ہماری اس کائنات میں ہر کوئی عالم سفر میں ہے۔کسی کو دوام نہیں۔ہر کوئی اپنے معینہ وقت کا منتظر ہے۔اس لئے آئے روز ہمارے کتنے ہی عزیز و اقارب، بہت ہی پیارے وجود ہم سے رخصت ہوکر عالم ثانی میں جابستے ہیں۔قرآنی ارشاد ہے۔ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ(الاحزاب:24) ان میں سے بہت ایسے ہیں جنہوں نے اپنا مقصد حیات(موت) پالیا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو اپنے وقت کے منتظر ہیں۔
ان بچھڑنے والوں کا ہم میں سے ہر ایک پر بالواسطہ یا بلا واسطہ بہت سارے احسانات ہیں۔جن کی وجہ سے ہی ہماری اس کائنات میں کوئی شناخت ہے۔اس لئے ہمیں قرآن پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ أذکروا موتاکم بالخیر۔ اپنے مرحومین کو اچھے نام سے یاد کیا کرو۔
آج سوچا۔اپنے ایک مرحوم بھائی کا ذکر خیر ہوجائے۔یہ دوست مکرم سردار نوراحمد مرتضی ڈوگر صاحب ہیں۔جامعہ میں چند سال ان کی رفاقت میں گزارنے کی توفیق ملی۔ایک مخلص،وفادار اور ہمدرد انسان تھے۔
جکنی صاحب کو زندہ کردیا ہے
گیمبیا میں جماعت احمدیہ کےایک بہت ہی معروف عالم دین اور مخلص بزرگ گزرےہیں۔جنہیں اللہ کے فضل سے جماعت کی نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ان کی سیرت وسوانح کے بارے میں، میں نے ایک مضمون قلمبندکیا۔جو الفضل اخبار کی زینت بنا۔ اشاعت کےچند روز بعد مجھے کینیڈا سے ایک دوست مکرم سعید احمد چھٹہ کا فون آیا۔کہنے لگےمنور صاحب، میں نے آپ کا، جکنی صاحب کے بارے میں الفضل میں شائع شدہ مضمون پڑھا ہے۔ مجھے اسے پڑھ کربہت خوشی ہوئی ہے۔آپ کے مضمون نے الحاجی جکنی صاحب کو زندہ کردیا ہے۔
اسی نسبت یہ سوچا کہ اس طرح ایک مرحوم بھائی کا نام حسب توفیق زندہ کردیا جائے۔
تعارف
مکرم نوراحمد مرتضی صاحب فروری 1940ء میں ضلع لاہور کے ایک گاؤں نانو ڈوگرمیں پیدا ہوئے۔
آپ کے دادا محترم کا نام مکرم سردار محمد ابراہیم صاحب تھا۔جو اپنے علاقہ کے ایک زمیندار خاندان سے تھے۔
سردار ابراہیم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چھ بچوں سے نوازا۔جن میں سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔بیٹوں میں سے بڑے مکرم غلام احمد صاحب مصطفٰی تھے۔جن کو میں نے بارہا ربوہ میں دیکھا ہے۔
خاندان میں احمدیت
مکرم فرید احمد صاحب کی روایت کے مطابق ہمارے خاندان میں ہمارے دادا مکرم سردار ابراہیم صاحب کے زریعہ سےحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور مبارک کے اوائل میں شجر احمدیت کی تخم ریزی ہوئی۔جس کے بعد مرور زمانہ کے ساتھ اس خاندان میں احمدیت کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔
تعلیم وتربیت
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے مضافاتی گاؤں باٹھ سے حاصل کی۔بعدازاں میٹرک رائے ونڈ سے پاس کیا۔اس کے بعد اپنے برادر اکبر کی طرح پٹواری کا کورس مکمل کیا۔اس کے بعد تین مختلف مقامات پر بطور پٹواری کام کرنے کی توفیق ملی۔
وقف زندگی پر لبیک
1966ء میں آپ کے داد جان کہنے لگے۔بیٹا ہم نے تمہیں خدمت دین کے لئے تعلیم دلائی تھی اس لئے نہ تھی کہ تم دنیاداری میں پڑے رہو۔
آپ نے دادا جان کی آواز پر فوری لبیک کہا۔اپنے آپ کو وقف کردیا اور ربوہ جانے کی تیاری کرلی۔ربوہ پہنچے پر مکان کرایہ پر لیا اور اس طرح 1966ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔
جامعہ احمدیہ کے ایام
