• 28 اپریل, 2024

زلزلہ کی پیشگوئی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کا یقین

بی بی سی ذرائع کے مطابق 7؍ فروری 2023ء پیر کی صبح شام کی سرحد کے قریب ترکی کے جنوب مشرقی علاقے اور وسطی ترکی میں ایک طاقتور اور مہلک زلزلہ آیا۔ یہ گازیانٹیپ شہر سے 34 کلومیٹر (21 میل) مغرب میں 04:17 پر پیش آیا، جس سے ترکی اور شام میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ اطلاعات کے مطابق ترکی کے علاوہ شام میں حلب، لاذقیہ، حما اور طرطوس کے صوبوں کے ساتھ ساتھ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور اور زخمی ہوئے۔ذرائع ابلاغ سے حاصل معلومات کے مطابق زخمیوں کو ملبے کے ڈھیر سے نکالنے اور طبی امداد دینے کے لئے دنیا کی مختلف ممالک کی رفاہی تنظیمین ترکی اور شام کا ہاتھ بٹانے میں مصروف ہیں۔

حالیہ زلزلے کی خبروں کے بعد سے سوشل میڈیا پر مختلف فورمز کی طرف سے یہ تشہیر کی جا رہی ہے کہ یہ زلزلہ MAN MADE ہے اور اس کے لئے مختلف تھیوریز کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اس کی حقیقت تو آنے والے دنوں میں جلد معلوم ہو جائے گی تاہم یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس صدی کے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہدی آخر الزمان اور مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان دونوں کو آپ کی سچائی کے لئے گواہ بنادیا۔ یعنی آسمان میں کسوف خسوف کا عظیم نشان اور زمین پر زلزلوں کا پر ہیبت ناک ظہور۔چنانچہ آپ نے متعدد مواقع پر زلزلوں کے حوالہ سے خبر دی کہ زلزلے آئیں گے،کئی بار آئیں گے۔ موسم بہار میں آئیں گے۔صبح کے وقت آئیں گے۔ برف باری اوربارش بھی ساتھ لائیں گے۔

پہلا موسم بہار میں آیا دوسرازلزلہ اس کے بعد پھر بہار میں ہی آئے گا

آپ نے رسالہ الوصیت میں خدا سے خبر پاکر یہ اعلان فرمایا
’’دیکھو! مَیں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ خدا کے نشان ابھی ختم نہیں ہوئے اُس پہلے زلزلہ کے نشان کے بعد جو 4؍اپریل 1905ء میں ظہور میں آیا جس کی ایک مدت پہلے خبر دی گئی تھی پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والا ہے وہ بہار کے دن ہوں گے نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہوگا جب کہ درختوں میں پتہ نکلتا ہے یا درمیان اُس کا یا اخیر کے دن۔ جیسا کہ الفاظ وحی الٰہی یہ ہیں۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں تھا اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتّہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اِسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 314)

صبح کے وقت آئے گا

پھر خدا سے خبر پاکرزلزلے کا وقت اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
’’غالباً وہ صبح کا وقت ہو گا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جب کہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ 258)

مزید کئی زلزلے آئیں گے

پھر مزید زلزلوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا:
’’انچاسواں نشان یہ ہے کہ میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدر میں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے جو بعض حصہ پنجاب میں ایک سخت تبا ہی کا موجب ہوگا اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے: زلزلہ کا دھکا۔ عفت الدیار محلہاو مقامہا چنانچہ وہ پیشگوئی 4؍ اپریل 1905ء کو پوری ہوئی۔ 50۔ پچاسواں نشان یہ ہے کہ میں نے پھر ایک پیشگوئی کی تھی کہ اس زلزلہ کے بعد بہار کے دنوں میں پھر ایک اور زلزلہ آئے گا۔ اس الہامی پیشگوئی کی ایک عبارت یہ تھی۔ ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔‘‘ چنانچہ 28؍فروری 1906ء کو وہ زلزلہ آیا اور کوہستانی جگہوں میں بہت سا نقصان جانوں اور مالوں کے تلف ہونے سے ہوا۔ 51۔ اکاونواں نشان یہ ہے کہ پھر میں نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ کچھ مدت تک زلزلے متواتر آتے رہیں گے۔ ان میں سے چار زلزلے بڑے ہوں گے اور پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا چنانچہ زلزلے اب تک آتے ہیں اور ایسے دو مہینے کم گذرتے ہیں جن میں کوئی زلزلہ نہیں آجاتا اور یقیناًیاد رکھنا چاہئے کہ بعد اس کے سخت زلزلے آنے والے ہیں خاص کر پانچواں زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہوگا اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ سب تیری سچائی کے لئے نشان ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 231)

