• 30 اپریل, 2024

خلاصہ خطاب بر موقع نیشنل امن سمپوزیم برطانیہ مؤرخہ4؍مارچ 2023ء

خلاصہ خطاب بر موقع نیشنل امن سمپوزیم برطانیہ

امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ4؍مارچ 2023ء بمقام طاہر ہال مسجد بیت الفتوح کمپلیکس، مورڈن ؍ سرے یوکے

جب سے ہماری جماعت انیسویں صدی کے آخر پر قائم ہوئی دوسروں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ
ہم دنیا میں حقیقی قیام امن کے لئے مسلسل باہمی افہام و تفہیم اور رواداری کے پیغام پر عمل پیراء اور ترویج کے لئے کوشاں ہیں

حضور انور ایدہ الله نے تعوذ کے بعد ارشاد فرمایا! سب سے پہلے مَیں اپنے اِن تمام مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آج شام یہاں ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں، کوویڈ وبائی بیماری کی وجہ سے ہم پچھلے کچھ سالوں سے اِس طرح کے مہمانوں کا استقبالیہ کرنے سے قاصر رہے۔ یہ تقریب بیت الفتوح مسجد کمپلیکس کے انتظامی بلاک کی تعمیر نو کے افتتاح کے لئے منعقد کی جا رہی ہے اور افتتاح کے ساتھ ساتھ ہم اپنا نیشنل امن سمپوزیم بھی منعقد کر رہے ہیں۔اِس لئے مَیں مختصرًا مقاصد مسجد کا تذکرہ کرنے کی کوشش نیز دنیا کی موجودہ حالت اور عالمی امن و سلامتی کے حصول کے بارہ میں بھی اپنے خیالات پیش کروں گا۔

احمدی مسلمانوں کا عقیدہ

میرے خیال کے مطابق حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر حقوق الله کی ادائیگی یا الله تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ممکن نہیں۔اِس لئے سچے مسلمان اپنی زندگی پُرامن طریقے سے بسر کرتے ہوئےمعاشرہ میں امن، رواداری اور باہمی افہام و تفہیم کا پرچار کرتے ہیں۔درحقیقت احمدی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہماری جماعت کے بانی کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی توجہ اِن بنیادی اسلامی اصولوں کی جانب مبذول کرنے کے لئے بھیجا تھا جو حقوق الله اور حقوق العبادکی ادائیگی نیز دنیا بھر میں ہر جگہ امن و ہم آہنگی پھیلانے کی کوشش کرنا ہے۔

مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں

جو اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے وہ سلامتی میں داخل ہوتا ہے، اِس قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک سچا مسلمان مسجد میں داخل ہو کر خود امن کی حالت میں داخل ہو گا اور خدا کے حقوق و احکام کو پورا کر کے دوسروں کے لئےامن و سلامتی کا مینار ثابت ہو گا۔ قرآن پاک میں بیان ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص مخلوق خدا کے حقوق کو پورا نہیں کرتا تو اُس کی عبادات اور نمازیں ردّ کر دی جائیں گی، درحقیقت قرآن کریم کہتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتے اُن کی عبادت بجائے ذریعہ نجات اُن کی تنزلی اور ذلت کا ذریعہ بنے گی۔ہماری تمام مساجد روحانی طور پر مقدس خانہ کعبہ کی آئینہ دار ہیں جہاں یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے گھر کے طور پر کام کرتی ہیں وہیں بنی نوع انسان کے حقوق کی تکمیل اور دنیا میں قیام امن کا ذریعہ بھی ہیں۔

قرآن پاک کے آغاز سے ہی مسلمانوں کو گئی تلقین

اسلامی تعلیمات کا بنیادی ستون یہ ہے کہ ایک مخلص مسلمان کبھی بھی دیگر مذاہب اور عقائد کے لوگوں کو نہ نقصان پہنچائے، کسی بھی قسم کی نفرت کو جگہ دے یا اِن کے بارہ میں کسی بھی طرح سے برا بھلا کہے کیونکہ ہم سب اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔

درحقیقت ہمارا یقین اور تعلیم ہے

اللہ تعالیٰ تو اُن لوگوں کی بھی حاجتیں پوری کرتا ہے جو اُس کے فضل کی قدر نہیں کرتے اور اُس کے وجود کے انکاری ہیں، نہ صرف وہ اُن کو رزق بلکہ اُن کی محنت کا ثمر بھی دیتا ہے۔ یہ تمام مہربان خدا کا تصور ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں، یقیناً جو لوگ ایسے مہربان خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی بھی دوسروں کے امن و بھلائی کو نظر اندازکرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ اِس طرح خالصتاً ایسے مہربان اور محبت کرنے والے خدا کا قرب اور محبت حاصل کرنے کے لئے احمدیہ مسلم جماعت پوری دنیا میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے۔