مکرم مولانا حامد کریم صاحب مبلغ سلسلہ ہالینڈ اور مکرم نور احمد صاحب ایک ہی سال میں جامعہ میں داخل ہوئے۔مکرم نوراحمد مرتضی صاحب کے بارے میں مولانا صاحب کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
مکرم نوراحمد صاحب جب جامعہ میں داخل ہوئے۔ان کی عمر باقی طلبہ سے دس بارہ سال زیادہ تھی نور احمد صاحب نے پٹواری کا کورس کیا ہوا تھا اور اس کے بعد چند سال بطور پٹواری کام بھی کیا تھا۔ چونکہ وہ ہم سب طلبہ سےعمر اور تجربہ میں خاصے بڑے تھے۔اس لئے احتراماًہم انہیں پا ( بڑا بھائی ) کہتے تھے۔
مکرم نور مرتضی صاحب بہت ہی نیک فطرت،سادہ لوح اور ہمدرد انسان تھے۔بعض وجوہات کی بنا پر جامعہ میں اپنا تدریسی مشن مکمل نہ کرسکے۔ کیونکہ ایک تو عمر پھر ان کی شادی بھی ہوچکی تھی۔جس کی وجہ سے ان کی عائلی ذمہ داریاں بھی اس راہ میں سدراہ بن رہی تھیں۔ مرکزی ارشاد پر بطور وقف زندگی دفتر جائداد میں چلے گئے اور پھر اللہ کے فضل سے خوب خدمت کی توفیق پائی۔بڑے ہی باوفا انسان تھے۔
ایک دفعہ میں اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان گیا ہوا تھا۔ان کے بیٹے عزیزم مظفر احمد ڈوگر صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے بڑے پیار سے گھر پر بلایا۔جہاں مکرم سردار نوراحمد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ ایک یادگار ملاقات تھی۔ بہت پیار سے ملے۔ان دنوں خاصے بیمار تھے۔ اس کے باوجود بڑے پُرتپاک انداز میں ملے۔ہماری بڑی پُرتکلف دعوت کی۔فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ان کی ساری اولاد اللہ کے فضل سے اخلاق حسنہ کی مالک ہے۔اپنے والد مرحوم کے دوست احباب کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔
جماعتی پروگرام میں شرکت پر خوشی و مسرت
جن دنوں آپ لندن تشریف لائے ہوئےتھے۔ یہ جلسہ سالانہ کے مبارک ایام تھے۔جلسہ پر ان سے ملاقات ہوئی۔بہت خوش ہوئے۔کافی باتیں ہوئیں۔کہنے لگے میں نے آپ کو ایک چیز دکھانی ہے۔پھر انہوں نے اپنی جیب سے ایک میڈل نکالا اور بتایا کہ یہ مجھے چیریٹی واک میں حصہ لینے پر دیا گیاہے۔باوجود بیماری کی شدت کے چیریٹی واک میں حسب توفیق حصہ لیا۔ پھرمیڈل ملنے پر بہت زیادہ خوش تھے۔اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ تا دم آخر جماعت کے ہر پروگرام میں شریک ہونے کی کوشش کرتے اور اسے اعزاز جانتے تھے۔
میدان عمل میں خدمات
مکرم مظفر احمد صاحب ابن مکرم سردار صاحب نے بتایا۔
ہمارے والد صاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبا عرصہ بطور مختار عام صدرانجمن احمدیہ پاکستان خدمت کی توفیق ملی۔ یہ عرصہ 1972ء سے 1998ء تک محیط ہے۔
اس طویل سفر میں بہت سارے نشیب وفراز پیش آئے۔آ پ نے نہایت استقلال اور وفاداری کے ساتھ اپنا فریضہ کمال ایمان داری سے ایفا کیا۔
اپنے کام کے سلسلہ میں ملک بھر میں سفر کرتے۔کہیں پر جائداد کی خرید وفروخت ہے۔کہیں پر تعمیرات،کہیں مقدمات چل رہے ہیں۔ ہم نے والد صاحب کو ہر وقت مصروف ہی دیکھا ہے۔کبھی لاہور ہیں اگلے روز بہاول پور ہیں اور پھر اگلے ہفتہ پشاور کے لئے رخت سفر باندھ رکھا ہے۔شب وروز خدمت دین میں لگے رہتے تھے۔
لگاتار 48 گھنٹے کے بعد گھر آئے