برف، بارش، سردی، بہار اور زلزلہ

پھر زلزلے کے ساتھ ساتھ برف بارش وغیرہ کے حوالہ سے خدا سے خبر پاکراعلان فرمایا ’’الہام 5؍مئی 1906ء پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔ ثلج کا لفظ عربی ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ برف جو آسمان سے پڑتی ہے اور شدّت سردی کا موجب ہو جاتی ہے اور بارش اُس کے لوازم میں سے ہوتی ہے اس کو عربی میں ثلج کہتے ہیں ان معنوں کی بنا پر اِس پیشگوئی کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ بہار کے دنوں میں ہمارے ملک میں خدا تعالیٰ غیر معمولی طور پر یہ آفتیں نازل کرے گا اور برف اور اس کے لوازم سے شدّت سردی اور کثرت بارش ظہور میں آئے گی (یعنی کسی حصہ دنیا میں جو برف پڑے گی وہ شدّت سردی کا موجب ہو جائے گی)۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 471)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زلزلوں کے حوالہ سے پیشگوئیاں اتنی روشن اور اتنی جلالی تھیں کہ مبائعین تو درکنار آپ کے اول المخالف یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے روحانی فرزند جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری تک معترف نظر آتے ہیں۔ مولانا امرتسری صاحب کا تو یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے کئی سال بعد تک بہار کا موسم آتے ہی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زلزلوں کے حوالہ سے الہام ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘ پوری شدت سے یاد آنے لگ جاتا۔ چنانچہ گزشتہ دنوں اہل حدیث کے چند پرانے پرچوں کی ورق گردانی میں یہ تاثر اور بھی گہرا ہو گیا آخرکہ مولوی ثناءاللہ امرتسری صاحب کیوں بار بار مباہلہ سے فرار کرتے رہے کیونکہ ان کے منہ پر جو بھی تھا دل بہرحال یہ یقین رکھتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب خدا کے برگزیدہ و چنیدہ ہیں۔ اور وہ ہر بہار کے موسم سے ڈرتے تھے اس الہام کی وجہ سے بہار کے موسم میں خاس طور پر کوئی نہ کوئی حادثہ عظیمہ ہو گا چنانچہ 7؍جنوری 1921ء کی اخبار میرے سامنے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فوت ہونے کے 13 سال بعد جب موسم بہار آنے ولا تھا آپ نے اپنی اخبار کے صفحہ نمبر 11 کالم نمبر 2 پر موٹا عنوان لگا یا ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘ اور اس عنوان کے نیچے لکھا کہ ’’یہ ایک فقرہ ہے جناب مرزا صاحب کے الہام کا۔ جس کے اصل معنی تو آج مرزا صاحب زندہ ہوتے تو غالباً وہ اپنے الہام کی صداقت بتاتے کیونکہ اب خبریں آنے لگی ہیں کہ بالشویکوں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آئیندہ موسم بہار میں افغانستان سے گزر کر ہندوستان پر حملہ کر دیا جائے۔‘‘

