• 30 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کےروزنامہ الفضل پڑھنے اور خریداری بڑھانے کے لئے پُرمغز وقابل تقلید ارشادات

جس درخت کو پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہوجاتا ہےاس زمانہ کے لحاظ سے اخبار قوم کے لئے پانی کا رنگ رکھتے ہیں

حضورؓ نے جلسہ سالانہ 1941ء پر 27 دسمبر کو خطاب میں فرمایا:۔
’’اپنے مضمون کو شروع کرنے سے قبل میں حسب سابق تمام دوستوں کو پھر ایک بار بلکہ شاید بیسویں بار بلکہ اس سے بھی زیادہ بار توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ کے اخبارات اور رسائل کی اشاعت بڑھانا ان کا اہم فرض ہونا چاہئے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس درخت کو پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہوجاتا ہے اور اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اخبار پانی کا رنگ رکھتے ہیں اور اس لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ بات میں کئی بار کہہ چکا ہوں مگر افسوس ہے کہ دوست توجہ نہیں کرتے بلکہ بعض تو نادانی سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اخباروں میں وہی باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں حالانکہ جو بات مفید ہو اسے دہرانا ضروری ہوتا ہے۔
اگر دہرانا ایسا ہی برا ہے تو ایسے لوگ روٹی کھانے اور پانی پینے کے فعل کو کیوں دہراتے ہیں۔ جس طرح انسان کا جسم تحلیل ہوتا رہتا ہے اور اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان پھر روٹی کھائے اور پانی پیئے۔ اسی طرح دماغی تحلیل بھی ہوتی رہتی ہے اور اس لئے پھر ان باتوں کا دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ان کو دہرایا نہ جائے تو اثر قائم نہیں رہ سکتا۔ پس دہرانا بری بات نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اذان دن میں پانچ بار دہرائی جاتی ہے۔ یہ اخبار کا ذکر تو کوئی دہراتا ہو تو مہینہ یا سال کے بعد دہرائے گا مگر اذان تو دن میں پانچ بار دہرائی جانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے۔ پھر نماز دن میں پانچ بار دہرانے کا حکم ہے۔ وہی بسم اللہ … وہی اعوذ باللہ … ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے، وہی سورۃ فاتحہ ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، وہی ہر نماز اور ہر رکعت میں سینے پر ہاتھ رکھے جاتے ہیں، وہی سجدہ اور وہی رکوع دہرایا جاتا ہے۔ نماز بالکل اسی طرح دن میں پانچ بار دہرائی جاتی ہے جس طرح رسول کریم ﷺ سے لے کر اب تک چلی آتی ہے۔ رسول کریم ﷺ سے لے کر اب تک ہمارے باپ دادا، ان کے باپ دادا اور پھر ان کے باپ دادا بالکل اسی طرح دہراتے چلے آئے ہیں اور اگر دہرانا عیب ہے تو اسے کیوں دہرایا جاتا ہے اور وہی نماز جو کل پڑھی تھی۔ آج دہرائی جاتی ہے۔ وہی روٹی کھانے اور پانی پینے کا عمل ہر روز دہرایا جاتا ہے۔ وہی دن جو کل چڑھا تھا آج پھر چڑھا ہے اور وہی رات ہر روز آتی ہے اور کبھی کوئی نہیں کہتا کہ دن دوبارہ نہ چڑھے اور رات دوبارہ نہ آئے۔ کیونکہ کل بھی دن تھا اوررات تھی۔ اس لئے آج دن ہو اور نہ رات۔ ذرا غور کرو کہ اگر انسان کی نیند اڑ جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ میرا اپنا گزشتہ شب کا تجربہ ہے کہ مجھے نیند نہ آتی تھی اور صبح تقریر کرنی تھی۔ میں نے ڈرام یا نصف ڈرام برومائیڈ پی لی۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ اتنی خوراک درست بھی ہے یا زہریلی ہوجاتی ہے۔ مگر چونکہ نیند نہ آرہی تھی میں نے پی لی۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر رات کو نیند نہ آئی تو صبح نہ کوئی کام کرسکوں گا اور نہ تقریر کرسکوں گا تو کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ میں کل بھی سویا رہا ہوں آج نہ سوؤں۔ بلکہ شدید خواہش رکھتا ہے کہ وہی نیند جو کل آئی تھی اور جو روز آتی ہے ہر روز آتی رہے۔ پس کسی بات کا دہرایا جانا قابل اعتراض بات نہیں بلکہ مفید چیزوں کا دہرایا جانا ضروری اور مفید ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق آتا ہے کہ کلما رزقوا منھا … جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں وہی رزق دہرائے جائیں گے۔

