• 30 اپریل, 2024

میر ملک آبشار

میر ملک آبشار
وادی استور میں واقع ایک پوشیدہ آبشار

پاکستان میں کئی ایک ایسی آبشاریں واقع ہیں جو سیاحت کی دنیا میں مشہور و معروف ہیں۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ان آبشاروں پر تفریح کی غرض سے آتی ہے۔ لیکن کئی ایک ایسی آبشاریں بھی ہیں جو سیاحوں اور عوام الناس کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایسی ہی ایک آبشار کے بارے میں ہمیں چند مقامی دوستوں کی معرفت معلوم ہوا تو ہم نےاس تک رسائی اور دنیا کے سامنے لانے کا ارادہ کرلیا۔ استور گلگت بلتستان کا ایک اہم ضلع ہے۔

اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے اپنا سفر استور شہر سے شروع کیا۔ یہ سفر جیپ پر تھا۔ جیپ ڈرائیور بھائی غزنوی ہمارے گائیڈ بھی تھے۔ہم راولپنڈی سے 14 گھنٹے کا سفر کرکے دن ساڑھے 10 بجے استور شہر پہنچے۔ ایک مختصر وقفہ آرام کے بعدساڑھے 11 بجے میر ملک گاؤں کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ 13؍ اگست 2022ء کا ایک خوبصورت دن تھا۔ گوری کوٹ میں ناشتہ کیا۔ چورت کے مقام پر ہم دریائے روپل پر قائم پل پار کر کے رٹو چھاؤنی کی طرف مڑ گئے۔ اب ہمارا سفر دریائے ریاٹ کے ساتھ تھا۔ رٹو چھاؤنی سے ہم نے دریائے ریاٹ کو الوداع کہا اور دائیں طرف میر ملک نالے کے ہم قدم ہوگئے۔ دادو جیل گاؤں اور چمروٹ کے مقامات سے گزرتے ہوئے میر ملک گاؤں پہنچے۔ یہاں چند دکانوں سے پیدل سفر کے لیے چند اشیائے خورد و نوش خریدیں اور پھر سے جیپ پر سوار ہوگئے۔ استور شہر سے تین گھنٹے کا سفر کرکے ہم شونٹر پاس کے قریب پہنچ گئے۔یہاں جیپ ٹریک ختم ہوجاتا ہے۔ اس مقام پر چند خانہ بدوش آباد ہیں۔ جیپ ایک مقام پر پارک کرکےضروری سامان ساتھ لیا۔ شونٹر پاس کی طرف سے آنے والی ندی کو ایک ایسے پل سے پار کیا جو لکڑی کے دو شہیتروں کے درمیان پتھر کی سلیں رکھ کیا تیار کیا گیا تھا۔

اس مقام سے ہمارا پیدل سفر شروع ہوا۔ہلکی پھلکی پیٹ پوجا کی۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہمیں اس آبشار تک پہنچنے میں کم و بیش دو گھنٹے کا وقت درکار تھا۔ غزنوی بھائی کی راہنمائی میں ہم بغیر کسی وقفے کے آبشار کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ انتہائی آسان تھا۔ گھاس میں پوشیدہ چند ڈھلوانیں پار کیں تو ایک جھیل کنارے جا اترے۔ یہ جھیل اگرچہ چھوٹی جھیل تھی لیکن ایک باقاعدہ الپائن جھیل تھی جسے ہم نے میر ملک جھیل 1 کا نام دیا۔یہاں سے آگے چلے تو راستہ مسلسل بلندی مائل ہوگیا۔ پتھر اور چٹانیں تھیں جن پر ہمیں احتیاط سے قدم اٹھانا پڑے۔ بلندی پار کی تو نیچے ایک اور جھیل پر اترے۔ یہ جھیل بھی ایک الپائن جھیل تھی جسے ہم نے میرملک جھیل 2 کا نام دیا۔

اب راستہ آسان ہوگیا تھا۔ دورپہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں محو گفتگو فلک تھیں۔ ان چوٹیوں کے نیچے ایک بڑا گلیشیئر نظر آرہا تھا۔ جھیل 2 سے آگے بڑھے تو ہمیں بائیں طرف کے پہاڑوں سے پانی گرتا دکھائی دیا۔ غزنوی بھائی نے بتایا کہ یہی میر ملک آبشار ہے۔ ابھی ہم آبشار سے کم و بیش 2 کلومیٹر دور تھے۔