پھر یکم اپریل 1921ء کو ایک بار پھر آپ نے ص11 پر موٹا عنوان جمایا ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘ اور اس کے تحت صفحہ 11 کادو تہائی حصہ اس الہام کی تصدیق یا صداقت پر رقم کر دیا۔ آپ نے شروع اس بات سے کیا کہ ’’یہ مرزا صاحب قادیانی کا ایک الہام ہے اس کے معنی تو وہی جانیں یا ان کے مریدین۔ہماری غرض یہاں اس کو عنوان بنانے سے یہ ہے کہ بہار کا موسم ہمیشہ قدرتی تغیرات لاتا ہے۔ شاید۔ ۔متاثر ہو کر عرصہ سے یہ پیش گوئی اُڑ رہی ہے جس سے دنیا پریشان ہے کہ موسم بہار میں ہندوستان پر حملہ ہو گا۔‘‘

زلازل کاجائزہ
بیان فرمودہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف لوگوں کی اس زمانے میں آفاتِ سماوی و ارضی کو خدا کی تنبیہ قرار دینے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’مسیح و مہدی کا ظہور تو ہو چکاہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو ماننے کا حکم بھی ہے دعویٰ کرنے والا بھی موجود ہے۔ خداتعالیٰ نے زمینی اور آسمانی نشان بھی ظاہر فرما دئیے ہیں۔ اب بھی اگرآنکھیں بند رکھنی ہیں تو پھر اللہ ہی لوگوں کوسمجھائے گا۔ اور خود جو عالم بنے ہوئے ہیں، قوم کو تویہ سمجھارہے ہیں، ان کو خود بھی تو سمجھناچاہئے۔ قرآن کریم نے جو پیشگوئیاں فرمائیں وہ پوری ہو گئیں پھر چاند اور سورج نے بھی گواہی دے دی۔ تو اب اور مزید انتظار کے لئے رہ کیا گیا ہے۔ اور پھر یہیں تک نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ 1905ء سے یہ نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں۔ 1905ء میں کانگڑہ میں (ہندوستان میں ایک جگہ ہے) وہاں بڑا زبردست زلزلہ آیا تھا۔ قادیان تک بھی اس کا اثر آیا تھا۔ تو یہ جو نشانات ظاہر ہو رہے ہیں یہ مسلمانوں کے لئے بھی وارننگ ہے اور غیر مسلموں کے لئے بھی وارننگ ہے۔ سیلابوں کے ذریعہ سے، سمندری طوفانوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بار بار توجہ دلا رہا ہے۔

اس بارہ میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے مطابق دنیا میں گزشتہ گیارہ سو سال میں جو بڑے بڑے زلزلے آئے ہیں، ان کی تعداد گیارہ ہے۔ اور گزشتہ سو سال میں جو زلزلے آئے ہیں، بشمول 1905ء کا کانگڑہ کا زلزلہ (جوان اعداد میں شامل نہیں کیا گیا) لیکن مَیں نے اس کو شامل کیا ہے انکی تعداد13بنتی ہے۔ یہ وہ زلزلے ہیں جن میں 50ہزار یا اس سے زائد اموات ہوئیں۔ کانگڑہ کے زلزلے کو شامل نہیں کرتے کیونکہ وہ انکے لحاظ سے 20-25 ہزار ہیں۔ لیکن بعض پرانے اخباروں نے اس وقت 50-60 ہزار بھی لکھا تھا۔ بہرحال جو بھی اعداد تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھا اس لئے مَیں نے اس کو شامل کیا ہے۔ کیونکہ بعض اخباروں نے اس وقت 50-60 ہزار تعداد لکھی تھی۔

مَیں نے ایک او ر زاویے سے بھی دیکھا ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہی ہے اور اب جو نئی صدی میں داخل ہوئے ہیں یہ بھی بڑے دعووں سے داخل ہوئے ہیں۔ دنیاوی ترقی کی ہی باتیں ہیں، خدا کی طرف رجوع کرنے کی باتیں نہیں ہیں۔ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے اور پچھلی صدی کو جو الوداع کہا گیا ہے وہ امیر ملکوں نے بڑے شور شرابے سے ہا ہو کرکے اس کو الوداع کیا۔ بے تحاشا رقمیں خرچ کیں، کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ غریب ملکوں کو کسی طرح پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔ بڑی بڑی نشانیاں بتا دیں کروڑوں روپے خرچ کر لئے، پاؤنڈز خرچ کر لئے۔ کروڑوں کیا بعض جگہ تو اربوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا نئی صدی کا استقبال بھی اس طرح ہوا کہ خداتعالیٰ کا خانہ بالکل خالی ہے۔ اور جوانسانی ہاتھوں سے دنیا میں بے چینی اور تباہی گزشتہ سالوں میں آئی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ ایک جگہ کوائف ملے تھے پچھلے سو سال میں، تقریباً 33ممالک میں مختلف تباہیوں میں 9کروڑ 50لاکھ آدمی موت کے شکار ہوئے۔ 1900ء سے لے کر 2000ء تک۔

تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ گزشتہ صدی کوبھی انہوں نے نہیں سمجھا۔ ساڑھے 9کروڑ اموات کی کوئی قدر ان کے نزدیک نہیں تھی، ان کو کسی نے نہیں دیکھا۔ پھر بھی ان کے لئے امن پیدا کرنے کی کوشش، اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی کوشش نہیں کی اور اگلی صدی کے استقبال میں بھی وہ خانہ بالکل خالی رکھا۔ تو یہ جو زلزلے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑا ہے۔ قوموں کو جھنجھوڑا ہے، دنیا کو جھنجھوڑا ہے کہ ابھی بھی باز آ جاؤ۔

مَیں نے ایک جائزہ لیا تھا کہ اس نئی صدی میں جب ہم داخل ہوئے ہیں تو کیا صورت حال ہوئی ہے۔ تو جنوری 2001ء میں یعنی پہلے سال میں ہی انڈیا میں ایک بڑا زلزلہ آیا۔ تقریباً 7.9 ریکٹر (Rechter) سکیل پر اس کا میگنی چیوڈ (Magnitude) تھا اور اس میں تقریباً 20ہزار سے زائدآدمی مرے۔ پھر 2003ء میں ایران کازلزلہ آیا۔ پھرسونامی آیا جس میں کہتے ہیں 2لاکھ 83ہزار موتیں ہوئیں۔ پھر پاکستان میں آیا(ساری مَیں نہیں گن رہا) تو یہ پانچ بڑی بڑی تباہیاں نئی صدی کے پہلے پانچ سالوں میں آئی ہیں اور اندازہ ہے، مَیں جائزہ لے رہاہوں کہ احمدیت کے سو سال پورے ہونے کے بعد 1989ء کے بعد بھی ان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر انسان سوچے تو یہ جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ یہ لوگوں کو، قوموں کو یاد دلانے کے لئے ہے کہ خدا کو پہچانو، آنے والے کی آواز پر کان دھرو۔ان گزشتہ 10-8سالوں میں یا ہم کہہ سکتے ہیں احمدیت کے 100سال پورے ہونے کے بعد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز تقریباً ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔ پھر مَیں نے ایک جائزہ لیا تھا کہ احمدیت کے 100سال 1989ء میں جو پورے ہوئے، پورے کوائف تو نہیں ملے، مثلاً انڈیا کے ملے تھے۔ صرف انڈیا میں 1990ء سے لے کر اب تک 6بڑے زلزلے آئے ہیں جبکہ اس سے پہلے 1897ء سے لے کر 1988ء تک یہ تقریباً 91سال بنتے ہیں، 12 زلزلے آئے تھے۔ اور دنیا کے دوسرے ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ اب یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا یہ اتفاقات ہیں یا تقدیر الٰہی ہے؟ یا لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لئے تنبیہ ہے؟۔ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اسی طرح آپؐ کا مسیح بھی تمام دنیا کے لئے آیا ہے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اس لئے یہ طوفان، یہ زلزلے، یہ سیلاب، صرف ایک علاقے کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر قوم کو، ہر ملک کو یہ وارننگ دی جا رہی ہے تو اس لحاظ سے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ ان آفات سے نجات کا اب صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا کو پہچانواور ظلم اور ناانصافیوں کو ختم کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ جنوری 2006ء)

(ذوالکفل اصغر بھٹی)

پچھلا پڑھیں

فقہی کارنر (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