• 30 اپریل, 2024

غض بصر

مغربی معاشرے میں احمدی مسلمان کی ذمہ داری
غض بصر

اسلامی معاشرہ اپنی خوبیوں سے کسی بھی شہر یا قصبہ کو فلاحی ریاست میں بدل دیتا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست ایسے شہر یا ملک کو کہتے ہیں جہاں امن و امان ہو، دارالعلوم یا جامعات ہوں، زندگی کی بنیادی سہولیات کی یکساں نظام میں تقسیم ہو اور مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو جیسے پانچ وقت با جماعت نماز ادا کرنے کا ایک یہ بھی فائدہ بیان کیا جاتا ہے کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے یعنی ایک نماز سے دوسری نماز تک کا وقت مختصر ہوتا ہے جو انسان کی توجہ ذکر الٰہی سے دوسری جانب مبذول ہونے ہی نہیں دیتا پھر اپنے کاروبار کے کاموں سے فرصت سوائے نماز کے ممکن ہی نہیں ہوتی تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے۔ یہ تو ایک فلاحی اسلامی معاشرے کی مثال ہے۔؎

دنیا میں مسلمان اور احمدی مسلمان یورپ اور امریکہ جیسے جدید ملکوں میں بھی کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ جدید اور ترقی یافتہ ممالک اپنے طرز زندگی اور امن و امان کی بہتری کے حوالے سے دنیا کے بہترین رہائشی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔

یہاں کے کاروباری حالات بھی بہتر اور حکومتی قوانین کے مطابق ایک یکساں نظام تجارت کا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہوئے لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔

البتہ نظام زندگی میں یہ لوگ اسلامی معاشرے سے مختلف ہیں۔ جیسے اسلامی معاشرے میں نماز ادا کرنے کی غرض سے مرد و خواتین جو لباس پہنتے ہیں وہ جسم کو ڈھانکتا ہے یعنی لباس سارے جسم پر ہوتا ہے۔ اسی طرح خواتین سر کو بھی ڈھانپتی ہیں۔ یہ لباس مغربی یا امریکی ممالک میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مرد اور خواتین کے لباس تو بہت معقول ہیں جیسے مرد حضرات پینٹ شرٹ پہنتے ہیں، البتہ فیشن یا خاص ملبوسات پہننے کا بھی بہت رواج ہے۔ جو اکثر شوق کے طور پر نوجوان پہنتے ہیں۔

صرف لباس کے فرق کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم معاشرتی مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو مندرجہ ذیل معاشرتی برائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

1۔ غض بصر کا نہ ہونا

’’ اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقہ کی خبر نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائزالنظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں۔۔۔ یہی وہ خلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں۔ ‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 32)

2۔ فیشن ملبوسات کی خریدداری فضول خرچی ہے

آپ کسی بھی دکان سے عام پینٹ شرٹ خریدیں اور فیشن فیبرکس خریدیں، آپ کو فیشن فیبرکس زیادہ مہنگی ملیں گیں۔ سادہ کپڑے خریدیں جیسا کہ تحریک جدید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ احباب سادہ زندگی بسر کریں۔

3۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لباس میں مماثلت

پھر کام کے اعتبار سے مرد اور خواتین میں لباس میں مماثلت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب مرد حضرات اور عورتوں کے ملبوسات میں یکسانیت ہو گی تو مردوں اور عورتوں میں بات چیت کے مواقع بھی بن جائیں گے اس طرح مردوں اور عورتوں میں تفریق کا نظام ختم ہو جاتا ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں تفریق کا نظام یعنی باہمی تعلقات نہ ہونا، عورتوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

اس موضوع کے حوالے سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’ ہماری جسمانی بناوٹ کا ہماری انسانیت سے بڑا تعلق ہے۔‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 9)

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’ خدا کی کتاب میں دونوں مرد اور عورت کے لئے یہ تعلیم فرمائی گئی ہے۔ ‘‘

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ

مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔

( النور:31)

وَقُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَلَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۲﴾

اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو (عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

( النور:32)

وَلَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَسَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۳﴾

اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ یقیناً یہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا رستہ ہے۔

(بنی اسرائیل:33)

وَلۡیَسۡتَعۡفِفِ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ نِکَاحًا

اور وہ لوگ جو نکاح کی توفیق نہیں پاتے انہیں چاہئے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔

(النور:34)

وَرَہۡبَانِیَّۃَ ۣ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ

ہم نے ان پر وہ رہبانیت فرض نہیں کی تھی

فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا

پس انہوں نے اس کی رعایت کا حق ادا نہ کیا۔

(الحدید:28)

مندرجہ بالا آیات کے حوالے سے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’ یعنی ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نا محرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقع پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسے ہی کانوں کو نا محرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنیں۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے۔ ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نا محرم مردوں کو دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نا محرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کانپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے۔ ‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 29-30)

4۔ مردوں اور عورتوں کا ایک جگہ کام کرنا

مغربی اور امریکی معاشرے کے کاروباری مراکز میں مرد اور خواتین یکساں نظام کے ماتحت کام کرتے ہیں اور جب ہم کام کے اعتبار سے جائزہ لیتے ہیں تو بعض شعبوں میں مرد حضرات کم تعداد میں اور خواتین زیادہ تعداد میں کام کرتی ہیں جیسے ہسپتالوں میں نرسنگ کا شعبہ ہے۔ اسی طرح جب ہم ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ڈرائیونگ کی بات کرتے ہیں تو مرد حضرات کی تعداد عورتوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔

جبکہ شاپنگ مال اور گروسری سٹورز میں بھی مرد اور خواتین کو کام کرنے کے یکساں مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔

البتہ بعض ایسی سہولتیں ہیں جہاں آپ مسلمان اور احمدی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے لئے اپنی پسند کے مطابق یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مرد حضرات، مرد حضرات سے سروس حاصل کریں اور خواتین، خواتین سے سروس حاصل کریں۔

مثال کے طور پر آپ کو آئی کلینک میں آئی ٹیسٹ کروانا ہے۔ آئی ٹیسٹ میں ڈاکٹر صاحب کو آئی ٹیسٹ مشین آپریٹ کرنے کے لئے مریض کے قریب بیٹھ کر آئی ٹیسٹ کرناہے۔ جیسے دو فرد آمنے سامنے کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلمان مرد حضرات یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے مرد ڈاکٹر صاحب آئی ٹیسٹ کریں اور خواتین بھی خواتین ڈاکٹر صاحبہ سے آئی ٹیسٹ کی درخواست کر سکتی ہیں۔

اسی طرح آجکل ہیئر کٹنگ یا نائی کی دکان پر مرد اور خواتین دونوں کام کرتے ہیں وہاں بھی مسلمان اور احمدی مسلم احباب کا یہ سوال ہونا چاہیے کہ مرد ہئیر ڈریسز مردوں کی ہیئر کٹنگ کریں اور عورتوں کیلئے عورت ہیئر ڈریسز بالوں کی کٹنگ کرے۔

یہ تو دو مثالیں ہیں ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے نوجوانوں کو جو طالب علم ہیں یہ تجویز پیش کریں کہ وہ کالج اور سکول یا یونیورسٹی میں لڑکے اپنی بات چیت کو لڑکوں تک محدود رکھیں اور لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو دوست اور بات چیت کا ذریعہ بنائیں۔

نوجوانی کی عمر کے حوالے سے ایک اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش خدمت ہے۔

’’ غرض اس جوانی کی عمر میں بہت نازک حال ہوتا ہے۔۔۔ غرض یہ وہ زمانہ ہے جس میں خدا کا خوف کم اور شہوت طالب اور نفس غالب ہوتا ہے۔‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ10 ب)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا ۪ۙ﴿۱۰﴾

یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اُس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا۔

(الشمس:10)

وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮہَا ﴿ؕ۱۱﴾

اور نامراد ہوگیا جس نے اُسے مٹی میں گاڑ دیا۔

(الشمس:11)