ایک روز گھر میں دفتر کی جانب سے یہ پیغام آیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مرزا ناصر احمدؓ نے فوری حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا ہے۔محترم والد صاحب کو خاصی پریشانی ہوئی کہ اس وقت کیا کام ہوسکتا ہے۔فوری طور پر قصر خلافت میں پہنچے،ان دنوں قصر خلافت میں ایک ہال کا لینٹر ڈالنا تھا۔جس میں مناسب کام نہیں ہوا تھا۔جس کی وجہ سے حضور سخت ناراض تھے۔حضورؒ کے چہرے پر سخت غصہ کا اظہار ہورہاتھا۔ حضورؒ نے آپ کو فرمایا۔سردار صاحب !آپ اس وقت تک ادھر ہی رہیں گے جب تک یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا۔اس ارشاد کی تعمیل میں والد صاحب لگا تار دو دن ادھر ہی رہے۔کام مکمل ہونے کے بعد واپس گھر تشریف لائے۔اس پر حضورؒ نے اظہار خوشنودی فرمایا۔
بنک ڈپو کی تعمیر
اسی طرح کا ایک اور واقع بھی ہے کہ جماعتی بک ڈپو کی تعمیر کا کام جاری تھا۔کام میں تاخیر ہورہی تھی۔حضورؒ نے سردار صاحب کو اس کام کی تکمیل اپنی نگرانی میں مکمل کرنے کا رشاد فرمایاجو مکرم والد صاحب نے حسب ارشاد مکمل کردیا۔جس پر حضورؒ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔
پرالی
جلسہ سالانہ کے موقع پر والد صاحب کی ڈیوٹی پرالی کا انتظام کرنا ہوتا تھا۔ایک دوست محمد حسین صاحب ابو کے ساتھ سائیکلوں پر قریہ قریہ جا کر یہ فریضہ سرانجام دیتے تھے یہ ایک بہت ہی کٹھن کام ہوتا تھا۔ابو جان بڑی خوش دلی اور جانفشانی سے یہ فرض سرانجام دیتے تھے اس دور کی نسل کے لئے پرالی اور اس کی ا ہمیت وافادیت جاننا بہت مشکل امر ہے۔
پرالی چاول کے پودے کا تنا ہوتا ہے۔ پرالی گھاس کی مانند بہت ہی نرم و ملائم ہوتی ہے۔ اس پرالی کو پورے جلسہ گاہ میں زمین پر قالین کی طرح بچھا لیا جاتا تھا۔یہ پرالی نرم و ملائم ہونے کے ساتھ گرم بھی ہوتی تھی۔جس پر شرکاء جلسہ بڑے آرام کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں جلسے کے پروگرام سنتے تھے۔
اس کے علاوہ اہل ربوہ اپنے گھر پر مقیم مہمانوں کے لئےبھی اسے استعمال کرتے تھے۔ اسے گھروں میں بھی زمین پر بچھا لیتے تھے تا کہ لوگ بآرام اس پر سو سکیں۔یہ پرالی ٹریکٹروں،اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر ربوہ لاتے تھے۔یہ کافی مشکل کام ہوتا تھا۔علاقہ بھر کے دیہاتوں میں جاکر یہ پرالی اکٹھی کرنا اور زمینداروں کو اس کے لئے قائل کرنا خاصا مشکل کام ہوتا تھا۔یہ سفر اس زمانہ میں پیدل یا سائیکل پر ہوتا تھا۔
گوشت سپلائی
جب پرالی کا انتظام ہوجاتا تو ہر زمیندار کے پاس جا کر الگ الگ بات چیت کرنی ہوتی تھی۔یا درہے کہ یہ کام کوئی چند روز کا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس پر کئی ماہ لگتے تھے اور اس کے لئے ربوہ کے مضافات میں موجود تمام دیہات میں جانا پڑتا تھا۔
اس کے بعد دوسری ذمہ داری جلسہ میں آنے والے مہمانوں کے لئے گوشت کا انتظام کرنا ہوتا تھا۔ والد صاحب چند دیگر کارکنان کے ہمراہ ربوہ کے مضافات کی مویشی منڈیوں میں جاکر جانور خریدتے بعد ازاں قصابوں کی معاونت سے گوشت تیار کرکے لنگر خانوں میں سپلائی کرتے یہ ایک سخت محنت طلب کام تھا۔
دیگر مصروفیات
جلسہ کے ایام میں ربوہ میں دیگر احباب کی طرح بہت سارے غیر از جماعت مہمان تشریف لاتے تھے۔ان کے قیام و طعام کا کام کافی مشکل ہوتا تھا۔والد صاحب اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سےجلسہ کے ایام میں بہت کم اپنے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔
