• 28 اپریل, 2024

آداب معاشرت (اپنے وقت اورصحت کو خدمت دین میں لگانا چاہئے) (قسط 13)

آداب معاشرت
اپنے وقت اورصحت کو خدمت دین میں لگانا چاہئے
قسط 13

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اس دن انسان نصیحت حاصل کرنا چاہے گا مگر اس دن نصیحت پکڑنا اس کے لئے کہاں ممکن ہوگا۔وہ کہے گااے کاش!میں نے اپنی زندگی کے لئے (کچھ)آگے بھیجا ہوتا۔

(الفجر:24-25)

آپؐ نے ایک صحابیؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
پانچ چیزوں کا ان کے جانے سے پہلے فائدہ اٹھالو۔جوانی کا بڑھاپے سے پہلے،صحت کا بیماری سے پہلے،امیری کا غربت سے پہلے،فراغت کا مصروفیت سے پہلے،زندگی کا موت سے پہلے۔

(المستدرک علی الصحیحن،کتاب الرقاق)

آپؐ فرماتے ہیں:۔قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے،اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے کہاں گزاری اوراس نے اپنی جوانی کہاں صَرف کی اور اس نے اپنا مال کہاں سے کمایا اور اس نے اسے کہاں خرچ کیااور اس نے اپنے علم کے مطابق کس قدر عمل کیا۔

(سنن الترمذی کتاب صفۃ القیامۃ)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:مجھے کسی چیز پراتنی ندامت نہیں ہوتی جتنی اس دن پر ہوتی ہے جس دن سورج غروب ہو جائے اورمیری عمر(میں سے ایک دن) کم ہوجائے لیکن میرے اعمال حسنہ میں اضافہ نہ ہو۔

(ارشیف ملتقی التفسیر، الی اجبتی الثباب وقک جزء من عمرک)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا:۔ تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔پس اپنی اہمیت کو سمجھو،وقت کی نزاکت کو محسوس کرو اور خداتعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرو جو اس نے تمہارے ہاتھوں کی پہنچ میں رکھی ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ جنوری 1950ء)

ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ بہترین آدمی کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا:جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو۔اس نے دریافت کیا کون سے لوگ بُرے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا جن کی عمر طویل ہو اور عمل اچھے نہ ہوں۔

(سنن الترمذی،کتاب الزھد عن رسول اللہ)

رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:دنیا دور جا رہی ہے اور آخرت قریب آرہی ہے اور ان دونوں جہانوں کے وارث ہیں،پس تم آخرت کے وارثوں میں سے ہو جاؤ اور تم دنیا کے وارثوں میں سے نہ ہو۔آج کے دن عمل ہے اور کوئی حساب نہیں۔لیکن کل حساب ہوگا اور کوئی عمل نہیں ہوگا۔

(صحیح البخاری،کتاب الرقاق)

آپؐ فرماتے ہیں :اگر تم میں سے کسی پر موت کا وقت آجائے اور اس کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو،تب بھی اگر ممکن ہو تو اسے چاہئے کہ اسے گاڑ دے۔

(مسند احمد،کتاب باقی مسند المکثرین)

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں:۔دنیا کے دنوں میں سے ہر دن جو آتا ہے وہ دن کہتا ہے:اے لوگو!جان لو!میں ایک نیا دن ہوں اور میں ہر اس عمل کا گواہ ہوں جو آج کیا جائے گا،اور جب سورج غروب ہو جائے گا تو میں تمہارے پاس قیامت کے دن تک واپس نہیں آؤں گا۔

(کلام اللیالی والایام)

حضرت امام ابن القیم فرماتے ہیں۔وقت کو ضائع کرنا موت سے زیادہ شدت رکھتا ہے،کیونکہ وقت کا ضیاع انسان کو اللہ اور آخرت کے گھر سے کاٹ ڈالتا ہے، جبکہ موت صرف دنیا اور اس کے اہل سے کاٹتی ہے۔

(الفوائد،فائدہ قولہ تعالیٰ)

حضرت امام ابن الجوزی ؒ فرماتے ہیں۔جو اپنا فارغ وقت اور صحت خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگاتا ہے تو وہ خوش نصیب اور قابل رشک ہے اورجو شخص ان دونوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزارتا ہے تو وہ ناشکرا اور نقصان خوردہ ہے کیونکہ مصر وفیت فارغ وقت کے اور بیماری صحت کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

(فتح الباری شرح البخاری)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

جب ہم اپنے وقت کو پہچانتے ہی نہیں،ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ وقت گزر بھی رہا ہے کہ نہیں؟تو ہم کس طرح خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دیں گے کہ اے خدا!تو نے باطل نہیں پیدا کیا تھا مگر ہم نے باطل کر کے دکھا دیا۔اس لئے وقت خود اپنی ذات میں ایک جواب طلبی کا ذریعہ ہے۔یہ کہنا کہ جی میرا وقت ہے تمہیں کیا فرق پڑتا ہے میں جس طرح گزار دوں۔یہ غلط بات ہے اس کو دماغ سے نکال دیں۔آپ کا وقت نہیں ہے خدا کا وقت ہے اور وہ وقت کا بھی مالک ہے اور ان معنوں میں آپ کا وقت ہے کہ آپ کو امانتاًدیا گیا ہے۔اس وقت کے متعلق جواب طلبی ہوگی اور یہ جواب آپ کو دینا پڑے گا کہ ہم نے اس وقت کی حرکت کو باطل میں تبدیل کیا تھا یا حق میں تبدیل کیا تھا۔یہ مضمون اگر آپ ذہن میں رکھیں تو وہ وقت جو ہم ضائع نہیں کرتے جو گزر رہا ہے کسی حرکت میں،اس پر نظر ڈالیں تو وہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتا نظر آتا ہے۔وقت یا باطل کی طرف جارہا ہے یا حق کی طرف جارہا ہے یا اندھیرے کی طرف جارہا ہے یا روشنی کی طرف جا رہا ہے…میں ساری جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وقت کے مضمون پر غور کریں اورقرآن کریم کی اصطلاحوں میں غور کریں بھر پور کوشش کریں اور امراء اور مربیان کہ خود ان کا وقت بھرپور ہو اور ساری جماعت کا وقت بھر پور ہو اور باطل کی سمت میں حرکت کرنے والا نہ ہو بلکہ حق کی سمت میں حرکت کرنے والا ہو۔

(خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 1987ء)

(حنیف محمود کے قلم سے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