا دیا اور بجائے عیسائیوں کی خبر دینے کے آپ نے مسلمانوں کی 25؍دسمبر کو خبر دی اور وہ بھی صفحہ اول پر۔ جب کہ آپ نے جماعت احمدیہ کے یہاں پر امام سید شمشاد ناصر کی تصویر اور ان کے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی اور عیسائیوں کو بھول گئے کہ عیسائی 25؍ دسمبر کو (حضرت) عیسیٰ کی تاریخ پیدائش کرسمس کی صورت میں مناتے ہیں۔ خط کا متن درج ذیل ہے:۔ خط کی ہیڈ لائن یہ ہے:’’واقعات کا نظر انداز کرنا‘‘
روزنامہ ڈیلی بلیٹن کے صفحہ اول پر عیسائی برادری کی طرف سے کرسمس کے واقعات کا ذکر نہ ہونے پر میں حیران ہوگیا ہوں کہ کیا اخبار بھول گیا کہ عیسائی 25؍دسمبر کو خدا کے بیٹے کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں ؟ ہفتے کے آخری شمارے کے پہلے صفحے پر 25؍ دسمبر کو ’’چینو میں مسلمانوں کے اجتماع جلسہ سالانہ‘‘ کی تصویر کو دکھایا گیا ہے۔ جس میں امام شمشاد احمد ناصر، احمدیہ مسلم ویسٹ کوسٹ کے چھبیس ویں جلسے کے دوران جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں۔ اس تصویر کو شائع کرنے میں کیا خرابی ہے؟ مسلمان یسوع کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ نبی مانتے ہیں۔ ان کے جلسہ کو کرسمس کے مقابلے میں پہلے صفحہ پر چھاپا جاتا ہے اور بیت المقدس یا ویٹیکن یا ٹمبکٹو میں عیسائی تقریبات کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا جاتا۔ اسلام کا یہ فرقہ (حضرت) مرزا غلام احمد کو مسیح موعود مانتا ہے۔ جن کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ 120 سال پہلے زمین پر آئے تھے۔
اس کہانی کو صفحہ اول پر چھاپا جاتا ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں، جو خدا کے بیٹے کی سالگرہ منانے کے لئے بیت المقدس کی زیارت کرتے ہیں اور جو پوری دہائی کا سب سے بڑا ہجوم ہے۔ عیسائیوں کے اہم ترین دن کو نظر انداز کرنے پر روزنامہ ڈیلی بلیٹن کو شرم آنی چاہیئے۔ کرسمس کے دن کے حوالے سے انہوں نے کم از کم پہلے صفحہ کے اوپر(Merry) ’’میری کرسمس‘‘ تو لکھ دیا ہے۔ لیکن میں بڑی مشکل سے ہی اس کو ’’کرسمس بند‘‘ کہہ سکتا ہے کیونکہ یہ نورمز ریستوران کا یسوع کی سالگرہ کے لئے رات کے کھانے کی مناسبت سے خاص صفحے پر کھانوں کی فہرست کا شائع کرنا ہے۔ مسلمانوں کا جلسہ یقیناً کسی اور صفحے پر ہوسکتا تھا اور کرسمس کے جشن منانے والی تقریبات کو پہلے صفحہ پر ہونا چاہیئے تھا۔
نوٹ:آپ اس خط کو پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ بعض عیسائیوں میں کس طرح مسلمانوں سے تعصب پایا جاتا ہے۔ ان کو یہ بھی ہضم نہیں ہوسکا کہ ہمارے جلسہ کی خبر کیوں پہلے صفحہ پر شائع ہوئی۔ لیکن یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ اخبار نے انصاف کرتے ہوئے شائع بھی کی اور اس کا خط بھی شائع کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خدمت سلسلہ اور حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچانے کی توفیق دے۔ آمین
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)