معنی اور مفہوم
سرکس انگریزی زبان کا لفظ ہے۔جس کے اردومعنی کرتب گاہ ہیں لیکن عام زبان میں اسے سرکس ہی کہاجاتاہے۔سرکس تفریحی کا بھر پور نظارہ پیش کرتی ہے اس میں انسانوں کی پھرتی کے کارنامے اور حیوانوں کے کرتب دکھائے جاتے ہیں اداکاری کے یہ نمونے سرکس کے درمیانی حصے میں دکھائے جاتے ہیں۔اسی جگہ کو’’رنگ‘‘ RING کہتے ہیں۔ان کے علاومخصوص پریڈ،سفری چڑیاگھرکی نمائش کی جاتی ہیں۔پریوں کی تمثیل اور سائیڈشوعلیحدہ پیش کئے جاتے ہیں۔پاکستان کے قومی اورثقافتی میلوں میں چھوٹی اور بڑی سرکس اپنے شودکھاتی ہے۔ مگرگزشتہ کئی برسوں سے اکثرسرکس شوبندہوگئے ہیں۔یورپ اور امریکہ میں مستقل پختہ عمارتوں میں سرکس ہاؤس قائم ہیں۔موسم کی تبدیلی کے باعث بارش اوربرف باری کے دنوں میں بھی سرکس شومنعقد ہوتے ہیں۔ان ممالک کے بڑے شہروں میں شادی حال کی طرح سرکس ہاؤس کرایہ پربھی ملتے ہیں۔جہاں ملکی وغیرملکی سرکس شو،طائفے اورثقافتی پروگرام ہوتے ہیں۔
سرکس کی تاریخ
سرکس کابانی فلپ اسٹھاے تھاجس نے 1768ء میں جدیدسرکس کی ابتداء کی۔یہ انگلینڈکارہنے والامشہورگھڑسوارتھا۔لوہے کے ایک دائرے سے گھوڑے سمیت نکل کر مختلف کرتب دکھاتا۔اس طرح اس نے گھڑ سواروں کی ایک ٹیم تشکیل دی جوانگلستان میں میلوں پرگھوڑوں کے نئے کرتب دکھاتی۔اس کے ایک گھڑسوارچارلیس ھگز نے 1782ء میں جدیدرنگ تشکیل دیاجس کانام رائل سرکس رکھا۔یہ کھیل پورے یورپ میں پھیل گیا۔ 1793ء میں سرکس کا مظاہرہ نیویارک اور فلاڈلفیامیں کیاگیا۔اس دوران ھگزنے سرکس کو روس میں متعارف کرایا۔جہاں سرکس کے کرتب سکھانے کے ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں۔1987ء میں روسی سرکس کے کرتب سکھانے کے ادارے جب تربیت کیلئے 40 آسامیاں پرکرنے کیلئے درخواستیں طلب کیں تو اس ادارے کو 4 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔یونان رسے پر چلنے کافن شروع ہواجوآج بھی رائج ہے۔جدیددور میں رسے پرچلنے کے علاوہ فنکار مختلف کرتب پیش کرتے ہیں۔نوجوان لڑکیاں رسے پرچلتی ہوئی رقص بھی کرتی ہیں۔ 1870ء میں ریل گاڑی کی ایجادسے سرکس کافن دنیاکے بڑے شہروں سے نکل کرقصبوں تک پھیل گیا۔ 1941ء میں یہ فن بڑے عروج پررہا۔اب نیویارک اور ماسکومیں سرکس کی بڑی بڑی عمارتیں قائم ہیں۔
موجودہ سرکس
عارضی سرکس جگہ کی مناسبت سے لگائی جاتی ہے۔اسی حساب سے کھیل پیش کرنے کی جگہ یعنی رنگ کوترتیب دیاجاتاہے۔خوبصورت جھنڈیوں اوررنگین روشنیوں سے سرکس شوسجایاجاتاہے۔ر نگ کے چاروں طرف تماشائیوں کے بیٹھنے کیلئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے۔شوشروع کرنے سے پہلے پروگرام کے مطابق ہرفنکاراپنے فن کے مظاہرے کیلئے تیاری میں مصروف ہوتا ہے۔جوسرکس کے پردہ میں تیاری کرتاہے۔شوکرنے کے لباس پہنتے ہیں اورمیک اپ کیاجاتاہے۔شو شروع ہونے سے پہلے سرکس کابینڈاپنی سریلی دھنوں سے تماشائیوں کو محفوظ کرتاہے۔پھرگھنٹی بجتی ہے جوشروع ہونے کی نویدہے۔چھلانگیں لگا کرایک جھولے سے دوسرے طویل فاصلے کے جھولے تک کود کرپہنچنامسخروں کاکمال فن ہے۔سائیکل سوارایک پہیہ کی سائیکل پراپنے کرتب دکھاتے ہیں۔مشکل ترین ورزش کے کھیل لوہے کے کڑوں سے گزر کر دیکھاتے ہیں۔جدیدسرکس نے حیرت انگیز کارنامے دکھائے ہیں۔چندسال ہوئے لاہور میں روسی سرکس کے فنکاروں نے عجیب کھیل پیش کئے۔سرکس شروع ہونے کاوقت 9 بجے تھامگرسرکس 10 بجے شروع ہوا۔تماشائیوں نے شوروغل مچایا۔ایک گھنٹہ بعد جب سرکس کا پہلافنکار آیاتو اس نے پہلے لوگوں کے شور کوچُپ کروایااور کہا کہ اپنی گھڑیوں میں وقت دیکھیں سب لوگوں کی گھڑیوں میں 9 بجے تھے۔لوگ حیران ہوگئے۔سرکس کے اداکارنے کہاکہ یہ ہماراپہلا آئیٹم تھاپھرلوگوں نے ذاتی سوال لکھ کر پوچھے جو سوفیصد درست پائے گئے۔
چینی بازی گری
موجودہ سرکس میں چینی بازی گری کے کرتب دکھائے جاتے ہیں۔ہاتھوں پرکھڑے ہونے اور کیکڑے کی چال چلنے کی بازی گری،موسیقی کی لے پرہوتی ہے۔بازی گری چینی عوام میں بڑی مقبول ہے۔’’بانس کی مدد سے کودنا‘‘پھل توڑنے والے محنت کشوں کی جنبشوں پر مبنی ہے۔چینی بازی گروں نے بڑی محنت سے کئی پیچیدہ کھیل تخلیق کئے ہیں۔مثلاً ’’گھومتے پیالوں کاپگوڈا‘‘،’’طشتریاں گھومانا‘‘اور’’کرسیوں پرتوازن‘‘ دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔چینی بازی گر اپنے ملک کے علاوہ بیرونی ممالک کے دوروں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جس سے چین اور دوسرے ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کوفروغ ہواہے۔پاکستان میں بھی چینی بازی گرکئی دفعہ اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ سرکس کا کھیل دنیا میں کم ہورہاہے۔مہنگائی کے دور میں ایک توپرندے اور حیوانات بھی بھاری رقم سے حاصل ہوتے ہیں دوسرے ان کی خوراک بھی نسبتاًارزاں ہوگئی ہے۔مصروفیت کے دورمیں سرکس دیکھنے کا پہلامظاہرہ نہیں رہالوگ میلوں یا کسی قومی تقریب کے موقع پر ہی سرکس کا رخ کرتے ہیں۔ ٹیلیویژن نے تمام تفریح سمیٹ لی ہے۔
(تابش مبشر)