ہمارا محرک حقیقی

جیسا کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا کہ وبائی مرض سے قبل ہم نے ہر سال اِس نیشنل امن سمپوزیم کا انعقاد کیا اور مقصد امن کو آگے بڑھانے کی کوشش میں اِس تقریب کو دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملنے پر ہم شکر گزار ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم پوری دنیا میں اِسی طرح کی کانفرنسیں اور تقریبات منعقد کرتے ہیں، جن میں لوگوں کو قطع نظر اُن کی ذات، نسل یا رنگ انسانیت کے بینر تلے اکٹھا اور دنیا میں درپیش مسائل کے حل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا محرک حقیقی دیرپا قیام امن ہے تاکہ بنی نوع انسان خود کو تباہی سے بچا سکے۔

صرف امن میں ہی دنیا کی نجات مضمر ہے

ہمارا مقصد اِس حقیقت کے بارہ میں آگاہی پیدا کرنا ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور انسانیت پر زور دینا ہے کہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹیں اور نہ صرف آج کے لوگوں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی اپنی ذمہ داریوں پر غور کریں۔ ہم ایسی تقریبات منعقد کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے پختہ یقین کا اعادہ کر سکیں کہ صرف امن میں ہی دنیا کی نجات مضمر ہے، امن سماجی ترقی و بہبود کے دروازے کھولنے کی سنہری کنجی اور اِس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر سکیں۔

دنیا ایک بار پھر جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے

اگرچہ ہم نے اِس پیغام کی طویل عرصہ سے ترویج کی لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اِن باتوں پر کان نہیں دھرا گیا، مجھے یقین ہے کہ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی اکثریت خداتعالیٰ سے منہ موڑ چکی اور مادیت پرستی اورحصول دنیاداری کو اپناحتمی مقصد سمجھتی ہے، ایسی ہی فضولیات اور حرص و ہوس کے تعاقب میں بیسویں صدی کے دوران بنی نوع انسان کو دو پُر مصائب اور خوفناک جنگوں میں گھسیٹا گیا۔ ماضی کی ہولناکیوں سے سیکھنے کی بجائے دنیا ایک بار پھر جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے۔

اسلام نے جارحانہ جنگ کی کبھی اجازت نہیں دی اور نہ دے گا

اسلام نے علاقائی مفادات یا جغرافیائی سیاسی عزائم کی تکمیل کےلئے جارحانہ جنگ کی کبھی اجازت دی اور نہ کبھی دے گا، مزید برآں قرآن پاک نے ہدایت کی ہے کہ حصول امن کے لئے ہر ممکن موقع کو بروئے کار لایا جائے خواہ کامیابی کے امکانات کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں۔

ابھی چند روز قبل ہی یوکرین جنگ کی پہلی برسی منائی گئی

افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی اِ س کا کوئی نشان نظر نہیں آیا، اِس کے باوجود بعض سیاسی رہنماء یہ کہنے سے نہیں رکے کہ ایک بار جنگ ختم ہونے کے بعد روس پر سخت پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں اور اِسے اِس کے عمل کی قیمت ادا کرنی چاہئے۔حضور انور ایدہ الله نے اِس تناظر میں حال ہی میں ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک صحافی میتھیو پیرس کے کالم کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا: وہ کہتا ہےکہ کسی بھی بامعنی مذاکرات امن سے پہلے اِس طرح کے بیانات غیر ضروری اور یہ صرف ایک غیر مستحکم صورتحال کو مزید بھڑکانے اور پُرامن حل کے امکانات کو کم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کو میڈیا کی قلیل مدتی پذیرائی سے بالاتر ہو کر اِس بات کو سمجھنا چاہئے کہ آج بولے جانے والے الفاظ مستقبل کے اِس خطہ پر طویل سایہ ڈال سکتے ہیں جس سے ہم ابھی تک لاعلم ہیں، اب وہ وقت نہیں ہے کہ شکست خوردہ روس سے بدلہ کی بات کرتے ہوئےنیورنبرگ طرز کے جنگی جرائم کے ٹربیونلز کا مطالبہ کیا جائے۔ حضور انور ایدہ الله نے مزید ارشاد فرمایا! مجھے یقین ہے کہ اِسے یہ انتباہ جاری کرنے کا حق ہے، روس اور اِس کے لیڈروں کو دشمنی ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے اگر وہ جانتے ہوں کہ اِن کا انخلاء یقینی بربادی کا باعث بنے گا۔