پس محض دہرانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہر روز کئی باتیں دہرائی جاتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ وہ دہرائی جائیں۔ ان کا نہ دہرایا جانا اسے کبھی پسند نہیں ہوتا۔ پس یہ کہنا غلطی ہے کہ یہی بات ہمیشہ دہرائی جاتی ہے۔ جماعت کے دوستوں کو اس طرف ضرور توجہ کرنی چاہئے کہ سلسلہ کے اخبارات کو خریدیں انہیں پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ میں تو جہاں تک ہوسکے پڑھتا ہوں اور بسا اوقات فائدہ بھی اٹھاتا ہوں۔ میں نے تو کبھی کوئی ایسا مضمون نہیں پڑھا جو دوبارہ شائع ہوا ہو لیکن اگر کوئی مضمون دوبارہ بھی شائع ہوا ہو تو بہرحال اس کا اسلوب اور طرز بیان جدا ہوتا ہے اور اس چیز سے بھی فائدہ ہوتا ہے بعض عام باتیں بھی بہت بڑے فائدہ کا موجب ہوتی ہیں۔ کل ہی میرا علمی مضمون ہے اور اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ان میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو عام ہیں اور روز مرہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے میں انہیں بیان کرسکوں یا نہ اور کس حد تک بیان کرسکوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ایسی ہی مثال ہوگی جیسے معمولی معمولی چیزوں سے ایک عجوبہ تیار کرلیا جائے جس رنگ میں یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا ہے وہ بالکل نرالا ہے اور اگر اسے سننے کے بعد کوئی کہے کہ یہ تو وہی باتیں ہیں جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں تو گو اس کی یہ بات صحیح تو ہوگی لیکن اگر وہ ان کی ترتیب کو دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس رنگ کی ہے کہ یہ مضمون کسی کے ذہن میں پہلے نہیں آیا اور وہ محسوس کرے گا کہ یہ قرآن کریم کا بڑا کمال ہے کہ اس کے اندر سے نئے نئے علوم نکلتے رہتے ہیں۔ میں قرآن کریم پر بہت غور کرنے والا آدمی ہوں اور اس مضمون کی ترتیب کو دیکھ کر میں خود حیران ہوں کہ جو آیات روزانہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں ان میں سے بعض ایسے نئے مضامین پیدا ہوئے ہیں کہ مجھے خود حیرت ہوتی ہے اس لئے یہ عذر کہ وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں بالکل غلط ہے۔

