وقف جدید کی تحریک جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاری کردہ تحریک ہے جس کو 1957ءمیںحضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمایا تھا آغاز میں صرف پاکستان کے احمدیوں کے لئے یہ تحریک تھی۔ پاکستان سے باہر کے احمدیوںمیں سے اگر کوئی اپنی مرضی سے اس میں حصہ لینا چاہتا تھا تو لے لیتا تھا۔ خاص طور پر اس بارے میں تحریک نہیں کی جاتی تھی کہ وقف جدید کا چندہ دیا جائے۔ اُس وقت جب یہ جاری کی گئی تو حضرت مصلح موعودؓ کی نظر میں پاکستان کی جماعتوں کے لئے دو خاص مقاصد تھے۔ آپؓ نے جب وقف جدید کی انجمن بنائی تو اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ممبر مقرر فرمایا اور آپ کو جوہدایات دیں وہ خاص طور دوباتوں پر زور دینے کے لئے تھیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کی دیہاتی جماعتوں کی تربیت کی طرف توجہ دی جائے جس میں کافی کمزوری ہے اور دوسرے ہندوؤںمیں تبلیغ اسلام کا کام ۔ خاص طور پر سندھ کے علاقہ میں بہت بڑی تعداد ہندوؤں کی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کو بڑی فکر تھی کہ دیہاتی جماعتوں میں تربیت کی بہت کمی ہے۔ خاص طور پر بچوں میں اور اکثریت جماعت کے افراد کی دیہاتوں میں رہنے والی ہے اور اگر ان کی تربیت میں کمی ہو گی تو پھر آئندہ بہت ساری خرابیاں پیدا ہو جائیں گی۔
تحریک وقف جدید کی اہمیت
جیسا کہ بتایا گیا ہے وقف جدید کی تحریک حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع فرمائی تھی اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’مَیں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فرد جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندے میں حصہ نہ لے۔‘‘
( الفضل 17 فروری 1960ء)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ
’’مجھے امید ہے کہ یہ تحریک جس قدر مضبوط ہو گی اسی قدرخدا تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے چندوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ ‘‘
(الفضل 5جنوری 1962ء)
احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں
سیدناحضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں۔
وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے مَیں یہ کہتاہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑ ھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے ۔اور سوائے استثناء کے الا ماشاء اللہ ،جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہوان کے بچے بھی عموماًقربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں۔ حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا اور اس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں ۔ اگرباقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہو گا۔ اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہو گا ۔ انشاء اللہ ۔اگر مائیں او ر ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں(جو موجودہ تعداد ہے)آسانی سے دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے بغیر کسی دقت کے۔ اور یہ تعداد آسانی سے 10لاکھ تک پہنچائی جا سکتی ہے۔کیونکہ موجودہ تعداد 4لاکھ کے قریب ہے جیسا کہ مَیں آگے بیان کروں گا۔
عورتیں یاد رکھیں کہ جس طرح مرد کی کمائی سے عورت جو صدقہ دیتی ہے اس میں مرد کو بھی ثواب میں حصہ مل جاتا ہے تو آپ کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے اور ان کا اجر دیتا ہے ۔ اور جب بچوں کو عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ مستقل چندہ دینے والے بچے ہوں گے اور زندگی کے بعد بھی یہ چندہ دینے کی عادت قائم رہے گی تو یہ ماں باپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہوگا ۔ جیسا کہ مَیں نے کہاتھا کہ آنحضرت ﷺ کی نصائح پر عمل کرنے کے نمونے ، قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نمونے ، ہمیں آخرین کی اس جماعت میں بھی ملتے ہیں ۔ جو حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ7جنوری 2005،مسجدبشارت سپین،خطبات وقف جدید ص 584)
باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپرد وقف جدید کرے
وقف جدید کو جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پاکستان میں بچوں کے سپرد کیا تھا ۔ مَیں بھی شاید پہلے کہہ چکا ہوں ،نہیں تو اب یہ اعلان کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپرد وقف جدید کی تحریک کرے اور اس کی ان کو عادت ڈالے تو بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ بہت بڑے خرچ پورے کر لے گی اور یہ کوئی بوجھ نہیں ہو گا۔ جب آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے بچت کرنے کی ان کو عادت ڈالیں گے اسی طرح بڑے بھی کریں اور اگر یہ ہو جائے تو ہندوستان کے اخراجات اور کچھ حد تک افریقہ کے اخراجات بھی پورے کئے جا سکتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 12جنوری 2007ء بیت الفتوح لندن،خطبات وقف جدید،ص616)
احمدی نوجوانوں کی اللہ کی راہ میں قربانی
اس زمانے میں مادیت پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی کا تو براہ راست اثر آپ کے صحابہ پر پڑتا تھا۔ آج زمانہ اتنا دُور ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے وعدے کئے ہیں اس کے نظارے ہمیں دکھارہا ہے۔ کئی احمدی نوجوان ایسے ہیں جو اپنی خواہشات کو مارتے ہوئے اپنی جمع پونجی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔
گزشتہ سال کی بات ہے پاکستان کی جماعتوں کے لئے جو ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا سال کے آخر میں اس کاپورا ہونے کا وقت آیا تو اس بارے میں مجھے صدر لجنہ لاہور نے ایک رپورٹ دی۔انہوں نے بھی اپنی لجنہ کو تحریک کی تو اس وقت ایک بچی نے اپنی جہیز کی رقم میں سے بہت بڑی رقم ادا کر دی اور پرواہ نہیں کی کہ جہیز اچھا بنتا ہے کہ نہیں بنتا یا بنتا بھی ہے کہ نہیں۔ اور وہ بچی اس جلسے پہ قادیان بھی آئی تھی اور مجھے ملی۔ تو ایسے لوگ اس زمانے میں بھی ہیں جو اپنے مال اور نفس کا جہاد خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بچی کی بھی شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے،بابرکت فرمائے اور اس قربانی کے بدلے میں اسے اتنا دے کہ اس سے سنبھالا نہ جائے اور پھر اس میں برکت کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی طرف راغب ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے بے شمار قربانیاں کرنے والے جماعت کو دیتا چلا جائے اور وہ فرشتوں کی دعاؤں کے بھی وارث ہوں کہ اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس جیسے اور پیدا کرتا چلا جائے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ6جنوری2006ء قادیان دارالامان)