مندرجہ بالا آیات کریمہ کا ترجمہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’ یعنی جس نے ارضی جذبات سے اپنے نفس کو پاک کیا۔ وہ بچ گیا اور نہیں ہلاک ہوگا مگر جس نے ارضی جذبات میں جو طبعی جذبات ہیں اپنے تئیں چھپا دیا وہ زندگی سے نا امید ہو گیا۔ ‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ7)

پھر فرمایا:
’’ پہلا خلق احصان کے نام سے موسوم ہے اور اس لفظ سے مراد خاص وہ پاکدامنی ہے جو مرد اور عورت کی قوت تناسل سے علاقہ رکھتی ہے۔ ‘‘

’’ یہ خلق جس کا نام احصان یا عفت ہے یعنی پاکدامنی۔‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 28)

’’ خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلی تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں یعنی یہ کہ (1) اپنی آنکھوں کو نا محرم پر نظر ڈالنے سے بچانا (2) کانوں کو نا محرموں کی آواز سننے سے بچانا۔ (3) نا محرموں کے قصے نہ سننا (4) اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا (5) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔

اس جگہ ہم بڑے دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلی تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام سے ہی خاص ہے۔ ‘‘

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 31)

ہمیں تاکید ہے کہ ہم نے محرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ نا پاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں نہ پاک خیال سے اور نہ نا پاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں۔

( اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 31)

ہمارے پیارے امام سیدنا خلیفۃ المسیح الخامس حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز جلسہ سالانہ قادیان 2022ء کی اختتامی تقریب میں دوسری شرط بیعت کا ذکر کرتے ہوئے خطاب فرماتے ہیں کہ

دوسری شرط بیعت

’’ بہرحال مَیں ابھی بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں گا اور دوسری شرطِ بیعت سے متعلق بعض باتیں کروں گا، جو یہ ہےکہ ‘‘بیعت کنندہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہرایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساداوربغاوت کے طریقوں سے بچتا رہےگا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘

اس شرط میں آپؑ نے 9 برائیوں سے بچنے کا ذکر فرمایا ہے۔

زنا سے بچنا

دوسری شرط بیعت میں دوسری بات زنا سے بچنا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا نے اس کی تمام حدیں توڑ دی ہیں، ان حالات میں ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ گندی فلمیں اور دل میں گندے خیالات پیدا کرنا بھی زنا کی قسمیں ہیں۔ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ آج کل میڈیا میں بچوں کے پروگرامز میں بھی ان کے ذہن کو زہر آلود کیا جا رہا ہےاوربے حیائی اور فحشاء کی طرف لے جایا جاتا ہے۔

آخرت کے عذاب کے اوراس کی شدت کے متعلق توخدا تعالیٰ جانتا ہےلیکن جو ان غلاظتوں میں پڑتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی مختلف بیماریوں میں پڑتے ہیں۔ ہم نے اس برائی سےخود کو بھی، اپنی نسلوں کو بھی اور دوسروں کو بھی بچا نا ہے۔ یہ برائی پھیلانا دہریت پھیلانے کا ذریعہ ہے جو خدا سے دور لے جاتے ہیں۔

بد نظری سے بچنا

حضرت مسیح موعودؑ نے بد نظری سے بچنے کی تلقین کی ہے۔

اسلام نے نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم مرد و عورت دونوں کو دیا ہے، اور حیا کے اس معیار کو قائم فرمایا ہے کہ برائی کا امکان ہی باقی نہ رہے۔اسی طرح ایک پاکیزہ معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس حکم کی وسعت صرف ظاہری طورپر دیکھنے تک ہی نہیں۔ آج کل میڈیا، کمپیوٹر، ٹی وی پر غلط اور ننگے پروگرام آتے ہیں جس حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے۔

رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ام سلمیٰؓ کو ایک نابینا سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اس میں ان لوگوں کا بھی جواب ہے جو بسا اوقات یہ کہہ دیتے ہیں کہ جماعت میں پردہ کے متعلق زیادہ سختی کرتے ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 25؍ دسمبر2022ء)

(شیراز احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