• 27 اپریل, 2024

آداب معاشرت (گفتگو کے آداب) (قسط 8)

آداب معاشرت
گفتگو کے آداب
قسط 8

حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کی خدا تعالیٰ کے ہاں بازپرس ہوگی۔ اس لئے ہمیشہ پاکیزہ اور نیک کلمات بولنے چاہیں۔ زبان کا باہمی تعلقات پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے نیک کلام کے اندر ایک مقناطیسی کشش ہوتی ہے۔ مومن کی زبان گندے اور غلیظ کلام سے محفوظ رہتی ہے۔ اس کا کلام پاکیزہ ہوتاہے۔ حدیث میں مومن کی صفات بیان ہوئی ہیں کہ وہ طعنہ زن، بہت بد دعاکرنے والا، بے حیا اور بد زبان نہیں ہوتا ہے۔ وہ حیادار ہوتا ہے اور حیا دار شخص کی زبان اس کے قابو میں رہتی ہے

اگر کوئی بات کہو تو ہمیشہ سچ بات کہو۔ پیچدار بات نہ کرو۔ توحید کے بعد سب سے بڑی نیکی سچ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہےیٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (احزاب:71) اے مومنو !اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کر و اور وہ بات کہو جو سچی ہو۔ پھر سچی بات کہنے کا نتیجہ یہ بتایا کہ گفتگو عام فہم اور وضاحت سے کرنی چاہئے۔آنحضورﷺ کی گفتگو نہایت شیریں اور دلآویز ہوتی تھی۔ آپ بہت ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے، جب کسی بات پر زور دینا ہوتا تو آپؐ اسے دو تین بار دُہراتے تا کہ سننے والوں کو یاد ہو جائے۔پاکیزہ گفتگو کرنی چاہئے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم) اور آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہے۔تکلف اور تصنع کے بغیر گفتگو کرنی چاہئے اور نہ ہی زبان کو موڑ کر گفتگو کرنی چاہئے۔ یہود کا یہ طریق تھا کہ وہ اپنی زبان کو پیچ دے کے اور لفظ بگاڑ کر گفتگوکرتے تھے۔

آپ ؐنے فرمایا جو لوگ گفتگو کے وقت زبان کو مروڑ مروڑ کر باتیں کرتے ہیں قیامت کے دن ایسے لوگ مجھ سے دور رہیں گے۔ (ترمذی) گفتگو میں مبالغہ سے کام نہیں لینا چاہئے۔حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ مبالغہ سے تکلف کرنے والے ہلاک ہوئے۔ آپ ؐ نے یہ تین بار فرمایا۔ (مسلم)بیہودہ بکواس اور فحش کلامی نہیں کرنی چاہئے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آنحضرتﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ تو آپؐ فاحش تھے اور نہ قصداً فحش گوئی کرتے تھے۔ (صحیح بخاری) ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ مومن فحش بکنے والا، بدزبان اور بد گو نہیں ہوتا۔ (ترمذی)پس فحش گوئی سے بچنا چاہئے اور کثرت سے استغفار کرنا چاہئے۔

زبان کا سارے اخلاق پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے مومنوں پر واجب ہے کہ وہ سخت زبانی نہ کرے۔ بُرے نام سے نہ پکارے اور نہ ہی کسی پر لعنت کرے۔ گالی گلوچ نہ دے کیونکہ یہ بد خلقی ہے جو انسان کے ایمان کو غارت کر دیتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مومن پر لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ (بخاری) مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے۔ اس لئے گفتگو میں غیبت جیسی گھناؤنی بُرائی کرنے سے بچا جائے۔ مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ (الحجرات:13) کہ تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں۔کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ (اگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے تو)تم اس کو ناپسند کرو گے۔ الھمزہ: 2،4 میں ارشاد ہے۔ وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ ۣ ۙ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ط یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ ہر غیبت کرنے والے اور عیب چینی کرنے والے کے لئے عذاب ہی عذاب ہے۔ چغلی کرنا، تہمت لگانا اور نسب میں طعن کرنا کفر کی علامت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔

گفتگو کے دوران کسی کی حقارت کے ساتھ ہنسی نہ اڑائی جائے۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۚ وَ مَنْ لّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الحجرات:12) اے مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے اسے حقیر سمجھ کر ہنسی مذاق نہ کیا کرے ممکن ہےکہ وہ ان سے اچھی ہو۔ اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں سے ان کو حقیر سمجھ کر ہنسی ٹھٹھا کیاکریں۔ ممکن ہے کہ وہ عورتیں ان سے بہتر ہوں۔ گفتگو میں اگر کسی مزاح کا رنگ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن ایسا مزاح نہ کیا جائے جو گھٹیاہو اور دوسرے کی دل شکنی کا باعث بنے۔ رسول کریمﷺ شگفتہ مزاج تھے اور کبھی کبھی ظرافت کی باتیں بھی فرماتے۔ بہت زیادہ کلام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ کثرت کلام سے بسااوقات لوگوں میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔آ نحضورﷺ فرماتے ہے کہ اللہ کے ذکرکے بغیر زیادہ کلام نہ کرو۔ اللہ کے ذکر کے بغیر کثرتِ کلام سے دل سخت ہو جاتا ہے اور سنگ دل آدمی اللہ سے سب کے مقابلہ میں دور تر ہوتا ہے۔

(ریاض الصالحین)