پس دوستوں کو اخبارات کی اشاعت کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرنی چاہئے۔ ہماری جماعت اتنی ہی نہیں جتنی یہاں موجود ہے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بہت زیادہ ہے۔ کسی زمانہ میں ساری جماعت عورتیں اور بچے ملا کر بھی اتنی ہی ہوگی جتنی اب یہاں موجود ہے مگر اس وقت سلسلہ کے اخبارات کی اشاعت ڈیڑھ دو ہزار ہوتی تھی۔ مگر اب الفضل کے خریدار صرف بارہ سو ہیں حالانکہ اگر کچھ نہیں تو پانچ چھ ہزار اس وقت ہونے چاہئیں۔ لوگ غیر ضروری باتوں پر روپے خرچ کردیتے ہیں۔ امراء کے گھروں میں بیسیوں چیزیں ایسی رکھی رہتی ہیں جو کسی کام نہیں آتیں۔ مگر لوگ ان پر اس لئے روپے خرچ کرتے ہیں کہ کبھی کسی مہمان کے آنے پر اس کے سامنے لائی جائے تو وہ دیکھ کر کہے کہ اچھا خان صاحب آپ کے پاس یہ چیز بھی موجود ہے۔ بس اتنی سی بات سن کر ان کا دل خوش ہوجاتا ہے اور وہ پچاس روپیہ کی رقم جو اس پر خرچ کی ہوتی ہے گویا اس طرح وصول ہوجاتی ہے۔ تو ایسی غیر ضروری چیزوں پر تو لوگ روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی باتوں پر نہیں کرتے۔ ان کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں حالانکہ اخبارات نہ صرف ان کے فائدہ کی چیز ہیں بلکہ ان کی اولادوں کے لئے بھی ضروری ہیں۔ میں تو یہاں تک کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک ہوسکے ایک کتاب کی کئی کئی جلدیں مہیا کرکے رکھوں۔ میرے دل پر یہ بوجھ رہتا ہے کہ میری اولاد خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ سب کے لئے کتب مہیا نہ ہوسکیں۔ میرے پاس بعض کتابوں کے تین تین چار چار نسخے ہیں۔ میں نے چند روز ہوئے ‘‘مُسلم’’ جو حدیث کی کتاب ہے منگوانے کو کہا۔ مولوی نورالحق صاحب دو مختلف قسم کی کتابیں لائے کہ ان میں سے کون سی منگوائی جائے؟ میں نے کہا دونوں منگوالیں بچوں کے کام آئیں گی۔ تو کتابوں کا رکھنا اولاد کے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔ ایک دن آئے گا کہ وہ دنیا میں نہ ہوں گے اس وقت ان کی اولادیں ان اخبارات کو پڑھیں گے اور اپنے ایمان کو تازہ کریں گی۔ بعد میں ان کے لئے ان کا حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

دیکھو آج پُرانے ’’الفضل‘‘ اور ریویو وغیرہ کے پرچے کس قدر مشکل سے ملتے ہیں۔ کئی دوستوں نے مجھ سے بھی شکایت کی ہے کہ پُرانے پرچے نہیں ملتے۔ پس آج دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان چیزوں کو خرید کر فائدہ اٹھانا چاہئے اور پھر اپنی اولادوں کے لئے ان کو محفوظ کر دینا چاہئے۔

سلسلہ کے اخبارات میں سے ’’الفضل‘‘ روزانہ ہے۔ جہاں کوئی فرد نہ خرید سکے وہاں کی جماعتیں مل کر اسے خریدیں۔ مجلس شوریٰ میں بھی اس سال یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جن جماعتوں کے افراد کی تعداد بیس یا اس سے زیادہ ہے وہ لازمی طور پر روزانہ الفضل خریدیں اور جس جماعت کے افراد کی تعداد بیس یا اس سے کم ہو وہ ’’الفضل‘‘ کا خطبہ نمبر یا ’’فاروق‘‘ خریدے … دوستوں کو چاہئے کہ کثرت سے ان اخبارات اور رسائل کو خریدیں اور انہیں خریدنا اور پڑھنا ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا زندگی کے لئے سانس لینا ضروری ہے۔ یا جیسے وہ روٹی کھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ دیکھو ایک زمانہ تھا جب آٹا دو روپیہ من بکتا تھا اس وقت بھی لوگ روٹی کھاتے تھے، پھر سولہ سیر ہوا پھر بھی کھاتے رہے، پھر دس سیر ہوا اس وقت بھی کھاتے رہے، پھر آٹھ سات بلکہ ساڑھے چھ سیر تک پہنچ گیا تو اس وقت بھی کھاتے رہے اور اب تو قیمتوں پر گورنمنٹ نے حد بندی لگادی ہے ورنہ اگر تین چار سیر بھی بھاؤ ہو جاتا تو بھی ضرور کھاتے اس لئے کہ اسے زندگی کا جُزو سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اخباروں اور رسائل کا خریدنا اور بھی ضروری سمجھا جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ ضرور احباب توجہ کریں گے اور اخبارات و رسائل کی خریداری کو ضروری سمجھیں گے۔ ‘‘

(الفضل، فاروق، نور، سن رائز، ریویو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25دسمبر 2019