گھر میں موجود مہمان ہی میزبانی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔کھانے کے لئے پرچی حاصل کرنا پھر لنگر سے کھانا لے کر آنا کافی مشکل کام ہوتا تھا۔سردی کے موسم میں پیدل یا سائیکل پر کھانا گھروں میں پہنچانا اور پھر کھانا کھلانا۔سردی کی وجہ سے بار بار چائے وغیرہ بہت سارے کام ہوتے تھے۔
ادنیٰ ادنیٰ خوشیاں
نظام فطرت ہے کہ سب والدین اپنے بچوں کی دیکھ بھال،تعلیم و تربیت اور اپنی توفیق کے مطابق اپنے بچوں کی زندگیوں میں خوشیوں کےرنگ بھرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح ہمارے والد صاحب بھی ہمارے لئے ہرممکن اور جائز نعمت ہمیں مہیا کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کرتے رہتے۔
جلسہ کے ایام میں والد صاحب کی ایک بات مجھے بہت یاد آتی ہے کہ ہمارے لئے تین تین سوٹ نئے سلواتے تاکہ جلسہ کے ہرروز ہم ایک نیا سوٹ زیب تن کریں۔پھر باقاعد ہ چیک کرتے کہ کیا ہم نے نئے کپڑے پہنے ہیں۔
جلسی اور عیدی
جلسہ کے موقع پر والد سب بچوں کو جلسہ کے لئے مخصوص رقم دیا کرتے تھے۔اس کو ہم جلسی کہتے تھے۔اس جلسی کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔اسی طرح عید کے موقع پر نئے کپڑوں کے علاوہ عیدی ضرور دیتے۔
دلچسپ اور ایمان افروز واقعات
ہمارے والد صاحب کے خلافت سے والہانہ عشق کے چند واقعات خاکسار کے بھائی فرید احمد صاحب کی زبانی پیش خدمت ہیں۔
کہتے ہیں والد صاحب کی ایک بہت ہی خوبصورت عادت میانہ روی تھی۔ وہ اپنی غمی اور خوشی کے جذبات میں ہمیشہ معتدل رہتے تھے۔ میں نے والد محترم کو زندگی میں چند ایک بار بہت زیادہ خوش دیکھا ہے۔جو ان کی قلبی کیفیت کی عکاسی کرتی تھی۔اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ابو جان آج بہت خوش ہیں۔
جن دنوں شروع شروع میں،ربوہ میں ڈِش انٹینا لگنے شروع ہوئے۔ربوہ میں چند ایک ڈشیں لگی تھیں۔ہمارے والد صاحب کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے اور میرے گھر پر بھی ڈش کا انتظام ہوجائے اور ہم لوگ بھی براہ راست اپنے پیارے آقا کی زیارت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جلد ہی ہمارے گھر میں ڈش لگ گئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح کی براہ راست زیارت
اور آسمانی مائدہ سے ضیافت
اس مبارک موقعہ پر والد محترم نے ہر خاص و عام کے لئے اپنے دل اور مکان کے دروازے کھول دیے۔ تاکہ ہر کوئی اپنے آقا کی زیارت اور خطابات سن کر اپنی روحانی پیاس بجھا سکے۔
مہمانان کی کثرت اور پردہ کے پیش نظر،میرے والد صاحب نے اپنے گھر میں تین ٹیلی ویژن کاانتظام کرلیا۔خطاب کے موقعہ پر بہت سارے لوگ ہمارے گھر میں پروگرام دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے۔خواتین کے لئے پچھلے صحن میں جبکہ مردحضرات کے لئے گھر کے سامنے وا لےحصہ میں انتظام کردیا گیا۔گھر کے اندرونی حصہ میں اپنے عزیزواقارب کے لئے انتظام تھا۔مہمانوں کے لئے حسب توفیق خاطر و مدارت کی بھی توفیق ملی۔ اس روز محترم والد صاحب کی خوشی اورمسرت دیدنی تھی۔اس قدر میں نے والد صاحب کو کبھی خوش نہیں دیکھا۔ یہ سارے انتظامات بڑا بیٹا ہونے کے ناطے باقی اہل خانہ کے تعاون سے میں ہی کررہاتھا۔ اس شاندار اور تاریخی پروگرام کو دیکھ کر والد صاحب نے بے اختیار کہا۔فریدیا اج خوش کردتا ای۔(فرید بیٹے آج تو نے خوش کردیا ہے)
میری آمد کا مقصد پورا ہو گیا