تنازعات کے پُر امن حل کے لئے اسلامی تعلیمات

حضور انور ایدہ الله نے فرمایا! جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ اسلامی تعلیمات تنازعات کے پُرامن حل کے لئے ہر ممکن کوشش کی متقاضی ہیں، اِ س لئےمَیں سمجھتا ہوں کہ رابطہ کے ذرائع کو کھلا رکھنا اور باہمی طور پر قابل قبول معاہدہ کی شرائط تلاش کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔اِس کے باوجود اگر جارح بدحالی اور تباہی پھیلانے پر تلا رہتا اور پیچھے ہٹنے سے انکار کرتا ہے تو اسلام یہ سکھاتا ہے کہ دوسری قوموں کو مل کر ظلم کے خاتمہ کے لئے متناسب اور ضروری طاقت کا استعمال کرنا چاہئے۔مداخلت کرنے والے فریقین کا مقصد ہمیشہ بجائے جارح سے بدلہ لینے یا تذلیل کے قیام امن رہنا چاہئے۔

سچ یہ ہے کہ جنگ اکثر جنگ کو ہی جنم دیتی ہے

اِسی طرح یوکرین جنگ کا ایک انتہائی خطرناک نتیجہ مخالف سیاسی بلاکس اور اتحادوں کی مضبوطی کی صورت میں نکلا ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں استعمال ہونے والی بیان بازی ہر طرف سے دشمنی کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جنگ اکثر جنگ کو ہی جنم دیتی ہے، ایسے حقیقی خدشات ہیں کہ یوکرین کا تنازعہ مزید پھیل سکتا ہے یا یہ کہ دیگر ممالک اپنے تنازعات کو حل کرنے کے لئے سفارتی کوششوں کو ترک کرکے طاقت کا سہارا لینے کے لئے ترغیب پکڑیں گے۔

یورپ کا ایک بڑا حصہ تابکار قبرستان میں تبدیل ہو جائے گا

حضورانور ایدہ الله نے صحافی پیٹر ہچنز کےایک مضمون کا بھی حوالہ دیا جس میں اُس نےمتعدد مغربی ممالک کی جانب سے اپنے ٹینک یوکرین بجھوانے کے فیصلہ کی بابت لکھا کہ اگر یوکرین کو فراہم کئے جانے والے ٹینک روسی سرزمین میں داخل ہو جائیں تو جو کچھ رونما ہو گا اِس پر حیران نہیں ہونا چاہئے نیز اِس بات کا حقیقی امکان موجود ہے کہ یورپ کا ایک بڑا حصہ تابکار قبرستان میں تبدیل ہو جائے۔

کئی سالوں سے مَیں ایک عالمی جنگ کے خطرہ سے خبردار کر رہا ہوں تیزی سے ماہرین تعلیم، سیاسی ماہرین اور قابل احترام تجزیہ کار بھی خبردار کر رہے ہیں کہ ہم تاریخ انسانی کے ایک سنگین دَور کے قریب پہنچ رہے ہیں۔روسی ریاست کی طرف سے جتنے بھی جرائم کئے جا رہے ہیں، ہمیں اِس وسیع تصویر کو ذہن میں رکھنا چاہئےکہ اگر جنگ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ ممکنہ تباہ کن نتائج کے ساتھ ایک بڑے عالمی بحران کا باعث بنے گی، اِس لئے عالمی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ نیک نیتی پر مبنی مذاکرات امن کےذریعہ اِس جنگ کو ختم کریں، بصورت دیگر مجھے خدشہ ہے کہ یہ جنگ یورپ سے نکل کر مشرقی دنیا ایشیاء تک پھیل جائے گی اور کون جانتا ہے کہ پھر کہاں جا کر رکے۔عالمی ایٹمی جنگ کے وسیع پیمانہ پر ناقابل تصور، ہولناک اور تباہ کن اثرات کے بارہ میں متنبہ کرنے کے بعد خطاب کے آخر پر حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو عقل اور تمام بنی نوع انسان کو اُن اصولی مقاصد کے عملی اظہار کی توفیق عطا فرمائے جو اِس دنیا کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے اور اپنی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی صورت میں چاہتا ہے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

Cheneso طوفان سے متأثرہ افراد کی مدد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2023