بات مختصر اور موقع محل کے مطابق کرنی چاہئے۔ آنحضرتﷺ کو یہ وصفِ کامل خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیاتھا۔سوچ سمجھ کر اور عقل کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئے۔ بات کرتے وقت مزاج شناسی کر لینی چاہئے خواہ مخواہ ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جسے سن کر دوسرا مشتعل ہو جائے۔ ایسے طریق سے کلام کرنا چاہئے جو مخاطب کے فہم کے مطابق ہو، جس سے وہ بات کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کی غلط فہمی دور ہو جائے۔ آنحضرتﷺ نے حکم دیا کہ لوگوں سے ا ن کے فہم اور ادراک کے مطابق کلام کیا کرو۔ (دیلمی) حضورؐ تو نباض اعظم تھے۔ آپؐ ہمیشہ آدمی کی طبع کا اندازہ لگا کر جواب دیتے تھے۔ صحابہ کرامؓ جب بھی آپؐ سے کوئی سوال یا مسئلہ پوچھتے آپؐ ہمیشہ ان کی سمجھ اور حالت کے مطابق جواب دیتے تھے۔ غصے اور جوش میں آکر تیزی سے جلدجلد بات نہیں کرنی چاہئے بلکہ تحمل کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئے کیونکہ بے جا غصہ میں کہی گئی بات اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے۔ غصہ کو قابو میں رکھ کر باتیں کرنا حوصلہ مندی اور مردانگی کا ثبوت ہے۔اگر موقع نہ ہو یا کہنے کو اچھی بات نہ ہوتو پھر خاموش رہنا چاہئے۔ آ نحضورﷺ اکثر چُپ رہتے اور بے ضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے تھے۔ آپؐ فرماتے تھے جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلی بات کہے یا خاموش ہورہے۔

(اربعین نودی)

سنی سنائی بات کو آگے نہیں پھیلانا چاہئے۔ افواہیں پھیلانے سے معاشرے کی سالمیت اور امن کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشا د ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو بے سوچے سمجھے پھیلا دینا انسان کے لئے بڑا جھوٹ بن جاتا ہے (مسلم) ایک دوسرے سے بات سن کر بغیر تحقیق کے باتیں پھیلا دینا گناہ ہے کیونکہ اس طرح ایک آدمی کی عزت پر ناحق حملہ ہو جاتا ہے اور وہ بدنام ہو جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہو گا۔ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے اور جھوٹ کو سچائی کے رنگ میں بھی پیش نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جھوٹ ایک زہر ہے جس سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور جہنم میں جا پہنچتا ہے۔ اگرانسان ہنسی مذاق میں ہی جھوٹ کی عادت ڈال دے تو پھر وہ سنجیدہ جھوٹ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاجْتَنِبُوْا قُوْلَ الزُّوْرِ(الحج)جھوٹ بولنے سے بچو۔آنحضرتﷺ سب سے زیادہ صادق القول اور راستباز تھے۔ آپؐ جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے تھے اور فرماتے تھے۔ وہ جھوٹ حرام ہے جو محض ہنسانے اور خوش کرنے کے لئے ہو۔ آپؐ فرماتے تھے۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو بات کرتا ہے اور اس میں جھوٹ بولتا ہے تا کہ اس سے لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت وتبا ہی ہے۔

جھوٹی گواہی کبھی نہیں دینی چاہئے۔خواہ وہ اپنی ماں باپ، حقیقی بھائی یا رشتہ دارکے متعلق ہو۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی یہ صفت بیان فرماتا ہے کہ وہ جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔بات بات میں قسم نہیں کھانی چاہئے۔مومنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لغو قسموں سے اعراض کرتے ہیں۔یہ بہت بُری خصلت ہے کہ انسان جس کے پاس جائے اس کی بات کرے، یہ منافقت ہے۔ اِدھر کی بات سن کر اُدھر اور اُدھر کی بات سن کر اِدھر نہیں بتانی چاہئے کیونکہ اس سے فساد پھیلتا ہے۔

کسی کی تعریف کرتے ہوئے مبالغہ آرائی نہ کی جائے۔ ایسی مدح مکروہ ہے۔ گفتگو کے دوران کسی کی بات کاٹنی نہیں چاہئے۔جب ایک شخص گفتگو کر رہا ہو تو اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی بات سننی چاہئے۔جب دو شخص باہم گفتگو کر رہے ہوں اور وہ اس بات کو نا پسند کرتے ہوں کہ کوئی شخص ان کی گفتگو سنے تو تجسس نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کان لگا کر ان کی بات سننی چاہئے۔ بزرگوں کے سامنے اُونچی آواز کے ساتھ بات چیت نہیں کرنی چاہئے۔بلکہ ادب کے ساتھ ان سے گفتگو کی جائے۔ اگر کوئی مجلس میں نا مناسب گفتگو کرے تو اسے مطلع کر دینا چاہئے اور اگر کوئی شخص اچھی بات کہے تو اس کی داد دینا بھی جائز ہے۔ اگر بیت الخلا میں ہوں تو کسی سے گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔

پس ہم پر لازم ہےکہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں۔ اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے کسی کو دکھ نہ دیں۔ جب بھی بات کریں توسچ بولیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم راست گفتار بن جائیں اور کلام کے سب آداب کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ رفق اور ملاطفت کے ساتھ گفتگو کریں۔ تا خدائے کلیم کے پاک کلام اور خوشخبریوں سے ہم مشرف ہو سکیں۔

(حنیف محمود کے قلم سے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