مکرم والد صاحب سخت بیمار تھے۔ہماری خواہش تھی کہ والد صاحب کو ایک دفعہ انگلستان لے آئیں۔ہم نے ان کے لئے انگلستان کا ویزہ اپلائی کیا۔بعض وجوہات کی بنا پر ویزہ کا انکار ہوگیا۔پھر اپیل کی گئی۔اللہ نے فضل کیا اور ویزہ مل گیا۔لندن تشریف لے آئے۔لیکن اس ویزہ میں ایک سقم تھا کہ یہ ویزہ جلسہ سالانہ کے دوسرے روز ختم ہورہا تھا۔اس کے بعد انگلستان میں قیام ممکن نہ تھا۔والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ کم از کم عالمی بیعت میں شریک ہوجائیں۔
باامر مجبوری، بوجھل دلوں کے ساتھ پروگرام کے مطابق ائیر پورٹ پہنچے۔اللہ تعالیٰ کی قدرت وہاں جا کر علم ہوا کہ فلائٹ بعض وجوہات کی بنا پر کینسل ہو گئی ہے۔اگلی پرواز نامعلوم مدت تک منسوخ ہے۔یہ تو ایک معجزہ ہی تھا۔اس اعلان کے بعد ہم لوگ بخوشی واپس گھرآگئے اور جلسہ کے بقیہ پروگرام بڑے اطمینان سے دیکھے اور سنے۔عالمی بیعت میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔اس برکت کے ملنے پر والد صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔جلسہ ختم ہوا۔والد صاحب نے کہا۔ اب میری واپسی کا انتظام کریں۔ہم نے کہا۔ابو جان، اب تو آپ یہاں حسب قانون مزید رک سکتے ہیں۔کہنے لگےمیں جس کام کے لئے آیا تھا وہ توہوگیا ہےاس لئے میں اب واپس جانا چاہتا ہوں۔میری خواہش حضور سے ملاقات کی تھی وہ اللہ نے پوری کردی ہے۔ اس لئے اب میں واپس جانا چاہتا ہوں۔
خدمت دین کا جذبہ۔تعمیل ارشاد خلافت
جب والد صاحب لندن تشریف لائے تو حضور انور سے ملاقات ہوئی جس کی وجہ سے بہت زیادہ خوش تھے۔ہماری والدہ صاحبہ نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اب سردار صاحب کی صحت کافی بہتر ہےآپ انہیں کوئی کام دے دیں تو ان کے لئے بہت بہتر ہوگا۔ کیونکہ اکثر یہ دوائیوں کی وجہ سے غنودگی کی حالت میں رہتے ہیں لیکن جب کوئی دفتری کا م آجائے تو بہت ایکٹوہوجاتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔اس پر حضور نے فرمایا ہم انہیں ضرور کام دیں گے اور وہ کام ہمارے کاموں میں کامیابی کے لئے دعا کا ہے۔اس کے بعد جب بھی ایم ٹی پر براہ راست پروگرام آتا تو دعا میں شامل ہوتے۔اگر کوئی پرانا پروگرام دوبارہ آجاتا تو پھر بھی اس دعا میں شامل ہوتے اور کہتے مجھے حضور نے دعا کرنے کا ارشاد فرما رکھا ہے۔
تلاوت قرآن سے محبت
مکرم والدصاحب کو قرآن پاک کے ساتھ بہت عشق تھا۔ روزانہ بلا ناغہ تلاوت کرتے۔آواز میں رقت پائی جاتی تھی۔ سفر و حضر میں تلاوت قرآن پاک میں کوتاہی نہیں ہوتی تھی۔اکثر اوقات ملک بھر میں دوروں پر ہی رہتےلیکن اس حالت میں بھی تلاوت قرآن پاک ہمیشہ التزام سے کرتے رہے۔
رمضان المبارک میں ان کا یہ طریق تھا کہ کم از کم تین بار تلاو ت قرآن پاک کا دور مکمل کرنا ہے۔
سب بچوں کو بھی قرآن پاک کی تلاوت پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے رہتے۔اس طرح اپنے بچوں کے دلوں میں بھی قرآن پاک سے محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
مجھے حضور کو دیکھنے دو
عزیزم مسرور احمد نے بتایا کہ محترم والد صاحب سخت بیمار تھے۔اسپتال میں زیر علاج تھے۔آپ کے سامنے ٹیلیویژن لگا ہوا تھاسارا وقت ایم ٹی اے لگائے رکھتے۔
جب کبھی کوئی ا سٹاف ممبر آیا ہوتا اور چیکنگ کے لئے پردہ گرادیتےتو والد صاحب مجھے کہتے کہ مسرور ٹی وی کے سامنے سے تھوڑا سا پردہ ہٹا دو۔کیونکہ وہ حضور انور کی تصویر کو ہر وقت دیکھنا چاہتے تھے۔