یہاں بھی چند خانہ بدوش آباد ہیں اور اپنے گاؤں کو ‘‘صاحب کی تھالی’’ کا نام دیتے ہیں۔ اس گاؤں کے قریب ایک اور جھیل پر پہنچے جسے ہم نے میر ملک جھیل 3 کا نام دیا۔ دائیں طرف کے پہاڑوں سے بھی ایک آبشار اتررہی تھی۔ یہ آبشار بھی ایک خوبصورت آبشار تھی جس کے پانی گرنے کا اندازہ ہم نے کم و بیش 150 فٹ لگایا۔ اب ہم ایک میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اس میدان میں میر ملک ندی چند شاخوں میں تقسیم ہو کر بہہ رہی تھی۔ بعض شاخوں میں پانی مٹیالا اور بعض میں نیلا تھا۔ بعد میں ڈرون کیمرے کی مدد سے ہم نے دیکھا کہ ایک مقام پر مٹیالے پانی شفاف نیلے پانی میں ضم ہورہے ہیں۔ یہ میدان گھاس کا مخملی قالین اوڑھے ہوئے تھا۔ اس مخملی قالین میں ایک بڑی چٹان ابھری ہوئی تھی اور یہ ایک ہموار چٹان تھی۔ ہم اس چٹان پر بیٹھے گئے۔ کچھ دیر آرام کیا اور آرام کے دوران عکس بندی کی۔ نصر بھٹی کا ڈرون کیمرہ ایک ٹانگ ٹوٹنے کی وجہ سے اڑنے کے قابل نہ رہا تھا۔ غزنوی بھائی جگاڑ لگاکر اسے اڑنے کے قابل بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ بدن کی کم ہوچکی توانائیاں بحال کرنے کے بعد آبشار کے قریب جانے کی غرض سے روانہ ہوئے۔

تلمیذ نے پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا اور اسی سفر میں ایک اور جھیل تک پہنچ گیا۔ یہ میر ملک جھیل 4 کہلائی۔ میں اور نصر بھٹی ایک نالہ پار کر کے آبشار کی طرف چلے لیکن ہمارا راستہ بڑی ندی نے روک لیا۔ اسے پار کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہم اس ندی کے بہاؤ کی مخالف سمت چلے اور ایک اور جھیل پر جاپہنچے۔ یہ جھیل میر ملک جھیل 5 کہلائی۔ تلمیذ بھی چلتا ہوا ہمارے پاس پہنچ گیا۔ اس مقام سے آبشار کم و بیش 800 میٹر کے فاصلے پر تھی۔میر ملک آبشار ایک بڑی آبشار ہے۔ اس کا پانی پہاڑ کی چوٹی سے گرتا ہے۔ ہم نے پانی گرنے کی اونچائی کا اندازہ 500 فٹ سے زائد لگایا۔

آبشار تک پہنچنے میں ہمیں ایک گھنٹے کا وقت لگا۔ اب شام ہوچکی تھی۔ ہم نے واپسی کا سفر بھی کرنا تھا لہٰذا آبشار کے نیچے پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ ہم نے اسی مقام سے آبشار کی تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ غزنوی بھائی کے پاس واپس پہنچے تو ایک اچھی خبر ہماری منتظر تھی۔ غزنوی بھائی نے کمال مہارت سے دھاگوں کی مدد سے ڈرون کیمرے کی ٹانگ باندھ کر اسے اڑنے کے قابل بنا دیا تھا۔ نصر بھٹی نے فوراً ڈرون سے عکس بندی کی اور ہمیں نہایت دلکش اور سحر خیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ اب مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔

ہم نے میرملک آبشار کو الوداع کہا۔ 45 منٹ کا سفر کرکے واپس گاؤں پہنچے جہاں اہلیان گاؤں نے ہماری مہمان نوازی کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ان کے خلوص، پیار اور ایثار کی کوئی قیمت نہ تھی۔ خالص دیسی گھی میں بنا حلوہ، بکری کے دودھ کی چائے اور سادہ روٹی کھائی تو بدن کی تمام تر تھکاوٹ جاتی رہی۔ ان کی محبت سے دل لبالب بھر کر ہم واپس استور شہر روانہ ہوئے اور رات ساڑھے دس بجے شہر میں اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ غزنوی بھائی کی ہمت کو سلام کہ انہوں نے 6 گھنٹے جیپ بھی چلائی، ہمارے ساتھ پیدل سفر بھی کیا اور پھر واپسی پر اپنے گھر میں ہماری دعوت بھی کی۔

میر ملک آبشار ایک بڑی آبشار ہے۔ اس کے بارےمیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس آبشار کی بلندی کی پیمائش ہونی چاہیے۔ آبشار کے آس پاس کا علاقہ نہایت خوبصورت ہے۔ اس تک رسائی بھی آسان ہے۔ تین گھنٹے کے جیپ سفر اور ایک گھنٹے کے پیدل سفر سے اگرچہ بدن کے جوڑ پیج ہل جاتے ہیں لیکن جس قدر قدرتی حسن یہاں بکھرا پڑا ہے اس کے مقابلے میں راستے کی مشکلات کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ہر طرف بکھرے حسن بے پرواہ کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے بھر جاتا ہے اور زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہوجاتے ہیں:سبحان تیری قدرت۔۔۔

(سید ذیشان اقبال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