بچوں کی پا ک فطرت اور کفارہ کا عقیدہ
یہ ہمارے گھر میں رونما ہونے والا ایک حقیقی واقعہ ہے جو شاید کبھی نہ کبھی ہر گھر میں ضرور رو نما ہو ا ہوگا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میرا بیٹا (جس کی عمر اس وقت چار سال کی تھی) اور بڑی بیٹی (جس کی عمر اس وقت چھ سال کی ہوگی) دونوں کمرے میں کھیل رہے تھے۔ ایام ِ طفولیت میں کھلونوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ایک دوسرے سے اپنی پسندیدہ چیز کھینچنا اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ دوڑ تو عام سی بات ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ان دونوں بچوں کے درمیان بھی چل رہا تھا کہ اچانک بات ایک دوسرے کو دھکا دینے تک پہنچ گئی۔ بڑی بہن نے بڑے ہونے کے ناطے چھوٹے بھائی پر رعب ڈالنا چا ہا اور دھکا دے کر میرے پاس آکھڑی ہوئی۔ بیٹے نے بدلہ لینے کا ارادہ کیا اور آگے بڑھا تو میں نے پیار سے اس کو اپنی گود میں بٹھایا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ لڑ کے ہو اور مرد ہو۔ لڑکوں کا لڑکیوں سے بھلا کیا مقابلہ ہوتا ہے۔ بہنیں تو کمزور ہوتی ہیں اور بھائی مضبوط جسم کے مالک ہوتے ہیں۔ میں بھی لڑکا ہوں اور آپ بھی لڑکے ہو۔ اس لئے آپ مجھے دھکا دے لو اور حساب برابر کر لو۔ نہایت برجستہ طور پر وہ کہنے لگا کہ میں تو اسی کو دھکا دوں گا جس نے مجھے دھکا دیاہے۔
اس کا جواب سن کر میں اس زور سے ہنسا کہ وہ دونوں بچے بھی ہنسنے لگے کیونکہ میرے ذہن میں فوری طور پر یہ خیال آیا کہ ایک معصوم بچہ بھی اتنی عقل کا مالک ضرور ہوتا ہے کہ اس نے اسی سے بدلہ لینا ہے جس نے قصور کیا ہے لیکن عیسائی حضرات دنیا بھر کے گناہگاروں کے گناہوں کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام جیسے نیک، مطہر خدا کے فرستادہ اور نبی کا کفارہ پیش کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں، جس عقیدہ کو مان لینے سے ہی ان سب کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور حضرت مسیح کو ان کی جگہ صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ گویا خدا نے (نعوذ باللّٰہ ) ایک نیک اور اپنے بر گزیدہ کو گناہگاروں کے گناہوں کے سبب سے صلیب پر لٹکا دیا۔
شکر ہے کہ ہمیں جس خدا کا تعارف اسلام نے کروایا ہے وہ ایسا ظالم نہیں کہ ایسے لا یعنی عدل کی خاطر یعنی گناہ کی پاداش میں ضرور کسی کو سزا دینے کا پابند ہو خواہ وہ سزا کسی بے قصور کو ہی ملے۔ بلکہ ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو مالک الناس ہے یعنی انسانوں کا بادشاہ ہے اور کسی ایسے عدل اور انصاف کے لئے مجبور یا پابند نہیں ہے بلکہ فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر ایک چیز پر وسیع ہے۔ پھر انسان جو ایک مشت خاک ہے اس کے گناہ خواہ کتنے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں وہ اس پیارے خدا کی رحمت پر حاوی کیونکر ہو سکتے ہیں۔
تثلیث کے متعلق ایک کیتھولک سکالر سے گفتگو
گزشتہ سال ایک دوست آسٹریا کے ملک سے تشریف لائے جو جرمنی کا ہمسایہ ملک ہے۔ موصوف کا نام Mr. Alexander تھا اور وہاں مقیم ایک دوست کے توسط سے ہمارے مہمان بنے۔ انتظامیہ کی طرف سے ہدایت ہوئی کہ ان کی رہائش اور سیر و تفریح کے لئے خاکسار کو متعین کیا گیاہے۔ موصوف سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ دنیا کے 70 سے زائد ملکوں کی سیر کر چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ پوری آب و تاب سے جاری ر کھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ موصوف چونکہ انگریزی زبان میں بات کرتے تھے اس لئے خاکسار نے ا ن کو اپنے شہر کی سیر کروائی اور خاص مقامات بھی دکھائے اور انگریزی میں تعارف کرواتا رہا۔ بعض مقامات کی سیر کی فہرست انہوں نے پہلے سے اپنے موبائل میں تیار بھی کر رکھی تھی۔ خاص کر طلوع و غروب آفتاب کے وقت دریا پر جا کر تصویر کشی سر فہرست تھی۔ موصوف سے دو سے تین دن میں کافی بے تکلفی ہو گئی اور کئی موضوعات زیر بحث رہے اور یہ سب گفتگو انگریزی میں ہی ہوتی رہی (انگریزی میں گفتگو کا اظہار ایک خاص وجہ سے یہاں کرنا ضروری ہے جو آخری سطور میں سمجھ آ جائے گا )۔
خاکسار نے موصوف سے جب بھی تثلیث (Trinity) کے عقیدہ پر بات شروع کی تو باوجود اس کے کہ انہوں نے کیتھولک ازم میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی، بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتے۔ بالآخر جب انہوں نے واپسی کا عندیہ دیا تو خاکسار کو ایک ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ ان سے سیر و تفریح کے حوالہ سے کسی پہیلی کے ذریعہ سے اصل بات کا پتہ لگوایا جائے۔ اس خیال کے آتے ہی خاکسار نے انگریزی میں ایک طویل سوال لکھ کر انہیں بھیجا اور درخواست کی کہ ہماری دوستی اور ان کی سیر و تفریح کے وسیع تجربات سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے یہ سوال آپ کو بھیج رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ضرور راہنمائی فرمائیں گے۔
سوال کچھ یوں تھا کہ اگر ہم دونوں کو بغرض سیر و تفریح کسی بسوں کے اڈہ سے تین میں سے کسی ایک بس کا انتخاب کرنا پڑے تو کون سی بس کا ا نتخاب کریں۔ پہلی بس کا ایک ہی ڈرائیور ہے اور اس کے پاس اس بس کا مکمل کنٹرول ہے۔ دوسری بس کے دو ڈائیور ہیں اور دونوں آزادانہ رنگ میں بس کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جس سے ہمیں خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایک تیسری بس بھی ہے جس کے تین ڈرائیور ہیں اور تینوں اس کو کنٹرول کرنے میں پوری طرح سے آزاد ہیں اور کسی ایک کی غلطی سے سخت حادثہ ہو سکتا ہے۔ آپ کی رائے میں ہم دونوں کو کس بس میں سوار ہونا چاہئے۔
اول تو کئی گھنٹے گزر جانے پر بھی موصوف نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ پھر جب جواب موصول ہوا تو اس میں لکھا تھا کہ آپ کی انگریزی کی مجھے کچھ زیادہ سمجھ تو نہیں آئی (حالانکہ گزشتہ دنوں میں بہت بے تکلفی رہی) تاہم جو سمجھ آئی ہے اس کے مطابق میرا خیال ہے کہ پہلی بس میں سفر کرنا زیادہ محفوظ اور خطرہ سے باہر ہے۔
اس کے جواب میں خاکسار نے ان کو لکھا کہ حیرت ہے کہ چند کلو میٹر کے سفر کے لئے ایک صاحب تجربہ جو سیر و سیاحت کو خوب جانتا ہے ایسی بس کا انتخاب کرے جس کا ایک ہی ڈرائیور ہو اور پوری کائنات کے نظام کو چلانے کے لئے تین خداؤں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا جائے جبکہ قرآن کریم تو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر اس کائنات کے دو خدا ہوتے تو یہ تباہ و برباد ہو جاتی اور اگر عیسائیت کے مطابق تینوں خدا الگ الگ طریق پر خدائی میں مصروف ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی خدا بھی پوری طرح سے اس کائنات کو چلانے پر قادر نہیں ہے اور جزوی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے آپ کی بہتری کے لئے درخواست کرتا ہوں کہ تثلیث کی بجائے دنیا اور آخرت دونوں میں توحید کو ماننا عند العقل اور عقیدہ کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔
(مرسلہ :ابو سلطان)