والد صاحب کی شخصیت کا ایک رخ
والد صاحب کی رحلت کے بعد بہت سارے دوست جن کو ہم جانتے تھے اور بے شمار ایسے بھی تھے جن سے ہم نا آشنا تھے۔انہوں نے ہمارے والد صاحب کے حسن سلوک،محبت اور مالی یا کسی اور قسم کی معاونت کا ذکر کیا۔جبکہ ہمارے والدصاحب نے ہمارے ساتھ کبھی بھی ان واقعات کا ذکر نہیں کیا تھا۔بہت ساری ایسی مستحق فیملیز بھی تھیں جن کی وہ باقاعدہ حسب توفیق مالی مدد فرمایا کرتے تھے۔ان میں سے چند ایک واقعات کا ذکر پیش خدمت ہے۔
فی سبیل اللہ خدمت خلق
جب والد صاحب کا انتقال ہواتوایک روز ہم نے اپنے گھر کے بیرونی دروازے پر کسی کے رونے کی آواز سنی۔ہم لوگ پریشانی میں باہر نکلے۔تو ہم نے دیکھا ایک آدمی اونچی آواز میں رو رہا ہے اور کہہ رہا ہےمیرے مہربان چلے گئے۔چوہدری صاحب چلے گئے۔یہ دوست مکرم عبد المنان صاحب آئس کریم والے گول بازار ربوہ تھے۔سب اہل ربوہ انہیں جانتے ہیں۔ ماشاء اللہ کافی معروف آدمی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک روز ایک جائیداد کے مقدمہ کے سلسلہ میں مَیں کچہری گیا ہوا تھا۔وہاں میری سردار صاحب کے ساتھ ملاقات ہوگئی۔میرا اس سے قبل ان کے ساتھ کوئی خاص تعارف نہ تھا۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے میرے عدالت میں آنے کا سبب دریافت کیا۔میں نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔کہنے لگے یہ کا غذ مجھے دے دیں،یہ کام میں آپ کے لئے کردوں گا۔جس کام کے لئے میں اس قدر پریشان تھامکرم سردار صاحب نے محض للہ کردیا۔فجزاہ اللّٰہ
روز محشر خدا ہی فیصلہ کرے گا
عزیزم فرید احمد نے بتایا کہ والد صاحب نے ایک دوست کو ایک بڑی رقم کسی کام کے لئے دی۔لیکن بعد میں اس دوست نے واپسی میں لیت ولعل کرنا شروع کردیا۔والد صاحب نے اس سےکئی بار مطالبہ کیا مگر اس نے ادائیگی نہ کی۔بعض دیگر دوستوں نے بھی مداخلت کی مگر بے سود رہا۔کہتے ہیں میں خود بھی والد صاحب کے کہنے پر اس کے پاس کراچی تک گیالیکن کامیابی نہ ہوئی۔
اس کے بعد والد صاحب کہنے لگےبیٹا اب اس سے پیسے نہیں مانگنے۔کیونکہ میرے پاس ادائیگی کا کوئی گواہ نہیں ہے۔بس اللہ ہی گواہ تھا۔اب اسی کی عدالت میں فیصلہ ہوگا۔اس کے بعد والد صاحب نے اس سے پیسے نہیں مانگے۔
غریب پرورانسان
ربوہ میں ایک دوست کرامت اللہ صاحب نے بتایا کہ میری گوشت کی دوکان تھی۔ایک دن سردار صاحب دوکان پرآئے۔عید قریب آرہی تھی،کہنے لگے عید قریب ہے جانور کدھر ہیں۔میں نے کہا۔پیسے نہیں ہیں کہ مویشی خرید سکوں۔اس پر انہوں نے ایک بڑی رقم مجھے دے دی اور کہا جاؤ جانور خرید لو۔یہ خاصی بڑی رقم تھی۔میں منڈی گیا اور جانور خرید لئے جس کے نتیجہ میں مجھے بہت فائدہ ہوا۔
دوستوں سے حسن سلوک
جب والد صاحب اسپتال میں داخل تھے۔ایک دوست تشریف لائے۔ہم ان سے متعارف نہ تھے۔وہ والد صاحب کی علالت کا سن کر آئے تھے۔بیمار پرسی کی اور کہنے لگے سردار صاحب میرے بہت مہربان انسان ہیں۔ان کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔مجھ سے جتنی چاہیں رقم لے لیں۔میری گاڑی لے لیں۔لیکن میرے دوست کی دیکھ بھال میں کمی نہیں ہونی چاہیے۔
خدمت دین کا ایک اور رنگ
کراچی میں ایک معلم مکرم محمد علی صاحب کے ذریعہ ایک دوست نے بیعت کی۔اس نو مبائع کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا قرآن پاک حفظ کرلے۔
اس دوست نے محمد علی صاحب کے ساتھ اپنی اس خواہش کااظہار کیا۔مولوی صاحب نے بتایا ربوہ میں میرا ایک بھائی ہے وہ انتظام کردے گا۔محمدعلی صاحب اسے ربوہ میرے والد صاحب کے پاس لے آئے اور اس بچہ کو جس کا نام شیخ بابر علی تھا۔ان کے سپرد کردیا۔اس طرح یہ بچہ ہمارے گھر کا حصہ بن گیا،ہمارے والد صاحب نے اس بچہ کی تربیت اور دیکھ بھال اپنے بچوں کی طرح کی۔یہاں تک کہ وہ بچہ بفضل اللہ تعالیٰ اپنے مقصد حفظ قرآن میں کامیاب ہوگیا۔
نئے مکان کی خرید
ان کے بیٹے مسرور احمد صاحب نے بتایاکہ ایک روز میں محلہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں کھیل رہا تھا۔عموما ًوالد صاحب شاذونادر ہی ہمارے سکول یا کسی اور جگہ ملنے کے لئے آتے تھے۔اس روز میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔آپ کو یاد نہیں ہم نے آج نئے مکان کا قبضہ لینا ہے۔آؤ چلیں۔مجھے انہوں نے اپنے سائیکل پر بٹھالیا اور ہم دونوں دارالیمن کو روانہ ہوگئے۔سابقہ مالک مکان سے ملاقات ہوئی۔اس نے مکان کی چابیاں ایک ایک کرکے والد صاحب کو دینی شروع کردیں اور ساتھ ساتھ بتارہا تھا کہ یہ چابی فلاں دروازہ کی ہے۔والد صاحب وہ چابیاں میرے ہاتھ میں تھماتے چلے گئے۔جن سے میرے دونوں ہاتھ بھر گئے۔
اس روز والد صاحب بہت خوش تھے۔مجھے آج بھی یہ نظارہ یاد ہے۔اس سے علم ہوتا ہے کہ ہمارے والد صاحب نے ہماری خوشیوں کے لئے کس قدر محنت کی۔اللہ ہی جانتا ہے کہ اس مکان کی خرید اور حصول کے لئے ان کی نیت کیا تھی۔جس کا علم ہمیں بعد میں ہوا۔
پھر وقت نے بتایا کہ یہ گھر جہاں ہمارے لئے ایک پنا ہ گاہ تھا۔اس کے علاوہ پورے محلہ کے خوردو کلاں کی تعلیم وتربیت، خطبات جمعہ سننے اورخلفاء کرام کے علمی اور روحانی درس وتدریس سے استفادہ کرنےکا مر کز بن گیا۔کیونکہ اس مکان کو کئی سال تک بے شمار جماعتی پروگراموں کی میزبانی کا شرف نصیب ہوا۔
اس مکان کو تعلیم وتربیت کا مرکز بنا دیا
رمضان المبارک کے ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے درس قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اس وقت ربوہ میں چند ایک ڈش انٹینوں کا انتظام تھا۔
ہمارا گھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑا تھا جو دو کنال پر محیط تھا۔مکان کی دونوں جانب وسیع و عریض صحن تھے جن میں خواتین و حضرات کے لئے با پردہ انتظام ہوتا۔مکان کے پچھلے صحن میں خواتین اور اگلے حصہ میں مرد حضرات پروگرام دیکھ لیتے۔درس کے بعد حاضرین کے لئےباقاعدہ افطار کا انتظام ہوتا۔ بسا اوقات دیگر مقامی دوست بھی افطاری کا اہتمام کرتے تھے۔اکثر والد صاحب خود ہی حسب توفیق افطار کا انتظام کرتے تھے۔ والد صاحب اللہ تعالیٰ کے اس فضل وکرم پر بہت خوش ہوتے۔
بادشاہ سویٹ ہاؤس
ہمارے گھر کے قریب ہی بادشاہ نامی مٹھائی والا تھا۔اس کو بتا دیتے کہ بھئی آج اتنے کلو پکوڑے،سموسے اور نمک پارے وغیرہ بھیج دو۔ابو جان کا اس سے حساب چلتا رہتا تھا۔
یہ خطبات جمعہ کا سلسلہ اس وقت تک ہمارے گھر پرچلتا رہا جب تک ہمارے محلہ کی مسجد میں ڈِش انٹینا نصب نہیں ہوگیا۔مسجد میں ڈِش لگنے کے بعد بھی اس کے لئے ریسیور والد صاحب نے ہی پیش کیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔الحمد للّٰہ
نیک اولاد ایک صدقہ جاریہ ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک نعمت عظمی اور غیر مترقبہ محبت ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی خاص دین ہے۔جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔دنیا میں ہر محبت و نفرت نشیب وفراز کے ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہوتی رہتی ہےلیکن والدین کی محبت واحد ایسی لازوال اور سدا بہار محبت ہے جس کی مثال دنیا میں عنقا ہے۔
اسی طرح بچوں کو بھی اپنے والدین سے فطری محبت ہوتی ہے جس کے لئے وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں۔لیکن بچے باوجود چاہنے اور کوشش کے بھی اپنی بے شمار ذمہ داریوں کے اسے کما حقہ ادا نہیں کرسکتے اور یہی نظام قدرت ہے۔لیکن بعض بچے ماشاء اللّٰہ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔
لیکن میں نے مشا ہدہ کیا ہے کہ مکرم نور احمدمرتضی صاحب کی اولاد ان کےاس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی،جب ان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان آنکھوں میں اشک تیرتے نظر آتے ہیں۔ایک روز ان کے ہاں شادی کی ایک تقریب تھی۔انہوں مجھے دعا کے لئے بلایا۔میں نے بوجہ علالت مجبوری ظاہر کی۔کہنے لگے انکل جی ہمیں آپ میں ہمارے ابو نظر آتے ہیں اس لئے آپ کی آمد بہت ضروری ہے۔یہ بات ان کے بچوں کی اپنے والد مرحوم کے ساتھ گہری محبت اور احترام کی غمازی کرتی ہے۔
تربیت اولاد
اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو تین بیٹوں سے نوازاہے۔جن کی آپ نے بہت اچھی تربیت کی۔سب بچے بفضل تعالیٰ ہمہ وقت خلافت کے گرد پروانوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ان کے ایک صاحبزادے مظفر ڈوگر صاحب مربی سلسلہ وقف زندگی ہیں۔ان کے ایک پوتے عزیزم نیّر احمد ابن مکرم فرید ڈوگر صاحب وقف زندگی کے طور پر لندن میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔اللّٰھم زد فزد۔
اللّٰھم اغفر لہ وارحمہ وارفع درجاتہ فی اعلی علیین۔آمین
پرندوں کو گھروندوں سے باہر نکالنے کا طریق
گیمبیا کی ایک جماعت میں ایک بارخاکسار نے کسی مالی تحریک کے بارے میں اعلان کیا۔ وہاں پر موجود ایک بزرگ نے اپنے ایک عزیز کو چندہ جات میں باقاعدگی کے ساتھ حصہ نہ لینے پر سخت سست کہا۔مجھے اس بزرگ کا انداز کچھ ناگوار گزرا۔میں نے بعد میں اس بزرگ سے کہا کہ آپ کا انداز کچھ مناسب نہیں تھا۔کہنے لگے۔بعض پرندوں کے گھر وندےدرختوں کے تنے میں ہوتے ہیں۔ان پرندوں کو ان کے گھروندوں سے نکالنے کے لئے زرا زور زور سے کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ بلانے سے وہ باہر نہیں نکلتے۔ایسے ہی بعض کمزور لوگوں کو کسی بھی تحریک کے لئے زرا سختی سے کچھ کہنا پڑتا ہے۔ورنہ وہ سستی دکھاتے ہیں۔
قصہ کچھ ایسا ہی ہے۔میں ہی وہ پرندہ ہوں جسے عزیزم مظفر احمد نے گھونسلے سے زرا سختی سے نکالا ہے۔ کیونکہ اکثر اوقات کسی بھی کار خیر کے پس پشت کئی ایک دیگر محرک اور عوامل ہوتے ہیں۔جن کے نتیجہ میں کام سرانجام پاتے ہیں۔مکرم نور احمد مرتضی کے بارے میں اس مضمون کے لکھنے کے پیچھے مَیں وہ پرندہ ہوں جسے گھونسلے سے نکالنے میں عزیزم مظفر احمد ڈوگر صاحب کا ہی ہاتھ اور تحریک ہے۔انہی کی تحریک پر میں نے قلم اٹھایا اور اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ترتیب دےکر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق پارہا ہوں۔اللہ تعالیٰ عزیز مظفر احمد کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
گر قبول افتد زہے عزوشرف
(منوراحمد خورشید ۔ مبلغ سلسلہ انگلستان)